سیاسی مفادات کی چکی میں پستا بلدیہ ٹاؤن

کہنے کو تو بلدیہ ٹاؤن کراچی کا اہم علاقہ ہے، مگر سہولتوں کے معاملے میں یہ کسی پسماندہ گاؤں کا منظر پیش کرتا ہے

بلدیہ ٹاؤن کے مکینوں کی قسمت میں صرف کھوکھلے نعرے رہ گئے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

کراچی کے بدقسمت علاقوں میں جہاں کیماڑی، گڈاپ، ملیر، اورنگی ٹاؤن وغیرہ شامل ہیں، وہیں بلدیہ ٹاؤن بھی سیاسی مفاہمت اور مفادات کے چکی میں پس رہا ہے۔ بلدیہ ٹاؤن کے رہائشی جس پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں وہی ان سے دغا کرتی نظر آتی ہے۔ ہر الیکشن میں پانی، سڑکیں، صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولتوں کے نعرے لگانے والے وقت آنے پر آنکھیں پھیر کر ہاتھ یہ کہہ کر کھڑے کردیتے ہیں کہ فنڈز نہیں تو کام کیسے کروائیں۔ یہ ستم ظریفی جہاں پورے کراچی کے ساتھ ہے وہیں خصوصاً بلدیہ ٹاؤن کے ساتھ کچھ زیادہ ہی نظر آتی ہے۔

این اے 249 سے اپنی جان چھڑانے والے فیصل واوڈا نے لوگوں کو وہ خواب دکھائے جو آج تک کسی نے نہیں دکھائے۔ فیصل واوڈا نے پانی کا جھوٹا نعرہ لگایا، کچرے پر بیٹھ کر صفائی کا نعرہ لگایا، زمینوں پر قبضوں کے خلاف نعرے لگائے اور آخر میں فتح حاصل کرکے دو سال مزے لوٹ کر سینیٹر بن کر چلتے بنے۔ اس کے بعد قادر مندوخیل پیپلزپارٹی کے ٹکٹ سے الیکشن جیت کر آگئے۔ باتیں ان کی بھی یہی تھیں، پانی دیں گے، کچرا صاف کریں گے، کھیل کے میدان آباد کریں گے، صحت اور تعلیم دیں گے۔ لیکن ایک سال ہونے کو ہے، کسی جگہ بھی ایک روپے کا کام نہیں کروایا۔ اور جہاں کروایا وہاں وہ کام پہلے سے منظور شدہ تھے، جو ان کی پارٹی نے کسی خاص وقت کےلیے روک رکھے تھے۔

بلدیہ ٹاؤن کے مکینوں کی قسمت میں صرف کھوکھلے نعرے رہ گئے ہیں۔ آج بلدیہ ٹاؤن کے مکین پانی کےلیے دربدر ہیں، صحت کےلیے مارے مارے پھرتے ہیں، سڑکیں کھنڈر بن چکی ہیں، گلی گلی اور محلے محلے میں سیوریج کا پانی کھڑا نظرآتا ہے۔ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ سسٹم جیالوں کے ہاتھ آنے سے ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے۔ پی ایس کے جنرل سیکریٹریز ان علاقوں کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں جہاں جیالے موجود ہوں، باقی علاقوں میں عوام مرتے رہیں، ان کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کسی گٹر کا ڈھکن لگوانا ہو تو اس کےلیے بھی پی ایس کے جنرل سیکریٹریز کی منت سماجت کرنی پڑتی ہے۔ گراؤنڈ کی حالت زار پر ٹاؤن کا عملہ بے بس دکھائی دیتا ہے، کیوں کہ یہ کام بھی جیالوں کے ہاتھ آچکا ہے۔ اب جیالوں کی جب مرضی ہوگی وہ گراؤنڈ کی صفائی اور دیکھ بھال کا کام سرانجام دیں گے، بصورت دیگر جیسا چل رہا ہے چلنے دیا جائے۔

غیر قانونی ہائیڈرنٹس جگہ جگہ قائم ہیں۔ پانی کی فروخت منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔ لیکن اس پر بھی علاقہ پولیس سمیت تمام ذمے داران خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ فی ٹینکر 1600 سے 3000 روپے میں فروخت ہورہا ہے۔ 1600 والا ٹینکر بھی پرچی اور ڈرائیور کے خرچ سمیت 2000 کا فروخت ہورہا ہے، لیکن یہاں بھی سائیں سرکار خاموش تماشائی ہے، بلکہ جن کی ذمے داری لگائی گئی ہے وہ بھی خاموش ہیں۔

بلدیہ ٹاؤن میں فٹبال اسٹیڈیم کی تعمیر کا کام 2006 میں شروع ہوا، لیکن ختم آج تک نہیں ہوسکا۔ اس کے پیچھے کون سی حکمت ہے کسی کو نہیں معلوم۔ اور نہ ہی یہ معلوم ہے کہ یہ کام کب ختم ہوگا اور کب کھلاڑی اس سہولت سے مستفید ہوسکیں گے۔ کارڈیو سینٹر بھی 2006 میں تعمیر ہونے والا بدقسمت سینٹر ہے، جو تاحال تعمیر کے مراحل میں ہے۔ یہاں بھی اٹھنے والی آوازوں پر دھیان نہیں دیا گیا۔ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ بلدیہ فٹبال اسٹیڈیم کا دو سے تین مرتبہ افتتاح بھی ہوچکا ہے، جب کہ اس اسٹیڈیم میں انڈور گیمز کےلیے بنائے گئے رومز پر ایک فیملی نے عرصہ دراز سے قبضہ کر رکھا ہے، جن کے پاس بجلی کے بل بھی موجود ہیں۔ اسی طرح کارڈیو سینٹر پر بھی قبضہ کیا ہوا ہے، یہاں بھی لوگ رہائش پذیر ہیں، جب کہ رات میں یہاں پارکنگ کی سہولت مہیا کی جاتی ہے۔ اندرونی عمارت کی حالت کچھ یہ ہے کہ عوام کا اربوں روپیہ ضائع ہورہا ہے، دیواروں میں دراڑیں اور چھتوں سے پلاسٹر اکھڑ رہے ہیں۔ اس ضمن میں جب متعلقہ ٹھیکیدار سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تو موصوف نے بات تک کرنا گوارا نہیں کیا۔ عوام کا پیسہ ہے جس پر خوب عیش کیا جارہا ہے۔ حکومت ہر سال اس کےلیے بجٹ مختص کرتی ہے مگر وہ بجٹ کہاں جاتا ہے، اس کے بارے میں بھی کسی کو علم نہیں۔ اسی طرح بلدیہ مونو ٹیکنک کالج کا حال بھی ابتر صورت حال اختیار کرگیا ہے۔ اس سے تھوڑا آگے چلیں گے تو ایک سرکاری ڈسپنسری منشیات فروخت اور پینے والوں کی آماہ جگاہ بنی ہوئی ہے۔ اس سرکاری ڈسپنسری کا بجٹ اور یہاں کا عملہ صرف کاغذات کی حد تک موجود ہے، جن کی ماہانہ تنخواہیں بدستور نکل رہی ہیں۔


بلدیہ ٹاؤن میں تمام بنیادی سہولیات کا ہوکر نہ ملنا انتہائی تکلیف دہ ہے۔ کے تھری پروجیکٹ سے بلدیہ ٹاؤن کو ملنے والا پانی اب دیگر علاقوں میں جارہا ہے، جب کہ یہاں کے مکین اب ٹینکر مافیا کے رحم و کرم پر آچکے ہیں۔ ماہانہ کروڑوں روپے پانی کی مد میں دے رہے ہیں۔ اس کا دس فیصد بھی اگر حکومت کو ملتا تو یقیناً اس سے بہتری کے کچھ امکانات نظر آتے، لیکن یہاں سارا پیسہ سرکاری افسران کی جیبوں کی نذر ہورہا ہے، اس لیے ہی اتنی خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ بلدیہ ٹاؤن کو فائربریگیڈ بھی میسر ہے، تاہم وہ بھی اسی صورت حال کا شکار ہے جیسے فٹبال اسٹیڈیم اور کارڈیو سینٹر کا حال ہے۔ یہ تمام سرکاری ادارے غیر فعال ہیں، لیکن کاغذات میں یہ تمام فعال دکھائی دیتے ہیں جو بلدیہ ٹاؤن کے عوام کے دکھ اور تکلیف میں مزید اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔

بلدیہ ٹاؤن فٹبال اسٹیڈیم سے اتحاد ٹاؤن تک کی سڑکیں جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ سیوریج سسٹم تباہ ہونے کی وجہ سے سڑکیں اب اپنی جگہ موجود ہی نہیں، بلکہ اب سڑکوں کی جگہ گڑھے نظر آتے ہیں۔ آمد و رفت کےلیے لوگ گلیوں کا سہارا لے رہے ہیں۔ ایمبولینس سمیت کوئی بھی ایمرجنسی ٹرانسپورٹ یہاں آنے کو تیار نہیں۔ اس صورت حال میں اگر کوئی بڑا حادثہ ہوجائے تو متبادل راستہ بھی کھنڈر بن چکا ہے، جہاں سے فوری نکلنا کسی مریض کےلیے انتہائی تکلیف دہ عمل ہوگا۔

ستم ظریقی کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ یہاں پر قائم ڈاک خانہ بھی صبح 10 بجے کھلنے کے بعد ساڑھے 10 بجے بند کردیا جاتا ہے۔ اگر کوئی بل جمع کرانے جائے تو پانچ ہزار سے زائد بل تک وصول نہیں کیا جاتا، آخری تاریخ پر بھی بل مسترد کردیا جاتا ہے۔ اس ڈاک خانے سے بھی عوام کو کوئی ریلیف میسر نہیں۔ ایک نجی بینک بھی بلدیہ ٹاؤن سیکٹر نائن بی میں موجود ہے، جو ڈاک خانے کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بل وصول ہی نہیں کرتا۔ عوام کو بل بھرنے کےلیے شہر کا رخ کرنا پڑتا ہے۔

کہنے کو تو بلدیہ ٹاؤن کراچی کا اہم علاقہ ہے، مگر سہولتوں کے معاملے میں یہ کراچی کا نہیں بلکہ کسی گاؤں کا منظر پیش کرتا ہے۔ یہاں دکانوں پر اشیائے خورونوش تک من مانے ریٹ پر فروخت کی جاتی ہیں۔ ڈی سی اور اے سی صاحبان یہاں کا وزٹ تک نہیں کرتے۔ ماہ رمضان میں صرف چھاپے مار کر دہاڑی لگائی جاتی ہے، اس کے بعد سب اوکے کی رپورٹ بناکر آگے کردیتے ہیں۔

بلدیہ ٹاؤن میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں، لیکن یہاں سہولیات کے فقدان کے باعث کھلاڑی گراؤنڈ سے اور گراؤنڈ کھیل سے محروم ہوچکے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی جگہوں پر نوجوان چند گھڑی کھیل کر اپنا جی بہلانے میں مصروف ہیں۔ بلدیہ ٹاؤن کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں آج کی نہیں، لیکن سائیں سرکار سے گزارش ہے کہ اب تو بس کردے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story