کراچی سے لاڑکانہ کا سفر
ایک دن لاڑکانہ سے فون کال کے ذریعے پیغام آیا کہ میرے والد کی طبیعت ناساز ہے ، میں نے اپنے بھائی ذوالفقار۔۔۔
ایک دن لاڑکانہ سے فون کال کے ذریعے پیغام آیا کہ میرے والد کی طبیعت ناساز ہے ، میں نے اپنے بھائی ذوالفقار کو فورا فون کیا کہ وہ پہلی فرصت میں ایمپریس مارکیٹ سے کسی کوچ میں بیٹھ جائیں اور میں انھیں الآصف اسکوائر(سہراب گوٹھ) کے اڈے پر جوائن کر لوں گا ۔ ہم جب اڈے پر پہنچے تو دیکھا رکشہ، ٹیکسی، مزدا اور بے شمارگاڑیوں کا اژدھام تھا ، مسافروں کو بسوں تک پہنچنے میں دقت کا سامنا تھا ہر جگہ گندگی کے ڈھیر لگے تھے ۔ جب تک گاڑی رکتی میں نے دوست کو کہا کہ میں ناشتہ کرکے آؤں کیونکہ وہاں بالکل قریب ایک ہوٹل پر جا بیٹھا جہاں پر مجھے ماحول اجنبی سے لگا، جیسے میں علاقہ غیر میں آگیا ہوں، افغانیوں کی بہتات تھی ، ہوٹل کے بیرے اور کاؤنٹر پر بیٹھے سیٹھ کا انداز ایسا تھا جیسے وہ وہاں کے دادا ہوں۔ میں نے چائے پینے کے لیے ساسر منگوائی تو وہ سالن کی پلیٹ لایا اور کہا اس میں پئیں۔
گاڑی کے اندر جب بیٹھے توکوچ والے کافی سہمے سے نظر آئے ، ان کا کہنا تھا کہ یہاں پر وہ ہر بات پر خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ مجھے اتنے بڑے علاقے میں کوئی پولیس موبائل نظر نہیں آئی۔ کئی مرتبہ اڈے سے کوچ نکلنے کے بعد مسافروں کو لوٹ لیا جاتا ہے۔ مسافروںکو بٹھانے کے لیے کوچ بغیر کسی اسٹاپ کے روک لی جاتی ہے حالانکہ یہ کوچ لوکل نہیں ہوتی بلکہ نان اسٹاپ ہوتی ہے ۔ ان کوچز میں پانچ سے چھ افراد ٹرانسپورٹ کمپنی کے ہوتے ہیں جو گاڑی کے اگلے حصے میں ڈرائیور کے ساتھ بیٹھتے ہیں۔
کوچ جب ٹول پلازہ کراس کرکے سپر ہائی وے پر چلنے لگی تو ڈرائیور نے ٹیپ ریکارڈ آن کیا، بیہودہ گانوں کی آواز سے کان پھٹ رہے تھے اور ذہنی کوفت الگ ہورہی تھی۔ گرمی کے موسم میں تو ان کوچز میں اے سی کی حالت یہ ہوتی ہے کہ گرمی سے مسافروں کا دم گھٹنے لگتا ہے اور مسافروں کے زیادہ شور مچانے پر وہ دروازہ یا پھرکچھ کھڑکیاں کھول دیتے ہیں۔ سیٹوں کے درمیان کا فاصلہ اتنا تنگ ہوتا ہے کہ گزرنے والے لوگ بیٹھی ہوئی خواتین سے ٹچ ہوجاتے ہیں۔ اگر مسافر زیادہ ہوجائیں تو چھوٹے اسٹول اس حصے میں رکھ کر لوگوں کو بٹھایا جاتا ہے۔ راستے میں اگر گاڑی کھانے کے لیے یا پھر ڈیزل بھروانے کے لیے ٹھہرتی ہے تو فقیروں کی ایک بڑی تعداد اترنے والوں کو دھکیلتے ہوئے اندر گھس جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کے ساتھ چیزیں بیچنے والے بھی چڑھ آتے ہیں جس سے ایک بھیڑ سی ہوجاتی ہے۔
فقیروں کے جسم سے پسینے کی ایسی بدبو آتی ہے کہ بندے کا دماغ گھوم جاتا ہے اور پھر وہ بھیک لیے بغیر وہاں سے ہلتے بھی نہیں۔آپ نے اگر اپنا سامان کوچ میں بنے ہوئے باکس میں رکھوایا ہے تو آپ کو ہر اسٹاپ پر اپنے سامان کوکھڑکی سے دیکھنا پڑتا ہے ورنہ دوسرے مسافر اترتے وقت آپ کا سامان بھی لے جاتے ہیں۔ اگر آپ اس سامان کو اپنے ساتھ سیٹ کے پاس رکھتے ہیں تو بیٹھنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ کوچ کا ڈرائیور من مانی کا عادی ہوتا ہے اور وہ جہاں چاہے اور جتنا چاہے گاڑی کو روکے رکھے اس کی مرضی ہوتی ہے۔
اب میں نے بس کی کھڑکی سے سپر ہائی وے کی طرف دیکھا تو مجھے کہیں پر بھی کوئی حصہ ہرا بھرا نظر نہیں آیا، ہر طرف ویرانہ ہی ویرانہ تھا۔ روڈ پر ٹرالرز اور ٹرکوں کا راج تھا جو چھوٹی یا پھر مسافر گاڑیوں کو راستہ نہیں دے رہے تھے سڑک کی حالت انتہائی خراب ہوتی جا رہی ہے، ٹول پلازہ والے ہر سال رقم تو بڑھاتے رہتے ہیں مگر ٹول پلازہ کی عمارت کھنڈر نما نظر آتی ہے اسے درست نہیں کرتے ہیں جہاں سے ہر روز کتنے وی وی آئی پی گزرتے رہتے ہیں جو اس بات کو نظرانداز کردیتے ہیں۔ راستے میں پولیس اور رینجرز کی چیکنگ تو ہے مگر اس کا کوئی خاص اثر نظر نہیں آیا۔
ڈرائیور تو بادشاہ ہے جس کا اندازہ اور زیادہ اس سے بھی ہوا کہ وہ ڈرائیونگ کے دوران موبائل پر فون کرتا چلا جا رہا تھا اور جہاں بھی اسٹاپ آتا اس کی خدمت چائے، ٹھنڈا، چپس اور فروٹ سے ہو رہی تھی۔ اس کے علاوہ جب کوچ جامشورو پھاٹک والے اسٹاپ پر رکی تو وہاں پر پورا آدھا گھنٹہ کوچ کو روکے رکھا کیونکہ وہاں کے آفس نے جب تک مسافروں کی تعداد پوری یا اس سے زیادہ نہیں کی اس نے گاڑی کو چلنے نہیں دیا۔ جس پر مسافر چلاتے رہے مگر ان کی یہ آواز کوئی سننے والا نہیں تھا یا پھر جواب میں یہ کہا گیا کہ اگر آپ کو اتنی جلدی ہے تو پھر جہاز میں جائیں یا پھر پرائیویٹ گاڑی بک کروائیں۔ بہرحال اب سیہون کی طرف جانے لگے تو سنگل روڈ شروع ہوگیا اور گاڑیوں کا کراس کرنا اتنا قریب اور تیز تھا کہ اب کوئی حادثہ ہوجائے گا اور راستے میں دو تین حادثے دیکھنے میں بھی آئے۔
جامشورو سے لے کر سیہون تک کچھ حصے چھوڑ کر باقی بھی ویران نظر آئے جہاں پر کہیں کہیں کوئی بستی نظر آئی اور ہریالی دیکھنے کو دل ترس رہا تھا۔ ریلوے لائن کبھی کبھار سڑک کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی مگر کوئی ٹرین نظر سے نہیں گزری۔ ریلوے اسٹیشن خالی تھے۔ اس دوران جو ایک خطرناک چیز نظر آئی وہ تھی بھوسے سے بھرے ٹرک جن سے دونوں طرف اور پیچھے کی طرف سے بھوسہ اتنا باہر نکلا ہوا تھا کہ اسے کراس کرنا بڑا مشکل اور خطرناک تھا اور کئی کلومیٹرز تک ان کے پیچھے ہلکی اسپیڈ میں جانا پڑتا ہے۔ اس قسم کی مال بردار گاڑیوں پر پابندی عائد کی گئی تھی مگر اب یہ دوبارہ سڑکوں پر نظر آتی ہے۔
سڑک پر درخت کم،سیم وتھور زیادہ نظر آئی جسے دیکھ کر حکومت اور عوام پر بڑا افسوس ہوا کہ ان میں سے کوئی بھی درخت نہیں لگاتا، مگر جو درخت موجود ہیں انھیں کاٹ دیا گیا ہے جس سے معلوم ہوا کہ ہم درختوں کے کتنے دشمن ہیں۔ اس سے بڑھ کر دل رونے لگا جب دیکھا کہ دریائے سندھ جسے بادشاہ کہا جاتا تھا وہاں صرف ایک پانی کی لکیر نظر آئی اور باقی وہاں سے ریت اڑ رہی تھی۔ اس کے علاوہ آمری، مانجھند کے ساتھ ساتھ RBOD کی کھدی ہوئی نہر چل رہی تھی جس کی حالت موئن جو دڑو جیسی نظر آئی جس سے معلوم ہوا کہ اب یہ بھی ماضی کا حصہ بن گئی ہے۔راستے میں کچھ بچے ہاتھوں میں خربوزہ یا پھر مچھلی لے کر کھڑے ہوئے تھے جس سے کار والے رک کر کچھ نہ کچھ خریدتے تھے۔
اب سیہون پہنچنے سے پہلے ایک پہاڑی سلسلہ شروع ہوتا ہے جس کے موڑ بڑے خطرناک ہیں اور وہاں پر کئی جان لیوا حادثات ہوچکے ہیں مگر اس کے باوجود بھی گاڑی چلانے والے احتیاط نہیں کرتے،سیہون پہنچ کر کوچ ایک ہوٹل پر ٹھہرتی ہے جہاں پر لوگ دوپہر کا کھانا کھاتے ہیں جو بڑا مہنگا ہوتا ہے اور Unhygienic بھی۔ اب آپ یہ دیکھیں کہ یہاں پر ڈرائیور اور اس کے ساتھ جتنے لوگ ہوتے ہیں ان کے لیے کھانا، ٹھنڈی بوتل، چائے وغیرہ نہ صرف مفت ہوتی ہے بلکہ کھانا کوالٹی والا ہوتا ہے جس میں زیادہ ترکڑاہی پہلے ہی سے تیار کی جاتی ہے۔ سیہون کے بعد جو سڑک شروع ہوتی ہے وہ تین سال سے ڈبل کی جارہی ہے مگر کام ابھی تک مکمل نہیں ہوسکا ۔
دادو شہر کی سڑک پر پتھر تو بچھائے گئے تھے مگر وہ ابھی تک تعمیر نہ ہوسکی تھی۔ اس کے علاوہ وہاں پر کسی زمانے میں بائی پاس بنا تھا جو جلد ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا اور پھر بن نہیں سکا ۔ دادو کی ریلوے کراسنگ کے اوپر فلائی اوور نہیں بن سکا جس کی وجہ سے کئی گھنٹے ٹریفک جام رہتا ہے۔ دادو سے مرحوم سید عبداللہ شاہ اور لیاقت علی جتوئی وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں۔ سابق وزیر پیر مظہر الحق نے اس طرف کوئی دھیان نہیں دیا ۔
میں اکثرعلی الصبح چلنے والی کوچ سے لاڑکانہ کا سفر کرتا ہوں کیونکہ ہمارے علاقے میں سورج غروب ہونے سے قبل ڈاکو راج کا آغاز ہوجاتا ہے۔ ڈاکو لوگوں کو لوٹتے ہیں، اغوا کرلیتے ہیں جنھیں تاوان کے بعد ہی رہا کرتے ہیں۔ کئی چھوٹے شہروں میں بائی پاس بنائے گئے ہیں تاکہ شہر کی ٹریفک میں لوگوں (مسافروں) کو پریشانی کا سامنا نہ ہو مگر اب بائی پاس پر بھی ہوٹل، دکانیں، پٹرول پمپ بن گئے ہیں اور وہاں پر بھی رش بڑھ گیا ہے۔ ابھی تک ایک شہر ایسا ہے جہاں پر ٹریفک کا معاملہ حل نہیں ہوسکا ہے وہ ہے وگن، جہاں پر چاروں طرف سے آتی ہوئی گاڑیوں کو بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ اس کے چوراہے پر گدھا گاڑیاں، ریڑھیاں، رکشے، چنگچی، ٹیکسی اور بس والے رک کرکھڑے رہتے ہیں جو ایک عذاب ہے۔ آپ کو پورے سفر میں اتنی تھکاوٹ نہیں ہوگی جتنی وہاں پر ہوتی ہے۔ آخر میرا سفر ساری صعوبتیں برداشت کرکے لاڑکانہ شہر میں پورا ہوا ۔
گاڑی کے اندر جب بیٹھے توکوچ والے کافی سہمے سے نظر آئے ، ان کا کہنا تھا کہ یہاں پر وہ ہر بات پر خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ مجھے اتنے بڑے علاقے میں کوئی پولیس موبائل نظر نہیں آئی۔ کئی مرتبہ اڈے سے کوچ نکلنے کے بعد مسافروں کو لوٹ لیا جاتا ہے۔ مسافروںکو بٹھانے کے لیے کوچ بغیر کسی اسٹاپ کے روک لی جاتی ہے حالانکہ یہ کوچ لوکل نہیں ہوتی بلکہ نان اسٹاپ ہوتی ہے ۔ ان کوچز میں پانچ سے چھ افراد ٹرانسپورٹ کمپنی کے ہوتے ہیں جو گاڑی کے اگلے حصے میں ڈرائیور کے ساتھ بیٹھتے ہیں۔
کوچ جب ٹول پلازہ کراس کرکے سپر ہائی وے پر چلنے لگی تو ڈرائیور نے ٹیپ ریکارڈ آن کیا، بیہودہ گانوں کی آواز سے کان پھٹ رہے تھے اور ذہنی کوفت الگ ہورہی تھی۔ گرمی کے موسم میں تو ان کوچز میں اے سی کی حالت یہ ہوتی ہے کہ گرمی سے مسافروں کا دم گھٹنے لگتا ہے اور مسافروں کے زیادہ شور مچانے پر وہ دروازہ یا پھرکچھ کھڑکیاں کھول دیتے ہیں۔ سیٹوں کے درمیان کا فاصلہ اتنا تنگ ہوتا ہے کہ گزرنے والے لوگ بیٹھی ہوئی خواتین سے ٹچ ہوجاتے ہیں۔ اگر مسافر زیادہ ہوجائیں تو چھوٹے اسٹول اس حصے میں رکھ کر لوگوں کو بٹھایا جاتا ہے۔ راستے میں اگر گاڑی کھانے کے لیے یا پھر ڈیزل بھروانے کے لیے ٹھہرتی ہے تو فقیروں کی ایک بڑی تعداد اترنے والوں کو دھکیلتے ہوئے اندر گھس جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کے ساتھ چیزیں بیچنے والے بھی چڑھ آتے ہیں جس سے ایک بھیڑ سی ہوجاتی ہے۔
فقیروں کے جسم سے پسینے کی ایسی بدبو آتی ہے کہ بندے کا دماغ گھوم جاتا ہے اور پھر وہ بھیک لیے بغیر وہاں سے ہلتے بھی نہیں۔آپ نے اگر اپنا سامان کوچ میں بنے ہوئے باکس میں رکھوایا ہے تو آپ کو ہر اسٹاپ پر اپنے سامان کوکھڑکی سے دیکھنا پڑتا ہے ورنہ دوسرے مسافر اترتے وقت آپ کا سامان بھی لے جاتے ہیں۔ اگر آپ اس سامان کو اپنے ساتھ سیٹ کے پاس رکھتے ہیں تو بیٹھنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ کوچ کا ڈرائیور من مانی کا عادی ہوتا ہے اور وہ جہاں چاہے اور جتنا چاہے گاڑی کو روکے رکھے اس کی مرضی ہوتی ہے۔
اب میں نے بس کی کھڑکی سے سپر ہائی وے کی طرف دیکھا تو مجھے کہیں پر بھی کوئی حصہ ہرا بھرا نظر نہیں آیا، ہر طرف ویرانہ ہی ویرانہ تھا۔ روڈ پر ٹرالرز اور ٹرکوں کا راج تھا جو چھوٹی یا پھر مسافر گاڑیوں کو راستہ نہیں دے رہے تھے سڑک کی حالت انتہائی خراب ہوتی جا رہی ہے، ٹول پلازہ والے ہر سال رقم تو بڑھاتے رہتے ہیں مگر ٹول پلازہ کی عمارت کھنڈر نما نظر آتی ہے اسے درست نہیں کرتے ہیں جہاں سے ہر روز کتنے وی وی آئی پی گزرتے رہتے ہیں جو اس بات کو نظرانداز کردیتے ہیں۔ راستے میں پولیس اور رینجرز کی چیکنگ تو ہے مگر اس کا کوئی خاص اثر نظر نہیں آیا۔
ڈرائیور تو بادشاہ ہے جس کا اندازہ اور زیادہ اس سے بھی ہوا کہ وہ ڈرائیونگ کے دوران موبائل پر فون کرتا چلا جا رہا تھا اور جہاں بھی اسٹاپ آتا اس کی خدمت چائے، ٹھنڈا، چپس اور فروٹ سے ہو رہی تھی۔ اس کے علاوہ جب کوچ جامشورو پھاٹک والے اسٹاپ پر رکی تو وہاں پر پورا آدھا گھنٹہ کوچ کو روکے رکھا کیونکہ وہاں کے آفس نے جب تک مسافروں کی تعداد پوری یا اس سے زیادہ نہیں کی اس نے گاڑی کو چلنے نہیں دیا۔ جس پر مسافر چلاتے رہے مگر ان کی یہ آواز کوئی سننے والا نہیں تھا یا پھر جواب میں یہ کہا گیا کہ اگر آپ کو اتنی جلدی ہے تو پھر جہاز میں جائیں یا پھر پرائیویٹ گاڑی بک کروائیں۔ بہرحال اب سیہون کی طرف جانے لگے تو سنگل روڈ شروع ہوگیا اور گاڑیوں کا کراس کرنا اتنا قریب اور تیز تھا کہ اب کوئی حادثہ ہوجائے گا اور راستے میں دو تین حادثے دیکھنے میں بھی آئے۔
جامشورو سے لے کر سیہون تک کچھ حصے چھوڑ کر باقی بھی ویران نظر آئے جہاں پر کہیں کہیں کوئی بستی نظر آئی اور ہریالی دیکھنے کو دل ترس رہا تھا۔ ریلوے لائن کبھی کبھار سڑک کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی مگر کوئی ٹرین نظر سے نہیں گزری۔ ریلوے اسٹیشن خالی تھے۔ اس دوران جو ایک خطرناک چیز نظر آئی وہ تھی بھوسے سے بھرے ٹرک جن سے دونوں طرف اور پیچھے کی طرف سے بھوسہ اتنا باہر نکلا ہوا تھا کہ اسے کراس کرنا بڑا مشکل اور خطرناک تھا اور کئی کلومیٹرز تک ان کے پیچھے ہلکی اسپیڈ میں جانا پڑتا ہے۔ اس قسم کی مال بردار گاڑیوں پر پابندی عائد کی گئی تھی مگر اب یہ دوبارہ سڑکوں پر نظر آتی ہے۔
سڑک پر درخت کم،سیم وتھور زیادہ نظر آئی جسے دیکھ کر حکومت اور عوام پر بڑا افسوس ہوا کہ ان میں سے کوئی بھی درخت نہیں لگاتا، مگر جو درخت موجود ہیں انھیں کاٹ دیا گیا ہے جس سے معلوم ہوا کہ ہم درختوں کے کتنے دشمن ہیں۔ اس سے بڑھ کر دل رونے لگا جب دیکھا کہ دریائے سندھ جسے بادشاہ کہا جاتا تھا وہاں صرف ایک پانی کی لکیر نظر آئی اور باقی وہاں سے ریت اڑ رہی تھی۔ اس کے علاوہ آمری، مانجھند کے ساتھ ساتھ RBOD کی کھدی ہوئی نہر چل رہی تھی جس کی حالت موئن جو دڑو جیسی نظر آئی جس سے معلوم ہوا کہ اب یہ بھی ماضی کا حصہ بن گئی ہے۔راستے میں کچھ بچے ہاتھوں میں خربوزہ یا پھر مچھلی لے کر کھڑے ہوئے تھے جس سے کار والے رک کر کچھ نہ کچھ خریدتے تھے۔
اب سیہون پہنچنے سے پہلے ایک پہاڑی سلسلہ شروع ہوتا ہے جس کے موڑ بڑے خطرناک ہیں اور وہاں پر کئی جان لیوا حادثات ہوچکے ہیں مگر اس کے باوجود بھی گاڑی چلانے والے احتیاط نہیں کرتے،سیہون پہنچ کر کوچ ایک ہوٹل پر ٹھہرتی ہے جہاں پر لوگ دوپہر کا کھانا کھاتے ہیں جو بڑا مہنگا ہوتا ہے اور Unhygienic بھی۔ اب آپ یہ دیکھیں کہ یہاں پر ڈرائیور اور اس کے ساتھ جتنے لوگ ہوتے ہیں ان کے لیے کھانا، ٹھنڈی بوتل، چائے وغیرہ نہ صرف مفت ہوتی ہے بلکہ کھانا کوالٹی والا ہوتا ہے جس میں زیادہ ترکڑاہی پہلے ہی سے تیار کی جاتی ہے۔ سیہون کے بعد جو سڑک شروع ہوتی ہے وہ تین سال سے ڈبل کی جارہی ہے مگر کام ابھی تک مکمل نہیں ہوسکا ۔
دادو شہر کی سڑک پر پتھر تو بچھائے گئے تھے مگر وہ ابھی تک تعمیر نہ ہوسکی تھی۔ اس کے علاوہ وہاں پر کسی زمانے میں بائی پاس بنا تھا جو جلد ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا اور پھر بن نہیں سکا ۔ دادو کی ریلوے کراسنگ کے اوپر فلائی اوور نہیں بن سکا جس کی وجہ سے کئی گھنٹے ٹریفک جام رہتا ہے۔ دادو سے مرحوم سید عبداللہ شاہ اور لیاقت علی جتوئی وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں۔ سابق وزیر پیر مظہر الحق نے اس طرف کوئی دھیان نہیں دیا ۔
میں اکثرعلی الصبح چلنے والی کوچ سے لاڑکانہ کا سفر کرتا ہوں کیونکہ ہمارے علاقے میں سورج غروب ہونے سے قبل ڈاکو راج کا آغاز ہوجاتا ہے۔ ڈاکو لوگوں کو لوٹتے ہیں، اغوا کرلیتے ہیں جنھیں تاوان کے بعد ہی رہا کرتے ہیں۔ کئی چھوٹے شہروں میں بائی پاس بنائے گئے ہیں تاکہ شہر کی ٹریفک میں لوگوں (مسافروں) کو پریشانی کا سامنا نہ ہو مگر اب بائی پاس پر بھی ہوٹل، دکانیں، پٹرول پمپ بن گئے ہیں اور وہاں پر بھی رش بڑھ گیا ہے۔ ابھی تک ایک شہر ایسا ہے جہاں پر ٹریفک کا معاملہ حل نہیں ہوسکا ہے وہ ہے وگن، جہاں پر چاروں طرف سے آتی ہوئی گاڑیوں کو بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ اس کے چوراہے پر گدھا گاڑیاں، ریڑھیاں، رکشے، چنگچی، ٹیکسی اور بس والے رک کرکھڑے رہتے ہیں جو ایک عذاب ہے۔ آپ کو پورے سفر میں اتنی تھکاوٹ نہیں ہوگی جتنی وہاں پر ہوتی ہے۔ آخر میرا سفر ساری صعوبتیں برداشت کرکے لاڑکانہ شہر میں پورا ہوا ۔