وزیر اعلی کے خلاف عدم اعتماد کے لیے صرف 10 اراکین کی ضرورت ہےاختر مینگل
تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر عدالت جاتے تو اسمبلی کی مدت پو ری ہونے تک بھی فیصلہ نہیں آتا، اختر مینگل
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ وزیر اعلی بلوچستان کے خلاف عدم اعتماد کے لیے صرف 10 اراکین کی ضرورت ہے، وزیراعلیٰ سوشل میڈیا کی بجائے ناراض ارکان کو وقت دیتے تو یہ صورت حال پیدا نہ ہوتی۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اور رکن قومی اسمبلی سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد میں حکومت کے پاس نمبر گیم پورے ہوتے تو وزراء، مشیران اور مشیران خاص استعفیٰ نہیں دیتے، اب تک 9 ارکان اسمبلی اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے چکے ہیں جب کہ وہ لوگ الگ ہیں جنہیں وزیراعلیٰ نے خود فارغ کیا تھا اگر ان تمام لوگوں کو گن لیا جائے تو وزیراعلیٰ خود مستعفیٰ ہوجاتے لیکن بدقسمتی سے وہ استعفے کے بجائے عدم اعتماد کی تحریک کی کام یابی کا انتظار کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جام کمال خان کا اپنی جماعت کے ساتھیوں کے ساتھ جو رویہ ہے اس سے لگتا ہے کہ شاید وہ واقعی خود کو منتخب وزیراعلیٰ سمجھ بیٹھے ہیں، وزیراعلیٰ جتنا وقت سوشل میڈیا اور واٹس ایپ کو دیتے ہیں اگر یہی وقت وہ 16 ناراض اراکین کو دیتے تو شاید یہ نوبت نہیں آتی۔
سردار اختر جان مینگل نے کہا کہ بلوچستان قبائلی معاشرہ ہے یہاں 6 ،6 گھنٹے انتظار کروانے کو لوگ اپنی تذلیل سمجھتے ہیں اگر وزیراعلیٰ اپنی جماعت کے لوگوں کو منا لیتے ہیں تو ہم انہیں روک نہیں سکتے لیکن ان کے درمیان منانے کی تمام حدیں پار ہوچکی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ جام کمال خان اکثریت کھو چکے ہیں، بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن ارکان کی تعداد 23 ہے ہم نے 16ارکان کے دستخط سے تحریک عدم اعتماد جمع کروائی ہے، جس میں حکومتی اتحادی ناراض ارکان کی تعداد 16 کے قریب ہے اگر انہیں ملا لیا جائے تو ہمارے پاس سادہ اکثریت بنتی ہے جو کہ وزیراعلیٰ کے خلاف ہے اگر صرف 10ارکان بھی ہمارا ساتھ دیں تب بھی ہم وزیراعلیٰ کے خلاف 33 ارکان پورے کرنے میں کامیاب ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کی تحریک عد م اعتماد پر گورنر نے بلا جواز اعتراض لگایا سمری اگر تھرو پراپر چینل نہیں بھیجی گئی تو اس میں گورنر سیکریٹریٹ، اسمبلی سیکریٹریٹ اور وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ کا قصور ہے اپوزیشن کا نہیں، لیکن ابھی تک ہمیں اس متعلق صرف زبانی طور پر آگاہ کیا گیا اور کسی بھی قسم کی سمری نہیں دی گئی اگر سمری ملتی ہے تو ہم قانونی چارہ جوئی اور نئی تحریک عدم اعتماد لانے سمیت آئندہ کے لا ئحہ عمل پر غور کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہم تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر عدالت چلے جاتے تو شاید اسمبلی کی مدت پو ری ہونے تک معاملے کا فیصلہ نہیں آتا جس طرح دیگر معاملات زیر التواہیں۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اور رکن قومی اسمبلی سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد میں حکومت کے پاس نمبر گیم پورے ہوتے تو وزراء، مشیران اور مشیران خاص استعفیٰ نہیں دیتے، اب تک 9 ارکان اسمبلی اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے چکے ہیں جب کہ وہ لوگ الگ ہیں جنہیں وزیراعلیٰ نے خود فارغ کیا تھا اگر ان تمام لوگوں کو گن لیا جائے تو وزیراعلیٰ خود مستعفیٰ ہوجاتے لیکن بدقسمتی سے وہ استعفے کے بجائے عدم اعتماد کی تحریک کی کام یابی کا انتظار کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جام کمال خان کا اپنی جماعت کے ساتھیوں کے ساتھ جو رویہ ہے اس سے لگتا ہے کہ شاید وہ واقعی خود کو منتخب وزیراعلیٰ سمجھ بیٹھے ہیں، وزیراعلیٰ جتنا وقت سوشل میڈیا اور واٹس ایپ کو دیتے ہیں اگر یہی وقت وہ 16 ناراض اراکین کو دیتے تو شاید یہ نوبت نہیں آتی۔
سردار اختر جان مینگل نے کہا کہ بلوچستان قبائلی معاشرہ ہے یہاں 6 ،6 گھنٹے انتظار کروانے کو لوگ اپنی تذلیل سمجھتے ہیں اگر وزیراعلیٰ اپنی جماعت کے لوگوں کو منا لیتے ہیں تو ہم انہیں روک نہیں سکتے لیکن ان کے درمیان منانے کی تمام حدیں پار ہوچکی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ جام کمال خان اکثریت کھو چکے ہیں، بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن ارکان کی تعداد 23 ہے ہم نے 16ارکان کے دستخط سے تحریک عدم اعتماد جمع کروائی ہے، جس میں حکومتی اتحادی ناراض ارکان کی تعداد 16 کے قریب ہے اگر انہیں ملا لیا جائے تو ہمارے پاس سادہ اکثریت بنتی ہے جو کہ وزیراعلیٰ کے خلاف ہے اگر صرف 10ارکان بھی ہمارا ساتھ دیں تب بھی ہم وزیراعلیٰ کے خلاف 33 ارکان پورے کرنے میں کامیاب ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کی تحریک عد م اعتماد پر گورنر نے بلا جواز اعتراض لگایا سمری اگر تھرو پراپر چینل نہیں بھیجی گئی تو اس میں گورنر سیکریٹریٹ، اسمبلی سیکریٹریٹ اور وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ کا قصور ہے اپوزیشن کا نہیں، لیکن ابھی تک ہمیں اس متعلق صرف زبانی طور پر آگاہ کیا گیا اور کسی بھی قسم کی سمری نہیں دی گئی اگر سمری ملتی ہے تو ہم قانونی چارہ جوئی اور نئی تحریک عدم اعتماد لانے سمیت آئندہ کے لا ئحہ عمل پر غور کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہم تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر عدالت چلے جاتے تو شاید اسمبلی کی مدت پو ری ہونے تک معاملے کا فیصلہ نہیں آتا جس طرح دیگر معاملات زیر التواہیں۔