خیبر پختون خوا کی روایتی چپلیں ضرورت سے ثقافت تک

 روایتی چپل کے کاروبار سے لاکھوں افراد کا روزگار وابستہ ہے

اس کے علامتی استعمال کے بارے میں مختلف روایات اور شگون بھی پائے جاتے ہیں ۔ فوٹو : فائل

جب سے انسان نے ہوش سنبھالا اور عقل کے پروں کے ذریعے اڑنا سیکھا، اس وقت سے لے کر آج کی اس ٹیکنالوجی اور تیزرفتار مشینی دور تک انسان کے سامنے یہ مسئلہ رہا ہے کہ اس کرۂ ارض پر کس طرح آرام، سکون، شائستگی، امن اور حفاظت کے ساتھ زندگی بسر کی جائے اسی فطری خواہش اور اہم ضرورت کے پیش نظر اس نے تاریخ کے ہر دور میں مختلف قسم کے اوزار اور آلات ایجاد کیے۔

سر چھپانے کے لیے پہاڑوں میں غار بنائے، تن ڈھانپنے کے لیے جانوروں کی کھال سے پوشاک بنائی، پتھر سے اپنے لیے کلہاڑی، چھڑی، درانتی، کدال بنائی، لکڑی سے برف پر چلنے والی کھڑاویں بنائیں، تپتی زمین پر چلنے، کام کاج کے دوران کانٹوں سے پاؤں کو بچانے کے لیے گھاس وغیرہ سے اپنے لیے چپل بنائی۔

یہ سب کچھ اس لیے کیا تاکہ انسان اس زمین پر ایک بامعنی اچھے طریقے اور باوقار انداز میں زندگی کے شب و روز گزار کرسکے اور یہی کارنامے اگر ایک جانب ابتدائی انسان کی فنی اور عقلی مہارت کو ظاہر کرتے ہیں، تو دوسری طرف ہمیں یہ معلومات بھی فراہم کرتے ہیں کہ ابتدا سے آج تک انسان نے اپنی حفاظت کے لیے اپنے بچاؤ کے لیے کیا کیا طریقے اور آلات واوزار ایجاد کیے ہیں، جسے آج ہم کلچر یا ثقافت کا نام دیتے ہیں، چپل کی ایجاد بھی ابتدائی انسان کا عظیم کارنامہ ہے، جس کی پرانی شکل گھاس سے بنی ہوئی تھی، جیسا کہ بدھ مت کے بانی گوتم بدھ اور اس مذہب کے دیگر بھکشوؤں کے جو قدیم مجسمے دریافت ہوئے ہیں۔

ان مجسموں سے بھی یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ اس دور میں بھی چپل پہنے کا رواج تھا۔ البتہ اس کی شکل و صورت موجودہ چپل سے کافی مختلف ہے، کیوںکہ اس وقت کی چپل گھاس اور لکڑی سے بنائی جاتی تھی، چپل کا موسمی حالات اور مروجہ فیشن سے گہرا تعلق ہے، لہٰذا ہر موسم اور فیشن کے مطابق چپل بھی بدلتی رہتی ہے، لوہے، چمڑے کی ایجاد اور صنعتی انقلاب کے بعد چپل کی ہیئت ترکیبی میں بھی نت نئے اضافے ہوئے پختونوں میں پہلے پیزواندئی، پنڑے، چیترے، کنٹراوے، ربڑ کے چپل، چارسدہ وال چپل، پشاوری چپل، بنوں چپل، کوئٹہ چپل وغیرہ مشہور تھیں، بدھ ازم کا جو مجسمہ پشاور میوزیم میں موجود ہے۔

اس مجسمے کے پاؤں میں بھی چپل ہے۔ صنعتی انقلاب کے بعد چپل کی قسموں اور ڈیزائنوں میں نت نئی تبدیلیاں رونما ہوئیں، پہلے قسم کی چپل میں گھاس سے بنی ہوئی چپل، گندم کی دروزہ، بروزہ ایک قسم کی گھاس، چاول کی گھاس سے بھی چپل بنائی جاتی تھی۔ پختونوں میں حجرے میں ایک قسم کا کھیل بھی ہوتا تھا، جس میں ڈیوہ مڑ (چراغ بجھ) کے دوران ایک دوسرے کو اندھیرے میں چپل مارتے تھے جسے ''سپلی مارہ'' بھی کہتے تھے، یا جو آدمی نیند میں زیادہ خراٹے لیتا ہے۔

اس بارے پختونوں میں یہ ایک روایتی ٹوٹکا پایا جاتا ہے کہ اس کی چپل کو الٹا کردیں تو وہ خراٹے لینا بند کردے گا، اور جب کسی کی دونوں چپلیں ایک دوسرے کے اوپر آجائیں، یعنی ایک چپل دوسری چپل کے اوپر سوار ہوجائے تو اس بارے میں یہاں کے لوگوں کی یہ بدشگونی اور توہم ہے کہ یہ آدمی اب زیادہ دیر تک اپنے گاؤں میں نہیں رہ سکتا، بل کہ اسے پردیس جانا ہوگا۔ یعنی گاؤں چھوڑنے کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ اس کی چپلیں ایک دوسرے کے اوپر آگئی ہیں۔ پشتو کی مقبول عوامی صنف ٹپہ میں بھی اس کا ذکر موجود ہے،

سپلئی م یو پہ بل سورے دی

دجانان مینہ مے دملکہ ورکوینہ

(میری چپلیں ایک دوسرے پر سوار ہیں، محبوب کی الفت مجھے پردیس بھجوانا چاہتی ہے)

پہلے زمانے میں پنڑے بھی ہوا کرتے تھے، جس میں ایک خاص قسم کی کوئی چیز صرف اس غرض سے استعمال ہوتی تھی، تاکہ اس سے ایک خاص قسم کی آواز نکلے جسے پشتو میں ''چیاںچغ'' کہا جاتا ہے اور اس کا ذکر بھی ٹپے میں ملتا ہے:

دنیمے شپے راتلل دے روک شہ

دچیاں چغ پنڑے دے کلی خبروینہ

(بھاڑ میں جائے تیرا آدھی رات کو آنا، کہ تیرے پنڑوں کی چخ چخ سے پورے گاؤں کو خبر ہوجاتی ہے) پشتو زبان کے معروف ترقی پسند شاعر، ادیب اور دانش ور کاکاجی صنوبر حسین مومند کا اس حوالے سے یہ شعر بہت مشہور ہے:

دمُلاپہ نصیحت بہ سوک غوگ کیگدی

ترمنبرہ چہ چغارستادہ پنڑوحٔی

(مُلا کی نصیحت پر کون کان دھرے گا کہ منبر تک آپ کے پنڑوں کی چہک جاتی ہے) رحمان بابا فرماتے ہیں:

دادعشق لارکہ ازغزنہ دہ ہرگور

دعاشق پہ خپوسپلئی دی ھم دہ اور

( ہرچند کہ عشق کا راستہ کانٹوں سے بھرا ہوا ہے


مگر عاشق کے پاؤں میں بھی آگ کی چپلیں ہیں)

پنڑوں کی طرح چپل کی ایک اور قسم کنڑواے بھی تھے جو موسم سرما میں استعمال کیے جاتے تھے، جب برف پڑجاتی تھی یا بارش کی وجہ سے ہر طرف کیچڑ ہوتا تو پھرکنڑاوے استعمال کیے جاتے تھے۔ کنڑاوے لکڑی کے بنائے جاتے تھے اور کافی اونچے ہوتے تھے، اس کا لطف کیا ہوتا تھا اس کا ذکر بھی پشتوٹپہ میں محفوظ ہے:

جانان میں دنگ دے زہ مندرئی یم

د دیدن زائے لہ کنٹراوے پہ خپو کومہ

(میرامحبوب دراز قد ہے اور میں پست قد ہوں۔ اس لیے ملاقات کے وقت میں کنٹراوے پہنتی ہوں) آج کل کنٹراوے صرف قدیم شاعری اور تذکروں میں باقی ہیں یا اکادکا کہیں دکھائی دے دیتی ہیں۔ چپل کی ایک اور شکل بروزے چپڑے ہوا کرتی تھی جو کہ ایک خاص قسم خوشبودار گھاس سے بنا کرتے تھے، یہ کسان پہنا کرتے تھے اور مختلف ڈیزائن میں تیار ہوتے تھے۔

چپل کے مختلف ڈیزائنوں میں تلا دار چپل ہوا بھی کرتی تھی۔ یہ زیادہ تر نوجوان پہنا کرتے تھے اور دیہات میں اس کا کافی رواج ہوا کرتا تھا۔ نوجوان بڑے فخر اور بڑی شان سے تلا دار چل پہن کر باہر نکلا کرتے تھے اور یہ خاص موقعوں پر پہنے جاتے تھے جیسا کہ کہا گیا ہے کہ:

پنڑے دے ڈکے تلا دارے

کہ تہ سردار یے زہ دے سہ پرواہ کوومہ

( کیا ہوا کہ تم نے اعلٰی قسم تلا دار چپل پہن رکھی ہے۔ اگر تم سردار بھی ہو تو مجھے کیا فرق پڑتا ہے)

چپل کے علامتی استعمال کے بارے میں بھی یہاں عجیب عجیب طرح کی روایات اور شگون پائے جاتے ہیں، مثلاً یہاں ایک روایت یہ بھی رہی کہ کسی کی بے عزتی کرنے کے لیے اسے چپل سے پیٹا جاتا ہے، یا پھر ذلیل کرنے کے لیے اس کے گلے میں پرانی چپلیں پہنائی جاتی ہیں۔ اس طرح نظرِبد سے بچاؤ کے لیے گھروں کی دہلیز پر پرانی چپل آویزاں کی جاتی ہیں، جب کہ نئی گاڑیوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جاتا ہے۔

کسان تو ہری بھری فصل میں باقاعدہ لکڑی کے ڈنڈے کے اوپر پرانی چپل لگادیتے ہیں۔ روایات اور ثقافت کے علم بردار صوبہ خیبرپختون خوا کی چپلیں آج ہزاروں افراد کے کاروبار کا ذریعہ بھی بن چکی ہیں، اور روزانہ لاکھوں کا کاروبار اسی چپل کی بدولت چل رہا ہے۔

ہم نے ایک دکان دار سے اس بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا،''میں چالیس سال سے یہ کاروبار کررہا ہوں، پشاور میں تو خود بھی چپلیں بنتی ہیں، اس کے باوجود چارسدہ، مردان، کوئٹہ اور تخت بھائی سے چپلیں یہاں آتی ہیں۔ یہ مختلف ڈیزائنوں کے ہوتے ہیں ایک زمانہ تھا جب چمڑا ڈھاکا بنگلادیش سے بھی یہاں آتا تھا لیکن اب زیادہ چمڑا پنجاب سے جب کہ ہائی کرم کراچی سے آتا ہے، چمڑا مہنگا ہے پھر بھی ڈیڑھ فٹ چمڑے سے ایک جوڑا بن سکتا ہے۔

آج چپل میں دو مقبول ڈیزائن ہیں یعنی گول اور ''ٹی'' کی شکل میں۔ مہنگی چپل چارسدہ ہی میں ملتی ہیں، چھے سو روپے سے لے کر چار ہزار تک میں چپل مارکیٹ میں بک رہی ہیں۔'' ایک اندازے کے مطابق عام دنوں میں چار سے دس جوڑی چپل بکتی ہیں، لیکن عید کے موقع پر یہ تعداد پچاس تک پہنچ جاتی ہے۔ دیکھا جارہا ہے کہ جہاں ہلکے پھلکے اور دیدہ زیب ڈیزائنوں کے چپل مارکیٹ میں جگہ پارہے ہیں وہاں پرانے وقتوں کے ''ڈبل گیئر'' ڈیزائن کا رواج بھی دوبارہ شروع ہورہا ہے۔

ہم نے ایک طالب علم سے اس بارے میں دریافت کیا جو چپل خریدتے ہوئے قیمت پر تکرار کررہا تھا۔ ''سردیوں میں عام طور پر میں بوٹ پہنتا ہوں لیکن گرمیوں میں زیادہ تر چپل ہی استعمال کرتا ہوں۔ مجھے چپل اچھی لگتی ہے کیوںکہ یہ ہماری روایت و ثقافت ہے۔'' قیمتوں پر تکرار کے حوالے سے اس نے کہا،''چوںکہ اب لوگ پھر چپل خریدنے لگے ہیں اس لیے ان لوگوں نے بھاؤ بڑھادیے ہیں۔ حالاںکہ اتنی قیمت پر تو میں چارسدہ جاکر بہت اچھی چپل خرید سکتا ہوں۔''

اس وقت شہر میں چپلوں کی سیکڑوں دکانیں کھل چکی ہیں اور نت نئے ڈیزائن میں چپل دست یاب ہیں۔ بہرحال سب سے بڑی مارکیٹ چارسدہ بازار اور پشاور کی جہان گیرپورہ اور نمک منڈی بازار میں ہے اور بقول ایک دکان دار استطاعت رکھنے والے لوگ یہاں بھی ''چارسدہ وال چپل '' خریدتے ہیں۔ شہر کے ایک معروف چپل میکر سے ہم نے دریافت کیا تو اس نے کہا کہ اب اس کا کام میں بھی مزہ نہیں رہا۔ جگہ جگہ دکانیں کھل چکی ہیں، دو نمبر چپلیں بھی مارکیٹ میں کھلے عام بک رہی ہیں۔

ہمارے اپنے ان گنت مسائل ہیں ایک تو مہنگائی اوپر سے پروفیشنل ٹیکس، ویلتھ ٹیکس، دکان کا بڑھتا ہوا کرایہ، کاری گر کی مزدوری اور دیگر اخراجات، پھر بھی گاہک قیمت ادا کرنے پر راضی نہیں ہوتا۔ ڈیزائن اور انداز بدلتے رہتے ہیں لیکن ضروریات زندگی تو بہرحال اپنی جگہ موجود ہیں، بل کہ یوں کہا جائے کہ بڑھ گئی ہیں تو بے جانہ ہوگا۔ آج طلب اور رسد کا دور انتہا پر ہے، اس کے باوجود چپل کی ضرورت اور اہمیت کے ساتھ ساتھ اس کی مانگ آج بھی اپنی جگہ پر قائم و دائم ہے اور لوگ چپل پہنتے ہیں۔

یہاں تک کہ پنجاب اور کراچی کے لوگ بھی چارسدہ وال اور پشاوری چپل کو پسند کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ملک کے موجودہ وزیراعظم عمران خان بھی پشاوری چپل کے انتہائی دل دادہ ہیں اور اکثر اوقات انہوں نے پشاوری چپل ہی پہنی ہوتی ہے۔ وہ بطور خاص پشاور کے معروف بازار نمک منڈی میں جہاں گیر صافی نامی دکان دار سے منفرد اور من پسند چپل بنواتے ہیں، جس سے نہ صرف جہاںگیرصافی کے کاروبار کو چار چاند لگ گئے ہیں بل کہ عمران خان کے چاہنے والوں نے بھی اس قسم کی چپلیں پہننا شروع کردی ہیں یہاں تک کہ اس ڈیزائن کی چپل کو اب ''عمران خان چپل'' کا نام بھی دیا جانے لگا ہے۔

سیاست دانوں میں خدائی خدمت گار تحریک کے بانی خان عبدالغفار خان المعروف باچاخان پہلے سیاست داں تھے جنہوں ساری زندگی چارسدہ وال چپل استعمال کی۔ ان کی تقلید میں ان کے صاحب زادے اور ملک کے معروف قوم پرست سیاست داں خان عبدالولی خان نے بھی ہمیشہ چارسدہ وال چپل کو ترجیح دی۔ موجودہ سیاست دانوں میں جے یو آئی کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمان بھی اکثر اوقات ''ڈبل ٹائر'' والے پشاوری چپل پہنتے ہیں۔

مختصر یہ کہ چاہے پختون کراچی میں ہوں، اسلام آباد میں یا ملک سے باہر کسی بھی دوسرے ملک میں ہوں مگر اپنی روایتی چپل کو نہیں بھولتے۔ جب بولی وڈ کے کنگ خان شاہ رخ خان 1979ء میں اپنے والد میر تاج محمد خان کے ساتھ پشاور آئے تھے اور تقریباً ایک ماہ کا عرصہ گزار کر چلے گئے تھے تو انہوں نے سوات، لواڑگی، لنڈی کوتل، چترال اور اندرون پشاور کے مختلف مقامات کی سیر کی تھی، باڑہ مارکیٹ سے شاپنگ بھی کی اور جاپان کے بنے ہوئے مختلف قسم کے کئی کھلونے بھی خریدے تھے۔

اس کے ایک سال بعد پھر 1980ء کے اواخر میں انہوں نے اپنی بہن شہناز لالہ رخ کے ساتھ پشاور کی یاترا کی اور تقریباً 25 دن یہاں گزارے۔ روایتی کھانوں میں چپلی کباب ان کا من بھاتا کھاجا رہا۔ یہاں سے جاتے وقت وہ چارسدہ وال چپل، دیگر روایتی لباس مثلاً واسکٹ اور شلوار قمیص بھی ساتھ لے گئے تھے اور فلم ''دل والے دلہنیا لے جائیں گے'' کے ایک گانے میں انہوں نے وہی چارسدہ وال چپل پہن رکھی تھی۔ اسی طرح ''منہدی لگا کے رکھنا، ڈولی سجا کے رکھنا'' والے گانے میں رباب کے ساتھ بھی انہوں نے چارسدہ وال چپل پہننے کی خواہش ظاہر کی تھی۔
Load Next Story