کیسے کیسے لوگ
ایک ٹک ٹاکر لڑکی اپنے ایک ساتھی کے ساتھ ٹک ٹاک وڈیو بنانے آئی مگر دیکھتے ہی دیکھتے ہی بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔
عجب زمانہ آ گیا ہے، جن لوگوں کی بھی عام اخلاقی اصولوں کی بنیاد پر حمایت کے لیے آواز اٹھائیں ان میں سے بیشتر حقائق کی پہلی ہی دھوپ میں موم کے مجسمے ثابت ہوتے ہیں۔
ان کے ناقدین حمایت کرنے والوں پر طنزیہ نشتربرساتے ہیں، ہم نے توشروع ہی میں بتا دیا تھا یہ کچھ اور ہی ڈرامہ ہے۔ حمایت کرنے والے اپنی اخلاقی پوزیشن پر قائم رہتے ہیں مگر دل ہی دل میں افسوس ہوتا ہے کہ کیسے کیسے لوگ جی کو جلانے آ جاتے ہیں۔
اس سال چودہ اگست کو مینار ِ پاکستان پر ایک دل خراش واقعہ پیش آیا۔ ایک ٹک ٹاکر لڑکی اپنے ایک ساتھی کے ساتھ ٹک ٹاک وڈیو بنانے آئی مگر دیکھتے ہی دیکھتے ہی بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ ہجوم اکٹھا ہوگیا اور ایک انتہائی کریہہ واقعہ پورے ملک کو ہلا گیا۔ مین اسٹریم اور سوشل میڈیا پر ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ لڑکی پر طعن کے نشتر برسانے والوں کی بھی کمی نہ تھی لیکن زیادہ بلند آوازیں اس واقعے کی مذمت میں سنائی دیں۔
پولیس حرکت میں آئی، انتہائی چابکدستی اور سرعت کے ساتھ درجنوں لوگوں کو حراست میں لیا گیا۔ شناخت پریڈمیں نصف درجن سے زائد لوگوںکی شناخت بھی کی گئی۔ تفتیش آگے بڑھی تو کہانی میں نیا موڑ آ گیا۔ ٹک ٹاکر کے ساتھی کے فون سے جو کال ڈیٹا اور آڈیو ریکارڈ سامنے آیا اس سے ظاہر ہوا کہ اس سارے قصے میں ملی بھگت ہوئی۔
ایک آڈیو کال کے مطابق ٹک ٹاکر لڑکی اور اس کا ساتھی گرفتار ملزموں سے زیادہ سے زیادہ رقم بٹورنے کی پلاننگ کر رہے ہیں؛ غریب لوگ ہیں پانچ چھ لاکھ سے زیادہ نہیں دے سکیں گے۔ لڑکے کے تین زیرِ حراست ساتھی شامل تفتیش ہونے پر انکشاف ہوا کہ لالچ اور ہوس کا جال کافی وسیع ہے۔
تازہ ترین موڑ اس تفتیش میں یہ آیا ہے کہ؛ ٹک ٹاکر لڑکی کے گرد بھی گھیرا تنگ ہونے لگا ہے۔ پولیس نے کارروائی کے لیے لیگل ڈیپارٹمنٹ سے رائے مانگ لی۔ٹک ٹاکر لڑکی اور اس کے ساتھی دونوں نے باہمی رضامندی سے قابل اعتراض وڈیوز اپ لوڈ کیں جو ایک جرم ہے۔
اس خبر کے ساتھ ایک اور خبر بھی نمایاں چھپی کہ اعلیٰ افسران کو بلیک میل کرنے والی یو ٹیوبر لڑکی گرفتار۔ موصوفہ پہلے سوشل میڈیا کے لیے ان افسران اور مختلف برانڈز کی وڈیو بناتی ، اسی دوران' قابل اعتراض' وڈیوز بنانے کا ہنر بھی خاموشی سے آزمایا جاتا رہا، اس کے بعد بلیک میلنگ کے لیے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے کی دھمکی۔ ایسی قابل اعتراض وڈیوز ایک ہاتھ کی تالی سے تو نہیں بنتیں مگر ہوس کے کمزور لمحوں میں منہ کے بل گرے ہوئے لوگوں کو تب جاگ آتی ہے جب مطالبہ ہوتا ہے کہ پیسے پھینک ورنہ تماشا دیکھ!
ایف آئی اے کے سائبر کرائمز ونگ میں ایسی شکایات کا انبار ہے۔ اس انبار میں بہت سے کیسز انتہائی جینیوئین اور فوری توجہ کے طالب ہوتے ہیں۔ تاہم بہت سے کیسز ایسے بھی ہیں کہ ملزم پوری تیاری اور محنت سے شکار پھانستے ہیں اور ثبوت نہیں چھوڑتے۔ شکار پھنسنے کے بعد اپنی محنت وصول کرنے کے لیے انگلیاں ٹیڑھی کرتے ہیں تو شکار کو اپنی عزت کی فکر پر جاتی ہے۔ کچھ دے دلا کر گلو خلاصی کروا لیتے ہیں اور کچھ بے بسی کے عالم میں ایف آئی اے کے پاس داد فریاد لے کر آتے ہیں۔
سائبر کرائم کا جنگل کتنا وسیع ہو رہا ہے اس کا اندازہ دو ہفتے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایف آئی اے کی جانب سے داخل کیے گئے اعداد و شمار سے ہوتا ہے۔2019 میں تیس ہزار سے زائدشکایات درج کی گئیں ، جب کہ 2020 میں درج کی گئی شکایات 94 ہزار سے بھی زائد تھیں یعنی ایک ہی سال میں 300% سے بھی زائد اضافہ۔ 2021 میں جنوری سے اگست تک 54 ہزار شکایات درج کی گئیں۔
سائبر کرائمز کی پیچیدہ نوعیت کے سبب ان شکایات میں انکوائری کے لیے بیس پچیس فیصد ہی کوالیفائی ہو سکیں۔ مقدمات کا اندراج اور حراست میں لیے گئے افراد کی تعداد سکڑ کر سیکڑوں میں رہی۔ دائر کیے جانے والے کیسز میں سے کتنے اپنے منطقی انجام تک پہنچ پاتے ہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
ایف آئی اے کی اپنی صلاحیت بھی محدود ہے اور وسائل محدود تر لیکن جرائم کی دنیا میں اب سائبر کرائم ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سائبر کرائمز کے بارے میں آگاہی اور شعور پیدا کرنے کے لیے میڈیا، تعلیمی ادارے اور سول سوسائٹی کو بھی آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
سائبر کرائمز دنیا بھر کے ممالک کے اداروں کے لیے سر درد ہے۔ کرائمز کے ساتھ ساتھ دنیا کے بیشتر ممالک میں سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک اور گوگل کے حوالے سے نت نئے انکشافات کے سبب اب لبرل سوسائٹیز میں بھی ان پلیٹ فارمز کو نکیل ڈالنے کی ضرورت پر زور دیا جارہا ہے، کہیں ان کمپنیوں کو پارلیمنٹ کمیٹیوں کے سامنے بلایا جا رہا ہے تو کہیں ان کمپنیوں کے ٹیکس گریز رویوں کو قابو میں رکھنے کے لیے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔
پاکستان کی سیاست اور معاشرت میں سوشل میڈیا کے مثبت اور منفی دونوں اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ تاہم ملکی اور پالیسی لیول پر ان کے اثرات اور ردعمل کے بارے میں دور رس کام ہونا باقی ہے۔ ہم ایسے سادہ لوح تو ابھی آن لائن بینکنگ فراڈیوں سے ہی فارغ نہیں ہوئے تھے کہ اب سائبر کرائمز پر لشکروں کے لشکر حملہ آور ہونے کے نت نئے طریقے آزما رہے ہیں۔ہر ہاتھ میں موبائل اور ہر موبائل میں کیمرے نے شیطان ذہنوں کے لیے نہایت آسانی کردی ہے۔
تاہم جب کبھی مینار پاکستان پر ہونے والے واقعات سے ملتے جلتے واقعات پر عوامی ردِ عمل کے نتیجے میں گرفتاریوں اور تفتیش کے بعد معاملہ کھلتا ہے تو افسوس ہوتا ہے کہ اخلاص پر مبنی اخلاقی حمایت کے حق دار بننے والوں کے جب پردے سرکتے ہیں تو وہ اندر سے سراسر ہوسِ زر کے بھوکے دریافت ہوتے ہیں۔ علامہ اقبال یاد آئے؛
خدا وندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری
ان کے ناقدین حمایت کرنے والوں پر طنزیہ نشتربرساتے ہیں، ہم نے توشروع ہی میں بتا دیا تھا یہ کچھ اور ہی ڈرامہ ہے۔ حمایت کرنے والے اپنی اخلاقی پوزیشن پر قائم رہتے ہیں مگر دل ہی دل میں افسوس ہوتا ہے کہ کیسے کیسے لوگ جی کو جلانے آ جاتے ہیں۔
اس سال چودہ اگست کو مینار ِ پاکستان پر ایک دل خراش واقعہ پیش آیا۔ ایک ٹک ٹاکر لڑکی اپنے ایک ساتھی کے ساتھ ٹک ٹاک وڈیو بنانے آئی مگر دیکھتے ہی دیکھتے ہی بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ ہجوم اکٹھا ہوگیا اور ایک انتہائی کریہہ واقعہ پورے ملک کو ہلا گیا۔ مین اسٹریم اور سوشل میڈیا پر ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ لڑکی پر طعن کے نشتر برسانے والوں کی بھی کمی نہ تھی لیکن زیادہ بلند آوازیں اس واقعے کی مذمت میں سنائی دیں۔
پولیس حرکت میں آئی، انتہائی چابکدستی اور سرعت کے ساتھ درجنوں لوگوں کو حراست میں لیا گیا۔ شناخت پریڈمیں نصف درجن سے زائد لوگوںکی شناخت بھی کی گئی۔ تفتیش آگے بڑھی تو کہانی میں نیا موڑ آ گیا۔ ٹک ٹاکر کے ساتھی کے فون سے جو کال ڈیٹا اور آڈیو ریکارڈ سامنے آیا اس سے ظاہر ہوا کہ اس سارے قصے میں ملی بھگت ہوئی۔
ایک آڈیو کال کے مطابق ٹک ٹاکر لڑکی اور اس کا ساتھی گرفتار ملزموں سے زیادہ سے زیادہ رقم بٹورنے کی پلاننگ کر رہے ہیں؛ غریب لوگ ہیں پانچ چھ لاکھ سے زیادہ نہیں دے سکیں گے۔ لڑکے کے تین زیرِ حراست ساتھی شامل تفتیش ہونے پر انکشاف ہوا کہ لالچ اور ہوس کا جال کافی وسیع ہے۔
تازہ ترین موڑ اس تفتیش میں یہ آیا ہے کہ؛ ٹک ٹاکر لڑکی کے گرد بھی گھیرا تنگ ہونے لگا ہے۔ پولیس نے کارروائی کے لیے لیگل ڈیپارٹمنٹ سے رائے مانگ لی۔ٹک ٹاکر لڑکی اور اس کے ساتھی دونوں نے باہمی رضامندی سے قابل اعتراض وڈیوز اپ لوڈ کیں جو ایک جرم ہے۔
اس خبر کے ساتھ ایک اور خبر بھی نمایاں چھپی کہ اعلیٰ افسران کو بلیک میل کرنے والی یو ٹیوبر لڑکی گرفتار۔ موصوفہ پہلے سوشل میڈیا کے لیے ان افسران اور مختلف برانڈز کی وڈیو بناتی ، اسی دوران' قابل اعتراض' وڈیوز بنانے کا ہنر بھی خاموشی سے آزمایا جاتا رہا، اس کے بعد بلیک میلنگ کے لیے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے کی دھمکی۔ ایسی قابل اعتراض وڈیوز ایک ہاتھ کی تالی سے تو نہیں بنتیں مگر ہوس کے کمزور لمحوں میں منہ کے بل گرے ہوئے لوگوں کو تب جاگ آتی ہے جب مطالبہ ہوتا ہے کہ پیسے پھینک ورنہ تماشا دیکھ!
ایف آئی اے کے سائبر کرائمز ونگ میں ایسی شکایات کا انبار ہے۔ اس انبار میں بہت سے کیسز انتہائی جینیوئین اور فوری توجہ کے طالب ہوتے ہیں۔ تاہم بہت سے کیسز ایسے بھی ہیں کہ ملزم پوری تیاری اور محنت سے شکار پھانستے ہیں اور ثبوت نہیں چھوڑتے۔ شکار پھنسنے کے بعد اپنی محنت وصول کرنے کے لیے انگلیاں ٹیڑھی کرتے ہیں تو شکار کو اپنی عزت کی فکر پر جاتی ہے۔ کچھ دے دلا کر گلو خلاصی کروا لیتے ہیں اور کچھ بے بسی کے عالم میں ایف آئی اے کے پاس داد فریاد لے کر آتے ہیں۔
سائبر کرائم کا جنگل کتنا وسیع ہو رہا ہے اس کا اندازہ دو ہفتے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایف آئی اے کی جانب سے داخل کیے گئے اعداد و شمار سے ہوتا ہے۔2019 میں تیس ہزار سے زائدشکایات درج کی گئیں ، جب کہ 2020 میں درج کی گئی شکایات 94 ہزار سے بھی زائد تھیں یعنی ایک ہی سال میں 300% سے بھی زائد اضافہ۔ 2021 میں جنوری سے اگست تک 54 ہزار شکایات درج کی گئیں۔
سائبر کرائمز کی پیچیدہ نوعیت کے سبب ان شکایات میں انکوائری کے لیے بیس پچیس فیصد ہی کوالیفائی ہو سکیں۔ مقدمات کا اندراج اور حراست میں لیے گئے افراد کی تعداد سکڑ کر سیکڑوں میں رہی۔ دائر کیے جانے والے کیسز میں سے کتنے اپنے منطقی انجام تک پہنچ پاتے ہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
ایف آئی اے کی اپنی صلاحیت بھی محدود ہے اور وسائل محدود تر لیکن جرائم کی دنیا میں اب سائبر کرائم ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سائبر کرائمز کے بارے میں آگاہی اور شعور پیدا کرنے کے لیے میڈیا، تعلیمی ادارے اور سول سوسائٹی کو بھی آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
سائبر کرائمز دنیا بھر کے ممالک کے اداروں کے لیے سر درد ہے۔ کرائمز کے ساتھ ساتھ دنیا کے بیشتر ممالک میں سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک اور گوگل کے حوالے سے نت نئے انکشافات کے سبب اب لبرل سوسائٹیز میں بھی ان پلیٹ فارمز کو نکیل ڈالنے کی ضرورت پر زور دیا جارہا ہے، کہیں ان کمپنیوں کو پارلیمنٹ کمیٹیوں کے سامنے بلایا جا رہا ہے تو کہیں ان کمپنیوں کے ٹیکس گریز رویوں کو قابو میں رکھنے کے لیے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔
پاکستان کی سیاست اور معاشرت میں سوشل میڈیا کے مثبت اور منفی دونوں اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ تاہم ملکی اور پالیسی لیول پر ان کے اثرات اور ردعمل کے بارے میں دور رس کام ہونا باقی ہے۔ ہم ایسے سادہ لوح تو ابھی آن لائن بینکنگ فراڈیوں سے ہی فارغ نہیں ہوئے تھے کہ اب سائبر کرائمز پر لشکروں کے لشکر حملہ آور ہونے کے نت نئے طریقے آزما رہے ہیں۔ہر ہاتھ میں موبائل اور ہر موبائل میں کیمرے نے شیطان ذہنوں کے لیے نہایت آسانی کردی ہے۔
تاہم جب کبھی مینار پاکستان پر ہونے والے واقعات سے ملتے جلتے واقعات پر عوامی ردِ عمل کے نتیجے میں گرفتاریوں اور تفتیش کے بعد معاملہ کھلتا ہے تو افسوس ہوتا ہے کہ اخلاص پر مبنی اخلاقی حمایت کے حق دار بننے والوں کے جب پردے سرکتے ہیں تو وہ اندر سے سراسر ہوسِ زر کے بھوکے دریافت ہوتے ہیں۔ علامہ اقبال یاد آئے؛
خدا وندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری