ڈاکٹروں کی آمدن اور ٹیکس

سرکاری اسپتالوں کے سرکاری ملازم ڈاکٹروں کو پرائیویٹ پریکٹس کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

msuherwardy@gmail.com

ایک گزشتہ کالم میں، میں نے ڈاکٹروں کے ٹیکس نیٹ کے حوالے سے لکھاتھا۔ میری تجویز تھی کہ سینئر ڈاکٹروں کے پرائیویٹ کلینکس کو بھی پوائنٹ آف سیلز قرار دیکر ان کی آمدنی کو بھی ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔

سینئر ڈاکٹروں کی پرائیویٹ پریکٹس کی آمدن آج بھی پاکستان میں ٹیکس کے دائرہ کار سے باہر ہے۔ اسی لیے اکثر ڈ اکٹرز فیس لیتے وقت نہ تو کوئی رسید دیتے ہیں اور نہ ہی اس فیس پر کوئی ٹیکس دیتے ہیں۔ اس لیے اس ضمن میں ایف بی آر کو اقدامات کرنے چاہیے۔

کورونا نے پاکستان ہی نہیں بلکہ عالمی معیشت کو بھی متاثر کیا ہے۔ تاہم پاکستان میں کورونا نے میڈیسن کمپنیوں ' ڈسٹری بیوٹرز اور ڈاکٹروں کی چاندی کر دی ہے۔ پرائیویٹ پریکٹس کو دن دگنی ترقی دی ہے۔ ان کی آمدنی میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ بلکہ مالی ڈکیتیوں میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ ایک طرف سرکاری اسپتالوں میں کورونا کی وجہ سے بہت سی بیماریوں کا علاج بند ہے۔

مریضوں کے آپریشن نہیں کیے جا رہے۔ سرکاری اسپتالوں کے آؤٹ ڈور میں ڈاکٹر کورونا کی وجہ سے مریضوں کو نہیں دیکھ رہے۔ جب کہ دوسری طرف اپنے پرائیویٹ کلینکس میں نہ صرف مریضوں کو دیکھ رہے ہیں بلکہ ریٹ بھی بڑھا دیے ہیں۔

سرکاری اسپتالوں میں کورونا کو وجہ بنا کر مریضوں کے آپریشن نہیں کیے جا رہے ہیں جب کہ انھیں مریضوں کے پرائیویٹ اسپتالوں میں لاکھوں روپے لے کر آپریشن کیے جا رہے ہیں۔ وہی ڈاکٹر سرکاری اسپتال میں کورونا کی وجہ سے مریضوں کو ہاتھ لگانے کے لیے بھی تیار نہیں جب کہ پرائیویٹ کلینک میں مریضوں کو دیکھنے کے لیے تیار ہے۔

ہماری حکومت مکمل خاموش ہے۔ لوگوں کی مجبوریاں کا فائدہ اٹھا کر انھیں لوٹا جا رہا ہے۔ ویسے بھی پاکستان میں ڈ اکٹر مافیا ہمیشہ سے اس قدر مضبوط رہا ہے کہ کوئی بھی حکومت ان کو ریگولیٹ کرنے میں ناکام رہی ہے۔

لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان میں کریمینل مافیا بہت مضبوط ہے۔ کوئی کہتا ہے ڈرگ مافیا بہت مضبوط ہے لیکن ڈاکٹر مافیا بھی کم طاقتور نہیں ہے۔ ویسے تو ہماری حکومت کورونا ٹیسٹ کی قیمت مقرر کرنے میں بھی ناکام رہی ہے۔ پرائیویٹ لیبارٹریوں نے منہ مانگی قیمت پرکورونا ٹیسٹ کیے ہیں۔ اور لوگوں کو خوب لوٹا ہے۔ لہٰذا حکومت سے کیا توقع کی جا سکتی ہے۔

میں کسی ایک اسپتال یا شہر کے بارے میں نہیں لکھ رہا ۔ ایک عمومی صورتحال کے بارے میں لکھ رہا ہوں۔ ایسا پورے پاکستان میں ہو رہا ہے۔ سارے پاکستانیوں کے ساتھ یہی سلوک ہو رہا ہے۔ اس کا مقصد کسی کو ہدف بنانا نہیں۔

گزشتہ دنوں لاہور میں ایک ای این ٹی پروفیسر کے پاس ایک مریض گیا۔ محترم پروفیسر صاحب سرکاری میڈیکل کالج کے پرنسپل بھی رہ چکے ہیں۔ آج کل کورونا کی وجہ سے سرکاری اسپتال میں مریضوں کو نہیں دیکھ رہے ۔ اس لیے ان کے پرائیویٹ کلینک پر رش بڑھ گیا ہے۔ ان سے وقت لینے کے لیے بھی سفارش کی ضرورت پڑتی ہے۔ انھیں ایک مریض کو دکھایا گیا۔


ان کی تشخیص کے مطابق مریض کے کانوں کے پردے متاثر ہو گئے تھے جس کے فوری آپریشن کی ضرورت بتائی گئی۔ پروفیسر صاحب نے آپریشن کے لیے اپنی فیس تین لاکھ روپے مانگی۔ مریض غریب تھا پہلے ہی مشورہ فیس تین ہزار مشکل سے دے رہا تھا بیچارہ تین لاکھ کہاں سے دیتا۔

مریض نے سفارش کروائی کہ اس کا آپریشن پرائیویٹ اسپتال کے بجائے اس سرکاری اسپتال میں کر دیا جائے جہاں پروفیسر صاحب خود بھی ملازم ہیں۔ یہ سن کر پروفیسر صاحب غصہ میں آگئے اور انھوں نے کہا کہ سرکاری اسپتال میں کورونا کی وجہ سے آپریشن بند ہیں۔ اور ابھی چھ ماہ بند ہی رہیں گے۔اس لیے اگر آپریشن کروانا ہے تو پرائیویٹ کروالیں ورنہ میرا ٹائم ضایع نہ کریں۔

میں یہاں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ یہ تین لاکھ روپے صرف ڈاکٹر صاحب کی فیس تھی۔ اس میں آپریشن کے لیے پرائیویٹ اسپتال کے تھیٹر چارجز اور دیگر اخراجات شامل نہیں تھے۔ جب مریض نے ڈاکٹر سے پوچھا کہ کیا میں چھ ماہ انتظار کر سکتا ہوں تو ڈاکٹر صاحب نے کہا دیکھ لیں انتظار کر لیں لیکن پھر آپ کی قوت سماعت مکمل طور پر ختم ہو جائے گی۔

آپ کبھی سن نہیں سکیں گے۔ اب اس ایک مثال سے آپ اندازہ لگا لیں ڈاکٹروں نے کورونا کے دوران لوگوں کو کیسے لوٹا ہے۔ ان کی مجبوریوں کا کیسے فائدہ اٹھایا ہے۔ اور عوام کا کس قدر استحصال کیا ہے۔ یہ پاکستان کے معاشرہ کے مہذب اور پڑھے لکھے لوگ ہیں لیکن اپنی فطرت میں کتنے سنگ دل اور بے رحم ہیں۔ ان کی کوئی معافی نہیں ہونی چاہیے۔ پیسے کی لت نے ان کو اندھا کر دیا ہے۔

سوال یہ بھی ہے کہ یہ ڈاکٹر جو پرائیویٹ اسپتالوںمیں چھوٹی چھوٹی سرجریز کی فیس لاکھوں روپے وصول کر رہے ہیں۔ کیا وہ اس پر ٹیکس دے رہے ہیں۔ اسی طرح دل کے مریضوں کے ساتھ بھی یہی سلوک ہو رہا ہے۔ ان کو بھی پرائیویٹ اسپتالوں میں جانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ آنکھوں کے مریض بھی چھوٹی چھوٹی سرجریز کے لاکھوں روپے دینے پر مجبور ہیں۔ کیا اس سب کی پاکستان کے قانون اور آئین میں کوئی گنجائش ہے۔

پاکستان کی وفاقی اور صوبائی وزارت صحت کو اس مافیا کو بیماریوں کی قیمت پر ایک منافع بخش کاروبار کرنے سے روکنا ہوگا۔ ڈاکٹروں کو قصائی بننے سے روکنا ہوگا۔ کیوں پرائیویٹ اسپتالوں کے چارجز کو ریگولیٹ نہیں کیا جاتا۔ ٹیسٹ لیبارٹریز اپنی مرضی کے چارجز لیتی ہیں۔کیوں ڈاکٹروں کی فیسوں کوریگولیٹ نہیں کیا جاتا۔ کیوں ڈاکٹر اور پرائیویٹ اسپتال اس ملک میں ایک کارٹل کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ یہ ٹیکس نیٹ سے بھی کیوںباہر ہیں۔ کیوں پرائیویٹ اسپتالوں میں بھی لاکھوں روپے کی کچی رسیدیں دی جاتی ہیں۔

جب تک ایف بی آر ڈاکٹروں کے پرائیویٹ کلینکس کو پوائنٹ آف سیلز نہیں قرار دیتی تب تک یہ نظام ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ یہ ڈاکٹر کی صوابدید ہے کہ جس سے چاہے جتنی فیس لے حالانکہ یہ درست نہیں ہے لیکن اس پر اسے ٹیکس تو دینا چاہیے۔ پکی رسید تو دینی چاہیے۔ جس طرح باقی سب کاروبار میں ہے۔ جو مریض تین ہزار فیس دے رہا ہے۔ اس فیس سے سرکار کو بھی ٹیکس ملنا چاہیے۔ جب تک ڈاکٹروں کی آمدن ٹیکس نیٹ میں نہیں آئے گی تب تک نہ تو ملک کا ٹیکس کلچر ٹھیک ہو سکتا ہے۔ اور نہ ہی نظام صحت ٹھیک ہو سکتا ہے۔

سرکاری اسپتالوں کے سرکاری ملازم ڈاکٹروں کو پرائیویٹ پریکٹس کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ جس کو قبول ہے سرکاری نوکری کر لے جس کو نہیں قبول سرکاری اسپتال میں اپنے بورڈ کے بغیر پرائیویٹ پریکٹس چلا کر دکھائے۔ یہ سرکاری اسپتال ان ڈاکٹروں کے مارکیٹنگ کے دفاتر ہیں۔

جہاں سے ان کو مریض ملتے ہیں۔ اس لیے ایک طرف سرکاری نوکری سے بھی چمٹے رہتے ہیں اور دوسرے پرائیویٹ کلینک میں ان مریضوں کا استحصال بھی کرتے رہتے ہیں۔ اور ہماری حکومتیں اس سب پر خاموش تماشائی ہیں۔ کورونا سے پہلے سرکاری اسپتالوں میں پھر بھی علاج کی کچھ نہ کچھ سہولتیں ملتی تھیں۔ لیکن کورونا نے اب ڈاکٹروں کی ڈکیتیوں میں دن دگنی رات چگنی ترقی دی ہے۔ یہی حقیقت ہے۔
Load Next Story