سیاسی معاملات میں عدلیہ پر بوجھ کیوں
سیاسی معاملات واقعی عدلیہ پر بوجھ اور وقت کا ضیاع ہے۔
LONDON:
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ سیاسی معاملات میں عدلیہ کو شامل کرنا پارلیمنٹ کو کمزور کرنے کی ایک وجہ ہے۔ ایسے معاملے میں عدلیہ کا اختیار استعمال کرنا مفاد عامہ میں نہیں، کوئی سیاسی جماعت متاثر ہو تو پارلیمنٹ میں آرڈیننس مسترد کرسکتی ہے۔ توقع ہے کہ سیاسی جماعتیں پارلیمنٹ میں معاملات طے کریں گی۔
چیف جسٹس اسلام آباد کے یہ ریمارکس سو فیصد درست ہیں کیونکہ ملک میں پارلیمنٹ موجود ہے مگر اس پارلیمنٹ کو موجودہ حکومت مفاد عامہ کے بجائے اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنے پر یقین رکھتی ہے۔ افغانستان کے مسئلے کو پونے دو ماہ گزر جانے اور اپوزیشن کے مطالبے پر بھی حکومت نے پارلیمنٹ کا اجلاس نہیں بلایا اور ٹی ٹی پی کو معافی دینے جیسے اہم ترین مسئلے پر وزیر اعظم نے کہا ہے اس سلسلے میں کچھ گروپوں سے بات چیت چل رہی ہے بات نتیجہ خیز ہونے نہ ہونے کا کچھ نہیں کہہ سکتے۔
اس حساس معاملے پر پیپلز پارٹی نے حکومت سے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کا مطالبہ کیا ہے اور جاری مذاکرات کی شرائط سامنے لانے کا کہا ہے کیونکہ ٹی ٹی پی پر ہزاروں پاکستانیوں کے قتل کا الزام ہے جسے وزیر اعظم کی طرف سے نظرانداز کرنا شہدا کے ورثا کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہوگا۔
اپوزیشن ایوان صدر کو آرڈیننس فیکٹری قرار دے چکی ہے جس میں حکومتی احکام کی آئینی حیثیت بھی نہیں دیکھی جاتی اور حکومت کے ہر اقدام پر ایوان صدر آرڈیننس جاری کردیتا ہے۔ اس سلسلے میں عدلیہ کے فیصلے صدر مملکت کے جاری آرڈیننس کے خلاف بھی آچکے ہیں جس سے ایوان صدر کی سبکی ہوچکی ہے جس کی ایک مثال سپریم کورٹ کے جج جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ایوان صدر سے بھیجا جانے والا ایک ریفرنس بھی ہے مگر ایوان صدر میں حکومت کے بھیجے گئے غیر آئینی معاملات پر بھی غور نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے ایوان صدر کی غیر جانبداری پر حرف آ رہا ہے۔ پارلیمنٹ میں صدر مملکت کے خطاب پر اپوزیشن کا شدید ردعمل اس کا ثبوت ہے۔
پارلیمنٹ میں اپوزیشن سینیٹ میں اکثریت میں ہے اور قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کی معمولی اکثریت اپنے اتحادیوں کی وجہ سے ہے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے موقع پر بظاہر اپوزیشن کی اکثریت ہے مگر اپوزیشن کا کہنا ہے کہ حکومت نے پارلیمنٹ کے گزشتہ مشترکہ اجلاس میں اپنے اسپیکر کی مدد سے ارکان کی گنتی کے موقع پر درست رائے شماری نہیں کرائی تھی اور اپوزیشن کی واضح مخالفت کے باوجود غلط گنتی سے من مانی کرکے فیصلہ حاصل کرلیا تھا۔
چیف جسٹس اسلام آباد کا کہنا ہے کہ سینیٹ میں اپوزیشن کی اکثریت ہے مگر یہ وہی سینیٹ ہے جہاں چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی حمایت میں 61 سینیٹروں نے کھڑے ہو کر رائے دی تھی مگر خفیہ رائے شماری میں وہ پچاس ظاہر ہوئے تھے اور تحریک ناکام ہوگئی تھی۔ فاضل چیف جسٹس اصولی طور پر پارلیمنٹ کی اہمیت پر یقین رکھتے ہیں اور سیاسی جماعتوں کو اپنے معاملات عدالتوں میں لانے کے بجائے پارلیمنٹ کے ذریعے حل کرانے کا کہہ رہے ہیں جو درست بھی ہے مگر یہ کام ان پارلیمنٹ میں ہوتے ہیں جہاں کے ارکان پارلیمنٹ اور حکومت خود پارلیمنٹ کو عزت دیتے ہوں جہاں کبھی کورم کے مسئلے نہیں ہوتے۔
ان باوقار پارلیمنٹ میں خود وزیر اعظم باقاعدگی سے آتے ہوں۔ دنیا کی کسی پارلیمنٹ میں ایسا نہیں ہوا ہوگا جہاں قومی اسمبلی میں سات روز تک مسلسل کورم پورا نہ ہونے پر اجلاس ملتوی کرنا پڑا ہو، مگر جب حکومت کو ضرورت پڑی تو اجلاس کا کورم پورا ہوگیا اور اپوزیشن کی غیر موجودگی میں حکومت نے اپنی من مانی کے لیے الیکٹرک ووٹنگ مشین کو منظور کرانے کا فیصلہ حاصل کرلیا کیونکہ سینیٹ ای وی ایم کو مسترد کرچکی تھی اور حکومت کے پاس یہی راستہ رہ گیا تھا کہ وہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں مرضی کا فیصلہ لے جسے اپوزیشن متفقہ طور پر مسترد کرچکی ہو تو کوئی ایک جماعت صدر کے آرڈیننس کو کیسے مسترد کرا سکتی ہے جہاں حکومت کی مخالف جماعتیں بے بس اور حکومت کامیاب رہا کرتی ہے۔
وزرائے اعظم کی نظر میں قومی اسمبلی کی اہمیت اپنے انتخابات تک رہی ہے جہاں سے منتخب ہوکر میاں نواز شریف اور عمران خان نے مہینوں وہاں آنا گوارا نہیں کیا ہو۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف ایک سال بعد سینیٹ میں آئے تھے اور وزیر اعظم عمران خان نے بھی پارلیمنٹ کو نظرانداز کرنے کا ریکارڈ قائم کر رکھا ہے۔
سیاسی معاملات واقعی عدلیہ پر بوجھ اور وقت کا ضیاع ہے مگر جہاں حکومت اہم مسائل پر بھی پارلیمنٹ میں اپوزیشن کو اعتماد میں لینے پر یقین ہی نہ رکھتی ہو اور اپنے صدر کے ذریعے من مانی کرنے کے لیے دھڑا دھڑ آرڈیننس جاری کرا لیتی ہو اور اپوزیشن کو خود سے دور رکھ کر جمہوری نظام کے بجائے بادشاہت برقرار رکھنا چاہتی ہو تو اپوزیشن کے پاس کون سا راستہ باقی رہ جاتا ہے کہ وہ سیاسی معاملات آئینی طور پر حل کرانے کے لیے عدلیہ کے پاس نہ جائے؟
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ سیاسی معاملات میں عدلیہ کو شامل کرنا پارلیمنٹ کو کمزور کرنے کی ایک وجہ ہے۔ ایسے معاملے میں عدلیہ کا اختیار استعمال کرنا مفاد عامہ میں نہیں، کوئی سیاسی جماعت متاثر ہو تو پارلیمنٹ میں آرڈیننس مسترد کرسکتی ہے۔ توقع ہے کہ سیاسی جماعتیں پارلیمنٹ میں معاملات طے کریں گی۔
چیف جسٹس اسلام آباد کے یہ ریمارکس سو فیصد درست ہیں کیونکہ ملک میں پارلیمنٹ موجود ہے مگر اس پارلیمنٹ کو موجودہ حکومت مفاد عامہ کے بجائے اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنے پر یقین رکھتی ہے۔ افغانستان کے مسئلے کو پونے دو ماہ گزر جانے اور اپوزیشن کے مطالبے پر بھی حکومت نے پارلیمنٹ کا اجلاس نہیں بلایا اور ٹی ٹی پی کو معافی دینے جیسے اہم ترین مسئلے پر وزیر اعظم نے کہا ہے اس سلسلے میں کچھ گروپوں سے بات چیت چل رہی ہے بات نتیجہ خیز ہونے نہ ہونے کا کچھ نہیں کہہ سکتے۔
اس حساس معاملے پر پیپلز پارٹی نے حکومت سے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کا مطالبہ کیا ہے اور جاری مذاکرات کی شرائط سامنے لانے کا کہا ہے کیونکہ ٹی ٹی پی پر ہزاروں پاکستانیوں کے قتل کا الزام ہے جسے وزیر اعظم کی طرف سے نظرانداز کرنا شہدا کے ورثا کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہوگا۔
اپوزیشن ایوان صدر کو آرڈیننس فیکٹری قرار دے چکی ہے جس میں حکومتی احکام کی آئینی حیثیت بھی نہیں دیکھی جاتی اور حکومت کے ہر اقدام پر ایوان صدر آرڈیننس جاری کردیتا ہے۔ اس سلسلے میں عدلیہ کے فیصلے صدر مملکت کے جاری آرڈیننس کے خلاف بھی آچکے ہیں جس سے ایوان صدر کی سبکی ہوچکی ہے جس کی ایک مثال سپریم کورٹ کے جج جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ایوان صدر سے بھیجا جانے والا ایک ریفرنس بھی ہے مگر ایوان صدر میں حکومت کے بھیجے گئے غیر آئینی معاملات پر بھی غور نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے ایوان صدر کی غیر جانبداری پر حرف آ رہا ہے۔ پارلیمنٹ میں صدر مملکت کے خطاب پر اپوزیشن کا شدید ردعمل اس کا ثبوت ہے۔
پارلیمنٹ میں اپوزیشن سینیٹ میں اکثریت میں ہے اور قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کی معمولی اکثریت اپنے اتحادیوں کی وجہ سے ہے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے موقع پر بظاہر اپوزیشن کی اکثریت ہے مگر اپوزیشن کا کہنا ہے کہ حکومت نے پارلیمنٹ کے گزشتہ مشترکہ اجلاس میں اپنے اسپیکر کی مدد سے ارکان کی گنتی کے موقع پر درست رائے شماری نہیں کرائی تھی اور اپوزیشن کی واضح مخالفت کے باوجود غلط گنتی سے من مانی کرکے فیصلہ حاصل کرلیا تھا۔
چیف جسٹس اسلام آباد کا کہنا ہے کہ سینیٹ میں اپوزیشن کی اکثریت ہے مگر یہ وہی سینیٹ ہے جہاں چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی حمایت میں 61 سینیٹروں نے کھڑے ہو کر رائے دی تھی مگر خفیہ رائے شماری میں وہ پچاس ظاہر ہوئے تھے اور تحریک ناکام ہوگئی تھی۔ فاضل چیف جسٹس اصولی طور پر پارلیمنٹ کی اہمیت پر یقین رکھتے ہیں اور سیاسی جماعتوں کو اپنے معاملات عدالتوں میں لانے کے بجائے پارلیمنٹ کے ذریعے حل کرانے کا کہہ رہے ہیں جو درست بھی ہے مگر یہ کام ان پارلیمنٹ میں ہوتے ہیں جہاں کے ارکان پارلیمنٹ اور حکومت خود پارلیمنٹ کو عزت دیتے ہوں جہاں کبھی کورم کے مسئلے نہیں ہوتے۔
ان باوقار پارلیمنٹ میں خود وزیر اعظم باقاعدگی سے آتے ہوں۔ دنیا کی کسی پارلیمنٹ میں ایسا نہیں ہوا ہوگا جہاں قومی اسمبلی میں سات روز تک مسلسل کورم پورا نہ ہونے پر اجلاس ملتوی کرنا پڑا ہو، مگر جب حکومت کو ضرورت پڑی تو اجلاس کا کورم پورا ہوگیا اور اپوزیشن کی غیر موجودگی میں حکومت نے اپنی من مانی کے لیے الیکٹرک ووٹنگ مشین کو منظور کرانے کا فیصلہ حاصل کرلیا کیونکہ سینیٹ ای وی ایم کو مسترد کرچکی تھی اور حکومت کے پاس یہی راستہ رہ گیا تھا کہ وہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں مرضی کا فیصلہ لے جسے اپوزیشن متفقہ طور پر مسترد کرچکی ہو تو کوئی ایک جماعت صدر کے آرڈیننس کو کیسے مسترد کرا سکتی ہے جہاں حکومت کی مخالف جماعتیں بے بس اور حکومت کامیاب رہا کرتی ہے۔
وزرائے اعظم کی نظر میں قومی اسمبلی کی اہمیت اپنے انتخابات تک رہی ہے جہاں سے منتخب ہوکر میاں نواز شریف اور عمران خان نے مہینوں وہاں آنا گوارا نہیں کیا ہو۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف ایک سال بعد سینیٹ میں آئے تھے اور وزیر اعظم عمران خان نے بھی پارلیمنٹ کو نظرانداز کرنے کا ریکارڈ قائم کر رکھا ہے۔
سیاسی معاملات واقعی عدلیہ پر بوجھ اور وقت کا ضیاع ہے مگر جہاں حکومت اہم مسائل پر بھی پارلیمنٹ میں اپوزیشن کو اعتماد میں لینے پر یقین ہی نہ رکھتی ہو اور اپنے صدر کے ذریعے من مانی کرنے کے لیے دھڑا دھڑ آرڈیننس جاری کرا لیتی ہو اور اپوزیشن کو خود سے دور رکھ کر جمہوری نظام کے بجائے بادشاہت برقرار رکھنا چاہتی ہو تو اپوزیشن کے پاس کون سا راستہ باقی رہ جاتا ہے کہ وہ سیاسی معاملات آئینی طور پر حل کرانے کے لیے عدلیہ کے پاس نہ جائے؟