خوشبوئے رسولﷺ

کھوج لگانے کے لیے نکلے تو دیکھا کہ خوشبو سیدِ دو عالم کی مسجد کی جانب سے آرہی ہے۔

gfhlb169@gmail.com

اکیانوے ہجری کا زمانہ تھا۔اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک سریر آرائے سلطنت تھا اور سیدنا عمر بن عبدالعزیز مدینہ طیبہ کے گورنر تھے۔ تمام امہات المومنین اس دنیا سے پردہ کر چکی تھیں۔

سیدہ عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے حجرے میں سید المرسلین محمد رسول اﷲﷺ، سیدناابوبکر ؓصدیق اور سید نا عمر ؓمدفون ہیں۔اموی خلیفہ کے حکم پر سیدہ عائشہ ؓ اور اس سے بالکل متصل سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا کے حجروں کو چھوڑ کر امہات المومنینؓ کے باقی سارے حجرے گرا دیے گئے۔

گرانے کے اس عمل کے دوران ایک شام مدینہ منورہ میں انتہائی طوفانی بارش ہوئی جس سے سیدہ عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکا حجرہ جس میں سرکارِ دوعالم کی لحد مبارک ہے اس کی مشرقی دیوار کا ایک حصہ زمین بوس ہو گیا۔ دیوار کا گرنا تھا کہ اُس وقت کے مدینہ شہر میں چار سُو خوشبو ہی خوشبو پھیل گئی۔ لوگوں کو تعجب ہوا۔کھوج لگانے کے لیے نکلے تو دیکھا کہ خوشبو سیدِ دو عالم کی مسجد کی جانب سے آرہی ہے۔جب کچھ لوگ مسجدِ نبوی پہنچے تو معلوم ہوا کہ سیدہ عائشہ ؓکے حجرے کی مشرقی دیوار گری ہوئی ہے اور اس میں سے خوشبو کی لپٹیں باہر آ رہی ہیں۔

حضرت عمرؓ بن عبدالعزیز اپنے غلام مزاحم کے ساتھ وہاں پہنچ گئے۔ اسی دوران عبداﷲ بن محمد بن عقیل، سیدنا ابوبکر ؓکے پوتے قاسم بن محمد بن ابوبکر اور سیدنا فاروقِ اعظم ؓکے پوتے سالم بن عبداﷲ بن سیدنا عمرؓ بھی پہنچ گئے۔

ان میں سے ہر ایک سیدہ عائشہؓ کے حجرے کے اندر جا کردیوار کی مرمت کرنا چاہتا تھا لیکن باہمی مشورے سے طے پایا کہ رسول اﷲﷺ کے ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے صرف حضرت عمر بن عبدالعزیز کے غلام مزاحم کو اس کام پر لگایا جائے اور وہ شور شرابے سے حتی الامکان گریز کرتے ہوئے باوضو اور انتہائی با ادب رہ کر حجرے کی دیوار کی وقتی طور پر مرمت کر دیں پھرجب بارش مکمل طور پر رک جائے ،نمی ختم ہو جائے تو سارے حجرہ مبارک کو از سرِ نو تعمیر کر دیا جائے۔ مزاحم نے دیوار مرمت کر دی تو خوشبو باہر آنی رک گئی۔

سعودی عرب میں قیام کے دوران میں خود بھی ایسے ہی ایک عظیم اور انتہائی حیران کن تجربے سے گزرا ہوں۔حرمین شریفین انتظامیہ کا ایک مشترکہ سربراہ ہوتا ہے۔حرم کعبہ شریف کے مشہور امام مرحوم عبداﷲ ابنِ سُبیل بہت لمبے عرصے اس عہدے پر فاٗئض رہے۔ میں قونصلیٹ جنرل آف پاکستان جدہ میں خدمات انجام دے رہا تھا۔مکہ ہائیکورٹ میں پاکستان کیمونٹی کے کچھ اہم کیسوں کے سلسلے میں جانا ہوتا تھا۔ایسے ہی ایک موقعے پر میرے ترجمان جناب طاہر شریف نے تجویز کیا کہ امام کعبہ عبداﷲ ابنِ سُبیل سے مل لیں۔

جناب طاہر شریف کا خیال تھا کہ ملاقات میں امام صاحب غلافِ کعبہ کا کچھ حصہ ضرور مرحمت فرمائیں گے۔ایسے متبرک تحفے کا خیال کر کے مجھے شدید خواہش ہوئی کہ کاش ایسا ہو جائے۔مکہ ہائیکورٹ سے فارغ ہو کر ہم کعبہ شریف سے متصل امام صاحب کے سیکریٹریٹ پہنچ گئے اور ان کے اسٹاف سے کہا کہ وہ امام صاحب کو ہماری آمد اور ملاقات کی خواہش سے آگاہ کر دیں۔ان کے اسٹاف کے ایک فرد نے میرا نام وغیرہ لکھا اور اندر چلا گیا۔تھوڑی ہی دیر میں وہ واپس پلٹا اور ہمیں امام صاحب کے دفتر لے گیا۔

امام صاحب پاکستان کے پر جوش حامی اور سپورٹر تھے۔ پاکستان کے بہت سے سرکردہ زعما کے ساتھ ان کے ذاتی مراسم تھے۔وہ کئی بار پاکستان تشریف لائے۔ہم ان کے دفترمیں داخل ہوئے تو انھوں نے آگے بڑھ کر ہمیں لیا۔ عربوں کے مخصوص انداز میں علیک سلیک اور معانقہ کیا۔ابتدائی Pleasantries کے بعد میری آمد کا مقصد پوچھا۔میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ بس آپ کی قدم بوسی مقصود تھی ،کوئی خاص کام اور ایجنڈا نہیں ہے۔وہ بہت خوش ہوئے،اسی دوران قہوہ اور کھجوریں آگئیں۔


یہ انتہائی مفید اور خوش گوار ملاقات کوئی بیس پچیس منٹ جاری رہی جس کے بعد ہم نے اجازت چاہی تو امام صاحب فوراً اپنے میز کی جانب لپکے۔اس کی ایک دراز سے غلافِ کعبہ کا ایک حصہ نکالا اور مجھے دیا۔ غلافِ کعبہ کا یہ متبرک ٹکڑا وہ واحد چیز ہے جو میرے ڈرائنگ روم کی زینت ہے۔

امام عبداﷲ ابنِ سُبیل کے دفتر سے نکلے تو میں نے جناب طاہر شریف سے کہا کہ خاتم النبینﷺ کے مقامِ ولادت کو باہر سے تو کئی بار دیکھا ہے کیوں نہ ایک کوشش کر کے اس انتہائی متبرک مقام کی اندر سے زیارت سے فیض یاب ہوا جائے۔ ترجمان نے کہا کہ چلتے ہیں اور کوشش کر دیکھتے ہیں۔ختم المرسلینﷺ کی ولادت باسعادت اپنے آبائی گھر میں ہوئی۔یہ ایک بڑا گھر ہے۔

اس کے ارد گرد کی تمام عمارتوں کو گرا کر سڑکیں بنا دی گئی ہیں۔آپﷺ کی جائے پیدائش اب ایک دارالمطالعہ ہے۔اس کی بیرونی دیواروں کے ساتھ ہمارے عمرہ زائرین اور حجاج نوافل ادا کر کے رسولِ اُمی پر درود و سلام بھیجتے ہیں۔امام صاحب کے دفتر سے ہم دونوں سیدھے جائے ولادت باسعادت پہنچ گئے۔

دارالمطالعہ کے ڈائریکٹر تو کسی کام سے باہر گئے ہوئے تھے البتہ ڈپٹی ڈائریکٹر وہاں موجود تھے۔ ان سے علیک سلیک ہوئی اور ہم نے اپنا مدعا بیان کر دیا کہ ہم وہ خاص مقام دیکھنا چاہتے ہیں جہاں سرورِ انبیاء اس دنیا میں تشریف لائے۔ ڈپٹی ڈائریکٹر نے بخوشی حامی بھر لی۔ اس نے اپنے دفتر میں بٹھایا اور پاکستان کے بارے میں باتیں کرنے لگا۔ابھی باتیں ہو رہی تھیں کہ ڈائریکٹر صاحب تشریف لے آئے۔ڈائریکٹر کو دیکھتے ہی ڈپٹی ڈائریکٹر کے چہرے پر پریشانی دکھائی دینے لگی۔

ترجمان نے میرے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا کہ ڈپٹی ڈائریکٹر کے تاثرات سے لگتا ہے ڈائریکٹر انتہائی متبرک مقام کو دیکھنے کی اجازت نہیں دے گا۔ ڈپٹی ڈائریکٹر نے میرا تعارف کرایا تو وہ ہمارے ساتھ ہی بیٹھ گیا۔ہم نے مناسب جانا کہ ہم اپنی خوشگوار گفتگو جاری رکھیں گے اور اگر یہ صاحب اجازت نہیں بھی دیتے تو ہم کسی ناگواری کا اظہار نہیںکریں گے۔ خیر کچھ دیر ہم ڈائریکٹر سے باتیں کرتے رہے، اس کے بعد وہ اُٹھ کھڑے ہوئے اور کہا کہ آیئے آپ کو رسول اﷲﷺ کی جائے پیدائش دکھاتے ہیں۔میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ میں اپنے آپ کو بہت خوش قسمت جان رہا تھا۔

ڈپٹی ڈائریکٹر نے ایک الماری سے چابی نکالی اور کعبہ شریف کی سمت دار المطالعہ کے ایک کمرے کی طرف بڑھے۔کمرے کے دروازے پر تالا پڑا ہوا تھا۔تالے کی حالت سے لگتا تھا کہ اسے خاصے عرصے سے کھولا نہیں گیا۔دروازہ کھولا گیا اور مجھے کہا گیا کہ اندر جائیں لیکن تھوڑی دیر کے لیے اندر رکنا ہے۔ہم اندر گئے تو ایک ایسی خوشبو نے ہمیں لپیٹ لیا جس کو بیان کرنے پر میں ہر گز قادر نہیں۔مکۃالمکرمہ کا علاقہ بہت گرم ہے۔اوپر سے یہ واقعہ بھی غالباً جون کے ابتدائی دنوں کا ہے۔ ولادتِ باسعادت والے کمرے میں کئی الماریاں رکھی تھیں جن میں رکھی کتابوں سے لگتا تھا کہ وہ ریفرنس بُکس تھیں۔

دارالمطالعہ کے باہر کا درجہ حرارت،کمرے کے اندر رکھی بے شمار کتابوں اور لمبے عرصے سے بند کمرے کی وجہ سے کمرے کے اندر شدید گرمی اور حبس ہونا چاہیے تھا لیکن کمرے کے اندرداخل ہوتے ہی بے انتہا سکون محسوس ہوا۔ایسا سکون کہ کچھ نہ پوچھئے۔ کمرے سے پھوٹنے والی خوشبو بہت ہی دل کشا تھی۔میں زیرِ لب درود و سلام کہتے ہوئے داخل ہوا۔ ماحول اتنا پیارا تھا کہ دل کیا کہ وہیں بیٹھ رہا جائے لیکن چونکہ اندر ٹھہرنے سے منع کیا گیا تھا۔

اس لیے تھوڑی ہی دیر بعد سلام کر کے باہر نکل آئے۔ڈائریکٹر اور ڈپٹی ڈائریکٹر کا بہت شکریہ بھی ادا کیا اور ساتھ ہی یہ بھی پوچھ لیا کہ کیا آپ لوگ روزانہ جائے ولادت پر خوشبو لگاتے ہیں جس پر ڈائریکٹر نے تبسم فرماتے ہوئے کہا کہ آپ کے لیے ہم نے مخصوص کمرے کو لمبے عرصے بعد کھولا ہے۔ اس میں خوشبو لگانے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔قارئینِ کرام کمرے کے اندر جو انتہائی خوبصورت خوشبو تھی کاش میں زبان و بیان کی وہ قدرت رکھتا کہ اس خوشبو کا احوال آپ کے سامنے پیش کر سکتا۔بس اتنا کہنے پر اکتفا کرتا ہوں کہ یہ خوشبوئے رسولﷺ تھی۔
Load Next Story