بچوں کی حفاظت
آپ میں سے کتنے والدین ہیں جو جانتے ہیں کہ ان کے بچے اپنا فارغ وقت کیسے گزارتے ہیں؟
ساحل اپنے اسکول کی عمارت کے سامنے پہنچ کر ٹھٹک کر رک گیا، اسکول کے مین گیٹ پر پولیس اور لوگوں کا ہجوم موجود تھا اور اس کا دوست عامر ایک ادھیڑ عمر آدمی کے ساتھ پولیس وین میں بیٹھا تھا جس کی ہاتھوں میں ہتھکڑیاں نظر آرہی تھیں۔ ''اوہ بالآخر یہ پکڑے گئے۔'' ساحل نے سوچا اور خدا کا شکرادا کیا کہ وہ اس شخص کے جال میں پھنسنے سے بچ گیا۔ ساحل نویں جماعت کا طالب علم تھا، گزشتہ دنوں ہی عامر نے اسے بتایا تھا کہ وہ ادھیڑ عمر شخص اس سے بچوں میں منشیات فروخت کرواتا تھا جس کے بدلے اسے ڈھیر سارے پیسے ملتے تھے۔ عامر نے ساحل کو بھی اس کام کی پیشکش کی تھی لیکن ساحل نے نہ صرف انکار کردیا بلکہ عامر کو سمجھایا بھی تھا کہ ایسا کرکے وہ ایک مجرم بن رہا ہے اور بالآخر نتیجہ آج اس کے سامنے تھا۔
اس تمہید کا مقصد کسی قسم کی داستان طرازی کرنا نہیں بلکہ احساس دلانا ہے کہ آج کل والدین اور سرپرست اپنے بچوں کی تربیت میں کس قدر لاپرواہی برت رہے ہیں۔ اب چاہے وجہ نسلوں کا فرق ہو یا کشاکش روزگار کی مصروفیات، یہ حقیقت ہے کہ آج کی نسل اور بڑوں کے درمیان فاصلے بہت تیزی سے بڑھ رہے ہیں، یہاں تک کہ والدین نہ صرف اپنے بچوں کی نفسیات اور خیالات سمجھنے سے قاصر ہیں بلکہ ان کی مصروفیات سے بھی لاعلم رہتے ہیں۔ گذشتہ ادوار میں بچے اپنے والدین کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر قدم تک نہ نکالتے تھے، کہیں جاتے تو نہ صرف مقام بلکہ واپسی کا وقت تک ماں باپ کے علم میں ہوتا تھا، صرف یہی نہیں ملنے جلنے والے تمام دوستوں کے نام اور پتے تک والدین کو معلوم ہوتے تھے تاکہ کسی ناگہانی صورت میں رابطہ کیا جاسکے۔ والدین صرف تربیت پر ہی توجہ مرکوز نہیں رکھتے تھے بلکہ اس بات کا بھی خیال رکھا جاتا تھا کہ گھر سے باہر بچوں کی ڈگر کس سمت جا رہی ہے۔
اس کے برعکس مذکورہ بالا واقعہ بتاتا ہے کہ آج کل کے والدین نے اپنا یہ فرض یکسر نظر انداز کردیا ہے، وہ اس بات سے لاعلم ہوتے ہیں کہ ان کے بچے کس وقت کہاں ہیں، کس سے مل رہے ہیں، کیا کررہے ہیں؟ نتیجتاً ان سب باتوں سے لاعلمی نہ صرف بچوں بلکہ معاشرے کے بگاڑ کا بھی باعث بن رہی ہے۔
احاطہ تحریر صرف یہ واقعہ نہیں لیکن جگہ کی قلت مختصر البیانی پر مجبور کرتی ہے۔ مندرجہ بالا واقعے سے ظاہر ہے کہ اجنبی لوگوں سے ملنا جلنا اور ان کی ترغیبات کے زیر اثر غلط قدم اٹھانا بچوں کے لیے کس قدر خطرناک ہوسکتا ہے۔ پاکستان میں نویں جماعت کے طلبا 13 یا14 کے سن میں ہی ہوتے ہیں، اس عمر میں بچوں کا ذہن ناپختہ اور حساس ہوتا ہے، ایسے میں بچوں کی نفسیات اور تربیت پر توجہ مرکوز کرنا اور بھی زیادہ اہم ہوجاتا ہے۔ ساحل کی خوش قسمتی کہ وہ شیطان کے بہکاوے میں نہیں آیا لیکن کتنے ہی بچے ایسے ہوں گے جو اپنے والدین کی لاپرواہی اور غفلت کے باعث غلط راہوں پر گامزن ہوچکے ہیں اور ہونے والے ہوں گے۔
ضروری نہیں کہ ان بچوں کو بہکانے والے ان سے منشیات فروشی کا ہی کام لیں، بہکانے والے بچوں کو سگریٹ و شراب نوشی، چوری ، ڈاکہ زنی یہاں تک کہ جسم فروشی جیسے گناہ آلود راستوں پر چلنے پر بھی مجبور کرسکتے ہیں۔ اس قسم کے لوگ باقاعدہ ایک گینگ اور مافیا کے تحت کام کرتے ہیں اور بچوں کو بہکانے اور لالچ دینے کے علاوہ دھمکیوں کے ذریعے بھی اپنا مطلب پورا کرتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات سے مماثل میڈیا پر مختلف اوقات میں کئی کہانیاں منظر عام پر آتی رہی ہیں، جس میں ناپختہ ذہنوں کو برین واشنگ یا زبردستی کرکے غلط راہوں کے انتخاب پر مجبور کیا گیا، لیکن ان سب کا ذمے دار کون ہے؟ وہ معصوم بچے جنھیں اچھے برے کی تمیز ہی نہیں؟ وہ شیطان صفت انسان جو ان بچوں سے یہ کام لیتے ہیں یا پھر والدین جو اپنے فرائض سے لاعلم ہیں؟
ایک مالی زمین کا سینہ چیر کر بیج بوتا ہے، انھیں سینچتا ہے، پانی دیتا ہے، جب اس کی کونپلیں پھوٹ پڑتی ہیں تو سخت موسم اور جانوروں سے ان کی حفاظت کرتا ہے، یوں مالی کی مشفقانہ محنت سے ایک نرم و نازک پودا تناور درخت کا روپ دھار لیتا ہے، جہاں موسم کی سختی اس پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ لیکن اگر مالی ان کی آبیاری نہ کرتا تو اس پودے کو پنپنا نصیب نہ ہوتا، موسم کی سختی جھیل بھی جاتا تو کسی جانور کی بھوک مٹانے کا سبب بن جاتا۔ کچھ ایسی ہی صورت والدین کی ہے، والدین کو بھی اپنے ناسمجھ ، نادان بچوں کو ذہنی پختگی سے پہلے آزاد نہ چھوڑنا چاہیے اور ان کی ہر حرکت پر نظر رکھنی چاہیے۔
آج قارئین سے میرا سوال ہے کہ آپ میں سے کتنے والدین ہیں جو جانتے ہیں کہ ان کے بچے اپنا فارغ وقت کیسے گزارتے ہیں؟ گھر سے باہر کیا کرتے ہیں اور کس سے ملتے ہیں؟ آپ کے بچوں کے انٹرنیٹ اور موبائل میں کن لوگوں سے روابط ہیں؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ والدین یہ بات بخوبی جانیں کہ ان کے بچے کے خیالات یا عادات کسی غلط سمت تو گامزن نہیں، کہیں ان کے دوستوں کے گروپ میں کوئی ایسا شخص تو شامل نہیں ہوگیا جو آپ کے بچے کی شخصیت اور مستقبل کی تباہی کا باعث بن جائے؟ ان تمام عوامل کا احاطہ کیجیے، قبل اس کے کہ ابلیس کے پیروکار اپنی چال چل جائیں اور آپ کے ہاتھ افسوس کے سوا کچھ نہ آئے۔ ایک مالی کی طرح یہ آپ کی ذمے داری ہے کہ اپنے بچوں کو ایک تناور درخت کی طرح مضبوط بننے میں ان کی مدد کریں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اس تمہید کا مقصد کسی قسم کی داستان طرازی کرنا نہیں بلکہ احساس دلانا ہے کہ آج کل والدین اور سرپرست اپنے بچوں کی تربیت میں کس قدر لاپرواہی برت رہے ہیں۔ اب چاہے وجہ نسلوں کا فرق ہو یا کشاکش روزگار کی مصروفیات، یہ حقیقت ہے کہ آج کی نسل اور بڑوں کے درمیان فاصلے بہت تیزی سے بڑھ رہے ہیں، یہاں تک کہ والدین نہ صرف اپنے بچوں کی نفسیات اور خیالات سمجھنے سے قاصر ہیں بلکہ ان کی مصروفیات سے بھی لاعلم رہتے ہیں۔ گذشتہ ادوار میں بچے اپنے والدین کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر قدم تک نہ نکالتے تھے، کہیں جاتے تو نہ صرف مقام بلکہ واپسی کا وقت تک ماں باپ کے علم میں ہوتا تھا، صرف یہی نہیں ملنے جلنے والے تمام دوستوں کے نام اور پتے تک والدین کو معلوم ہوتے تھے تاکہ کسی ناگہانی صورت میں رابطہ کیا جاسکے۔ والدین صرف تربیت پر ہی توجہ مرکوز نہیں رکھتے تھے بلکہ اس بات کا بھی خیال رکھا جاتا تھا کہ گھر سے باہر بچوں کی ڈگر کس سمت جا رہی ہے۔
اس کے برعکس مذکورہ بالا واقعہ بتاتا ہے کہ آج کل کے والدین نے اپنا یہ فرض یکسر نظر انداز کردیا ہے، وہ اس بات سے لاعلم ہوتے ہیں کہ ان کے بچے کس وقت کہاں ہیں، کس سے مل رہے ہیں، کیا کررہے ہیں؟ نتیجتاً ان سب باتوں سے لاعلمی نہ صرف بچوں بلکہ معاشرے کے بگاڑ کا بھی باعث بن رہی ہے۔
احاطہ تحریر صرف یہ واقعہ نہیں لیکن جگہ کی قلت مختصر البیانی پر مجبور کرتی ہے۔ مندرجہ بالا واقعے سے ظاہر ہے کہ اجنبی لوگوں سے ملنا جلنا اور ان کی ترغیبات کے زیر اثر غلط قدم اٹھانا بچوں کے لیے کس قدر خطرناک ہوسکتا ہے۔ پاکستان میں نویں جماعت کے طلبا 13 یا14 کے سن میں ہی ہوتے ہیں، اس عمر میں بچوں کا ذہن ناپختہ اور حساس ہوتا ہے، ایسے میں بچوں کی نفسیات اور تربیت پر توجہ مرکوز کرنا اور بھی زیادہ اہم ہوجاتا ہے۔ ساحل کی خوش قسمتی کہ وہ شیطان کے بہکاوے میں نہیں آیا لیکن کتنے ہی بچے ایسے ہوں گے جو اپنے والدین کی لاپرواہی اور غفلت کے باعث غلط راہوں پر گامزن ہوچکے ہیں اور ہونے والے ہوں گے۔
ضروری نہیں کہ ان بچوں کو بہکانے والے ان سے منشیات فروشی کا ہی کام لیں، بہکانے والے بچوں کو سگریٹ و شراب نوشی، چوری ، ڈاکہ زنی یہاں تک کہ جسم فروشی جیسے گناہ آلود راستوں پر چلنے پر بھی مجبور کرسکتے ہیں۔ اس قسم کے لوگ باقاعدہ ایک گینگ اور مافیا کے تحت کام کرتے ہیں اور بچوں کو بہکانے اور لالچ دینے کے علاوہ دھمکیوں کے ذریعے بھی اپنا مطلب پورا کرتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات سے مماثل میڈیا پر مختلف اوقات میں کئی کہانیاں منظر عام پر آتی رہی ہیں، جس میں ناپختہ ذہنوں کو برین واشنگ یا زبردستی کرکے غلط راہوں کے انتخاب پر مجبور کیا گیا، لیکن ان سب کا ذمے دار کون ہے؟ وہ معصوم بچے جنھیں اچھے برے کی تمیز ہی نہیں؟ وہ شیطان صفت انسان جو ان بچوں سے یہ کام لیتے ہیں یا پھر والدین جو اپنے فرائض سے لاعلم ہیں؟
ایک مالی زمین کا سینہ چیر کر بیج بوتا ہے، انھیں سینچتا ہے، پانی دیتا ہے، جب اس کی کونپلیں پھوٹ پڑتی ہیں تو سخت موسم اور جانوروں سے ان کی حفاظت کرتا ہے، یوں مالی کی مشفقانہ محنت سے ایک نرم و نازک پودا تناور درخت کا روپ دھار لیتا ہے، جہاں موسم کی سختی اس پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ لیکن اگر مالی ان کی آبیاری نہ کرتا تو اس پودے کو پنپنا نصیب نہ ہوتا، موسم کی سختی جھیل بھی جاتا تو کسی جانور کی بھوک مٹانے کا سبب بن جاتا۔ کچھ ایسی ہی صورت والدین کی ہے، والدین کو بھی اپنے ناسمجھ ، نادان بچوں کو ذہنی پختگی سے پہلے آزاد نہ چھوڑنا چاہیے اور ان کی ہر حرکت پر نظر رکھنی چاہیے۔
آج قارئین سے میرا سوال ہے کہ آپ میں سے کتنے والدین ہیں جو جانتے ہیں کہ ان کے بچے اپنا فارغ وقت کیسے گزارتے ہیں؟ گھر سے باہر کیا کرتے ہیں اور کس سے ملتے ہیں؟ آپ کے بچوں کے انٹرنیٹ اور موبائل میں کن لوگوں سے روابط ہیں؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ والدین یہ بات بخوبی جانیں کہ ان کے بچے کے خیالات یا عادات کسی غلط سمت تو گامزن نہیں، کہیں ان کے دوستوں کے گروپ میں کوئی ایسا شخص تو شامل نہیں ہوگیا جو آپ کے بچے کی شخصیت اور مستقبل کی تباہی کا باعث بن جائے؟ ان تمام عوامل کا احاطہ کیجیے، قبل اس کے کہ ابلیس کے پیروکار اپنی چال چل جائیں اور آپ کے ہاتھ افسوس کے سوا کچھ نہ آئے۔ ایک مالی کی طرح یہ آپ کی ذمے داری ہے کہ اپنے بچوں کو ایک تناور درخت کی طرح مضبوط بننے میں ان کی مدد کریں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔