آخری کوشش کے حق میں دعائے خیر
’’اسٹرائف‘‘ انگریزی کے ایک ممتاز ڈرامہ نویس جان گالز وردی کا ایک مختصر لیکن انتہائی دلچسپ اور سبق آموز ڈرامہ ہے۔
NAWABSHAH:
''اسٹرائف'' انگریزی کے ایک ممتاز ڈرامہ نویس جان گالز وردی کا ایک مختصر لیکن انتہائی دلچسپ اور سبق آموز ڈرامہ ہے جس میں سرمایہ دار اور مزدور کے تصادم کی دل سوز تصویر کشی کی گئی ہے جس کا انجام فریقوں کی مکمل پسپائی اور تباہی و بربادی کی صورت میں دکھایا گیا ہے۔ باہمی کشمکش پر مبنی اس ڈرامے کے اختتام پر یہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ کاش تمام معاملات کو مذاکرات کے ذریعے طے کرلیا جاتا۔
اقوام متحدہ کا خمیر بھی دو ہلاکت خیز اور قیامت صغریٰ جیسی عالمی جنگوں کے خاکستر سے اٹھا ہے جن کا خوف اگر غالب نہ ہوتا تو شاید تیسری عالمگیر جنگ نہ جانے کب کی چھڑ چکی ہوتی۔ فتنہ و فساد خواہ کسی کے درمیان کیوں نہ ہو کسی بھی صورت میں پسندیدہ اور مفید نہیں ہے اور اگر نوعیت بھائی بھائی کے درمیان خوں ریزی تک پہنچ جائے تو بھلا اس سے زیادہ افسوس اور دکھ کا مقام اورکیا ہوگا۔ وطن عزیز پاکستان ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہے۔ یہ ملک خداداد جو اسلام کا قلعہ کہلاتا ہے بے پناہ قربانیوں کے صلے میں معرض وجود میں آیا تھا۔ اس کی تخلیق میں لاکھوں لوگوں کا لہو شامل ہے۔
ہمیں یاد وہ ذرا ذرا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ ہم ایک ہی اللہ، ایک ہی رسولؐ اور ایک ہی قرآن کے ماننے والے ہیں اور اس حبیب کبریا کے پیروکار اور شیدائی ہیں جس کے امن و آشتی اور صلح جوئی کے آفاقی اور بے مثال پیغام کی پوری دنیا آج بھی تہہ دل سے معترف ہے۔ ہم اس ہادی برحق کے امتی ہونے کے دعویدار ہیں جسے حسن انسانیت اور رحمت اللعالمین ہونے کا شرف حاصل ہے۔
افسوس صد افسوس کہ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والا یہ وطن عزیز عرصہ دراز سے میدان کار زار بنا ہوا ہے جس کے نتیجے میں دین کے نام پر خواہ مخواہ حرف آرہا ہے اور دنیا کی دیگر قومیں نہ صرف یہ تماشہ دیکھ رہی ہیں بلکہ ہمارے حالات پر ہنس رہی ہیں اور ہمارے دشمن شادیانے بجا بجا کر ہمیں پورے عالم میں بدنام کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس صورت حال سے پورا ملک متاثر ہو رہا ہے اور تمام اہل وطن کی یہ دلی خواہ ہے کہ جس قدر جلد ممکن ہوسکے حالات معمول پر آجائیں تاکہ وہ سکھ کا سانس لے سکیں اور ملک تیزی کے ساتھ ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔
وطن عزیز گزشتہ بارہ سال سے دہشت گردی کے عذاب میں مبتلا ہے جس کے باعث بے پناہ جانی اور مالی نقصان ہوچکا ہے۔ مالی نقصان کی تو کسی نہ کسی حد تک تلافی بھی کی جاسکتی ہے لیکن جو معصوم اور بے قصور لوگ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ان کا ازالہ ممکن نہیں ہے۔ دہشت گردی کا شکار ہونے والوں میں صرف عام شہری ہی نہیں بلکہ ملک و قوم کے محافظ بھی شامل ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ماضی میں بھی کوششیں کی گئی تھیں لیکن بدقسمتی سے یہ کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکیں۔ پچھلی مرتبہ جب حکومت اور طالبان کی نامزدکردہ متفقہ کمیٹی جس میں چند علمائے کرام بھی شامل تھے مذاکرات شروع کرنے والی تھی تو امریکا کے اچانک ڈرون حملے نے اس کوشش کو سبوتاژ کردیا جس کے نتیجے میں مذاکرات کا عمل کھٹائی میں پڑ گیا۔ بعض حلقوں کا کہنا تھا کہ لوہے کو لوہا کاٹتا ہے والی کہاوت کے مطابق دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی پالیسی اختیار کی جائے جب کہ تحمل مزاج اور صلح جو حلقوں کی رائے تھی کہ اس دیرینہ اور مشکل ترین مسئلے کا دائمی حل سنجیدہ اور پرخلوص پرامن مذاکرات کے ذریعے ہی تلاش کیا جاسکتا ہے۔
حکومت اس معاملے میں کافی عرصے سے گوں مگوں کی کیفیت کا شکار تھی اور اس حوالے سے طرح طرح کی چہ میگوئیاں اور قیاس آرائیاں بھی کی جا رہی تھیں۔ گمان یہ تھا کہ شاید حکومت تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق طاقت کا جواب طاقت سے دینے کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوجائے مگر ایسا نہیں ہوا۔ وزیر اعظم محمد نواز شریف نے ٹھنڈے دل و دماغ سے بہت غور و فکر اور صلاح و مشورے کے بعد صلح پسندی کا انتخاب کرتے ہوئے امن کو ایک اور موقع دینے کا فیصلہ کیا ہے اور چار نہایت معتبر اور غیر متنازعہ شخصیات پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کردی ہے جسے مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے اور مذاکرات کا راستہ ہموار کرنے کا کٹھن کام سونپا گیا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کے اس اقدام کا کثرت رائے سے خیر مقدم کیا گیا ہے اور کمیٹی میں شامل ارکان کی صلاحیتوں اور اخلاص نیت پر اعتماد کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔ میڈیا کی خبروں کے مطابق تحریک طالبان کی جانب سے بھی حکومت کی مذاکراتی حکمت عملی کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے ایک سنجیدہ اقدام قرار دیا گیا ہے اور انھوں نے اپنی جانب سے نمایندگی کے لیے متعبر شخصیات کے نام بھی دیے ہیں ۔ رائے عامہ کے سنجیدہ سوچ رکھنے والے امن پسند حلقوں نے بھی وزیر اعظم کے فیصلے کو دوراندیشانہ اقدام سے تعبیر کیا ہے۔ ان فہمیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے امن پسندانہ راہ اختیار کرکے نہ صرف ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کو مد نظر رکھا ہے بلکہ اخلاقی اعتبار سے گیند فریق ثانی کے کورٹ میں پھینک دی ہے۔
امن کی کوششوں کا کامیاب ہونا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اگر فریقین کی جانب اخلاص نیت موجود ہو اور اس کا عملی مظاہرہ بھی کیا جائے تو اللہ کی مدد ضرور شامل ہوگی۔ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ سب کی نیتوں کو بخوبی جانتا ہے اور سزا و جزا کا مکمل اختیار صرف اسی کو حاصل ہے۔ خلق خدا کا خون بہانا ویسے بھی اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں اور رب کریم اور نبی کریمؐ دونوں ہی کی نظر میں عفو ودرگزر ہی سب سے زیادہ قابل تعریف و تحسین اور پسندیدہ ترین عمل ہے۔ صلح و صفائی کا ایک بنیادی تقاضہ یہ بھی ہے کہ فریقین کی جانب سے پرانی رنجشوں اور اختلافات کو فراموش کرکے مثبت طرز عمل اور افہام و تفہیم کا عمل مظاہرہ کیا جائے اور اپنے اپنے رویوں میں لچک پیدا کی جائے۔ امید واثق ہے کہ اگر فریقین کی جانب سے اللہ کی رضا اور اسوہ حسنہ کو اولیت دی جائے گی تو قیام امن کی یہ آخری کوشش کامیاب ہوگی اور رب کریم کی جانب سے اس کارخیر کا اجر عظیم بھی ضرور ملے گا۔ آئیے ہاتھ اٹھائیں اور اس آخری کوشش کی کامیابی کے لیے تہہ دل سے دعائیں مانگیں۔
''اسٹرائف'' انگریزی کے ایک ممتاز ڈرامہ نویس جان گالز وردی کا ایک مختصر لیکن انتہائی دلچسپ اور سبق آموز ڈرامہ ہے جس میں سرمایہ دار اور مزدور کے تصادم کی دل سوز تصویر کشی کی گئی ہے جس کا انجام فریقوں کی مکمل پسپائی اور تباہی و بربادی کی صورت میں دکھایا گیا ہے۔ باہمی کشمکش پر مبنی اس ڈرامے کے اختتام پر یہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ کاش تمام معاملات کو مذاکرات کے ذریعے طے کرلیا جاتا۔
اقوام متحدہ کا خمیر بھی دو ہلاکت خیز اور قیامت صغریٰ جیسی عالمی جنگوں کے خاکستر سے اٹھا ہے جن کا خوف اگر غالب نہ ہوتا تو شاید تیسری عالمگیر جنگ نہ جانے کب کی چھڑ چکی ہوتی۔ فتنہ و فساد خواہ کسی کے درمیان کیوں نہ ہو کسی بھی صورت میں پسندیدہ اور مفید نہیں ہے اور اگر نوعیت بھائی بھائی کے درمیان خوں ریزی تک پہنچ جائے تو بھلا اس سے زیادہ افسوس اور دکھ کا مقام اورکیا ہوگا۔ وطن عزیز پاکستان ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہے۔ یہ ملک خداداد جو اسلام کا قلعہ کہلاتا ہے بے پناہ قربانیوں کے صلے میں معرض وجود میں آیا تھا۔ اس کی تخلیق میں لاکھوں لوگوں کا لہو شامل ہے۔
ہمیں یاد وہ ذرا ذرا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ ہم ایک ہی اللہ، ایک ہی رسولؐ اور ایک ہی قرآن کے ماننے والے ہیں اور اس حبیب کبریا کے پیروکار اور شیدائی ہیں جس کے امن و آشتی اور صلح جوئی کے آفاقی اور بے مثال پیغام کی پوری دنیا آج بھی تہہ دل سے معترف ہے۔ ہم اس ہادی برحق کے امتی ہونے کے دعویدار ہیں جسے حسن انسانیت اور رحمت اللعالمین ہونے کا شرف حاصل ہے۔
افسوس صد افسوس کہ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والا یہ وطن عزیز عرصہ دراز سے میدان کار زار بنا ہوا ہے جس کے نتیجے میں دین کے نام پر خواہ مخواہ حرف آرہا ہے اور دنیا کی دیگر قومیں نہ صرف یہ تماشہ دیکھ رہی ہیں بلکہ ہمارے حالات پر ہنس رہی ہیں اور ہمارے دشمن شادیانے بجا بجا کر ہمیں پورے عالم میں بدنام کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس صورت حال سے پورا ملک متاثر ہو رہا ہے اور تمام اہل وطن کی یہ دلی خواہ ہے کہ جس قدر جلد ممکن ہوسکے حالات معمول پر آجائیں تاکہ وہ سکھ کا سانس لے سکیں اور ملک تیزی کے ساتھ ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔
وطن عزیز گزشتہ بارہ سال سے دہشت گردی کے عذاب میں مبتلا ہے جس کے باعث بے پناہ جانی اور مالی نقصان ہوچکا ہے۔ مالی نقصان کی تو کسی نہ کسی حد تک تلافی بھی کی جاسکتی ہے لیکن جو معصوم اور بے قصور لوگ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ان کا ازالہ ممکن نہیں ہے۔ دہشت گردی کا شکار ہونے والوں میں صرف عام شہری ہی نہیں بلکہ ملک و قوم کے محافظ بھی شامل ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ماضی میں بھی کوششیں کی گئی تھیں لیکن بدقسمتی سے یہ کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکیں۔ پچھلی مرتبہ جب حکومت اور طالبان کی نامزدکردہ متفقہ کمیٹی جس میں چند علمائے کرام بھی شامل تھے مذاکرات شروع کرنے والی تھی تو امریکا کے اچانک ڈرون حملے نے اس کوشش کو سبوتاژ کردیا جس کے نتیجے میں مذاکرات کا عمل کھٹائی میں پڑ گیا۔ بعض حلقوں کا کہنا تھا کہ لوہے کو لوہا کاٹتا ہے والی کہاوت کے مطابق دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی پالیسی اختیار کی جائے جب کہ تحمل مزاج اور صلح جو حلقوں کی رائے تھی کہ اس دیرینہ اور مشکل ترین مسئلے کا دائمی حل سنجیدہ اور پرخلوص پرامن مذاکرات کے ذریعے ہی تلاش کیا جاسکتا ہے۔
حکومت اس معاملے میں کافی عرصے سے گوں مگوں کی کیفیت کا شکار تھی اور اس حوالے سے طرح طرح کی چہ میگوئیاں اور قیاس آرائیاں بھی کی جا رہی تھیں۔ گمان یہ تھا کہ شاید حکومت تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق طاقت کا جواب طاقت سے دینے کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوجائے مگر ایسا نہیں ہوا۔ وزیر اعظم محمد نواز شریف نے ٹھنڈے دل و دماغ سے بہت غور و فکر اور صلاح و مشورے کے بعد صلح پسندی کا انتخاب کرتے ہوئے امن کو ایک اور موقع دینے کا فیصلہ کیا ہے اور چار نہایت معتبر اور غیر متنازعہ شخصیات پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کردی ہے جسے مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے اور مذاکرات کا راستہ ہموار کرنے کا کٹھن کام سونپا گیا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کے اس اقدام کا کثرت رائے سے خیر مقدم کیا گیا ہے اور کمیٹی میں شامل ارکان کی صلاحیتوں اور اخلاص نیت پر اعتماد کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔ میڈیا کی خبروں کے مطابق تحریک طالبان کی جانب سے بھی حکومت کی مذاکراتی حکمت عملی کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے ایک سنجیدہ اقدام قرار دیا گیا ہے اور انھوں نے اپنی جانب سے نمایندگی کے لیے متعبر شخصیات کے نام بھی دیے ہیں ۔ رائے عامہ کے سنجیدہ سوچ رکھنے والے امن پسند حلقوں نے بھی وزیر اعظم کے فیصلے کو دوراندیشانہ اقدام سے تعبیر کیا ہے۔ ان فہمیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے امن پسندانہ راہ اختیار کرکے نہ صرف ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کو مد نظر رکھا ہے بلکہ اخلاقی اعتبار سے گیند فریق ثانی کے کورٹ میں پھینک دی ہے۔
امن کی کوششوں کا کامیاب ہونا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اگر فریقین کی جانب اخلاص نیت موجود ہو اور اس کا عملی مظاہرہ بھی کیا جائے تو اللہ کی مدد ضرور شامل ہوگی۔ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ سب کی نیتوں کو بخوبی جانتا ہے اور سزا و جزا کا مکمل اختیار صرف اسی کو حاصل ہے۔ خلق خدا کا خون بہانا ویسے بھی اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں اور رب کریم اور نبی کریمؐ دونوں ہی کی نظر میں عفو ودرگزر ہی سب سے زیادہ قابل تعریف و تحسین اور پسندیدہ ترین عمل ہے۔ صلح و صفائی کا ایک بنیادی تقاضہ یہ بھی ہے کہ فریقین کی جانب سے پرانی رنجشوں اور اختلافات کو فراموش کرکے مثبت طرز عمل اور افہام و تفہیم کا عمل مظاہرہ کیا جائے اور اپنے اپنے رویوں میں لچک پیدا کی جائے۔ امید واثق ہے کہ اگر فریقین کی جانب سے اللہ کی رضا اور اسوہ حسنہ کو اولیت دی جائے گی تو قیام امن کی یہ آخری کوشش کامیاب ہوگی اور رب کریم کی جانب سے اس کارخیر کا اجر عظیم بھی ضرور ملے گا۔ آئیے ہاتھ اٹھائیں اور اس آخری کوشش کی کامیابی کے لیے تہہ دل سے دعائیں مانگیں۔