ڈاکٹرعبد القدیر خان کی رحلت

بلاشبہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی مخلصانہ کوششوں کی بدولت پاکستان کو اپنے پڑوس میں موجود بڑی ایٹمی قوت سے تحفظ حاصل ہوا۔

بلاشبہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی مخلصانہ کوششوں کی بدولت پاکستان کو اپنے پڑوس میں موجود بڑی ایٹمی قوت سے تحفظ حاصل ہوا۔ فوٹو: فائل

PARIS:
پاکستان کے نامور ایٹمی سائنسدان ڈاکٹرعبدالقدیر خان گزشتہ روز اس دارفانی سے کوچ کر گئے۔انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔ انھیں ''محسن پاکستان''کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے ،انھوں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو آگے بڑھانے کے لیے پوری لگن سے کام کیا۔

اس مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے دیگر پاکستانی سائنسدانوں نے ان کا بھرپور ساتھ دیا اور سائنسدانوں کی اس ٹیم نے اپنی ان تھک محنت اور بے لوث جذبے سے قلیل مدت میں یورینیم افزودگی کا وہ کارنامہ سرانجام دیا جو بظاہر ناممکن نظر آتا تھا۔ ان کا نام پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانیوں کے ساتھ لیا جاتا رہے گا۔

عبدالقدیر خان اور پاکستانی سائنسدانوں نے پاکستان کو دفاعی اعتبار سے ناقابل تسخیر بنادیا ہے۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان پہلے پاکستانی ہیں جنھیں 3 صدارتی ایوارڈ ملے، انھیں 2 بار نشانِ امتیاز سے نوازا گیا، جب کہ ہلالِ امتیاز بھی عطاء کیا گیا۔ عبدالقدیر خان اپریل 1936میں متحدہ ہندوستان کے شہر بھوپال میں پیدا ہوئے، وہ اہلِ خانہ کے ہمراہ 1952میں ہجرت کر کے پاکستان آئے۔

وہ اس وقت میٹرک کا امتحان پاس کر چکے تھے' انجینئرنگ کی ڈگری کراچی یونیورسٹی سے حاصل کی اور پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے جرمنی چلے گئے پھر انھوںنے انجینئرنگ کی ڈگری 1967 میں نیدر لینڈز کی ایک یونی ورسٹی سے حاصل کی،ا نہوں نے بیلجیئم کی ایک یونی ورسٹی سے میٹلرجیکل انجینئرنگ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی۔بعدازاں ایمسٹرڈیم میں فزیکل ڈائنا مکس ریسرچ لیبارٹری جوائن کی۔

1974 میں بھارت نے راجستھان کے علاقے پوکھران میں ایٹمی دھماکا کر کے دنیا کو حیران کر دیا اور جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن بگاڑ کر پاکستان کے لیے خطرات پیدا کر دیے' بھارت 1971میں پاکستان کو دولخت کرنے پر کامیاب ہو چکا تھا' اس کا ایٹمی طاقت بننا پاکستان کے لیے کھلا خطرہ تھا' انھی ایام میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نام سب سے پہلے 1974-75 میں سننے میں آیا جب انھوں نے پاکستان کے اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات کرکے پاکستان میں ایٹم بم بنانے کا منصوبہ پیش کیا۔

ذوالفقار علی بھٹو نے ان کے عزم کو دیکھتے ہوئے انھیں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے ساتھ کام کرنے کی اجازت دے دی ۔انھوں نے اپنی ذات اور اپنے ادارے کو پاکستان کے عوام میں اس طرح مقبول کردیا اور عوام کوسمجھا دیاکہ اس ادارے کا کام کرنا پاکستان کی بقا کے لیے ضروری ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ پاکستان میں حکمران بدلتے رہے لیکن کسی کو کبھی یہ جرات نہ ہوئی کہ اس پروگرام کو ختم کرسکے۔


ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے،جہاں ان کا شمار دنیا کے ممتاز سائنسدانوں میں ہوتا تھا، وہیں شعروادب سے بھی ان کی وابستگی رہی۔اعلیٰ پائے کے شاعر اور نثر نگار بھی تھے، ان کی شاعری اور نثر کی متعدد کتابیں شایع ہوچکی ہیں ۔ فلاحی اور رفاہی کاموں میں دن رات مصروف رہتے تھے۔ان کے بے شمار رفاہی کاموں میں ان کا سب سے بڑا منصوبہ لاہور میں ڈاکٹر اے کیو خان اسپتال ہے،جہاں غریب، نادار اور مستحق لوگوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے، ادویات بھی مفت ہی فراہم کی جاتی ہیں۔

اسپتال میں اسٹیٹ آف دی آرٹ ایک ڈائیلسز سینٹر بھی ہے،جہاں غریب غرباء کے ٹیسٹ اور ڈائیلسزکے ساتھ ساتھ مفت ادویات بھی دی جاتی ہیں ملک کو ناقابلِ تسخیر بنانے والے اس قومی ہیرو کے ساتھ ہم نے ان کے شایان شان سلوک نہیں کیا۔ان کی شخصیت کئی حوالوں سے تنازعات کا شکار رہی، پہلے ان پر ہالینڈ سے ایٹمی معلومات چوری کرنے کا الزام عائد کیا گیا، جس سے وہ باعزت بری ہوئے تو 2004 میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں ایک دفعہ پھر حساس معلومات دوسرے ممالک کو فراہم کرنے کی چارج شیٹ لگادی گئی، انھیں اپنے گھر میں نظر بندی کا سامنا کرنا پڑا۔اس سلوک سے وہ آزردہ رہے اور انھیں اس سے کافی دکھ پہنچا۔

وزیر اعظم عمران خان نے ان کے انتقال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کو ایٹمی ریاست بنانے میں ان کا مرکزی کردار رہا ہے۔ جب کہ صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا ہے کہ قوم ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خدمات کو کبھی نہیں بھلا سکے گی۔

مسلم لیگ نون کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف میاں شہباز شریف نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے انتقال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے جوہری پروگرام کے معمار کی وفات قومی صدمہ ہے۔

بلاشبہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی مخلصانہ کوششوں کی بدولت پاکستان کو اپنے پڑوس میں موجود بڑی ایٹمی قوت سے تحفظ حاصل ہوا،ان کی خدمات دفاع واستحکام کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔

 
Load Next Story