جنوبی ایشیا کا ایک ادھورا خوا ب دوسرا حصہ
غلاموں کی تجارت کرنے والے یا بردہ فروشوں کی بنگال پر تواتر سے چھاپہ مار کارروائیوں کے کئی اسباب تھے
خلیجِ بنگال کے گرد جہاز رانی اور بحری سفر کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ 1498میں پرتگالیوں نے برصغیر پاک وہندکے مغربی کنارے کو فتح کرلیا تھا۔ 1511 میں ملاکا پر تسلط جمانے کے بعد انھوں نے کیپ آف کومرن میں سرگرمیوں کاآغاز کیا۔ بنگال میں پرتگیزیوں کی نجی تجارت کئی اسباب سے تھا۔
ہندوستان میں جرائم کی صورت میں قانونی کارروائی سے استثنیٰ، وہ اپنے ممالک میں سخت گیر مذہبی عدالتوں سے فرار چاہتے، دولت سمیٹنے اور ریاست کی جانب سے ملنے والی تنخواہ کی غیر یقینی صورتِ حال، اسباب میں شامل تھے۔
لیکن سب سے اہم وجہ یہی تھی کہ وہ ایشیا میں تجارت کی اہمیت کے باعث اس خطے کو کاروباری طور پر فعال کرنا چاہتے تھے۔پرتگیزی اس خطے میں ہوگلی (موجودہ کلکتہ بندرگاہ) اور چٹا گانگ تک نہیں رکے بلکہ انھیں نے بکلا، سری پور، لوریکل، دیانگا اور سندوئیپ جیسے چھوٹی بندرگاہوں کو بھی استعمال کیا۔ پرتگیزی 16ویں صدی کے آغاز میں بنگال کی سب سے اہم بندرگاہ چٹاگانگ تک پہنچ چکے تھے۔
سترھویں صدی تک پرتگیزی جنوب مشرقی ڈیلٹا میں دو طرح کا بندوبست کر چکے تھے۔ چٹاگانگ ایک بڑی بندرگاہ تھا ، دیانگا، چندیکن، سرپور، سندوئپ اور سریام بھی اسی زمرے میں آتی تھیں۔ جب کہ موسمی نوعیت کے استعمال کے لیے چارگن اور انگا جیسی بندرگاہیں تھیں۔ 1632 میں ہگلی پر پرتگیزیوں کا تسلط ختم ہوا اور شاہ جہاں کی فوجوں نے حاصل کرلیا۔ اس کے بعد اٹھارہویں صدی میں ولندیزیوں اور انگریزوں نے اس خطے میں رسوخ بڑھانے کی کوششیں شروع کردیں۔
پرتگیزیوں (اور ان کے علاوہ ولندیزیوں اور انگریزوں) کا دوسرا 'پیشہ' قزاقی تھا۔ جدید بنگال کے ابتدائی دور میں اس کی جنوب مشرقی ڈیلٹا میں پر تگیزیوں کے سوداگروں، مہم جو افراد اور سرکش افراد پرتگالی ریاست کی گرفت سے دور رہنے کے لیے بڑی تعداد میں جمع ہوچکے تھے۔
یہ نجی گروہ بنگال کے ساحلوں پر کوئی نہ کوئی ہنگامہ کھڑا رکھتے تھے لیکن خطے کی سیاسی اور معاشی تشکیل میں ان کا کردار اہم تھا۔ مختصر مدت ہی کے لیے سہی لیکن پرتگیزی اس علاقے میں طاقتور رہے۔ یہ علاقہ قزاقوں کے لیے بہت موزوں تھا۔ یہ ایک مصروف اور منافع بخش تجارتی بندرگاہ تھی لیکن اس کے تحفظ کے لیے مضبوط ریاست اور بحریہ نہیں تھی۔ اس کے لیے چھوٹے چھوٹے جزیرے ، کھاڑیوں، تنگ آبی گزرگاہوں اور مینگروز کی کثرت سے یہ جرائم پیشہ افراد کے لیے یہ علاقہ محفوظ پناہ تھا۔ 1750سے 1860کے دوران یہاں قزاقوں کی چاندی رہی۔
غلاموں کی تجارت کرنے والے یا بردہ فروشوں کی بنگال پر تواتر سے چھاپہ مار کارروائیوں کے کئی اسباب تھے۔ ہوسِ زر میں مبتلا یہ سوداگر اچھی طرح سمجھتے تھے کہ اپنے ملکوں میں لوگوں کو غلام بنانے سے زیادہ منافع غیر ملکی غلاموں کی تجارت میں ہے۔ اس کے علاوہ کئی علاقوں میں ہنرمند اور نیم ہنرمند افراد کی ضرورت تھی۔ ولندیزی سلطنت کو بے شمار غلام درکار تھے۔
سماٹرا کی آچے سلطنت کو بھی کاشت کاری اور ٹن کی کانوں پر کام کرنے کے لیے غلام چاہیے تھے۔ بنگال میں لاکھوں کی تعداد میں ایسی افرادی قوت موجود تھی۔ ہندوستانی غلام زیادہ قیمت میں فروخت ہورہے تھے ۔
چٹاگانگ کی بندرگاہ اور شہر پرتگیزیوں کے لیے مرکز کی حیثیت رکھتا تھا۔ شاہ جہاں نے جب سے پرتگیزیوں کو ہگلی سے پسپا کیا تھا تو ان کے لیے اس علاقے کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی تھی۔ لیکن ایک صدی کے دوران ولندیزیوں نے خطے میں پرتگال کو پیچھے چھوڑ دیا۔ پرتگیزی ماضی کے تنازعات کے باجود راکھائن سلطنت جہاں آج میانمار قائم ہے کو مدد فراہم کرتے تھے۔
اس کے لیے پرتگیزی بحریہ انتہائی اہم کردار ادا کرسکتی تھی۔1610کی دہائی میں کئی چھاپہ مار کارروائیاں ہوئیں۔ بنگال میں پرتگیزی اور ماگھ غارت گروں نے بڑی تباہی مچائی۔ ماگھ سمندر میں تیزی سے نقل و حرکت کرنا جانتے تھے اور انھیں جیلیاس کہلانے والی تیز رفتار کشتیاں چلانے کی مہارت حاصل تھی جن میں بہ آسانی ڈیلٹا تک سفر کیا جاسکتا تھا۔ کئی شہر اور دیہات ان کے خوف نے ویران کردیے تھے۔
1663میں بنگال شدید مشکلات میں گھرا ہوا تھا۔مغل سلطنت کو چھاپہ مار کارروائیوں نے بھاری نقصان پہنچایا تھا۔ بنگل کا گورنر جملہ خان آہوموؤں کے ساتھ جنگ میں مارا گیا تھا۔ آہومو موجودہ بھارت کی ریاست آسام اور اروناچل پردیش کے علاقے میں بسنے والا نسلی گروہ تھا۔ نیا گورنر شائستہ خان اورنگزیب کا چچا تھا۔ شیوا جی مرہٹہ کے ہاتھوں شکست کی وجہ سے اورنگ زیب اس سے خفا تھا، اسی لیے شہنشاہ نے شائستہ خان کو بنگال بھیج دیا تھا۔
1665میں مغلوں نے راکھائن سلطنت کے لیے تزویراتی اہمیت رکھنے والا سندویپ چھین لیا۔ چٹاگانگ پر قبضہ کرنا اہم ہدف تھا۔ اس کے لیے شائستہ خان نے پرتگیزیوں اور راکھائنیوں کے تنازعات کو استعمال کیا۔ شائستہ خان نے پرتگیزیوں کو اپنے آقاؤں سے غداری پر آمادہ کیا۔ انھیں یہ سمجھایا کہ تجارت دوست مغلوں سے ان کا اتحاد زیادہ منفعت بخش ہوگا۔ ظاہر ہے کہ انھیں اپنا حامی بنانے کے لیے بھاری رشوت بھی دینا پڑی۔ پرتگیزیوں نے راکھائن سے غداری کی اور ڈھاکا تک پہنچ گئے۔ راکھائن فوج تیزی سے چٹاگانگ میں جمع ہوگئی لیکن شائستہ خان نے زمین پر ایک فوج بھیجی اور متوازی طور پر مغلوں اور پرتگیزیوں کی بحریہ کو بھی چٹاگانگ روانہ کردیا۔ اس دوطرفہ حملے نے راکھائن فوج کو تباہ کردیا۔
مغل فوجوں کی اس فتح سے خلیجِ بنگال اور اس سے منسلک دریاؤں میں قزاقی کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ راکھائن سلطنت رفتہ رفتہ کمزور ہوتی چلی گئی اور 1784میں اس پر برما نے قبضہ کرلیا۔ البتہ بنگال ایک طویل عرصے تک شائستہ خان کے زیر نگین آگیا۔ اٹھارہویں صدی کے بعد پر تگیزیوں اور ان کی اولاد بنگال کی پھیلتی ہوئی سلطنت کا حصہ بنتے چلے گئے۔ مغربی بنگال اور بنگلا دیش کے کلچر میں اس ورثے کا رنگ محسوس کیا جاسکتا ہے۔
ہندوستان میں جرائم کی صورت میں قانونی کارروائی سے استثنیٰ، وہ اپنے ممالک میں سخت گیر مذہبی عدالتوں سے فرار چاہتے، دولت سمیٹنے اور ریاست کی جانب سے ملنے والی تنخواہ کی غیر یقینی صورتِ حال، اسباب میں شامل تھے۔
لیکن سب سے اہم وجہ یہی تھی کہ وہ ایشیا میں تجارت کی اہمیت کے باعث اس خطے کو کاروباری طور پر فعال کرنا چاہتے تھے۔پرتگیزی اس خطے میں ہوگلی (موجودہ کلکتہ بندرگاہ) اور چٹا گانگ تک نہیں رکے بلکہ انھیں نے بکلا، سری پور، لوریکل، دیانگا اور سندوئیپ جیسے چھوٹی بندرگاہوں کو بھی استعمال کیا۔ پرتگیزی 16ویں صدی کے آغاز میں بنگال کی سب سے اہم بندرگاہ چٹاگانگ تک پہنچ چکے تھے۔
سترھویں صدی تک پرتگیزی جنوب مشرقی ڈیلٹا میں دو طرح کا بندوبست کر چکے تھے۔ چٹاگانگ ایک بڑی بندرگاہ تھا ، دیانگا، چندیکن، سرپور، سندوئپ اور سریام بھی اسی زمرے میں آتی تھیں۔ جب کہ موسمی نوعیت کے استعمال کے لیے چارگن اور انگا جیسی بندرگاہیں تھیں۔ 1632 میں ہگلی پر پرتگیزیوں کا تسلط ختم ہوا اور شاہ جہاں کی فوجوں نے حاصل کرلیا۔ اس کے بعد اٹھارہویں صدی میں ولندیزیوں اور انگریزوں نے اس خطے میں رسوخ بڑھانے کی کوششیں شروع کردیں۔
پرتگیزیوں (اور ان کے علاوہ ولندیزیوں اور انگریزوں) کا دوسرا 'پیشہ' قزاقی تھا۔ جدید بنگال کے ابتدائی دور میں اس کی جنوب مشرقی ڈیلٹا میں پر تگیزیوں کے سوداگروں، مہم جو افراد اور سرکش افراد پرتگالی ریاست کی گرفت سے دور رہنے کے لیے بڑی تعداد میں جمع ہوچکے تھے۔
یہ نجی گروہ بنگال کے ساحلوں پر کوئی نہ کوئی ہنگامہ کھڑا رکھتے تھے لیکن خطے کی سیاسی اور معاشی تشکیل میں ان کا کردار اہم تھا۔ مختصر مدت ہی کے لیے سہی لیکن پرتگیزی اس علاقے میں طاقتور رہے۔ یہ علاقہ قزاقوں کے لیے بہت موزوں تھا۔ یہ ایک مصروف اور منافع بخش تجارتی بندرگاہ تھی لیکن اس کے تحفظ کے لیے مضبوط ریاست اور بحریہ نہیں تھی۔ اس کے لیے چھوٹے چھوٹے جزیرے ، کھاڑیوں، تنگ آبی گزرگاہوں اور مینگروز کی کثرت سے یہ جرائم پیشہ افراد کے لیے یہ علاقہ محفوظ پناہ تھا۔ 1750سے 1860کے دوران یہاں قزاقوں کی چاندی رہی۔
غلاموں کی تجارت کرنے والے یا بردہ فروشوں کی بنگال پر تواتر سے چھاپہ مار کارروائیوں کے کئی اسباب تھے۔ ہوسِ زر میں مبتلا یہ سوداگر اچھی طرح سمجھتے تھے کہ اپنے ملکوں میں لوگوں کو غلام بنانے سے زیادہ منافع غیر ملکی غلاموں کی تجارت میں ہے۔ اس کے علاوہ کئی علاقوں میں ہنرمند اور نیم ہنرمند افراد کی ضرورت تھی۔ ولندیزی سلطنت کو بے شمار غلام درکار تھے۔
سماٹرا کی آچے سلطنت کو بھی کاشت کاری اور ٹن کی کانوں پر کام کرنے کے لیے غلام چاہیے تھے۔ بنگال میں لاکھوں کی تعداد میں ایسی افرادی قوت موجود تھی۔ ہندوستانی غلام زیادہ قیمت میں فروخت ہورہے تھے ۔
چٹاگانگ کی بندرگاہ اور شہر پرتگیزیوں کے لیے مرکز کی حیثیت رکھتا تھا۔ شاہ جہاں نے جب سے پرتگیزیوں کو ہگلی سے پسپا کیا تھا تو ان کے لیے اس علاقے کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی تھی۔ لیکن ایک صدی کے دوران ولندیزیوں نے خطے میں پرتگال کو پیچھے چھوڑ دیا۔ پرتگیزی ماضی کے تنازعات کے باجود راکھائن سلطنت جہاں آج میانمار قائم ہے کو مدد فراہم کرتے تھے۔
اس کے لیے پرتگیزی بحریہ انتہائی اہم کردار ادا کرسکتی تھی۔1610کی دہائی میں کئی چھاپہ مار کارروائیاں ہوئیں۔ بنگال میں پرتگیزی اور ماگھ غارت گروں نے بڑی تباہی مچائی۔ ماگھ سمندر میں تیزی سے نقل و حرکت کرنا جانتے تھے اور انھیں جیلیاس کہلانے والی تیز رفتار کشتیاں چلانے کی مہارت حاصل تھی جن میں بہ آسانی ڈیلٹا تک سفر کیا جاسکتا تھا۔ کئی شہر اور دیہات ان کے خوف نے ویران کردیے تھے۔
1663میں بنگال شدید مشکلات میں گھرا ہوا تھا۔مغل سلطنت کو چھاپہ مار کارروائیوں نے بھاری نقصان پہنچایا تھا۔ بنگل کا گورنر جملہ خان آہوموؤں کے ساتھ جنگ میں مارا گیا تھا۔ آہومو موجودہ بھارت کی ریاست آسام اور اروناچل پردیش کے علاقے میں بسنے والا نسلی گروہ تھا۔ نیا گورنر شائستہ خان اورنگزیب کا چچا تھا۔ شیوا جی مرہٹہ کے ہاتھوں شکست کی وجہ سے اورنگ زیب اس سے خفا تھا، اسی لیے شہنشاہ نے شائستہ خان کو بنگال بھیج دیا تھا۔
1665میں مغلوں نے راکھائن سلطنت کے لیے تزویراتی اہمیت رکھنے والا سندویپ چھین لیا۔ چٹاگانگ پر قبضہ کرنا اہم ہدف تھا۔ اس کے لیے شائستہ خان نے پرتگیزیوں اور راکھائنیوں کے تنازعات کو استعمال کیا۔ شائستہ خان نے پرتگیزیوں کو اپنے آقاؤں سے غداری پر آمادہ کیا۔ انھیں یہ سمجھایا کہ تجارت دوست مغلوں سے ان کا اتحاد زیادہ منفعت بخش ہوگا۔ ظاہر ہے کہ انھیں اپنا حامی بنانے کے لیے بھاری رشوت بھی دینا پڑی۔ پرتگیزیوں نے راکھائن سے غداری کی اور ڈھاکا تک پہنچ گئے۔ راکھائن فوج تیزی سے چٹاگانگ میں جمع ہوگئی لیکن شائستہ خان نے زمین پر ایک فوج بھیجی اور متوازی طور پر مغلوں اور پرتگیزیوں کی بحریہ کو بھی چٹاگانگ روانہ کردیا۔ اس دوطرفہ حملے نے راکھائن فوج کو تباہ کردیا۔
مغل فوجوں کی اس فتح سے خلیجِ بنگال اور اس سے منسلک دریاؤں میں قزاقی کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ راکھائن سلطنت رفتہ رفتہ کمزور ہوتی چلی گئی اور 1784میں اس پر برما نے قبضہ کرلیا۔ البتہ بنگال ایک طویل عرصے تک شائستہ خان کے زیر نگین آگیا۔ اٹھارہویں صدی کے بعد پر تگیزیوں اور ان کی اولاد بنگال کی پھیلتی ہوئی سلطنت کا حصہ بنتے چلے گئے۔ مغربی بنگال اور بنگلا دیش کے کلچر میں اس ورثے کا رنگ محسوس کیا جاسکتا ہے۔