ہمارا رومانس کب ختم ہو گا

دیکھا گیا ہے کہ چند خداداد صلاحیتوں کے مالک افراد کو چھوڑ کر باقی سارے لوگ بتدریج سیکھتے ہیں

gfhlb169@gmail.com

میں وزارتِ مواصلات میں کام کر رہا تھا۔ ایک دن چیئرمین نیشنل ہائی وے اتھارٹی)این ایچ اے( اور ان کے ممبر پلاننگ میرے پاس تشریف لائے اور کہا کہ فرانس کی ایک بڑی روڈ کنسٹرکشن کمپنی ہمارے ادارے کو دعوت دے رہی ہے کہ ایک وفد پیرس فرانس بھیجا جائے اور ان کی روڈ کنسٹرکشن صلاحیت اور معیار کا جائزہ لیا جائے۔

چیئرمین نے بتایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ایک تین ممبر وفد فرانس جا کر اُس کمپنی کے کام کے معیار کو دیکھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ وہ پاکستانی وفد کو کیوں مدعو کر رہے ہیں جب کہ ان کے پاس تو دنیا بھر کے کنٹریکٹ ہوں گے۔اس پر ممبر پلاننگ نے بتایا کہ یہ کمپنی این ایچ اے کے ساتھ پاکستان میں کام کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔

میرا دوسرا سوال تھا کہ این ایچ اے وفد کے دورے کے اخراجات کا کیا تخمینہ لگایا گیاہے تو ممبر پلاننگ نے بتایا کہ وفد کے فرانس کے دورے پر حکومتِ پاکستان کا کوئی خرچہ نہیں آئے گا کیونکہ فرانس کی کمپنی دورے کے تمام اخراجات کی ذمے دار ہو گی۔ممبر پلاننگ نے اس سلسلے میں کمپنی کے دعوت نامہ پر مبنی ای میل دکھائی جس میں تمام تفصیلات درج تھیں۔

میں نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ وفد تشکیل دے کر اور حکومتِ پاکستان کی منظوری حاصل کرنے کے لیے خط لے کر آجائیں پھر دیکھتے ہیں۔ چیئر مین نے کہا کہ دراصل ہم آپ کے پاس اس لیے آئے ہیں کہ آپ اس وفد میں شامل ہو کر اس کی قیادت کریں۔میں نے انھیں بتایا کہ میں کئی بار فرانس جا چکا ہوں۔

اس میں کوئی کلام نہیں کہ فرانس اور خاص کر پیرس بہت خوبصورت ہے لیکن مزید چکر لگانے کی خواہش نہیں۔چیئرمین کے اصرار پرمیں نے ہاں کر دی تو وہ اگلے دن کیس بنا کر لے آئے جسے وزیرِ اعظم کی منظوری کے لیے بھجوا دیا گیا۔تین چار دنوں میں منظوری ہو گئی تو ہم فرانسیسی کمپنی کو اپنے پروگرام کی اطلاع دے کر عازمِ سفر ہوئے۔پیرس پہنچے تو اگلے دن پیرس سے کوئی 40 کلومیٹردورکمپنی کے ہیڈکوارٹر لے جایا گیا۔ وہاں کمپنی کے کام سے آگاہی دی گئی۔کوئی چار گھنٹے بہت مصروف رہنے کے بعد کمپنی کے ایک کیفے ٹیریا میں لنچ کے لیے اکٹھے ہوئے۔

وہاں پہلے تو ان کے مختلف شعبوں کے بارے میں ٹیکنیکل بات ہوتی رہی لیکن بعد میں ہماری وجہ سے بات سیاست کی طرف مُڑ گئی۔ہم پاکستانی بڑے ہی سیاسی لوگ ہیں۔ بات پھر پھرا کر سیاست پر لے آتے ہیں جب کہ زیادہ تر ممالک میں عام آدمی سیاست پر بات کرتے ہوئے نظر نہیں آتا۔یہ وہ دن تھے جب فرانسیسی صدر سرکوزی چند اسکینڈلوں کی زد میں آکر میڈیا میں کافی زیرِ موضوع تھے۔ ہم تینوں پاکستانیوں نے مقدور بھر فرانسیسی صدر کی سیاست پر اپنی رائے دی۔

کمپنی کے زیادہ تر فرانسیسی اہلکار کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھا رہے تھے لیکن جب انھوں نے ہماری دلچسپی دیکھی تو ان کے ایک خاصے سینئر آدمی نے بس ایک چھوٹی سی بات کر کے گفتگو ختم کر دی ۔اس نے کہا کہ ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہم فرانسیسیوں نے غلط آدمی کو اپنا صدر چُن لیا ہے۔میں اُس کی بات سن کر ششدر رہ گیا۔ہم تو بہت جوش و خروش سے اپنی پسندیدہ شخصیت کو منتخب کر کے ایوانِ حکومت بھیجتے ہیں اور پھر اس کی برائیاں کرنے لگتے ہیں۔ہم اپنے غلط فیصلے کی اونرشپ نہیں لیتے جب کہ اس فرانسیسی نے سرکوزی کو لعن طعن کرنے کے بجائے تسلیم کیا کہ ہم سے غلطی ہو گئی ہے۔

اور سیکھتے سیکھتے نا پختہ سے پختہ کی طرف گامزن رہتے ہیں۔ سیکھنے کا یہ عمل ساری زندگی جاری رہتا ہے۔اس راہ میں کئی مقام و منازل آتی ہیں لیکن آگے بڑھتے رہنا ہی زندگی ہے۔جو لوگ ،جو معاشرہ کہیں رک جاتا ہے،پھنس جاتا ہے اور آگے سفر نہیں کرتا اس کی ترقی بھی رک جاتی ہے۔وہ ایک ایسے جوہڑ کے پانی کی مانند ہو جاتا ہے جس میں طرح طرح کے مہلک جراثیم پیدا ہو گئے ہوں اور جو تعفن پیدا کرنے لگے۔رومانس کا جذبہ ایک بہت ہی خوبصورت جذبہ ہے۔


یہ انتہائی پُر مسرت لمحات عطا کرنے کے ساتھ ساتھ بہت چھوٹے پیمانے پر ایک دیوانگی بھی ہے۔ہم میں سے شاید ہر فرد زندگی کے ابتدائی ایام میں رومانس سے ضرور دوچار ہوتا ہے۔ ناپختہ عمر کا یہ جذبہ آہستہ آہستہ عمر بڑھنے کے ساتھ غائب ہونا شروع ہو جاتا ہے اور پھر ایک وقت وہ بھی آتا ہے جب ہم اس ناپختہ عمر کے رومانس کو یاد کر کے اپنی دیوانگی پر دل ہی دل میں ہنستے ہیں۔

جس طرح افراد رومانس کی لپیٹ میں آتے ہیں بالکل اسی طرح ہماری قوم بھی پچھلی پانچ چھ دہائیوں سے رومانس کی لپیٹ میںہے۔ ایسے لگتا ہے کہ ہماری قوم اس جذبے سے دوچار نہیں ہوئی بلکہ پھنس سی گئی ہے۔1965کی جنگ بندی کے بعد ذوالفقار علی بھٹو تاشقند میں ہونے والے پاک بھارت مذاکرات میں وزیرِ خارجہ کی حیثیت سے صدر ایوب خان کے ساتھ تھے۔

وہ پاکستانی سرکاری وفد کا حصہ تھے اور جو بھی طے پایا اس میں وزیرِ خارجہ کے طور پر بھٹو صاحب کا ایک کردار تھالیکن بعد میں جب انھیں احساس ہوا کہ ایوب خان انھیں کابینہ سے فارغ کرنے والے ہیں تو چال چلی اور عوام کو تاثر دیا کہ تاشقند معاہدے کی خفیہ شقیں ہیں اور وہ وقت آنے پر ان کو آشکار کریں گے۔

قوم اس وقت تک ایوب خان کے طویل اقتدار سے تنگ آچکی تھی۔ قوم نے بھٹو صاحب کودل میں بٹھا لیا۔ 1971کی جنگ میں بھٹو صاحب کو اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں پاکستان کی نمایندگی کرنے بھیجا گیا لیکن وہ بوجوہ پولینڈ کی پیش کردہ جنگ بندی قرارداد پھاڑ کر اٹلی آ گئے اور اس وقت تک وطن واپس نہیں لوٹے جب تک ان کے اقتدار میں آنے کی راہ ہموار نہیں ہو گئی۔قوم نے یہ نہیں دیکھا کہ بھٹو صاحب کے قرارداد پھاڑنے سے ملک کو کتنا نقصان ہوا۔سارا ملک ان کی تقریر کے گُن گاتا رہا۔قومی سطح پر کبھی اس بات کا جائزہ نہیں لیا گیا کہ انھوں نے پاکستان کو کیا دیا۔

تاشقند معاہدے کے حوالے سے جو حقائق انھوں نے عوام کے سامنے لانے کا وعدہ کیا تھا وہ وعدہ ہی رہا البتہ عوام کے وہ محبوب لیڈر بن گئے۔ان کے بعد ان کی اولاد بھی وہی محبتیں سمیٹتی رہی اور وہ رومانس تھوڑا سہی ابھی بھی جاری ہے۔بھٹو صاحب کی ذات سے پاکستانی قوم کا رومانس صرف ایک مثال کے طور پر پیش کیا ہے ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہماری قوم رومانس کو چھوڑ کر آگے بڑھنے سے انکاری ہے۔کبھی ایک اور کبھی کسی دوسری شخصیت کے رومانس میں گرفتار ہوتی چلی آتی ہے جب کہ پاکستانی معاشرہ پستی ہی کی جانب مائل ہے۔اخلاقی گراوٹ اور معاشی تنزلی تھمنے کو نہیں آ رہی۔

پاکستانی قوم کئی دہائیوں سے آزادی کی نعمت سے بہرہ ور ہو رہی ہے لیکن ابھی تک رومانس کے ناپختہ جذبے سے جان نہیں چھڑا سکی۔میری قوم ایک کے بعد دوسرے رہنما سے رومانس شروع کر دیتی ہے اور کبھی اس بات کا دھیان نہیں کرتی کہ ہم نہیں سمجھیں گے تو مٹ جائیں گے۔ہمیں ایسے سیاسی رہنما کی ضرورت ہے جس کو اس بات کا شدید احساس ہو کہ ہمارا معاشرہ ایک گلا سڑا معاشرہ بن چکا ہے۔یہ اتنا بدبودار ہو چکا ہے کہ اس نے ہم پاکستانیوں کی حسِ لطافت ہی مار دی ہے۔ ہم برائی اور پستی کو جان ہی نہیں پا رہے۔ہمیں چھوٹے چھوٹے اقدامات اٹھا کر معاشرے کی اصلاح اور صفائی کی طرف بڑھنا ہے۔

پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے۔ ہمیں رومانس اور فین شپ سے نکل کر اپنی ذمے واری کا احساس کرنا ہے۔ سوسائٹی کے اندر سے باکردار، محنتی، مخلص اور ہوشیار افراد کو تلاش کرکے انھیں ذمے داریاں سونپنی ہیں۔اس کے ساتھ ہی کڑی نگرانی کرنی ہے تاکہ ہمارا نمایندہ سیدھی راہ گم نہ کر دے۔

اب تک ایسا نہیں ہو رہا،ہم اپنی ذمے داری نبھا نہیں رہے۔ہم ابھی ایک لیڈر کے سحر اور رومانس سے نکلے نہیں ہوتے کہ ایک دوسرے کے سحر میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ ہمیں قابلیت اور کارکردگی کی بنیاد پر کسی کو اپنی حمایت دینی ہو گی۔اب تک ہم صرف اپنی پسند کی بنیاد پر یہ کام کرتے آ رہے ہیں اور صرف نعروں سے لوٹ پوٹ ہو رہے ہیں۔کیا ہی اچھا ہو کہ رومانس کو تج کر غیر جذباتی انداز میں اپنے فیصلے کریں اور پھر ان فیصلوں کی اونرشپ لیں۔
Load Next Story