اسٹیٹ لائف کی نجکاری کیوں قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی نے وجوہات طلب کرلیں
قائمہ کمیٹی کا اسٹیٹ لائف و دیگر منافع بخش اداروں کی نجکاری فہرست میں شمولیت پر وجوہات طلب کرلیں
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے نجکاری نے منافع بخش اداروں کی نجکاری پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسٹیٹ لائف کی نجکاری فہرست میں شمولیت کی وجوہات طلب کرلیں، نجکاری کمیشن نے بتایا کہ وزات خزانہ نے اسٹیٹ لائف کو نجکاری فہرست سے نکالنے کی مخالفت کی ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے نجکاری کا اجلاس اسلام آباد میں کمیٹی کے سربراہ رکن قومی اسمبلی مصطفی احمد کی زیر صدارت منعقد ہوا۔
بریفنگ میں کمیٹی کو بتایا گیا کہ اسٹیٹ لائف کارپوریشن کے منافع میں ایک سال کے دوران 55 فیصد کا اضافہ ہوا، جنوری تا جون 2021ء میں گزشتہ سال کے مقابلے میں منافع بڑھا، سال 2017ء میں اسٹیٹ لائف کا منافع 33 اعشاریہ 3 فیصد تھا اور سال 2018ء میں ادارے کا منافع 39 اعشاریہ 6 فیصد تھا، اسٹیٹ لائف نے 2019ء میں 41 اعشاریہ 7 فیصد جبکہ 2020ء میں 42 فیصد منافع حاصل کیا۔
اس موقع پر رکن کمیٹی فہیم خان نے سوال اٹھایا کہ ایک ادارہ اتنے بڑے منافع میں جا رہا ہے تو اس کی نجکاری کیوں ؟ ملک میں تین سے چار ادارے منافع کے باعث بچ چکے ہیں، انصاف کی بات کی جانی چاہیے، آنکھیں بند کر کے فیصلے نہیں ہونے چاہیئں۔
چیئرمین کمیٹی مصطفی احمد نے کہا کہ سال 2013ء سے اسٹیٹ لائف کو نجکاری کی لسٹ میں شامل کیا جارہا ہے، ایسی کمپنیوں کو لسٹ میں شامل کرنے کی تجویز کہاں سے آتی ہے؟
سیکریٹری کامرس نے بتایا کہ کمپنیاں ہوں یا ادارے، تجاویز ان کی ماتحت وزارت سے آتی ہیں، اسٹیٹ لائف کی نجکاری کے حوالے سے تجویز وزارت کامرس نے دی، اسٹیٹ لائف کو نجکاری بورڈ نے تجویز کے بعد لسٹ میں شامل کیا۔ جس پر کمیٹی کے چیئرمین نے ہدایت دی کہ وزارت کامرس سے اس معاملے کی تفصیلات منگوانے کے لیے کچھ لکھا جائے۔
اجلاس میں نجکاری کمیشن حکام نے بتایا کہ اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن ایک منافع بخش ادارہ ہے، اسٹیٹ لائف انشورنس 8 سال سے نجکاری پروگرام کی ایکٹو لسٹ میں شامل ہے۔
قائمہ کمیٹی نے منافع بخش سرکاری ادارے کی مجوزہ نجکاری پر تحفظات کا اظہار کر تے ہوئے نجکاری کی ایکٹیو لسٹ میں شمولیت کی وجوہات طلب کر لی ہیں۔ اراکین کمیٹی کا کہنا تھا کہ حکومت منافع بخش اداروں کے بجائے خسارے کا شکار اداروں کی نجکاری پر توجہ دے، ہمیں ابھی تک یہ نہیں بتایا گیا کہ اسٹیٹ لائف انشورنس کی نجکاری کا جواز کیا ہے؟
کمیٹی کی خاتون رکن عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ حکومت شائد آئی ایم ایف کے دباؤ میں ہے، اسٹیٹ لائف کی نجکاری کی اطلاعات سے کمپنی کا بزنس متاثر ہورہا ہے۔
اس موقع پر چیئرمین کمیٹی مصطفی احمد نے سوال اٹھایا کہ پی آئی اے، ریلوے اور اسٹیل مل جیسے ادارے ایکٹو لسٹ میں کیوں شامل نہیں ہیں؟ جبکہ انشورنس سیکٹر میں سرکاری کمپنی کا بزنس سب سے زیادہ ہے اور اسے ایکٹو لسٹ میں شامل کیا گیا ہے۔
اس موقع پر نجکاری کمیشن حکام نے بتایا کہ وزارت تجارت اور کابینہ کمیٹی برائے نجکاری کو فیصلے کا اختیار حال ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وزارت خزانہ نے اسٹیٹ لائف انشورنس کو نجکاری فہرست سے نکالنے کی مخالفت کی ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے نجکاری کا اجلاس اسلام آباد میں کمیٹی کے سربراہ رکن قومی اسمبلی مصطفی احمد کی زیر صدارت منعقد ہوا۔
بریفنگ میں کمیٹی کو بتایا گیا کہ اسٹیٹ لائف کارپوریشن کے منافع میں ایک سال کے دوران 55 فیصد کا اضافہ ہوا، جنوری تا جون 2021ء میں گزشتہ سال کے مقابلے میں منافع بڑھا، سال 2017ء میں اسٹیٹ لائف کا منافع 33 اعشاریہ 3 فیصد تھا اور سال 2018ء میں ادارے کا منافع 39 اعشاریہ 6 فیصد تھا، اسٹیٹ لائف نے 2019ء میں 41 اعشاریہ 7 فیصد جبکہ 2020ء میں 42 فیصد منافع حاصل کیا۔
اس موقع پر رکن کمیٹی فہیم خان نے سوال اٹھایا کہ ایک ادارہ اتنے بڑے منافع میں جا رہا ہے تو اس کی نجکاری کیوں ؟ ملک میں تین سے چار ادارے منافع کے باعث بچ چکے ہیں، انصاف کی بات کی جانی چاہیے، آنکھیں بند کر کے فیصلے نہیں ہونے چاہیئں۔
چیئرمین کمیٹی مصطفی احمد نے کہا کہ سال 2013ء سے اسٹیٹ لائف کو نجکاری کی لسٹ میں شامل کیا جارہا ہے، ایسی کمپنیوں کو لسٹ میں شامل کرنے کی تجویز کہاں سے آتی ہے؟
سیکریٹری کامرس نے بتایا کہ کمپنیاں ہوں یا ادارے، تجاویز ان کی ماتحت وزارت سے آتی ہیں، اسٹیٹ لائف کی نجکاری کے حوالے سے تجویز وزارت کامرس نے دی، اسٹیٹ لائف کو نجکاری بورڈ نے تجویز کے بعد لسٹ میں شامل کیا۔ جس پر کمیٹی کے چیئرمین نے ہدایت دی کہ وزارت کامرس سے اس معاملے کی تفصیلات منگوانے کے لیے کچھ لکھا جائے۔
اجلاس میں نجکاری کمیشن حکام نے بتایا کہ اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن ایک منافع بخش ادارہ ہے، اسٹیٹ لائف انشورنس 8 سال سے نجکاری پروگرام کی ایکٹو لسٹ میں شامل ہے۔
قائمہ کمیٹی نے منافع بخش سرکاری ادارے کی مجوزہ نجکاری پر تحفظات کا اظہار کر تے ہوئے نجکاری کی ایکٹیو لسٹ میں شمولیت کی وجوہات طلب کر لی ہیں۔ اراکین کمیٹی کا کہنا تھا کہ حکومت منافع بخش اداروں کے بجائے خسارے کا شکار اداروں کی نجکاری پر توجہ دے، ہمیں ابھی تک یہ نہیں بتایا گیا کہ اسٹیٹ لائف انشورنس کی نجکاری کا جواز کیا ہے؟
کمیٹی کی خاتون رکن عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ حکومت شائد آئی ایم ایف کے دباؤ میں ہے، اسٹیٹ لائف کی نجکاری کی اطلاعات سے کمپنی کا بزنس متاثر ہورہا ہے۔
اس موقع پر چیئرمین کمیٹی مصطفی احمد نے سوال اٹھایا کہ پی آئی اے، ریلوے اور اسٹیل مل جیسے ادارے ایکٹو لسٹ میں کیوں شامل نہیں ہیں؟ جبکہ انشورنس سیکٹر میں سرکاری کمپنی کا بزنس سب سے زیادہ ہے اور اسے ایکٹو لسٹ میں شامل کیا گیا ہے۔
اس موقع پر نجکاری کمیشن حکام نے بتایا کہ وزارت تجارت اور کابینہ کمیٹی برائے نجکاری کو فیصلے کا اختیار حال ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وزارت خزانہ نے اسٹیٹ لائف انشورنس کو نجکاری فہرست سے نکالنے کی مخالفت کی ہے۔