ڈالر قرض اور پائیدار ترقی

ایک طرف بڑھتی ہوئی درآمدات اور اس کے مقابلے میں کم برآمدات اب ان دونوں کا درمیانی فرق 100فیصد سے بھی زیادہ ہو چکا ہے۔

ڈالر کی اڑان ہنوز جاری و ساری ہے، جس کی جتنی بھی وجوہات بیان کی جاتی ہیں عوام کو ان سے سروکار نہیں، انھیں تو مہنگائی نے مار ڈالا ہے۔ اس کے علاوہ سب سے زیادہ متاثر پاکستانی معیشت ہے۔ ایک طرف بڑھتی ہوئی درآمدات اور اس کے مقابلے میں کم برآمدات اب ان دونوں کا درمیانی فرق 100فیصد سے بھی زیادہ ہو چکا ہے جسے ہم تجارتی خسارہ کہتے ہیں۔

معیشت کے لیے قدرے ڈھارس کا ذریعہ محب وطن دیار غیر میں رہنے والے پاکستانی ہیں جوکہ ترسیلات زر میں اضافہ ہی کیے چلے جا رہے ہیں۔ معیشت اور پاکستانی عوام کے لیے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ بیرونی قرضے بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ یہ قرض دراصل پاکستانی عوام کے سر پر ہی ڈال دیا جاتا ہے۔ اب قرض کا یہ بوجھ بڑھتے بڑھتے 122 ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے۔

اس طرح بتدریج ہم مقروض ملک بنتے چلے جا رہے ہیں، کیونکہ ہم اب درآمدی ملک بھی بن چکے ہیں۔ 2018 میں پاکستان پر قرض کا بار 96 ارب ڈالر تھا۔ اس وقت کے بعد موجودہ حکومت کے 3 سالہ دور کے دوران 26 ارب ڈالر کا مزید قرض بڑھا ہے۔ نئی آنے والی حکومت نے نگران حکومت کا پیش کردہ بجٹ اور سابقہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے اپنا نیا بجٹ پیش کیا تھا جس میں ایک کروڑ نوکریوں کے دعوے کو کس طرح پورا کرنا تھا، اس کے متعلق کوئی منصوبہ بندی بظاہر نظر نہیں آرہی تھی۔

اگر اس وقت پبلک ورکس پروگرام شروع کردیے جاتے اور ایک سال کے لیے بجٹ میں رقوم مختص کرتے ہوئے چھوٹے چھوٹے ترقیاتی، فلاحی اور انتہائی ضروری پراجیکٹ کی تکمیل کا آغاز کردیا جاتا کہ یہ پراجیکٹ ہے اور جس کی لاگت اتنی آئے گی اور ایک سال میں آیندہ بجٹ کے آغاز سے قبل مکمل کرلیا جائے گا اور یہ عوام کے لیے فلاحی اور ضروری منصوبہ ہے۔ اس طرح اس وقت لاکھوں بے روزگار نوجوانوں کو برسر روزگار کیا جاسکتا تھا، پھر آیندہ برس نئے بجٹ میں نئے مواقع پیش کردیے جاتے۔

اب ان 3 سالوں میں 26 ارب ڈالر کا قرض لیا گیا ہے۔ اب اس رفتار کو انتہائی سست ترین نہ کیا گیا تو دیگر کئی عوامل مل کر پاکستانی روپے کو مزید کمزور سے کمزور تر کرتے چلے جائیں گے۔اس سے قبل بھی روپے پر اس قسم کا بحران آتا رہا ہے اور ڈالر کی قدر تیزی سے بڑھی ہے۔ لیکن ان دنوں ملک پر قرض کا بوجھ اب سے تقریباً نصف تھا۔ 2008 میں روپے کی قدر میں تیزی سے گراوٹ آئی تھی۔ امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں تیزی سے کمی ہو رہی تھی۔

اس وقت بھی سٹے بازی کا عنصر سامنے آیا تھا، اگرچہ اس کے علاوہ بھی دیگر اسباب تھے جن میں پاکستان کی برآمدات کی سست روی اور درآمدات میں اضافہ، اس کی وجہ یہ تھی کہ اکثر پاکستانی صارفین غیر ملکی برانڈز اور مصنوعات کی خریداری میں دلچسپی رکھتے ہیں حتیٰ کہ کھانے پینے کی بعض اشیا جن میں چاکلیٹ تک شامل ہے۔


ان کی بڑے پیمانے پر خریداری اور فرنیچر حتیٰ کہ سرامکس کی بنی مصنوعات اور استعمال ہونے والے ظروف اور دیگر بہت سی تعمیراتی مصنوعات وغیرہ کی ضرورت درآمد شدہ مال سے ہی پوری کی جاتی تھی۔ بہرحال اس وقت مرکزی بینک نے مداخلت کی پالیسی اپنائی اور بتایا جاتا ہے کہ مرکزی بینک نے ڈالر کو قابو میں رکھنے کے لیے کئی کروڑ ڈالر مارکیٹ میں داخل کیے تھے۔ لیکن اس مرتبہ ایک بار پھر آئی ایم ایف کی پالیسی کو ہی لے کر آگے چلا جارہا ہے جس کی خواہش ہے کہ ڈالر کو آزاد چھوڑ دیا جائے۔ اگرچہ اب بھی کچھ نہ کچھ سٹے بازی کا عمل دخل ہے۔

2008 میں کرنسی کی شدید بے قدری پر کئی سخت اقدامات اٹھائے گئے تھے۔ مرکزی بینک نے غیر ملکی کرنسیاں پاکستان سے باہر لے جانے پر فوری پابندیاں بھی عائد کردی تھیں۔ یہ ہدایات بھی جاری کردی گئی تھی کہ ایکسچینج کمپنیاں اوپن کرنسی مارکیٹ میں ڈالر فروخت کریں، اور کمپنی کے مالکان سے کہا گیا تھا کہ وہ مقررہ قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی نہ کریں۔ بصورت دیگر ان کے لائسنس منسوخ کردیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ کئی عملی اقدامات کے نتیجے میں پاکستانی کرنسی کی ویلیو میں بہتری دیکھی گئی تھی۔

کیونکہ ان دنوں جس طرح آج کل ڈالر کی قدر بڑھ رہی ہے اسی طرح ڈالر کی قدر بڑھ رہی تھی اور روپے کی تنزلی ہو رہی تھی۔ لہٰذا حکومت نے زرمبادلہ پر کنٹرول کی خاطر کئی سخت اقدامات اٹھائے تھے۔ حکومت نے یورو، پونڈز، یو اے ای درہم ملک سے باہر لے جانے پر پابندی بھی عائد کردی تھی۔

پاکستان میں اس وقت معاشی اعشاریوں کی گراوٹ اور آئی ایم ایف کی عجیب وغریب اور غریب کش پالیسیوں کے باعث روپے پر زوال آ رہا ہے۔ گزشتہ دو ماہ کے میزانیے یعنی رواں مالی سال کے دو ماہ میں بجٹ 700 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ اس کی دیگر وجوہات کے علاوہ قرضوں پر جو بلند شرح سود ادا کیا گیا ہے وہ بھاری رقم ہے۔

اب اس قسم کے کم شرح افزائش ظاہر کرتے ہوئے معاشی اعشاریے یا منفی معاشی اعشاریوں کی موجودگی میں پائیدار ترقی کا حصول ناممکن ہو کر رہ جاتا ہے۔ اب نئے خطرات و خدشات کو سامنے رکھتے ہوئے پائیدار ترقی کے لیے نئی پالیسیوں کا تعین کرنا ضروری ہے۔ حکومت کو ترقیاتی اخراجات اس طرح سے بڑھانا ہوں گے کہ جس کی وجہ سے معاشی شرح افزائش میں بہتری آئے اور یہ بہتری فوری نظر آئے۔

یہاں پر یہ کہنے کا مقصد کہ پائیدار ترقی کے لیے نئی پالیسیوں کا تعین ضروری ہے لہٰذا ان پالیسیوں میں افغان صورتحال کو مد نظررکھا جائے اور ایسے ترقیاتی کاموں کو فوراً مکمل کیا جائے جس سے ملکی شرح ترقی پر فوری اثرات مرتب ہوں۔
Load Next Story