پاکستان میں آب وہوا میں تبدیلی سے نقل مکانی بڑھ رہی ہے ماہرین
کلائمٹ مائیگریشن کے تحت فلاحی تنظیم اسلامک ریلیف نے پورے پاکستان میں تحقیق کی ہے
پاکستان میں آب و ہوا اور ماحولیات کے ماہرین نے ملک میں موسمیاتی شدت سے نقل مکانی سے خبردار کرتے ہوئے اس کی مناسب منصوبہ بندی اور انتظامات پر زور دیا ہے۔
بین الاقوامی فلاحی تنظیم، اسلامک ریلیف پاکستان کے شعبہ سندھ کے تحت مقامی ہوٹل میں منعقدہ تقریب میں ممتاز ماہرین، متعلقہ حکومتی افسران، قانونی ماہرین، اساتذہ اور صحافیوں نے شرکت کی۔ 'کلائمٹ مائیگریشن ، دی ان فولڈنگ کرائسِس' کے موضوع پر ہونے والی اس محفل میں بتایا گیا کہ ملک میں خشک سالی، سمندری طوفان، بارشوں، لینڈ سلائیڈنگ، گلیشیئرپگھلاؤ اور گرمی کی لہروں سے لوگوں کی بڑی تعداد نقل مکانی کررہی ہے۔
اسلامک ریلیف سندھ سے وابستہ بشیر احمد نے بتایا کہ اسلامِک ریلیف دنیا کے 30 ممالک میں سرگرم ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں پانی کی فراہمی، نکاسی اور صحت کے کئی منصوبوں پر کام جاری ہے۔ اسلامِک ریلیف نے حکومتِ بلوچستان کے اشتراک سے 'خشک سالی کا فریم ورک' بھی تیار کیا گیا ہے۔
بعد ازاں سندھ یونیورسٹی کے ٹھٹھہ کیمپس سے وابستہ مرکز برائے ساحلی اور ڈیلٹا تحقیقاتی ادارے کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر مختیار احمد مہر نے بتایا کہ ٹھٹھہ میں قائم ادارے میں سندھ کے ساحلی اور ڈیلٹا اداروں پر تحقیق جاری ہے کیونکہ یہ ادارے 'کلائمٹ چینج سے متاثرہ علاقے' ہیں جنہیں ہاٹ اسپاٹ کہا جاسکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ موسمیاتی تبدیلی کے تحت نقل مکانی کرنے والے افراد کی معلومات جمع کرنے کے لیے ایک ماہ کا اندازہ لگایا گیا تھا لیکن یہ کام اتنا بڑا تھا کہ اس میں نو ماہ کا عرصہ لگ گیا۔ انہوں نے سلائیڈز کی مدد سے بتایا کہ نقل مکانی کرنے والے افراد کے لیے ضروری ہے کہ انہیں بسانے کے تمام انتظامات کئے جائیں کیونکہ ایسے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہے گا۔
انہوں نے جسمانی معذوری اور کمزوری میں مبتلا افراد کا بھی ذکر کیا جو بدلتے موسموں سے مضطرب ہیں۔ ڈاکٹر مہر نے بتایا کہ اس ضمن میں سندھ کی جامعات اور متعلقہ اداروں سے مل کر فوکس گروپ بنائے گئے اور تفصیلی تبادلہ خیال بھی کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں نے کہا کہ اگر بدلتے موسم سے زراعت اور مویشی بانی جاری رہتی ہے تو وہ یہیں رہیں گے ورنہ نقل مکانی کرجائیں گے۔
انہوں ںے بتایا کہ سندھ ڈیلٹا شدید تباہی کا شکار ہے جہاں سمندری دراندازی سے پہلے ہی زمینی کٹاؤ کی شکار ہے۔ یہاں تک کہ زراعت ختم ہوچکی ہے اور ماہی گیری ناپید ہوچکی ہے۔ اس ضمن میں کئی اہم رپورٹ اور تحقیقی مقالے بھی شائع کئے گئے ہیں۔
اس کے بعد اسلامِک ریلیف سے وابستہ مینیجر اسٹریٹجک پارٹنر اور بزنس ڈویلپمنٹ ، بیرسٹرسرمد اقبال نے کہا کہ موسمیاتی اثرات بڑی شدت سے رونما ہورہے ہیں۔ انہوں نے اپنی پریزنٹیشن میں چاغی کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح صرف تین برس میں بڑھتے ہوئے ریگستان نے ایک علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور وہاں سے 100 گھرانے نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔
سرمد اقبال نے اداروں کی مختلف پالیسیوں کے درمیان ربط اور ہم آہنگی پر زور دیا اور کہا کہ اس پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامک ریلیف نے پاکستان کے تمام صوبوں میں موسمی کیفیات سے عوامی نقل مکانی پر کام کیا ہے جس کی تفصیلی رپورٹ جلد ہی شائع کی جائیں گی۔
انہوں نے کوئٹہ کے قریب کِلی حیات آباد کے 21 سالہ شاہ ولی اللہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب اس کے خاندان نے دوسرے علاقے کا رخ کیا تو وہاں کے لوگ عین اسی کیفیت کے تحت اپنا گھرچھوڑ رہے تھے۔ اس طرح بعض صورتوں میں ماحولیات سے متاثر افراد کو دوگنی نقل مکانی کرنا پڑ رہی ہے۔ اسی طرح ٹھٹھہ کی کریمہ بی بی نے مسلسل 8 روزہ بارش کے بعد علاقے کو خیرباد کہدیا تھا۔
اس ضمن میں سرمد اقبال نے کلائمٹ مائیگریشن پالیسی پر بھی زوردیا تاکہ اس کی پیچیدگیوں سے بچا جاسکے۔
آخر میں تقریب کے مہمانِ خصوصی اور وزیرِ ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلی جناب محمد اسماعیل راہو نے کہا کہ ہمارے بہت سے مسائل ہیں جن کے تدارک کی کوشش کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی نقل مکانی کے ضمن میں پالیسی سازی کی اشد ضرورت ہے۔
بین الاقوامی فلاحی تنظیم، اسلامک ریلیف پاکستان کے شعبہ سندھ کے تحت مقامی ہوٹل میں منعقدہ تقریب میں ممتاز ماہرین، متعلقہ حکومتی افسران، قانونی ماہرین، اساتذہ اور صحافیوں نے شرکت کی۔ 'کلائمٹ مائیگریشن ، دی ان فولڈنگ کرائسِس' کے موضوع پر ہونے والی اس محفل میں بتایا گیا کہ ملک میں خشک سالی، سمندری طوفان، بارشوں، لینڈ سلائیڈنگ، گلیشیئرپگھلاؤ اور گرمی کی لہروں سے لوگوں کی بڑی تعداد نقل مکانی کررہی ہے۔
اسلامک ریلیف سندھ سے وابستہ بشیر احمد نے بتایا کہ اسلامِک ریلیف دنیا کے 30 ممالک میں سرگرم ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں پانی کی فراہمی، نکاسی اور صحت کے کئی منصوبوں پر کام جاری ہے۔ اسلامِک ریلیف نے حکومتِ بلوچستان کے اشتراک سے 'خشک سالی کا فریم ورک' بھی تیار کیا گیا ہے۔
بعد ازاں سندھ یونیورسٹی کے ٹھٹھہ کیمپس سے وابستہ مرکز برائے ساحلی اور ڈیلٹا تحقیقاتی ادارے کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر مختیار احمد مہر نے بتایا کہ ٹھٹھہ میں قائم ادارے میں سندھ کے ساحلی اور ڈیلٹا اداروں پر تحقیق جاری ہے کیونکہ یہ ادارے 'کلائمٹ چینج سے متاثرہ علاقے' ہیں جنہیں ہاٹ اسپاٹ کہا جاسکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ موسمیاتی تبدیلی کے تحت نقل مکانی کرنے والے افراد کی معلومات جمع کرنے کے لیے ایک ماہ کا اندازہ لگایا گیا تھا لیکن یہ کام اتنا بڑا تھا کہ اس میں نو ماہ کا عرصہ لگ گیا۔ انہوں نے سلائیڈز کی مدد سے بتایا کہ نقل مکانی کرنے والے افراد کے لیے ضروری ہے کہ انہیں بسانے کے تمام انتظامات کئے جائیں کیونکہ ایسے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہے گا۔
انہوں نے جسمانی معذوری اور کمزوری میں مبتلا افراد کا بھی ذکر کیا جو بدلتے موسموں سے مضطرب ہیں۔ ڈاکٹر مہر نے بتایا کہ اس ضمن میں سندھ کی جامعات اور متعلقہ اداروں سے مل کر فوکس گروپ بنائے گئے اور تفصیلی تبادلہ خیال بھی کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں نے کہا کہ اگر بدلتے موسم سے زراعت اور مویشی بانی جاری رہتی ہے تو وہ یہیں رہیں گے ورنہ نقل مکانی کرجائیں گے۔
انہوں ںے بتایا کہ سندھ ڈیلٹا شدید تباہی کا شکار ہے جہاں سمندری دراندازی سے پہلے ہی زمینی کٹاؤ کی شکار ہے۔ یہاں تک کہ زراعت ختم ہوچکی ہے اور ماہی گیری ناپید ہوچکی ہے۔ اس ضمن میں کئی اہم رپورٹ اور تحقیقی مقالے بھی شائع کئے گئے ہیں۔
اس کے بعد اسلامِک ریلیف سے وابستہ مینیجر اسٹریٹجک پارٹنر اور بزنس ڈویلپمنٹ ، بیرسٹرسرمد اقبال نے کہا کہ موسمیاتی اثرات بڑی شدت سے رونما ہورہے ہیں۔ انہوں نے اپنی پریزنٹیشن میں چاغی کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح صرف تین برس میں بڑھتے ہوئے ریگستان نے ایک علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور وہاں سے 100 گھرانے نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔
سرمد اقبال نے اداروں کی مختلف پالیسیوں کے درمیان ربط اور ہم آہنگی پر زور دیا اور کہا کہ اس پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامک ریلیف نے پاکستان کے تمام صوبوں میں موسمی کیفیات سے عوامی نقل مکانی پر کام کیا ہے جس کی تفصیلی رپورٹ جلد ہی شائع کی جائیں گی۔
انہوں نے کوئٹہ کے قریب کِلی حیات آباد کے 21 سالہ شاہ ولی اللہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب اس کے خاندان نے دوسرے علاقے کا رخ کیا تو وہاں کے لوگ عین اسی کیفیت کے تحت اپنا گھرچھوڑ رہے تھے۔ اس طرح بعض صورتوں میں ماحولیات سے متاثر افراد کو دوگنی نقل مکانی کرنا پڑ رہی ہے۔ اسی طرح ٹھٹھہ کی کریمہ بی بی نے مسلسل 8 روزہ بارش کے بعد علاقے کو خیرباد کہدیا تھا۔
اس ضمن میں سرمد اقبال نے کلائمٹ مائیگریشن پالیسی پر بھی زوردیا تاکہ اس کی پیچیدگیوں سے بچا جاسکے۔
آخر میں تقریب کے مہمانِ خصوصی اور وزیرِ ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلی جناب محمد اسماعیل راہو نے کہا کہ ہمارے بہت سے مسائل ہیں جن کے تدارک کی کوشش کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی نقل مکانی کے ضمن میں پالیسی سازی کی اشد ضرورت ہے۔