ملکی سیاسی نظام اور مستقبل کے چیلنجز
ایک باعمل سیاسی نظام اور مستقبل کے چیلنجز کو دیکھتے ہوئے ایک موثر قومی لائحہ عمل بھی ترتیب دینے کی ضرورت ہے
TOKYO/LONDON:
اس وقت ملک کو متعدد چیلنجزکا سامنا ہے ، افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد عالمی منظر نامہ بدل رہا ہے ، سیاسی شطرنج کی چالیں انتہائی عیاری سے چلی جارہی ہیں، امریکا ، بھارت کو مکمل سپورٹ کرکے خطے کی بڑی طاقت دیکھنا چاہتا ہے، سب آگاہ ہیں کہ افغانستان کی صورتحال کا براہ راست اثر پاکستان پر پڑتا ہے ، اس کے علاوہ ہمیں دنیا کو اس امر پر راضی کرنا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر خطے میں امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا، یعنی سفارتی محاذ پر ایک طویل جنگ لڑنا پڑے گی۔
ملکی معیشت کی حالت دگرگوں ہے، ملک میںبڑھتی ہوئی مہنگائی پر حکومت قابو پانے میں مکمل طور پر ناکام ہے۔پاکستان کے دشمن پوری قوت کے ساتھ سی پیک کے منصوبے کو ناکام بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں،دوسری جانب حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان سیاسی تناؤ کی کیفیت میں کسی صورت میں کمی نظر نہیں آرہی ہے۔
حالات کا تقاضا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں اپنے مابین جاری کشیدگی کو کم کریں اور مذاکرات کی میز پر اپنے اختلافات کو حل کرلیں۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر اسٹیبلشمنٹ بھی اپنا کردار ادا کرے۔ ملک کو درپیش دفاعی اور معاشی چیلنجز کے حل کے لیے بھی اتفاق رائے ہونا چاہیے اور اسے تمام اداروں کی حمایت بھی حاصل ہونی چاہیے۔
کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں اضافے سے عام آدمی کے اخراجات میں نمایاں اضافہ ہو چکا ہے، مگر آمدنی کے وسائل پہلے سے بھی کم ہیں۔ عام آدمی کم آمدنی اور زیادہ اخراجات کو کس طرح بیلنس کرے، حکومت کی معاشی ٹیم نے اس کا کوئی نسخہ نہیں بتایاہے۔ دوسری جانب عالمی مالیاتی ادارے کی معاشی ہدایات پر عمل کرنے سے نئی معاشی سختیاں عوام پر مسلط ہیں۔
بجلی، گیس اور تیل کی قیمتوں میں نمایاں اضافے منظور کر لیے گئے ہیں جو رواں مالی سال میں عموماً اور آیندہ مالی سال میں خصوصاً عوام کے لیے مالی اذیتوں کا موجب بنیں گے۔پاکستان کی معیشت کی کمزوری ہمیشہ سے ایک درد سر رہی ہے،پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک پاکستان کی معیشت ہچکولے کھاتی آئی ہے،کبھی کسی دور میں پاکستان کی معیشت قدرے بہتر کارکردگی کا مظا ہرہ کرتی ہے تو پاکستان کے جلد ہی ایک عظیم معاشی طاقت بننے کی نوید عوام کو سنا دی جاتی ہے لیکن پھر چند سال بعد ہی معیشت کو ایسا دھچکا لگتا ہے کہ پھر سے ساری ترقی پر پانی پھر جاتاہے۔
پاکستان کی معیشت کے ساتھ جو بنیادی مسئلہ رہا ہے وہ یہ کہ پاکستان اپنی برآمدات کو اس رفتار کے ساتھ اور اس تیزی کے ساتھ نہیں بڑھایا سکا ہے جس تیزی سے پاکستان کی درآمدات بڑھتی ہو ئی آ ئی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان ہر چند سال بعد فارن ایکسچینج کے حصول کے لیے آئی ایم ایف کے در پر ہوتا ہے۔
پاکستانی قوم عرصہ دراز سے اس چکی میں پستی آرہی ہے اور اب تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ دھکے ہی اس قوم کا مقدر بن چکے ہیں۔موجودہ حکومت بھی قرضے لے کر اپنے بعد آنے والی حکومت کے لیے قرضوں کے بوجھ میں مزید اضافہ چھوڑ کر جانے کی تیاری مکمل کر چکی ہے۔ موجودہ حکومت عوام سے کیے گئے وعدے بھلا کر ملکی مفاد کے بجائے عارضی بہتری لانے کی کوشش کر رہی ہے جس کا مستقبل میں ملک و قوم کو ناقابلِ تلافی نقصان اٹھانا پڑے گا۔
تین برس کے دوران معیشت میں اٹھان سوائے حکومتی بیانات کے کہیں بھی نظر نہیں آئی۔ حکومت کی توجہ عموماً معاشی بد حالی کی ذمے داری ماضی کی حکومتوں پر ڈالنے تک محدود رہی۔ ٹیکسٹائل کے شعبے میں پاکستان کو برآمدات بڑھانے کا ایک اچھا موقع اس دوران مل گیا مگر کپاس کی پیداوار کی سال بہ سال گرتی ہوئی پیداوار اور صنعت کے لیے درآمدی خام مال کے باعث اخراجات میں اضافے سے ٹیکسٹائل کے شعبے کے لیے بھی حوصلہ افزا ماحول پیدا نہ ہو سکا۔
یہی مسئلہ گندم اور چینی میں بھی درپیش تھا۔ گزشتہ برس تقریباً چار لاکھ ٹن گندم درآمد کی گئی جب کہ رواں سال کے لیے بھی درآمد کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ حکومت کو اس سال بھی چینی درآمد کرنا پڑے گی۔ زرعی اجناس کی درآمد واضح ثبوت ہے کہ ہمارا زرعی شعبہ اس قدر بے حال ہے کہ ملکی ضرورت بھی پوری کرنے سے قاصر ہے اور یہ سب گزشتہ تین برس کے دوران ہوا ہے۔
جنوری 2021 میں جاری ہونے والے کرپشن انڈیکس میں پاکستان کا 180 ممالک میں 124 واں نمبر تھا جو پچھلے سال کی نسبت چار درجے زیادہ تھا۔ عمومی رائے یہ پائی جاتی ہے کہ ملک میں احتساب کا نظام کرپشن کم کرنے کے بجائے اس کے بڑھاوے کا سبب بن رہا ہے، گو نیب نے اربوں روپے ریکور کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
اس کے باوجود کرپشن بڑھ رہی ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے مقابلے میں بھارت اور بنگلہ دیش میں کرپشن میں کمی واقع ہوئی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان سے چھ گنا زیادہ آبادی ہونے کے باوجود پورے بھارت سے صرف 400 افراد کے نام پنڈورا پیپرز میں آئے ہیںجب کہ ہمارے سات سو پاکستانیوں کے نام اس فہرست میں شامل ہیں ، جس میں تحریک انصاف کے رہنما اور وزراء بھی شامل ہیں ۔
سی پیک منصوبے کی تکمیل کے ساتھ پاکستان کے معیشت کا مستقبل جڑا ہوا ہے،اور شاید اسی لیے اس منصوبے کو مسلسل اندرون ملک اور بیرون ملک سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
سی پیک کے پہلے مرحلے کے تحت پاکستان میں توانائی اور انفرا اسٹرکچر کے منصوبے شروع کیے گئے ہیں۔پاکستان میں سڑکیں بنیں ،مو ٹر ویز بنے اور بجلی گھر بھی لگے۔ 2018 کے انتخابات کے بعد پاکستان میں حکومت تبدیل ہو ئی تو یہ افواہیں پھیلائی گئیں کہ منصوبہ رک گیا ہے کام بند ہو گیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اس منصوبے کو آگے بڑھانے میں دلچسپی نہیں رکھتی وغیرہ وغیرہ،لیکن بہر حال اس کے باوجود سی پیک کا منصوبہ چلتا رہا،منصوبے مکمل بھی ہوئے جن میں سے قابل ذکر ملتان سکھر موٹر وے اور بجلی کے منصوبے تھے۔
حال ہی میں سی پیک کے تحت لاہور مٹیاری ٹرانس میشن لائن مکمل کی گئی ہے،لیکن اس کے باوجود اس منصوبے کے حوالے سے قیاس آرائیوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوا۔اس بات میں کو ئی شک نہیں ہے کہ یہ منصوبہ پاکستان کی معیشت کے لیے نہ صرف نہایت ہی اہم ہے بلکہ حالیہ کچھ عرصے میں پاکستان میں موجود چینی ورکرز اور انجینئرز پر کئی حملے کیے گئے ہیں۔
اس نازک مرحلے پر سی پیک پر حملے اور بیرونی سازشیں غیر متوقع نہیں ہیں،خاص طور پر جب افغانستان میں طالبان کا قبضہ ہے ، پاکستان میں یکے بعد دیگر حملے بڑھتے چلے گئے۔ان حملوں کی ذمے داری ٹی ٹی پی کی جانب سے قبول کی گئی ۔سی پیک کے تحت پاکستان میں 62ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری ہونی ہے اور ریلوے کے منصوبے ایم ایل ون منصوبے جیسے پراجیکٹس یقینا پاکستان کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اس بات میں ہمیں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ سی پیک کی صورت میں پاکستان کو ترقی اور معاشی خود مختاری کا ایک نا در موقع ملا ہے اور ایسے موقعے قوموں کو با ر بار نہیں ملا کرتے ہیں۔اس منصوبے کی کامیاب تکمیل پاکستان کو دیرینہ معاشی مسائل سے نجات دلاسکتی ہے۔ہمیں بطور قوم کسی صورت بھی اس موقع کو ضایع نہیں کرنا چاہیے۔
سول ادارے اگر ایک عمدہ ڈلیوری سسٹم قائم کر لیتے ہیں، تو عوام کی زندگی آسان ہوتی جائے گی اور وہ اپنے قومی اور دفاعی امور کی بجاآوری میں مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔ آج کے عہد میں قومی معیشت غیرمعمولی اہمیت اختیار کر گئی ہے، اگر معیشت پھل پھول رہی ہو تو ملک کی سفارتی طاقت میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا اور مضبوط دفاع کے لیے مطلوبہ وسائل بھی میسر آتے رہیں گے۔ اِس وقت ایک ایسے اقتصادی نظام کے قیام پر سب سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے جو ہر شہری کو ایک باعزت زندگی فراہم کر سکے، امیروں اور غریبوں کے درمیان معاشرتی فاصلے کم کر سکے اور پاکستان کو ترقیاتی ملکوں میں باوقار مقام دلا سکے۔
یہی وقت ہے کہ نئے عالمی منظرنامے کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک کی سالمیت اور اتحاد کو درپیش خطرات کی وجہ سے حکومت اور حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ بامقصد مذاکرات پر سنجیدگی سے غور کریں۔ ظاہر ہے کہ یہ قدم حکومت کی طرف سے اٹھایا جانا چاہیے۔ ان مذاکرات میں ایک باعمل سیاسی نظام اور مستقبل کے چیلنجز کو دیکھتے ہوئے ایک موثر قومی لائحہ عمل بھی ترتیب دینے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ وہ کم از کم امید ہے جو پاکستان کے عوام اپنے سیاستدانوں سے رکھتے ہیں۔
اس وقت ملک کو متعدد چیلنجزکا سامنا ہے ، افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد عالمی منظر نامہ بدل رہا ہے ، سیاسی شطرنج کی چالیں انتہائی عیاری سے چلی جارہی ہیں، امریکا ، بھارت کو مکمل سپورٹ کرکے خطے کی بڑی طاقت دیکھنا چاہتا ہے، سب آگاہ ہیں کہ افغانستان کی صورتحال کا براہ راست اثر پاکستان پر پڑتا ہے ، اس کے علاوہ ہمیں دنیا کو اس امر پر راضی کرنا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر خطے میں امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا، یعنی سفارتی محاذ پر ایک طویل جنگ لڑنا پڑے گی۔
ملکی معیشت کی حالت دگرگوں ہے، ملک میںبڑھتی ہوئی مہنگائی پر حکومت قابو پانے میں مکمل طور پر ناکام ہے۔پاکستان کے دشمن پوری قوت کے ساتھ سی پیک کے منصوبے کو ناکام بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں،دوسری جانب حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان سیاسی تناؤ کی کیفیت میں کسی صورت میں کمی نظر نہیں آرہی ہے۔
حالات کا تقاضا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں اپنے مابین جاری کشیدگی کو کم کریں اور مذاکرات کی میز پر اپنے اختلافات کو حل کرلیں۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر اسٹیبلشمنٹ بھی اپنا کردار ادا کرے۔ ملک کو درپیش دفاعی اور معاشی چیلنجز کے حل کے لیے بھی اتفاق رائے ہونا چاہیے اور اسے تمام اداروں کی حمایت بھی حاصل ہونی چاہیے۔
کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں اضافے سے عام آدمی کے اخراجات میں نمایاں اضافہ ہو چکا ہے، مگر آمدنی کے وسائل پہلے سے بھی کم ہیں۔ عام آدمی کم آمدنی اور زیادہ اخراجات کو کس طرح بیلنس کرے، حکومت کی معاشی ٹیم نے اس کا کوئی نسخہ نہیں بتایاہے۔ دوسری جانب عالمی مالیاتی ادارے کی معاشی ہدایات پر عمل کرنے سے نئی معاشی سختیاں عوام پر مسلط ہیں۔
بجلی، گیس اور تیل کی قیمتوں میں نمایاں اضافے منظور کر لیے گئے ہیں جو رواں مالی سال میں عموماً اور آیندہ مالی سال میں خصوصاً عوام کے لیے مالی اذیتوں کا موجب بنیں گے۔پاکستان کی معیشت کی کمزوری ہمیشہ سے ایک درد سر رہی ہے،پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک پاکستان کی معیشت ہچکولے کھاتی آئی ہے،کبھی کسی دور میں پاکستان کی معیشت قدرے بہتر کارکردگی کا مظا ہرہ کرتی ہے تو پاکستان کے جلد ہی ایک عظیم معاشی طاقت بننے کی نوید عوام کو سنا دی جاتی ہے لیکن پھر چند سال بعد ہی معیشت کو ایسا دھچکا لگتا ہے کہ پھر سے ساری ترقی پر پانی پھر جاتاہے۔
پاکستان کی معیشت کے ساتھ جو بنیادی مسئلہ رہا ہے وہ یہ کہ پاکستان اپنی برآمدات کو اس رفتار کے ساتھ اور اس تیزی کے ساتھ نہیں بڑھایا سکا ہے جس تیزی سے پاکستان کی درآمدات بڑھتی ہو ئی آ ئی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان ہر چند سال بعد فارن ایکسچینج کے حصول کے لیے آئی ایم ایف کے در پر ہوتا ہے۔
پاکستانی قوم عرصہ دراز سے اس چکی میں پستی آرہی ہے اور اب تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ دھکے ہی اس قوم کا مقدر بن چکے ہیں۔موجودہ حکومت بھی قرضے لے کر اپنے بعد آنے والی حکومت کے لیے قرضوں کے بوجھ میں مزید اضافہ چھوڑ کر جانے کی تیاری مکمل کر چکی ہے۔ موجودہ حکومت عوام سے کیے گئے وعدے بھلا کر ملکی مفاد کے بجائے عارضی بہتری لانے کی کوشش کر رہی ہے جس کا مستقبل میں ملک و قوم کو ناقابلِ تلافی نقصان اٹھانا پڑے گا۔
تین برس کے دوران معیشت میں اٹھان سوائے حکومتی بیانات کے کہیں بھی نظر نہیں آئی۔ حکومت کی توجہ عموماً معاشی بد حالی کی ذمے داری ماضی کی حکومتوں پر ڈالنے تک محدود رہی۔ ٹیکسٹائل کے شعبے میں پاکستان کو برآمدات بڑھانے کا ایک اچھا موقع اس دوران مل گیا مگر کپاس کی پیداوار کی سال بہ سال گرتی ہوئی پیداوار اور صنعت کے لیے درآمدی خام مال کے باعث اخراجات میں اضافے سے ٹیکسٹائل کے شعبے کے لیے بھی حوصلہ افزا ماحول پیدا نہ ہو سکا۔
یہی مسئلہ گندم اور چینی میں بھی درپیش تھا۔ گزشتہ برس تقریباً چار لاکھ ٹن گندم درآمد کی گئی جب کہ رواں سال کے لیے بھی درآمد کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ حکومت کو اس سال بھی چینی درآمد کرنا پڑے گی۔ زرعی اجناس کی درآمد واضح ثبوت ہے کہ ہمارا زرعی شعبہ اس قدر بے حال ہے کہ ملکی ضرورت بھی پوری کرنے سے قاصر ہے اور یہ سب گزشتہ تین برس کے دوران ہوا ہے۔
جنوری 2021 میں جاری ہونے والے کرپشن انڈیکس میں پاکستان کا 180 ممالک میں 124 واں نمبر تھا جو پچھلے سال کی نسبت چار درجے زیادہ تھا۔ عمومی رائے یہ پائی جاتی ہے کہ ملک میں احتساب کا نظام کرپشن کم کرنے کے بجائے اس کے بڑھاوے کا سبب بن رہا ہے، گو نیب نے اربوں روپے ریکور کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
اس کے باوجود کرپشن بڑھ رہی ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے مقابلے میں بھارت اور بنگلہ دیش میں کرپشن میں کمی واقع ہوئی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان سے چھ گنا زیادہ آبادی ہونے کے باوجود پورے بھارت سے صرف 400 افراد کے نام پنڈورا پیپرز میں آئے ہیںجب کہ ہمارے سات سو پاکستانیوں کے نام اس فہرست میں شامل ہیں ، جس میں تحریک انصاف کے رہنما اور وزراء بھی شامل ہیں ۔
سی پیک منصوبے کی تکمیل کے ساتھ پاکستان کے معیشت کا مستقبل جڑا ہوا ہے،اور شاید اسی لیے اس منصوبے کو مسلسل اندرون ملک اور بیرون ملک سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
سی پیک کے پہلے مرحلے کے تحت پاکستان میں توانائی اور انفرا اسٹرکچر کے منصوبے شروع کیے گئے ہیں۔پاکستان میں سڑکیں بنیں ،مو ٹر ویز بنے اور بجلی گھر بھی لگے۔ 2018 کے انتخابات کے بعد پاکستان میں حکومت تبدیل ہو ئی تو یہ افواہیں پھیلائی گئیں کہ منصوبہ رک گیا ہے کام بند ہو گیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اس منصوبے کو آگے بڑھانے میں دلچسپی نہیں رکھتی وغیرہ وغیرہ،لیکن بہر حال اس کے باوجود سی پیک کا منصوبہ چلتا رہا،منصوبے مکمل بھی ہوئے جن میں سے قابل ذکر ملتان سکھر موٹر وے اور بجلی کے منصوبے تھے۔
حال ہی میں سی پیک کے تحت لاہور مٹیاری ٹرانس میشن لائن مکمل کی گئی ہے،لیکن اس کے باوجود اس منصوبے کے حوالے سے قیاس آرائیوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوا۔اس بات میں کو ئی شک نہیں ہے کہ یہ منصوبہ پاکستان کی معیشت کے لیے نہ صرف نہایت ہی اہم ہے بلکہ حالیہ کچھ عرصے میں پاکستان میں موجود چینی ورکرز اور انجینئرز پر کئی حملے کیے گئے ہیں۔
اس نازک مرحلے پر سی پیک پر حملے اور بیرونی سازشیں غیر متوقع نہیں ہیں،خاص طور پر جب افغانستان میں طالبان کا قبضہ ہے ، پاکستان میں یکے بعد دیگر حملے بڑھتے چلے گئے۔ان حملوں کی ذمے داری ٹی ٹی پی کی جانب سے قبول کی گئی ۔سی پیک کے تحت پاکستان میں 62ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری ہونی ہے اور ریلوے کے منصوبے ایم ایل ون منصوبے جیسے پراجیکٹس یقینا پاکستان کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اس بات میں ہمیں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ سی پیک کی صورت میں پاکستان کو ترقی اور معاشی خود مختاری کا ایک نا در موقع ملا ہے اور ایسے موقعے قوموں کو با ر بار نہیں ملا کرتے ہیں۔اس منصوبے کی کامیاب تکمیل پاکستان کو دیرینہ معاشی مسائل سے نجات دلاسکتی ہے۔ہمیں بطور قوم کسی صورت بھی اس موقع کو ضایع نہیں کرنا چاہیے۔
سول ادارے اگر ایک عمدہ ڈلیوری سسٹم قائم کر لیتے ہیں، تو عوام کی زندگی آسان ہوتی جائے گی اور وہ اپنے قومی اور دفاعی امور کی بجاآوری میں مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔ آج کے عہد میں قومی معیشت غیرمعمولی اہمیت اختیار کر گئی ہے، اگر معیشت پھل پھول رہی ہو تو ملک کی سفارتی طاقت میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا اور مضبوط دفاع کے لیے مطلوبہ وسائل بھی میسر آتے رہیں گے۔ اِس وقت ایک ایسے اقتصادی نظام کے قیام پر سب سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے جو ہر شہری کو ایک باعزت زندگی فراہم کر سکے، امیروں اور غریبوں کے درمیان معاشرتی فاصلے کم کر سکے اور پاکستان کو ترقیاتی ملکوں میں باوقار مقام دلا سکے۔
یہی وقت ہے کہ نئے عالمی منظرنامے کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک کی سالمیت اور اتحاد کو درپیش خطرات کی وجہ سے حکومت اور حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ بامقصد مذاکرات پر سنجیدگی سے غور کریں۔ ظاہر ہے کہ یہ قدم حکومت کی طرف سے اٹھایا جانا چاہیے۔ ان مذاکرات میں ایک باعمل سیاسی نظام اور مستقبل کے چیلنجز کو دیکھتے ہوئے ایک موثر قومی لائحہ عمل بھی ترتیب دینے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ وہ کم از کم امید ہے جو پاکستان کے عوام اپنے سیاستدانوں سے رکھتے ہیں۔