خدارا اس قابل فخر ادارے کو تباہ نہ کریں
پاکستان کے پاس اس طرح کے قابلِ اعتماد اور قابلِ فخر ادارے آخر ہیں ہی کتنے۔
آج سے ربع صدی پہلے جب اُس وقت کے منتخب وزیرِاعظم نے ساؤتھ ایشیا کی سب سے معیاری اور خوبصورت شاہراہ یعنی لاہور تا اسلام آباد موٹروے کا افتتاح کیا تو اُس پر ٹریفک قوانین کے نفاذ کے لیے پولیس کی ضرورت محسوس ہوئی۔
سینئر پولیس افسروں کو بلا کر پوچھا گیا تو زیادہ تر نے ضلعی ٹریفک پولیس کے ذریعے قانون نافذ کرنے کا مشورہ دیا مگر وزیرِاعظم نے فیصلہ سنایا کہ ''نہیں اس جدید شاہراہ پر قوانین کے نفاذ کے لیے ایک جدید پولیس فورس بنائیں جن کی یونیفارم بھی الگ ہو اور جن کے پاس گاڑیاں بھی سفر کرنے والوں سے بہتر ہوں۔
جرمنی کی طرح امریکا کی موٹرویز پر چلنے والی ٹریفک پولیس کی طرح ''۔ پولیس افسروں نے کہا ''سر! اس پر تو اخراجات بہت آئیں گے'' وزیرِاعظم نے جواب دیا،'' آپ بجٹ بناکر لے آئیں''۔ آئی جی رینک کے افسران بجٹ بنا کر لے تو گئے، مگر انھیں یقین تھا کہ اتنی زیادہ رقم دیکھ کر وزیرِاعظم نوازشریف کہہ دیں گے ،''اس پر کمیٹی بنا دیتے ہیں جو جائزہ لے گی۔
فی الحال آپ جائیں، اس اِشو پر بعد میں غور کریں گے'' مگر وہ حیران رہ گئے جب انھوں نے دیکھا کہ وزیرِاعظم نے تمام اخراجات کی منظوری دے دی، بلکہ نئی پولیس فورس کی تنخواہ پنجاب پولیس سے دگنی مقرر کردی اور یہ بھی فیصلہ کردیا کہ تمام فورس موبائل ہوگی، ملازمین کو مہینے میں چار چھٹیاں ملیں گی، سال میں پانچ وردیاں مفت ملیں گی اور ہر چھ ماہ بعد جرمانے کی رقم میں سے نئی پولیس کے تمام افسروں کو انعامات دیے جائیں گے۔
وزیرِاعظم نے یہ تاکید بار بار کی،''آپ جتنی کہیں گے اس سے بڑھ کر مراعات دیں گے مگر موٹروے کی پولیس سے رشوت لینے اور مسافروں سے بدتمیزی کرنے کی شکایت نہیں آنی چاہیے''۔ اس طرح موٹروے پولیس قائم کردی گئی۔ آغاز میں پنجاب اور کے پی پولیس سے ملازمین لیے گئے اور انھیں ٹریننگ کے لیے جرمنی بھیجا جاتا رہا مگر تنخواہ میں اضافے، آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی، مہینے میں چار چھٹیوں اور پھر کونسلنگ اور موٹیویشن کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک بہترین ادارہ وجود میں آگیا۔
چند سالوں بعدموٹروے پر سفر کرنے والے خواتین و حضرات ملازمین کی خوش اخلاقی کی تعریف و تحسین کرنے لگے اور اس طرح کی کہانیا ں میڈیا پر نظر آنے لگیںکہ اس ملک میں ایک ایسی پولیس بھی ہے جو رشوت نہیں لیتی اور موٹروے پر آپ کی گاڑی خراب ہوجائے، ٹائر پنکچر ہوجائے یا انجن میں کوئی تیکنیکی خرابی ہوجائے تو موٹروے پولیس فوراً مدد کے لیے پہنچ جاتی ہے، پولیس افسران خود ہی ٹائر تبدیل کردیتے ہیں، کوئی اور خرابی ہو تو اسے بھی ٹھیک کرنے کے بعد آپ کی گاڑی کی چابی آپ کے حوالے کرتے ہیں ۔ آپ کو سیلیوٹ کرتے ہیں اور سفر بخیر کی دعا دے کر رخصت کردیتے ہیں۔
موٹروے پرحدِ رفتار متعین کردی گئی اور قوانین بنا دیے گئے کہ جو بھی حد کراس کرے گا اسے 750/- روپے جرمانہ کیا جائے گا۔ بسوں کے جرمانے کی رقم اس سے زیادہ رکھی گئی۔ جرمانے کی رقم پہلے بینک میں جمع کرائی جاتی تھی، پھر مسافروں ہی کے مطالبے پر موٹروے پولیس ہی جرمانے کی رقم اکٹھی کرنے لگی۔
جب گاڑیوں کی تعداد بڑھنے سے ٹریفک کا دباؤ زیادہ ہوگیاتوFine Collection کا فریضہ پرائیوٹ کمپنیوں کو دے دیا گیا۔ حکومت نے یہ بھی فیصلہ کردیا کہ جرمانے کی رقم میں سے آدھی نیشنل ہائی وے اتھارٹی کو ملے گی جسے وہ موٹروے کی مرمت اور maintenance پر خرچ کرے گی اور آدھی رقم موٹروے پولیس کے بجٹ میں جائے گی جو پولیس ملازمین کی ویلفیئر اور انعامات پر خرچ ہوگی تاکہ ان کا موٹیویشن لیول قائم رہے۔ یہ بندوبست ٹھیک طریقے سے چلتا رہا، پولیس ملازمین کو انعامات ملتے رہے، ان کا جوش و جذبہ قائم رہا اور اس کا امیج اور اچھی شہرت بھی قائم رہی۔
کسی بھی ادارے میں بہتری لانے کے بعد اس کا معیار قائم رکھنا سب سے بڑا چیلنچ ہوتا ہے۔ پندرہ سولہ سالوں میں اس ادارے کو چند کمزور اور کرپٹ سربراہوں نے نقصان بھی پہنچایا اور اس میں کچھ خامیاں اور خرابیاں در آئیں۔ 2013 میں جب راقم نے موٹروے پولیس کی کمان سنبھالی تو گراؤنڈ پر قانون کے نفاذ کی صورتِ حال غیر تسلی بخش تھی، گاڑیاں کھٹارہ ہوچکی تھیں، اتنے اہم ادارے کے تمام دفاتر اور پولیس لائنز کرائے کی عمارتوں یا ڈائیوو کمپنی کے خالی کردہ کواٹروں میں کام کررہی تھیں اور موٹیویشن لیول خاصا نیچے جا چکا تھا۔ کسی ادارے کے سربراہ کے لیے سب سے پہلا کام ٹیم کا انتخاب ہوتا ہے۔
پہلے ہفتے میں ہی پانچ سینئر افسروں کو فارغ کردیا گیا،اس کے بعد نچلی سطح کا گند صاف کیا گیااور بہترین افسروں پر مشتمل ٹیم بنائی گئی۔ ایمانداری، خوش اخلاقی اور مسافروں کی مدد کو ادارے کی بنیادی اقدار (Core Values) قرار دیا گیا۔
تربیت کا معیار بہتر بنانے کے لیے ٹریننگ کالج میں احسان صادق اور خرم شہزاد جیسے بہترین افسر تعینات کیے گئے، تربیتی اداروں کے علاوہ بھی ہر جگہ اور ہر میٹنگ میں Core Values پر بہت زیادہ زور دیا گیاحتیٰ کہ انھیں بتایا گیا کہ جس طرح مسلمان بننے کے لیے کلمہ طیبہ پر ایمان اور اقرار ضروری ہے اسی طرح Core Values اس ادارے کے لیے کلمے کی طرح ضروری ہیں۔ اس طرح ایمانداری اور خوش اخلاقی کی اہمیت اور فضیلت ان کے رگ وپے میں اُتاری گئی۔ ملازمین کی ویلفیئر کے لیے بجٹ میں بہت زیادہ اضافہ کیا گیا، کئی نئے دفاتر بنائے گئے، پہلی بار موٹر وے کو بطور لائسنسنگ اتھارٹی تسلیم کرایا گیا اور بین الاقوامی معیار کے زبانی اور عملی ٹیسٹوں کے بعد لائسنسوں کا اجراء شروع کیا گیا۔
موٹروے کے بانی وزیرِاعظم پھر ایک بار ملک کے چیف ایگزیگٹیو بن چکے تھے۔ ان سے منظوری لے کر تین سو نئی گاڑیاں خرید کر سڑکوں پر اُتاری گئیں۔ نئی موٹرویز بننے سے مزید فورس کی ضرورت پڑی جس کے لیے نئی اسامیاں منظور کرائی گئیںجن کی بھرتی فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ذریعے کرائی گئی۔ فیلڈ میں قانون کے نفاذ اور لین ڈسپلن کا معیار اتنا بلند ہوا کہ پشاور سے کراچی تک جی ٹی روڈ پر بھی ٹرک اور بسیں بائیں طرف چلنے لگیں اور کاروں اور چھوٹی گاڑیوں کو کھلا راستہ (free passage)ملنے لگا۔ ملکی معیشت اس وقت بھی دباؤ کا شکار تھی مگر جرمانے کی رقم میں سے موٹروے پولیس کے ملازمین میں انعامات کی بھاری رقوم تقسیم کی گئیں۔
تقسیمِ انعامات کی ایک تقریب ایوانِ صدر میں منعقد ہوئی جس میں پولیس افسروں نے صدرِ مملکت ممنون حسین صاحب کے ہاتھوںانعامات حاصل کیے اور دوسرے تقریب میں وزیرِاعظم میاں نواز شریف صاحب مہمانِ خصوصی تھے جس میں انھوں نے موٹروے پولیس کی 20%تنخواہ بڑھانے کا بھی اعلان کیا تھا۔ میری ریٹائرمنٹ کے کچھ سالوں بعد جب اے ڈی خواجہ(جو بڑے ایماندار اور قابل افسر ہیں)آئی جی مقرر ہوئے تو انھوں نے بھی اس ادارے کی بہتری کے لیے بہت محنت کی اور رولز بنوائے۔
مگر یہ جان کر دکھ بھی ہوا اور تشویش بھی کہ پچھلے کچھ سالوں سے تقسیمِ انعامات کی کوئی تقریب منعقد نہیں ہوسکی اور فنڈز کی کمی کے باعث گاڑیوں کو پٹرول نہیں ملتا جس سے پٹرولنگ بے حد متاثر ہوئی ہے، لگتا ہے کہ موجودہ حکومت نے غالباً ملک کے اس بہترین اور نیک نام ادارے کو بھی تباہ کرنے کی ٹھان لی ہے۔
اب یہ ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ جرمانوں کی رقم سے موٹروے پولیس کو ملنے والا حصہ ادارے کو نہیں دیا جائیگا بلکہ وہ رقم وزارتِ خزانہ وصول کریگی اور اس طرح ٹیکسوں کا ہدف پورا کرنے کے چکر میں ایک ایسے ادارے کو ان فنڈز سے محروم کیا جارہا ہے جو اس کو پہلے دن سے مل رہے ہیں اور جن کا اس کے امیج اور اچھی شہرت قائم کرنے میں بڑا اہم کردار ہے۔
میری حکمرانوں سے اپیل ہے کہ یہ ادارہ پوری قوم کے لیے عزت اورفخر کا موجب ہے ، خدارا اس ادارے کے فنڈز پر قبضہ کرکے اسے تباہ نہ کیجیے ، یہ فنڈز ادارے کے بجٹ میں ہی جانے چاہئیں تاکہ پولیس ملازمین کی ویلفیئر پر بھی اخراجات ہوتے رہیں اور انھیں فراخدلی سے انعامات بھی ملتے رہیں۔ اس کے علاوہ میں ایف ڈبلیو او کے سینئر افسران سے کہوں گا کہ آپ نے باتھ رومز بہت اچھے بنادیے ہیں جو قابلِ ستائش ہیں مگر سروس ایریاز میں صرف پاکستانی فوڈز کے ریستوران رہنے دیں، آپ نے تمام غیر ملکی فوڈ چین کی برانچز قائم کردی ہیں جو انتہائی نامناسب ہے۔
سروس ایریاز پاکستانی اور علاقائی کھانوں کی ترویج اور تشہیر کے لیے استعمال ہونے چاہئیں۔ موٹروے پولیس نے تمام ٹول پلازوں پر LEDs لگوائی تھیں جن پر روڈ سیفٹی کے پیغامات بھی چلتے رہتے تھے اور حب الوطنی کے میسج بھی چلتے تھے، وہ دوبارہ لگنی چاہئیں۔ تمام ٹول پلازوں پر اشتہارات کے بجائے متعلقہ شہروں کے نام لکھے جانے چاہئیں مثلاً اسلام آباد ٹول پلازہ ، لاہورٹول پلازہ اور پشاور ٹول پلازہ وغیرہ۔ ٹول پلازوں کواشتہارات کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔
موجودہ آئی جی کلیم امام ایک متحرک اور با صلاحیت افسر ہیں، میں انھیں اور باقی سینئر افسروں سے بھی کہوں گا کہ فیلڈمیں قوانین کے نفاذ اور لین ڈسپلن قائم کرنے کو ترجیح ِ اوّل بنائیں۔ موٹروے پولیس کو عالمی ادارے بھی کرپشن فری ادارہ قرار دے چکے ہیں، اسے یہ اعزاز فیلڈ ملازمین کی ایمانداری اور خوش اخلاقی نے دلایا تھا۔ فیلڈ اسٹاف کے مسائل پر توجہ دیں، ان کی تنخواہ میں پھر اضافے کی کوشش کریں۔ اس مقدس ادارے کا امیج اور نیک نامی پوری قوم کا قیمتی سرمایہ ہے، اس کے امیج کا ہر قیمت پر تحفّظ کیا جانا چاہیے۔
یہ بہت خوش آیند ہے کہ گراؤنڈ پر کرپشن کی شکایات نہیں ہیں۔ لیکن اگر کسی ایک بھی افسر نے اس کے دامن کو داغدار کرنے کی کوشش کی تو اسے نشانِ عبرت بنادیا جائے۔ پاکستان کے پاس اس طرح کے قابلِ اعتماد اور قابلِ فخر ادارے آخر ہیں ہی کتنے۔
سینئر پولیس افسروں کو بلا کر پوچھا گیا تو زیادہ تر نے ضلعی ٹریفک پولیس کے ذریعے قانون نافذ کرنے کا مشورہ دیا مگر وزیرِاعظم نے فیصلہ سنایا کہ ''نہیں اس جدید شاہراہ پر قوانین کے نفاذ کے لیے ایک جدید پولیس فورس بنائیں جن کی یونیفارم بھی الگ ہو اور جن کے پاس گاڑیاں بھی سفر کرنے والوں سے بہتر ہوں۔
جرمنی کی طرح امریکا کی موٹرویز پر چلنے والی ٹریفک پولیس کی طرح ''۔ پولیس افسروں نے کہا ''سر! اس پر تو اخراجات بہت آئیں گے'' وزیرِاعظم نے جواب دیا،'' آپ بجٹ بناکر لے آئیں''۔ آئی جی رینک کے افسران بجٹ بنا کر لے تو گئے، مگر انھیں یقین تھا کہ اتنی زیادہ رقم دیکھ کر وزیرِاعظم نوازشریف کہہ دیں گے ،''اس پر کمیٹی بنا دیتے ہیں جو جائزہ لے گی۔
فی الحال آپ جائیں، اس اِشو پر بعد میں غور کریں گے'' مگر وہ حیران رہ گئے جب انھوں نے دیکھا کہ وزیرِاعظم نے تمام اخراجات کی منظوری دے دی، بلکہ نئی پولیس فورس کی تنخواہ پنجاب پولیس سے دگنی مقرر کردی اور یہ بھی فیصلہ کردیا کہ تمام فورس موبائل ہوگی، ملازمین کو مہینے میں چار چھٹیاں ملیں گی، سال میں پانچ وردیاں مفت ملیں گی اور ہر چھ ماہ بعد جرمانے کی رقم میں سے نئی پولیس کے تمام افسروں کو انعامات دیے جائیں گے۔
وزیرِاعظم نے یہ تاکید بار بار کی،''آپ جتنی کہیں گے اس سے بڑھ کر مراعات دیں گے مگر موٹروے کی پولیس سے رشوت لینے اور مسافروں سے بدتمیزی کرنے کی شکایت نہیں آنی چاہیے''۔ اس طرح موٹروے پولیس قائم کردی گئی۔ آغاز میں پنجاب اور کے پی پولیس سے ملازمین لیے گئے اور انھیں ٹریننگ کے لیے جرمنی بھیجا جاتا رہا مگر تنخواہ میں اضافے، آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی، مہینے میں چار چھٹیوں اور پھر کونسلنگ اور موٹیویشن کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک بہترین ادارہ وجود میں آگیا۔
چند سالوں بعدموٹروے پر سفر کرنے والے خواتین و حضرات ملازمین کی خوش اخلاقی کی تعریف و تحسین کرنے لگے اور اس طرح کی کہانیا ں میڈیا پر نظر آنے لگیںکہ اس ملک میں ایک ایسی پولیس بھی ہے جو رشوت نہیں لیتی اور موٹروے پر آپ کی گاڑی خراب ہوجائے، ٹائر پنکچر ہوجائے یا انجن میں کوئی تیکنیکی خرابی ہوجائے تو موٹروے پولیس فوراً مدد کے لیے پہنچ جاتی ہے، پولیس افسران خود ہی ٹائر تبدیل کردیتے ہیں، کوئی اور خرابی ہو تو اسے بھی ٹھیک کرنے کے بعد آپ کی گاڑی کی چابی آپ کے حوالے کرتے ہیں ۔ آپ کو سیلیوٹ کرتے ہیں اور سفر بخیر کی دعا دے کر رخصت کردیتے ہیں۔
موٹروے پرحدِ رفتار متعین کردی گئی اور قوانین بنا دیے گئے کہ جو بھی حد کراس کرے گا اسے 750/- روپے جرمانہ کیا جائے گا۔ بسوں کے جرمانے کی رقم اس سے زیادہ رکھی گئی۔ جرمانے کی رقم پہلے بینک میں جمع کرائی جاتی تھی، پھر مسافروں ہی کے مطالبے پر موٹروے پولیس ہی جرمانے کی رقم اکٹھی کرنے لگی۔
جب گاڑیوں کی تعداد بڑھنے سے ٹریفک کا دباؤ زیادہ ہوگیاتوFine Collection کا فریضہ پرائیوٹ کمپنیوں کو دے دیا گیا۔ حکومت نے یہ بھی فیصلہ کردیا کہ جرمانے کی رقم میں سے آدھی نیشنل ہائی وے اتھارٹی کو ملے گی جسے وہ موٹروے کی مرمت اور maintenance پر خرچ کرے گی اور آدھی رقم موٹروے پولیس کے بجٹ میں جائے گی جو پولیس ملازمین کی ویلفیئر اور انعامات پر خرچ ہوگی تاکہ ان کا موٹیویشن لیول قائم رہے۔ یہ بندوبست ٹھیک طریقے سے چلتا رہا، پولیس ملازمین کو انعامات ملتے رہے، ان کا جوش و جذبہ قائم رہا اور اس کا امیج اور اچھی شہرت بھی قائم رہی۔
کسی بھی ادارے میں بہتری لانے کے بعد اس کا معیار قائم رکھنا سب سے بڑا چیلنچ ہوتا ہے۔ پندرہ سولہ سالوں میں اس ادارے کو چند کمزور اور کرپٹ سربراہوں نے نقصان بھی پہنچایا اور اس میں کچھ خامیاں اور خرابیاں در آئیں۔ 2013 میں جب راقم نے موٹروے پولیس کی کمان سنبھالی تو گراؤنڈ پر قانون کے نفاذ کی صورتِ حال غیر تسلی بخش تھی، گاڑیاں کھٹارہ ہوچکی تھیں، اتنے اہم ادارے کے تمام دفاتر اور پولیس لائنز کرائے کی عمارتوں یا ڈائیوو کمپنی کے خالی کردہ کواٹروں میں کام کررہی تھیں اور موٹیویشن لیول خاصا نیچے جا چکا تھا۔ کسی ادارے کے سربراہ کے لیے سب سے پہلا کام ٹیم کا انتخاب ہوتا ہے۔
پہلے ہفتے میں ہی پانچ سینئر افسروں کو فارغ کردیا گیا،اس کے بعد نچلی سطح کا گند صاف کیا گیااور بہترین افسروں پر مشتمل ٹیم بنائی گئی۔ ایمانداری، خوش اخلاقی اور مسافروں کی مدد کو ادارے کی بنیادی اقدار (Core Values) قرار دیا گیا۔
تربیت کا معیار بہتر بنانے کے لیے ٹریننگ کالج میں احسان صادق اور خرم شہزاد جیسے بہترین افسر تعینات کیے گئے، تربیتی اداروں کے علاوہ بھی ہر جگہ اور ہر میٹنگ میں Core Values پر بہت زیادہ زور دیا گیاحتیٰ کہ انھیں بتایا گیا کہ جس طرح مسلمان بننے کے لیے کلمہ طیبہ پر ایمان اور اقرار ضروری ہے اسی طرح Core Values اس ادارے کے لیے کلمے کی طرح ضروری ہیں۔ اس طرح ایمانداری اور خوش اخلاقی کی اہمیت اور فضیلت ان کے رگ وپے میں اُتاری گئی۔ ملازمین کی ویلفیئر کے لیے بجٹ میں بہت زیادہ اضافہ کیا گیا، کئی نئے دفاتر بنائے گئے، پہلی بار موٹر وے کو بطور لائسنسنگ اتھارٹی تسلیم کرایا گیا اور بین الاقوامی معیار کے زبانی اور عملی ٹیسٹوں کے بعد لائسنسوں کا اجراء شروع کیا گیا۔
موٹروے کے بانی وزیرِاعظم پھر ایک بار ملک کے چیف ایگزیگٹیو بن چکے تھے۔ ان سے منظوری لے کر تین سو نئی گاڑیاں خرید کر سڑکوں پر اُتاری گئیں۔ نئی موٹرویز بننے سے مزید فورس کی ضرورت پڑی جس کے لیے نئی اسامیاں منظور کرائی گئیںجن کی بھرتی فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ذریعے کرائی گئی۔ فیلڈ میں قانون کے نفاذ اور لین ڈسپلن کا معیار اتنا بلند ہوا کہ پشاور سے کراچی تک جی ٹی روڈ پر بھی ٹرک اور بسیں بائیں طرف چلنے لگیں اور کاروں اور چھوٹی گاڑیوں کو کھلا راستہ (free passage)ملنے لگا۔ ملکی معیشت اس وقت بھی دباؤ کا شکار تھی مگر جرمانے کی رقم میں سے موٹروے پولیس کے ملازمین میں انعامات کی بھاری رقوم تقسیم کی گئیں۔
تقسیمِ انعامات کی ایک تقریب ایوانِ صدر میں منعقد ہوئی جس میں پولیس افسروں نے صدرِ مملکت ممنون حسین صاحب کے ہاتھوںانعامات حاصل کیے اور دوسرے تقریب میں وزیرِاعظم میاں نواز شریف صاحب مہمانِ خصوصی تھے جس میں انھوں نے موٹروے پولیس کی 20%تنخواہ بڑھانے کا بھی اعلان کیا تھا۔ میری ریٹائرمنٹ کے کچھ سالوں بعد جب اے ڈی خواجہ(جو بڑے ایماندار اور قابل افسر ہیں)آئی جی مقرر ہوئے تو انھوں نے بھی اس ادارے کی بہتری کے لیے بہت محنت کی اور رولز بنوائے۔
مگر یہ جان کر دکھ بھی ہوا اور تشویش بھی کہ پچھلے کچھ سالوں سے تقسیمِ انعامات کی کوئی تقریب منعقد نہیں ہوسکی اور فنڈز کی کمی کے باعث گاڑیوں کو پٹرول نہیں ملتا جس سے پٹرولنگ بے حد متاثر ہوئی ہے، لگتا ہے کہ موجودہ حکومت نے غالباً ملک کے اس بہترین اور نیک نام ادارے کو بھی تباہ کرنے کی ٹھان لی ہے۔
اب یہ ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ جرمانوں کی رقم سے موٹروے پولیس کو ملنے والا حصہ ادارے کو نہیں دیا جائیگا بلکہ وہ رقم وزارتِ خزانہ وصول کریگی اور اس طرح ٹیکسوں کا ہدف پورا کرنے کے چکر میں ایک ایسے ادارے کو ان فنڈز سے محروم کیا جارہا ہے جو اس کو پہلے دن سے مل رہے ہیں اور جن کا اس کے امیج اور اچھی شہرت قائم کرنے میں بڑا اہم کردار ہے۔
میری حکمرانوں سے اپیل ہے کہ یہ ادارہ پوری قوم کے لیے عزت اورفخر کا موجب ہے ، خدارا اس ادارے کے فنڈز پر قبضہ کرکے اسے تباہ نہ کیجیے ، یہ فنڈز ادارے کے بجٹ میں ہی جانے چاہئیں تاکہ پولیس ملازمین کی ویلفیئر پر بھی اخراجات ہوتے رہیں اور انھیں فراخدلی سے انعامات بھی ملتے رہیں۔ اس کے علاوہ میں ایف ڈبلیو او کے سینئر افسران سے کہوں گا کہ آپ نے باتھ رومز بہت اچھے بنادیے ہیں جو قابلِ ستائش ہیں مگر سروس ایریاز میں صرف پاکستانی فوڈز کے ریستوران رہنے دیں، آپ نے تمام غیر ملکی فوڈ چین کی برانچز قائم کردی ہیں جو انتہائی نامناسب ہے۔
سروس ایریاز پاکستانی اور علاقائی کھانوں کی ترویج اور تشہیر کے لیے استعمال ہونے چاہئیں۔ موٹروے پولیس نے تمام ٹول پلازوں پر LEDs لگوائی تھیں جن پر روڈ سیفٹی کے پیغامات بھی چلتے رہتے تھے اور حب الوطنی کے میسج بھی چلتے تھے، وہ دوبارہ لگنی چاہئیں۔ تمام ٹول پلازوں پر اشتہارات کے بجائے متعلقہ شہروں کے نام لکھے جانے چاہئیں مثلاً اسلام آباد ٹول پلازہ ، لاہورٹول پلازہ اور پشاور ٹول پلازہ وغیرہ۔ ٹول پلازوں کواشتہارات کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔
موجودہ آئی جی کلیم امام ایک متحرک اور با صلاحیت افسر ہیں، میں انھیں اور باقی سینئر افسروں سے بھی کہوں گا کہ فیلڈمیں قوانین کے نفاذ اور لین ڈسپلن قائم کرنے کو ترجیح ِ اوّل بنائیں۔ موٹروے پولیس کو عالمی ادارے بھی کرپشن فری ادارہ قرار دے چکے ہیں، اسے یہ اعزاز فیلڈ ملازمین کی ایمانداری اور خوش اخلاقی نے دلایا تھا۔ فیلڈ اسٹاف کے مسائل پر توجہ دیں، ان کی تنخواہ میں پھر اضافے کی کوشش کریں۔ اس مقدس ادارے کا امیج اور نیک نامی پوری قوم کا قیمتی سرمایہ ہے، اس کے امیج کا ہر قیمت پر تحفّظ کیا جانا چاہیے۔
یہ بہت خوش آیند ہے کہ گراؤنڈ پر کرپشن کی شکایات نہیں ہیں۔ لیکن اگر کسی ایک بھی افسر نے اس کے دامن کو داغدار کرنے کی کوشش کی تو اسے نشانِ عبرت بنادیا جائے۔ پاکستان کے پاس اس طرح کے قابلِ اعتماد اور قابلِ فخر ادارے آخر ہیں ہی کتنے۔