خدافراموشی سے والدین فراموشی تک
آج کا انتہائی ترقی یافتہ چین بدل چکا ہے اور تیزی سے تبدیلی کے دھاروں کی زد میں ہے۔
ISLAMABAD:
''اور تمہارے پروردگار نے ارشادہے کہ اُس کے سِوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے رہو۔
اگر اُن میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اُن کو اُف تک نہ کہنا اور نہ اُنہیں جھڑکنا اور اُن سے ادب کے ساتھ بات کرنا۔''٭'' اور عجزونیاز سے اُن کے آگے جُھکے رہو اور اُن کے حق میں دعا کرو کہ اے پروردگار جیسااُنھوں نے مجھے بچپن میں(شفقت سے)پرورش کیاتُوبھی اُن(کے حال) پر رحمت فرما۔''(سورۃ بنی اسرائیل،آیت23،24)اللہ کے آخری رسول نبی کریمؐ کے بھی ہمیں کئی ارشادات ملتے ہیں جن میں سختی سے فرمایاگیا ہے کہ والدین،خصوصاً جب وہ بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں،کی خدمت ازبس ضروری ہے۔نبی آخرالزماںؐ کا یہ پیارا قول تو ہم سب کو یاد ہے کہ والدین کی طرف محبت سے اور مسکرا کر دیکھنا بھی حج ایسے عظیم ثواب کے مترادف ہے۔
ایک صحابی رسولؐ کی اِس لیے بے پناہ فضیلت بیان کی گئی کہ وہ اپنے نہایت بوڑھے اور نابینا والدین کی خدمت دل وجان سے کرتے تھے۔ایک حدیثِ قدسی یوں بھی ہے:''جس شخص نے اپنے والدین کو خوش کیا،اُس نے خدا کو خوش کیا اور جس نے ماں باپ کو ناراض کیا،اُس نے خدا کو ناراض کیا۔''
وزیرِاعظم جناب راجہ پرویزاشرف کے ساتھ چین آئے آج ہمارا دوسرا دن ہے اور والدین کی یاد چھم کرکے آگئی ہے۔ساتھ ہی قرآنِ کریم کی چند آیاتِ کریمہ اور احادیثِ مبارکہ بھی یاد آکر دل ودماغ کو معطر کرگئی ہیں۔دراصل ابھی ابھی مَیں نے یہاں ایک انگریزی اخبار میں ضعیف چینی والدین اور جوان چینی اولاد کے درمیان پیدا ہونے والی ایک افسوسناک خلیج کے بارے میں تفصیلی رپورٹ پڑھی ہے اور دل اُداس ہوکر رہ گیا ہے۔اکیسویں صدی کے اِن رواں برسوں میں آبادی کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی مملکت میں ماں باپ اور بچوں کے درمیان روایتی رشتے کمزور بھی ہورہے ہیں اور شکست وریخت کا شکار بھی ہیں۔
چینی حکومت اِس معاشرتی زوال پر بجا طور پر حیرت زدہ بھی ہے اور پریشان بھی۔دراصل یہ جدید ترین ٹیکنالوجیکل دَور کا بھیانک ''تحفہ'' ہے۔تقریباً چھ صدیاں قبل چین میں GUO JUJING نامی ایک چینی مصنف نے ایک شاندار کتاب لکھی جس میں مختصر داستانوں کی شکل میں والدین کی اولاد کے لیے اور اولاد کی والدین کے لیے قربانیوں کا ذکر کیاگیا ہے۔نسل درنسل سنائی جانے والی اِن داستانوں کا مقصد یہ تھا کہ والدین اور بچوں کے درمیان باہمی محبت واحترام اور ایثار کا جذبہ مضبوطی سے قائم رہے۔ہم اِس مصنف (گوجُوجِنگ) کو چین کا شیخ سعدیؒ قرار دے سکتے ہیں۔
جُو جِنگ کی یہ کہانیاں دل کو چھو لینے والی ہیں۔ایک کہانی میں بتایاگیا ہے کہ کس طرح ایک جواں سال بیٹی اپنا کلیجہ نکال کر اپنی بیمار اور بھوک کی ماری والدہ کی خدمت میں پیش کرتی ہے۔کس طرح ایک نوخیز بیٹا ننگے بدن ساری رات اِس لیے گزاردیتا ہے تاکہ زہریلے مچھر اُس کے ننگے جسم کو کاٹتے رہیں مگر والدین کی طرف رُخ نہ کریں۔ایک اور کہانی میں بتایاگیا ہے کہ کس طرح ایک وفاشعار بیٹا خود کو جاگیردار کے ہاتھ فروخت کرکے اپنے والدین کے کفن دفن کا بندوبست کرتا ہے۔
لیکن آج کا انتہائی ترقی یافتہ چین بدل چکا ہے اور تیزی سے تبدیلی کے دھاروں کی زد میں ہے۔جدید سے جدید تر ٹیکنالوجی اور زندگی کے بہترین مواقع تلاش کرنے کے لیے چینی دیہات خالی ہورہے ہیں اور نوجوان چینی اپنے والدین کو فراموش کرتے جارہے ہیں۔والدین سے محبت،وفاشعاری اور اُن کی خدمت کاری داستانِ پارینہ بنتی جارہی ہیں۔یقیناً چین ایک لادین ریاست ہے جو کسی بھی قسم کے مذہبی بندھنوں سے آزاد ہے لیکن اخلاقی اور روایتی طور پر چینی ہمیشہ اپنے والدین کی عزت واکرام میں کوئی فرق نہیں آنے دیتے تھے لیکن اب چینیوں کا رنگ بدل رہا ہے۔''انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون'' کے جن دو رپورٹروں،اینڈریو جیکبس و ایڈم سینچری،نے چینی نوجوان نسل اور بوڑھے والدین کے درمیان پیدا ہونے والے فاصلوں اور نظراندازی کی تصویرکشی کی ہے،وہ خاصی بھیانک اور تشویشناک ہے۔
چین میں اب یہ ''فیشن''بنتاجارہا ہے کہ جوان اولاد تلاشِ معاش اور بہترزندگی کی تمنا میں دیہاتوں اور قصبات سے نکل کر دور دراز کے اُن شہروں میں منتقل ہورہے ہیں جہاں اچھی نوکریاں بھی ہیں اور بزنس بھی خوب ہے لیکن پیچھے بوڑھے اور بیمار والدین کا کوئی پُرسان حال نہیں ہے۔اولاد اپنے منتظروالدین کو فون کرنے کا تکلف بھی گوارا نہیں کررہی۔مثلاً:بیجنگ میں فروٹ کا کاروبار کرنے والے ژینگ یانگ،جس کا تعلق بیجنگ سے جنوب میں ساڑھے چھ سو کلومیٹر دُور واقع حنان صوبے سے ہے،کاکہنا ہے کہ گزشتہ سال مَیں چارسال کے بعد اپنے بوڑھے والدین کو ملنے گیا:''مجھے شرم تو بہت آئی مگر کیاکروں؟ یہاں بیجنگ میں میرا کاروبار بھی خوب چل رہا ہے اور منافع بھی خاصا ہے۔اِس میں والدین کو بُھول ہی جاتا ہوں لیکن احساسِ جرم میرا پیچھا نہیں چھوڑتا۔''
واقعہ بھی یہی ہے کہ والدین کی تیمارداری نہ کرنا، انھیں ملنے سے اعراض برتنا اور اُن کی بار بار خیریت دریافت نہ کرنا ایک جُرم ہی تو ہے لیکن اِس جُرم کو جدید نوجوان چینی طبقات یہ کہہ کر دبانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں: ''کیا کریں،ٹائم ہی نہیں ملتا۔''چینی میں روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی معاشی بوجھ کی شکل میں اولاد اور والدین کے درمیان رکاوٹ بنتی جارہی ہے۔بتایاگیا ہے کہ چین میں پچاس فیصد ایسے دیہات اور قصبات ہیں جہاں صرف بوڑھے اور ضعیف (اور منتظربھی) والدین زندگی گزار رہے ہیں۔تنہائی اور ناپُرسانی کے عناصر اُن کی زندگیاں تیزی سے چاٹ رہے ہیں۔
چن ژونیا ایک نوجوان خاتون کا کہنا ہے:''میری زندگی شہروں میں اچھی ملازمت تلاش کرنے اور والدین کی خدمت کرنے میں بٹ گئی ہے۔'' چن کا تعلق چینی دارالحکومت سے بہت دور واقع ژی جیان صوبے سے ہے اور وہ بیجنگ کی ایک فرم میں تعلقات عامہ کا کام کررہی ہے۔اُس کا کہنا ہے:''مَیں جب بھی والدین کو ملنے جاتی ہوں'یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ پہلے سے کہیں زیادہ ضعیف اور ناتواں ہوچکے ہیں۔دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے لیکن مَیں ہمہ وقت اُن کے قریب رہ کرخدمت نہیں کرسکتی۔نوکری کا جبر ہی ایسا ہے۔ یہ بھاگ دوڑ میرے پیشہ وارانہ مورال پرنہایت منفی اثرات مرتب کررہا ہے۔''
70ء کے عشرے کے آس پاس چینی کمونسٹ حکومت نے فیصلہ کیاتھا کہ شادی شدہ جوڑا صرف ایک بچہ پیدا کرسکتا ہے۔اِس حکم پر سختی سے عمل کرایاگیا۔بے پناہ آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے یہ فیصلہ اچھا توتھا لیکن اِس کے منفی اثرات اب ظاہر ہونے لگے ہیں۔صرف ایک بیٹی یا بیٹا اپنے والدین کا بھلا کہاں تک خیال رکھ سکتا ہے؟ اور جب ایک بچہ تلاشِ معاش میں اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہوتا ہے تو پیچھے رہ جانے والے والدین کی ٹیک کیئر کون کرے گا؟ یہ ایسا گمبھیر مسئلہ ہے جس کا کوئی حل سامنے نہیں آرہا۔بتایاجاتا ہے کہ جدید چین کے تقریباً252ملین افراد ہرسال آبائی دیہاتوں اور قصبوں کو چھوڑتے جارہے ہیں۔
رواں لمحوں میں چین میں 60سال کی عمر کے افراد کی تعداد9کروڑ ہے۔ اور 2050ء تک ان کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہوجائے گا۔یہ اعداد وشمار چینی حکومت کے لیے نہایت پریشانی کا باعث بن رہے ہیں۔خصوصاً اولاد کی بوڑھے والدین سے دُوری چینی سرکار کے لیے دردِ سر بن رہی ہے۔غالباً یہی وجہ ہے کہ آج کل چین کی ''نیشنل پیپلزکانگریس'' میں ایک قانون بنانے پر سنجیدگی سے غورکیاجارہا ہے کہ کس طرح چینی نوجوان نسل کوبوڑھے والدین کے قریب رکھنے اور اُن کی خیر خیریت دریافت کرنے پر مجبور کیاجاسکتا ہے۔
توازن ہی دراصل زندگی کا حُسن ہے۔یہی عنصر پوری کائنات کو رواں دواں اور زندہ رکھے ہوئے ہے۔جس گھڑی یہ توازن بگڑا، اُسی لمحے یہ کائنات تباہی کا شکار ہوجائے گی۔شاید یہ تباہی قیامت کہلائے گی۔مغربی ممالک اور بے دین چین میں اولاد اور والدین کے درمیان جو خلیج جنم لے چکی ہے،یہ دراصل غیرمتوازن اصول وضوابط کا نتیجہ ہے۔ایک بار پھر ہمیں قرآنِ حکیم کے احکامات یاد آتے ہیں اور دل کی کلی کِھل جاتی ہے:''اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ اُس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے رہو۔اگر اُن میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اُن کو اُف تک نہ کہنا اور نہ اُنہیں جھڑکنا اور اُن سے ادب کے ساتھ بات کرنا۔''
''اور تمہارے پروردگار نے ارشادہے کہ اُس کے سِوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے رہو۔
اگر اُن میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اُن کو اُف تک نہ کہنا اور نہ اُنہیں جھڑکنا اور اُن سے ادب کے ساتھ بات کرنا۔''٭'' اور عجزونیاز سے اُن کے آگے جُھکے رہو اور اُن کے حق میں دعا کرو کہ اے پروردگار جیسااُنھوں نے مجھے بچپن میں(شفقت سے)پرورش کیاتُوبھی اُن(کے حال) پر رحمت فرما۔''(سورۃ بنی اسرائیل،آیت23،24)اللہ کے آخری رسول نبی کریمؐ کے بھی ہمیں کئی ارشادات ملتے ہیں جن میں سختی سے فرمایاگیا ہے کہ والدین،خصوصاً جب وہ بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں،کی خدمت ازبس ضروری ہے۔نبی آخرالزماںؐ کا یہ پیارا قول تو ہم سب کو یاد ہے کہ والدین کی طرف محبت سے اور مسکرا کر دیکھنا بھی حج ایسے عظیم ثواب کے مترادف ہے۔
ایک صحابی رسولؐ کی اِس لیے بے پناہ فضیلت بیان کی گئی کہ وہ اپنے نہایت بوڑھے اور نابینا والدین کی خدمت دل وجان سے کرتے تھے۔ایک حدیثِ قدسی یوں بھی ہے:''جس شخص نے اپنے والدین کو خوش کیا،اُس نے خدا کو خوش کیا اور جس نے ماں باپ کو ناراض کیا،اُس نے خدا کو ناراض کیا۔''
وزیرِاعظم جناب راجہ پرویزاشرف کے ساتھ چین آئے آج ہمارا دوسرا دن ہے اور والدین کی یاد چھم کرکے آگئی ہے۔ساتھ ہی قرآنِ کریم کی چند آیاتِ کریمہ اور احادیثِ مبارکہ بھی یاد آکر دل ودماغ کو معطر کرگئی ہیں۔دراصل ابھی ابھی مَیں نے یہاں ایک انگریزی اخبار میں ضعیف چینی والدین اور جوان چینی اولاد کے درمیان پیدا ہونے والی ایک افسوسناک خلیج کے بارے میں تفصیلی رپورٹ پڑھی ہے اور دل اُداس ہوکر رہ گیا ہے۔اکیسویں صدی کے اِن رواں برسوں میں آبادی کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی مملکت میں ماں باپ اور بچوں کے درمیان روایتی رشتے کمزور بھی ہورہے ہیں اور شکست وریخت کا شکار بھی ہیں۔
چینی حکومت اِس معاشرتی زوال پر بجا طور پر حیرت زدہ بھی ہے اور پریشان بھی۔دراصل یہ جدید ترین ٹیکنالوجیکل دَور کا بھیانک ''تحفہ'' ہے۔تقریباً چھ صدیاں قبل چین میں GUO JUJING نامی ایک چینی مصنف نے ایک شاندار کتاب لکھی جس میں مختصر داستانوں کی شکل میں والدین کی اولاد کے لیے اور اولاد کی والدین کے لیے قربانیوں کا ذکر کیاگیا ہے۔نسل درنسل سنائی جانے والی اِن داستانوں کا مقصد یہ تھا کہ والدین اور بچوں کے درمیان باہمی محبت واحترام اور ایثار کا جذبہ مضبوطی سے قائم رہے۔ہم اِس مصنف (گوجُوجِنگ) کو چین کا شیخ سعدیؒ قرار دے سکتے ہیں۔
جُو جِنگ کی یہ کہانیاں دل کو چھو لینے والی ہیں۔ایک کہانی میں بتایاگیا ہے کہ کس طرح ایک جواں سال بیٹی اپنا کلیجہ نکال کر اپنی بیمار اور بھوک کی ماری والدہ کی خدمت میں پیش کرتی ہے۔کس طرح ایک نوخیز بیٹا ننگے بدن ساری رات اِس لیے گزاردیتا ہے تاکہ زہریلے مچھر اُس کے ننگے جسم کو کاٹتے رہیں مگر والدین کی طرف رُخ نہ کریں۔ایک اور کہانی میں بتایاگیا ہے کہ کس طرح ایک وفاشعار بیٹا خود کو جاگیردار کے ہاتھ فروخت کرکے اپنے والدین کے کفن دفن کا بندوبست کرتا ہے۔
لیکن آج کا انتہائی ترقی یافتہ چین بدل چکا ہے اور تیزی سے تبدیلی کے دھاروں کی زد میں ہے۔جدید سے جدید تر ٹیکنالوجی اور زندگی کے بہترین مواقع تلاش کرنے کے لیے چینی دیہات خالی ہورہے ہیں اور نوجوان چینی اپنے والدین کو فراموش کرتے جارہے ہیں۔والدین سے محبت،وفاشعاری اور اُن کی خدمت کاری داستانِ پارینہ بنتی جارہی ہیں۔یقیناً چین ایک لادین ریاست ہے جو کسی بھی قسم کے مذہبی بندھنوں سے آزاد ہے لیکن اخلاقی اور روایتی طور پر چینی ہمیشہ اپنے والدین کی عزت واکرام میں کوئی فرق نہیں آنے دیتے تھے لیکن اب چینیوں کا رنگ بدل رہا ہے۔''انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون'' کے جن دو رپورٹروں،اینڈریو جیکبس و ایڈم سینچری،نے چینی نوجوان نسل اور بوڑھے والدین کے درمیان پیدا ہونے والے فاصلوں اور نظراندازی کی تصویرکشی کی ہے،وہ خاصی بھیانک اور تشویشناک ہے۔
چین میں اب یہ ''فیشن''بنتاجارہا ہے کہ جوان اولاد تلاشِ معاش اور بہترزندگی کی تمنا میں دیہاتوں اور قصبات سے نکل کر دور دراز کے اُن شہروں میں منتقل ہورہے ہیں جہاں اچھی نوکریاں بھی ہیں اور بزنس بھی خوب ہے لیکن پیچھے بوڑھے اور بیمار والدین کا کوئی پُرسان حال نہیں ہے۔اولاد اپنے منتظروالدین کو فون کرنے کا تکلف بھی گوارا نہیں کررہی۔مثلاً:بیجنگ میں فروٹ کا کاروبار کرنے والے ژینگ یانگ،جس کا تعلق بیجنگ سے جنوب میں ساڑھے چھ سو کلومیٹر دُور واقع حنان صوبے سے ہے،کاکہنا ہے کہ گزشتہ سال مَیں چارسال کے بعد اپنے بوڑھے والدین کو ملنے گیا:''مجھے شرم تو بہت آئی مگر کیاکروں؟ یہاں بیجنگ میں میرا کاروبار بھی خوب چل رہا ہے اور منافع بھی خاصا ہے۔اِس میں والدین کو بُھول ہی جاتا ہوں لیکن احساسِ جرم میرا پیچھا نہیں چھوڑتا۔''
واقعہ بھی یہی ہے کہ والدین کی تیمارداری نہ کرنا، انھیں ملنے سے اعراض برتنا اور اُن کی بار بار خیریت دریافت نہ کرنا ایک جُرم ہی تو ہے لیکن اِس جُرم کو جدید نوجوان چینی طبقات یہ کہہ کر دبانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں: ''کیا کریں،ٹائم ہی نہیں ملتا۔''چینی میں روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی معاشی بوجھ کی شکل میں اولاد اور والدین کے درمیان رکاوٹ بنتی جارہی ہے۔بتایاگیا ہے کہ چین میں پچاس فیصد ایسے دیہات اور قصبات ہیں جہاں صرف بوڑھے اور ضعیف (اور منتظربھی) والدین زندگی گزار رہے ہیں۔تنہائی اور ناپُرسانی کے عناصر اُن کی زندگیاں تیزی سے چاٹ رہے ہیں۔
چن ژونیا ایک نوجوان خاتون کا کہنا ہے:''میری زندگی شہروں میں اچھی ملازمت تلاش کرنے اور والدین کی خدمت کرنے میں بٹ گئی ہے۔'' چن کا تعلق چینی دارالحکومت سے بہت دور واقع ژی جیان صوبے سے ہے اور وہ بیجنگ کی ایک فرم میں تعلقات عامہ کا کام کررہی ہے۔اُس کا کہنا ہے:''مَیں جب بھی والدین کو ملنے جاتی ہوں'یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ پہلے سے کہیں زیادہ ضعیف اور ناتواں ہوچکے ہیں۔دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے لیکن مَیں ہمہ وقت اُن کے قریب رہ کرخدمت نہیں کرسکتی۔نوکری کا جبر ہی ایسا ہے۔ یہ بھاگ دوڑ میرے پیشہ وارانہ مورال پرنہایت منفی اثرات مرتب کررہا ہے۔''
70ء کے عشرے کے آس پاس چینی کمونسٹ حکومت نے فیصلہ کیاتھا کہ شادی شدہ جوڑا صرف ایک بچہ پیدا کرسکتا ہے۔اِس حکم پر سختی سے عمل کرایاگیا۔بے پناہ آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے یہ فیصلہ اچھا توتھا لیکن اِس کے منفی اثرات اب ظاہر ہونے لگے ہیں۔صرف ایک بیٹی یا بیٹا اپنے والدین کا بھلا کہاں تک خیال رکھ سکتا ہے؟ اور جب ایک بچہ تلاشِ معاش میں اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہوتا ہے تو پیچھے رہ جانے والے والدین کی ٹیک کیئر کون کرے گا؟ یہ ایسا گمبھیر مسئلہ ہے جس کا کوئی حل سامنے نہیں آرہا۔بتایاجاتا ہے کہ جدید چین کے تقریباً252ملین افراد ہرسال آبائی دیہاتوں اور قصبوں کو چھوڑتے جارہے ہیں۔
رواں لمحوں میں چین میں 60سال کی عمر کے افراد کی تعداد9کروڑ ہے۔ اور 2050ء تک ان کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہوجائے گا۔یہ اعداد وشمار چینی حکومت کے لیے نہایت پریشانی کا باعث بن رہے ہیں۔خصوصاً اولاد کی بوڑھے والدین سے دُوری چینی سرکار کے لیے دردِ سر بن رہی ہے۔غالباً یہی وجہ ہے کہ آج کل چین کی ''نیشنل پیپلزکانگریس'' میں ایک قانون بنانے پر سنجیدگی سے غورکیاجارہا ہے کہ کس طرح چینی نوجوان نسل کوبوڑھے والدین کے قریب رکھنے اور اُن کی خیر خیریت دریافت کرنے پر مجبور کیاجاسکتا ہے۔
توازن ہی دراصل زندگی کا حُسن ہے۔یہی عنصر پوری کائنات کو رواں دواں اور زندہ رکھے ہوئے ہے۔جس گھڑی یہ توازن بگڑا، اُسی لمحے یہ کائنات تباہی کا شکار ہوجائے گی۔شاید یہ تباہی قیامت کہلائے گی۔مغربی ممالک اور بے دین چین میں اولاد اور والدین کے درمیان جو خلیج جنم لے چکی ہے،یہ دراصل غیرمتوازن اصول وضوابط کا نتیجہ ہے۔ایک بار پھر ہمیں قرآنِ حکیم کے احکامات یاد آتے ہیں اور دل کی کلی کِھل جاتی ہے:''اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ اُس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے رہو۔اگر اُن میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اُن کو اُف تک نہ کہنا اور نہ اُنہیں جھڑکنا اور اُن سے ادب کے ساتھ بات کرنا۔''