ہاریوں پر مظالم کی انتہا
خودکشی کرنے کے اسباب غربت ہے اور غربت زمیندار کی جانب سے پوری مزدوری نہ دینا ہے۔
غربت کے مارے 3 ہاریوں نے اجتماعی خودکشی کرلی۔ مقتولین کا پوسٹ مارٹم کرنے کے لیے لواحقین سے 12000 روپے اسپتال کے عملے نے مبینہ طور پر رشوت مانگی جو وہ ادا نہ کر سکے۔
چمپیر تھانے کی حدود دریا خان لونڈ گاؤں کے رہائشی مقامی زمیندار کی زمین پر مزدوری کی غرض سے عارضی گھر بنا کر رہنے والے کولہی برادری کے ایک ہی خاندان کے 3 افراد نے غربت سے تنگ آ کر خودکشی کرلی۔ خودکشی کرنے والوں میں 25 سالہ بھیرو، اس کی بیوی 22 سالہ شری متی قتو اور 16 سالہ بہن ورجو شامل ہیں۔ اطلاع پر پولیس پہنچ گئی اور لاشوں کو سول اسپتال منتقل کیا۔
خودکشی کرنے والوں کا تعلق ننگرپارکر سے تھا جو مزدوری کرنے کے لیے 2 سال سے یہاں مقیم تھے۔ ادھر تھانہ بولان خان کے علاقے کی نجی جیل پر چھاپہ مار کر 40 ہاری بازیاب کرالیے گئے۔ سیشن کورٹ جام شورو کے حکم پر تھانہ بولان خان پولیس نے مقامی زمیندار کی نجی جیل میں قید 40 ہاریوں کو بازیاب کرالیا۔ تھانہ بولان خان پولیس نے کوہستان کے گاؤں فوٹو کانرو میں زمیندار کی نجی جیل پر چھاپہ مارا جہاں حبس بے جا میں رکھے 40 کے قریب خواتین، مردوں اور بچوں کو بازیاب کراتے ہوئے انھیں تھانے منتقل کردیا۔
بازیاب ہاریوں کا کہنا تھا کہ زمیندار ان پر ظلم کرتا تھا، کھانے کو کچھ بھی نہیں دیتا تھا۔ ہمارے بچے بھوک سے مر رہے تھے۔ نہ خرچہ دیتا تھا، بس ہر وقت کام کراتا تھا۔ زمیندار کا کہنا ہے کہ کولہی برادری کے ہاریوں کو سیہون سے زمین کی آبادکاری کے لیے لایا تھا۔ ان کا پرانا قرض بھی میں نے ادا کیا۔ 14 ماہ سے میرے پاس کام کر رہے ہیں، کوئی شکایت بھی نہیں تھی۔ فصل میں نقصان پر 12 لاکھ روپے کا قرض ہو گیا تھا، وہ ادا کرنے سے قاصر تھے۔
خودکشی کرنے کے اسباب غربت ہے اور غربت زمیندار کی جانب سے پوری مزدوری نہ دینا ہے۔ نجی جیل میں ہاریوں کو قید رکھنے، کھانا نہ دینے اور تشدد کرنے کے خلاف کسی بھی زمیندار کو سخت سزا دینے کی ضرورت ہے ورنہ اس ظلم کی داستان ختم نہیں ہوگی۔ہاری بے چارے دوقت کی روٹی کے لیے زمیندار کے غلام بن کر زندگی گزارتے ہیں اور کبھی کوئی مصیبت یا بیماری آ جائے تو ان کے پاس اتنی رقم نہیں ہوتی کہ مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرسکے،لہٰذا اسے زمیندار کے آگے ہاتھ پھیلانے پڑتے ہیں۔حکومت ہاریوں کی بہتری کے لیے کام کرے تو ان کی زندگی میں موجود تکلیفوں میں خاطر خواہ کمی آ سکتی ہے۔
آج کل دل کا مرض تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اس کے دیگر اسباب میں سے ایک بڑا سبب چربی کا تیل ہے۔ حال ہی میں ماتلی میں کھانے کا مضر صحت تیل بنانے والی فیکٹری کو سیل کردیا گیا جب کہ فیکٹری مالک فرار ہو گیا۔ علاقہ مکینوں کی شکایت پر اسسٹنٹ ڈائریکٹر فوڈ اتھارٹری حیدرآباد ڈویژن اور اسسٹنٹ کمشنر ٹنڈوکی نگرانی میں ٹیم نے گاؤں گامانی خاصخیلی میں فارمی مرغی کے عضلات اور انتڑیوں کے مضر صحت کوکنگ آئل بنانے والی فیکٹری پر چھاپہ مار کر فیکٹریوں کو سیل کردیا۔
چھاپے سے قبل ہی فیکٹری مالک فرار ہو گیا۔ یہ تو رہی ایک چھوٹی فیکٹری۔ایسی ہزاروں فیکٹریاں پاکستان میں چربی کا خوردنی تیل بنانے میں مصروف ہیں ،جس سے خطرناک حد تک امراض قلب میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس پر حکومت کو فوری اور ہنگامی حالات نافذ کرکے نمٹنے کی ضرورت ہے۔
مالاکنڈ میں خاتون سماجی کارکن شیباگل والد سمیت قتل کردی گئیں۔ اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے والی بٹ خیلہ کی رہائشی خاتون کو بااثر قبضہ مافیا تخریب کاروں نے ہمیشہ کے لیے خاموش کردیا۔ 11 ستمبر کو باپ بیٹی نے پشاور پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ مقامی انتظامیہ کی ملی بھگت سے قبضہ مافیا ہماری جدی پشتی گنگالان نامی جائیداد پر قابض ہے۔
عدالت کے ہمارے حق میں کئی فیصلے ہونے کے باوجود متعلقہ ادارے ہماری داد رسی نہیں کر رہے ہیں۔ کئی افراد نے ہماری اراضی سے تقریباً 70 سے 80 لاکھ روپے کی زبردستی کٹائی کی اور چند روز قبل ہماری جائیداد سے تقریباً 50 لاکھ روپے کی مٹی بھی فروخت کی۔ یہ افراد ہمیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ اس پریس کانفرنس کے بعد بھی حکومت نے ان کے تحفظات کے لیے کوئی سیکیورٹی فراہم نہیں کی اور جب باپ بیٹی کا قتل ہو گیا تو وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا نے پولیس کو قاتلوں کی فوری گرفتاری کا حکم دیا۔
آج سے 14 سال قبل حیدرآباد سے میرپورخاص تک 10 ٹرینیں چلتی تھیں۔ اب صرف ایک ٹرین چلا کر وزیر ریلوے اپنی واہ واہ کروا رہے ہیں۔ محکمہ ریلوے کی جانب سے حیدرآباد اور کھوکھرا پار کے درمیان بند ٹرین ماروی ایکسپریس چلانے کے اعلان پر ٹنڈو جام کی عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ عوام کا دیگر بند ٹرینوں کو بھی جلد چلانے کا مطالبہ کیا ہے۔
ماضی میں چلنے والی ٹرینوں پر عوام کا بے پناہ رش رہتا تھا، تل دھرنے کی جگہ نہیں رہتی تھی۔ لاکھوں روپے کی آمدنی ملنے کے باوجود ان تمام ٹرینوں کو بند کردیا گیا تھا جب کہ عوام کے احتجاج پر ایک سال قبل صرف 2 ٹرینیں مہران ایکسپریس اور شاہ لطیف ایکسپریس کو چلایا گیا ہے جس میں عوام کے رش کے باوجود ایک ٹرین مہران ایکسپریس کو نجی ادارے کو دے دیا گیا ہے جب کہ محکمہ ریلوے نے ایک اور ٹرین ماروی ایکسپریس کو چلانے کا اعلان کیا ہے جو حیدرآباد سے کھوکھرا پار کے درمیان چلے گی، شہریوں نے وفاقی حکومت سے دیگر بند ٹرینوں کو بھی چلانے کا مطالبہ کیا ہے۔
ٹھٹھہ بلدیہ ملازمین کو تنخواہیں نہ ملنے پر عدالت کا اظہار برہمی، اینٹی کرپشن کو تفتیش کا حکم، ڈپٹی کمشنر سے 14 روز میں رپورٹ طلب کرلی گئی۔ ٹھٹہ کی عدالت میں بلدیاتی ملازمین کی تنخواہوں سے محرومی کے خلاف دائر مقدمے کی سماعت کے دوران سابق سی ایم او پر جج کا شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سیکنڈ ایڈیشنل جج ٹھٹھہ کی عدالت میں تنخواہ سے محروم متاثرہ ملازمین اور دیگر کی درخواست پر سماعت ہوئی جس میں سابق سی ایم او ، ملازمین اور وکلا پیش ہوئے۔
درخواست گزار کے وکلا نے عدالت کو بتایا کہ یہاں سے برطرف کیے گئے افسران نے ملی بھگت کرکے میونسپل کمیٹی کے فنڈز میں سے لاکھوں روپے کا غبن کیا ہے۔ دو سو ملازمین کو تنخواہ دینے کے بجائے جعلی بلز کے ذریعے پیسے ہڑپ کیے ہیں اور اپنے نور نظر چند افراد کو ڈفرنسز کے بل جاری کیے ہیں، تنخواہ دینے کے بجائے چند ٹھیکیداروں کو بھی نوازا گیا۔ دلائل سننے کے بعد عدالت نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملازمین کو تنخواہ کیوں نہیں دی گئی جس پر سابق سی ایم او ٹھٹھہ نے بتایا کہ گھوسٹ ملازمین تھے جس کی رپورٹ بھیجی ہے۔
عدالت نے کہا کہ تنخواہ بند کرنے کے بجائے آپ انھیں شوکاز نوٹس جاری کرتے، تنخواہ سے محروم کیوں رکھا، جو رپورٹ آپ نے بھیجی ہے وہ کہاں ہے۔ جس پر سی ایم او پریشان رہ گیا۔ عدالت نے اینٹی کرپشن ٹھٹہ کے سرکل افسر اور ڈپٹی ڈائریکٹر حیدرآباد کو تفتیش کا حکم دیتے ہوئے 14 اکتوبر کو رپورٹ طلب کرلی ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ فیصلہ کیا ہوتا ہے۔ یہ تو مزدور عدالت میں پہنچ گئے اور ایماندار جج نے بہتر ریمارکس پیش کیے ورنہ ہزاروں مقدمے تاریخوں کی نذر ہو جاتے ہیں۔ ان مسائل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی نظام میں ہی ممکن ہوگا۔ جہاں ساری ملکیت کے مالک سارے لوگ ہوں گے کوئی بڑا ہوگا اور نہ کوئی چھوٹا۔
چمپیر تھانے کی حدود دریا خان لونڈ گاؤں کے رہائشی مقامی زمیندار کی زمین پر مزدوری کی غرض سے عارضی گھر بنا کر رہنے والے کولہی برادری کے ایک ہی خاندان کے 3 افراد نے غربت سے تنگ آ کر خودکشی کرلی۔ خودکشی کرنے والوں میں 25 سالہ بھیرو، اس کی بیوی 22 سالہ شری متی قتو اور 16 سالہ بہن ورجو شامل ہیں۔ اطلاع پر پولیس پہنچ گئی اور لاشوں کو سول اسپتال منتقل کیا۔
خودکشی کرنے والوں کا تعلق ننگرپارکر سے تھا جو مزدوری کرنے کے لیے 2 سال سے یہاں مقیم تھے۔ ادھر تھانہ بولان خان کے علاقے کی نجی جیل پر چھاپہ مار کر 40 ہاری بازیاب کرالیے گئے۔ سیشن کورٹ جام شورو کے حکم پر تھانہ بولان خان پولیس نے مقامی زمیندار کی نجی جیل میں قید 40 ہاریوں کو بازیاب کرالیا۔ تھانہ بولان خان پولیس نے کوہستان کے گاؤں فوٹو کانرو میں زمیندار کی نجی جیل پر چھاپہ مارا جہاں حبس بے جا میں رکھے 40 کے قریب خواتین، مردوں اور بچوں کو بازیاب کراتے ہوئے انھیں تھانے منتقل کردیا۔
بازیاب ہاریوں کا کہنا تھا کہ زمیندار ان پر ظلم کرتا تھا، کھانے کو کچھ بھی نہیں دیتا تھا۔ ہمارے بچے بھوک سے مر رہے تھے۔ نہ خرچہ دیتا تھا، بس ہر وقت کام کراتا تھا۔ زمیندار کا کہنا ہے کہ کولہی برادری کے ہاریوں کو سیہون سے زمین کی آبادکاری کے لیے لایا تھا۔ ان کا پرانا قرض بھی میں نے ادا کیا۔ 14 ماہ سے میرے پاس کام کر رہے ہیں، کوئی شکایت بھی نہیں تھی۔ فصل میں نقصان پر 12 لاکھ روپے کا قرض ہو گیا تھا، وہ ادا کرنے سے قاصر تھے۔
خودکشی کرنے کے اسباب غربت ہے اور غربت زمیندار کی جانب سے پوری مزدوری نہ دینا ہے۔ نجی جیل میں ہاریوں کو قید رکھنے، کھانا نہ دینے اور تشدد کرنے کے خلاف کسی بھی زمیندار کو سخت سزا دینے کی ضرورت ہے ورنہ اس ظلم کی داستان ختم نہیں ہوگی۔ہاری بے چارے دوقت کی روٹی کے لیے زمیندار کے غلام بن کر زندگی گزارتے ہیں اور کبھی کوئی مصیبت یا بیماری آ جائے تو ان کے پاس اتنی رقم نہیں ہوتی کہ مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرسکے،لہٰذا اسے زمیندار کے آگے ہاتھ پھیلانے پڑتے ہیں۔حکومت ہاریوں کی بہتری کے لیے کام کرے تو ان کی زندگی میں موجود تکلیفوں میں خاطر خواہ کمی آ سکتی ہے۔
آج کل دل کا مرض تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اس کے دیگر اسباب میں سے ایک بڑا سبب چربی کا تیل ہے۔ حال ہی میں ماتلی میں کھانے کا مضر صحت تیل بنانے والی فیکٹری کو سیل کردیا گیا جب کہ فیکٹری مالک فرار ہو گیا۔ علاقہ مکینوں کی شکایت پر اسسٹنٹ ڈائریکٹر فوڈ اتھارٹری حیدرآباد ڈویژن اور اسسٹنٹ کمشنر ٹنڈوکی نگرانی میں ٹیم نے گاؤں گامانی خاصخیلی میں فارمی مرغی کے عضلات اور انتڑیوں کے مضر صحت کوکنگ آئل بنانے والی فیکٹری پر چھاپہ مار کر فیکٹریوں کو سیل کردیا۔
چھاپے سے قبل ہی فیکٹری مالک فرار ہو گیا۔ یہ تو رہی ایک چھوٹی فیکٹری۔ایسی ہزاروں فیکٹریاں پاکستان میں چربی کا خوردنی تیل بنانے میں مصروف ہیں ،جس سے خطرناک حد تک امراض قلب میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس پر حکومت کو فوری اور ہنگامی حالات نافذ کرکے نمٹنے کی ضرورت ہے۔
مالاکنڈ میں خاتون سماجی کارکن شیباگل والد سمیت قتل کردی گئیں۔ اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے والی بٹ خیلہ کی رہائشی خاتون کو بااثر قبضہ مافیا تخریب کاروں نے ہمیشہ کے لیے خاموش کردیا۔ 11 ستمبر کو باپ بیٹی نے پشاور پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ مقامی انتظامیہ کی ملی بھگت سے قبضہ مافیا ہماری جدی پشتی گنگالان نامی جائیداد پر قابض ہے۔
عدالت کے ہمارے حق میں کئی فیصلے ہونے کے باوجود متعلقہ ادارے ہماری داد رسی نہیں کر رہے ہیں۔ کئی افراد نے ہماری اراضی سے تقریباً 70 سے 80 لاکھ روپے کی زبردستی کٹائی کی اور چند روز قبل ہماری جائیداد سے تقریباً 50 لاکھ روپے کی مٹی بھی فروخت کی۔ یہ افراد ہمیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ اس پریس کانفرنس کے بعد بھی حکومت نے ان کے تحفظات کے لیے کوئی سیکیورٹی فراہم نہیں کی اور جب باپ بیٹی کا قتل ہو گیا تو وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا نے پولیس کو قاتلوں کی فوری گرفتاری کا حکم دیا۔
آج سے 14 سال قبل حیدرآباد سے میرپورخاص تک 10 ٹرینیں چلتی تھیں۔ اب صرف ایک ٹرین چلا کر وزیر ریلوے اپنی واہ واہ کروا رہے ہیں۔ محکمہ ریلوے کی جانب سے حیدرآباد اور کھوکھرا پار کے درمیان بند ٹرین ماروی ایکسپریس چلانے کے اعلان پر ٹنڈو جام کی عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ عوام کا دیگر بند ٹرینوں کو بھی جلد چلانے کا مطالبہ کیا ہے۔
ماضی میں چلنے والی ٹرینوں پر عوام کا بے پناہ رش رہتا تھا، تل دھرنے کی جگہ نہیں رہتی تھی۔ لاکھوں روپے کی آمدنی ملنے کے باوجود ان تمام ٹرینوں کو بند کردیا گیا تھا جب کہ عوام کے احتجاج پر ایک سال قبل صرف 2 ٹرینیں مہران ایکسپریس اور شاہ لطیف ایکسپریس کو چلایا گیا ہے جس میں عوام کے رش کے باوجود ایک ٹرین مہران ایکسپریس کو نجی ادارے کو دے دیا گیا ہے جب کہ محکمہ ریلوے نے ایک اور ٹرین ماروی ایکسپریس کو چلانے کا اعلان کیا ہے جو حیدرآباد سے کھوکھرا پار کے درمیان چلے گی، شہریوں نے وفاقی حکومت سے دیگر بند ٹرینوں کو بھی چلانے کا مطالبہ کیا ہے۔
ٹھٹھہ بلدیہ ملازمین کو تنخواہیں نہ ملنے پر عدالت کا اظہار برہمی، اینٹی کرپشن کو تفتیش کا حکم، ڈپٹی کمشنر سے 14 روز میں رپورٹ طلب کرلی گئی۔ ٹھٹہ کی عدالت میں بلدیاتی ملازمین کی تنخواہوں سے محرومی کے خلاف دائر مقدمے کی سماعت کے دوران سابق سی ایم او پر جج کا شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سیکنڈ ایڈیشنل جج ٹھٹھہ کی عدالت میں تنخواہ سے محروم متاثرہ ملازمین اور دیگر کی درخواست پر سماعت ہوئی جس میں سابق سی ایم او ، ملازمین اور وکلا پیش ہوئے۔
درخواست گزار کے وکلا نے عدالت کو بتایا کہ یہاں سے برطرف کیے گئے افسران نے ملی بھگت کرکے میونسپل کمیٹی کے فنڈز میں سے لاکھوں روپے کا غبن کیا ہے۔ دو سو ملازمین کو تنخواہ دینے کے بجائے جعلی بلز کے ذریعے پیسے ہڑپ کیے ہیں اور اپنے نور نظر چند افراد کو ڈفرنسز کے بل جاری کیے ہیں، تنخواہ دینے کے بجائے چند ٹھیکیداروں کو بھی نوازا گیا۔ دلائل سننے کے بعد عدالت نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملازمین کو تنخواہ کیوں نہیں دی گئی جس پر سابق سی ایم او ٹھٹھہ نے بتایا کہ گھوسٹ ملازمین تھے جس کی رپورٹ بھیجی ہے۔
عدالت نے کہا کہ تنخواہ بند کرنے کے بجائے آپ انھیں شوکاز نوٹس جاری کرتے، تنخواہ سے محروم کیوں رکھا، جو رپورٹ آپ نے بھیجی ہے وہ کہاں ہے۔ جس پر سی ایم او پریشان رہ گیا۔ عدالت نے اینٹی کرپشن ٹھٹہ کے سرکل افسر اور ڈپٹی ڈائریکٹر حیدرآباد کو تفتیش کا حکم دیتے ہوئے 14 اکتوبر کو رپورٹ طلب کرلی ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ فیصلہ کیا ہوتا ہے۔ یہ تو مزدور عدالت میں پہنچ گئے اور ایماندار جج نے بہتر ریمارکس پیش کیے ورنہ ہزاروں مقدمے تاریخوں کی نذر ہو جاتے ہیں۔ ان مسائل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی نظام میں ہی ممکن ہوگا۔ جہاں ساری ملکیت کے مالک سارے لوگ ہوں گے کوئی بڑا ہوگا اور نہ کوئی چھوٹا۔