جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند ۔۔۔۔

وہ مہتمم بالشان ہستی دنیا میں تشریف فرما ہوئی جس کی ہیبت و عظمت کے سامنے رفعت افلاک بھی سجدہ فشاں ہوتی نظر آئی۔

وہ مہتمم بالشان ہستی دنیا میں تشریف فرما ہوئی جس کی ہیبت و عظمت کے سامنے رفعت افلاک بھی سجدہ فشاں ہوتی نظر آئی ۔ فوٹو : فائل

ربیع الاول وہ ماہ مقدس ہے جس میں باعث تخلیق کائنات، وجہہ تسکین قلوب آدمیت، باعث تزئین کون و مکاں، شافع محشر، ساقی کوثر، آقائے دوجہاں، حضور ختمی مرتبت، صاحب مقام محمود، صاحب لوالحمد، سید المرسلین حضرت محمد رسول اﷲ ﷺ کی ذات سراپا قدس عالم بالا سے عالم امکان میں جلوہ گر ہوئی۔

آپؐ کی تشریف آوری سے خزاں دیدہ عالم پریشاں میں بہار آ گئی۔ مقصد حیات سے بھٹکے ہوئے انسانوں کو مرکزیت مل گئی۔ ظلمت کدۂ جہاں سراجاً منیرا کی تابش سے چمک اٹھا، ذرات صحرائے عرب ستاروں کی جگ مگانے لگے۔ فارس و روم کے قصر شاہی جلال حق کی ہیبت سے لرزہ براندام نظر آنے لگے۔ گلستان زمن میں گلاب و چنبیلی و نسترن کے پھولوں سے ایسی آرائش منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئی کہ عالم انسانیت کے مشام جاں معطر و معمور ہوگئے اور دنیائے عشاق بہ قول اقبال زبان حال سے پکار اٹھی۔

مقامش عبدہ آمد و لیکن

جہان شوق را پروردگار است

سوال پیدا ہوتا ہے وہ کون سے جگرفگار اور کرب ناک حالات تھے جنہوں نے ضمایر ِ انسانیت کو جمود تعطل کا شکار بنا دیا تھا اور تا حد نگاہ ماحول ظلمت بکف نظر آتا تھا۔ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا تھا۔ تمام اہل سیر اس حقیقت پر متفق ہیں کہ حضور سیدالمرسلینؐ کی تشریف آوری سے قبل معاشرہ ایک تاریک گڑھے کی ماند تھا۔ دنیائے عرب ہی نہیں پوری کائنات پر کفر و شرک کی گھنگھور گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں۔ وہ لوگ فحاشی و بت پرستی کے طوفان بدتمیزی میں اس قدر مستغرق تھے کہ گویا معاشرے کی پُرسکون اور باوقار زندگی سے بے بہرہ تھے۔

جہالت کا یہ عالم کہ بات بات پر اپنے مستقبل کے بارے میں جادوگروں اور کاہنوں سے جھاڑ پھونک کرواتے تھے ۔ کبر و غرور کے وہ مرقعے خدا کی زمین پر (معاذ اﷲ) خدا بنے بیٹھے تھے۔ بچیوں کو زندہ درگور کر دینا اُن کے شیوۂ مباہات میں سے تھا۔ معمولی بات پر قتل و غارت گری تک نوبت پہنچ جاتی اور پھر جنگ و قتال کا یہ سلسلہ پُشت در پُشت چلا آتا۔ مولانا حالی نے مسدس میں کتنا خُوب صورت نقشہ کھینچا ہے۔

کبھی پانی پینے پلانے پہ جھگڑا

کبھی گھوڑا آگے بڑھانے پہ جھگڑا

''جو چیز حد سے بڑھی اس کی خرابی آئی'' کے مصداق جب الحاد و بے دینی عروج کو پہنچ گئی، انسانیت سسک سسک کر قعر مذلت میں دفن ہونے لگی تو رب ذوالجلال کی رحمت جوش میں آگئی، اس نے وہ چاند زمین پر اتارا جس کی تابانیت نے شرق و غرب کو منور کر دیا۔ شہپرِ جبرائیلؑ کی اُڑان نے ابر باراں کی صورت دنیا کو ڈھانپ لیا۔ سورہ ولیل قرآن کی آیتوں میں ڈھل کر غار حرا سے کرب و بلا کے مقام تک دیدہ وروں کے اسرار محمدیؐ کے وہ راز فاش کرنے لگی کہ قلوب و اذہان کعبۃ اﷲ کی جانب کھنچنے لگے، رکوع و سجود سے جبینیں چاندنی کی طرح نکھرتی نظر آنے لگیں۔

وہ مہتمم بالشان ہستی دنیا میں تشریف فرما ہوئی جس کی ہیبت و عظمت کے سامنے رفعت افلاک بھی سجدہ فشاں ہوتی نظر آئی۔ آپؐ تشریف لائے تو گردش جہاں محو حیرت ٹھہر کر دیدار حبیب کبریاؐ کرنے لگی۔ ارادت و عقیدت سے نجوم و کہکشاں آفتاب و ماہتاب احساس خمیدگی لیے ہوئے بے تابی سے طلوع و غروب ہونے لگے۔ سیارگان فلک ذوق محبت سے سرشار کروٹیں بدلنے لگے۔ ایسا کیوں نہ ہوتا کہ بے چین دلوں کو دولت طمانیت درکار تھی۔ گل ہائے رنگا رنگ کو نکہت کی تلاش تھی۔ تشنہ لبوں کو آب حیات درکار تھا۔ جبینوں کو مقام سجدہ کی تلاش تھی۔ عالم جستجو کو ایمان و ایقان درکار تھا۔

گویا انبیائؑ کو تھی امام انبیاءؐ کی آرزو

کارواں کو اک امیر کارواں درکار تھا


آپؐ تشریف لائے تو لشکر کفار کا شیرازہ پریشاں ہونے لگا۔ وسعت قرآن و اسلام کا دل کشا اندازہ ہونے لگا۔ سرزمین حجاز کا ہر ذرّہ فردوس بداماں معلوم ہونے لگا۔ جہاں جہاں بھی آفتاب رسالتؐ کی شعاعیں جلوہ فگن ہوئیں، پیشانیاں ذوق سجود لیے ہوئے کشاں کشاں سوئے حرم محو خرام ہوگئیں۔ واضح طور پر دست امروز میں آئینۂ فردا نظر آنے لگا۔ مفلوک الحال غریب خانوں میں مسرت و شادمانی کے نغمے گونجنے لگے۔ جمال مصطفیؐ میں خود وجود نظر گم ہونے لگا۔ بزم ہائے غریباں میں چراغاں ہونے لگا ۔ عرب کے کنکر بھی لولوئے لالہ میں بدلتے معلوم ہونے لگے۔

حسن شہ ؐ بحر و بر سے شب غم سحر میں بدلنے لگی۔ حضورؐ کے نقش کف پا کی جھلک سے چمنستان دہر میں اجالا ہی اجالا ہوگیا۔ خدائے بزرگ و برتر کا سحابِ کرم دست نبوتؐ میں سلسبیل شفاعت رکھے ضوفگن ہوگیا۔ سلطان دو عالمؐ تیرہ خاک داں کو مستنیر کرتے ہوئے، شمس و قمر کو خیرات ضیاء عطا کرتے ہوئے، گنہ گاروں کو شفاعت و مغفرت کی نوید جاں فزا سناتے ہوئے، چراغ دین متین جلاتے ہوئے، حاملان کفر و شرک کو در ِحق پر جھکاتے ہوئے تشریف لائے۔



حبیب کبریاؐ ہستی کو اپناتے ہوئے آئے

عروس زندگی پر پھول برساتے ہوئے آئے

حضور سرور دو عالمؐ کی ولادت باسعادت اور آپؐ کی شان جامعیت و اکملیت کا تذکرہ سر آنکھوں پہ، بلاشبہ یہ باعث فلاح دنیا بھی ہے اور باعث نجات اُخروی بھی مگر بدقسمتی سے ہماری نظروں سے مقصد بعثت نبوتؐ اوجھل ہوتا جا رہا ہے۔ ہم فدایان مصطفیؐ اپنے کردار و عمل کا محاسبہ کرتے ہوئے بہ نظر عمیق اپنے چال چلن اور تہذیبی خد و خال کا جائزہ لیں تو لامحالہ اقبال کے اس شعر کے مصداق نظر آتے ہیں۔

چومی گویم مسلمانم بلرزم

کہ دانم مشکلات لا الہ را

اگر خدا لگتی کہیں تو اقوام و ملل جہاں میں ہماری پستی و بدحالی کی وجوہات بالکل عیاں ہیں۔ چاروں طرف رقص ابلیس نظر آتا ہے۔ رگ و پے سے بے حیائیاں بول رہی ہیں۔ غیرتیں دم توڑتی نظر آرہی ہیں۔ امراء خدا کے حضور تشکر و امتنان کے آنسو پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ غرباء دامنِ صبر و شکیبائی سے پہلوتہی کرتے نظر آتے ہیں۔ اﷲ رب العزت پر توکل کی بہ جائے اغیار کی دریوزہ گری معمول نہیں بل کہ باعث فخر بنتی جارہی ہے۔ ہم عالم روحانیت سے گریز پا ہوکر زرپرستی کو شعار بنائے ہوئے ہیں۔ طعن و تشنیع اور زبان درازیاں ہماری زبان کا حصہ بن چکی ہیں۔

آئے روز مصائب و آلام کی آندھیاں ہماری کائنات دل و جاں کو زیر و زبر کررہی ہیں۔ باطل کی برق تپاں کے شعلے آسمانوں سے باتیں کر رہے ہیں۔ ہم شمعٔ حق کی حفاظت کی بہ جائے پرستاران آتش باطل کو خوش کرنے میں مصروف ہیں۔ ان تمام قباحتوں کے عروج کا بنیادی سبب سیرت محمد عربی ﷺ سے مجرمانہ غفلت و رُوگردانی ہے۔

اے مسلمانان عالم آئیں، اس ماہ ربیع الاول میں صمیم قلب سے یہ عہد کریں کہ ہم عظمت ختم المرسلینؐ بیان کرنے کے ساتھ سیرت رسول کریمؐ پر بھی صدق دل سے عمل پیرا ہوں۔ ہمارے تمام مسائل کا حل صرف اسوۂ مصطفےﷺ کی تقلید میں پوشیدہ ہے۔ حضرت اقبال نے اسی لیے فرمایا ہے:

کی محمدؐ سے وفا تُونے، تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں
Load Next Story