ترقی کا واحد راستہ مگر
سیاسی حکومتوں نے ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز کے نام پر رشوت دے کر بلدیاتی اداروں کو تباہ کردیا ہے
ایکسپریس فورم کے زیر اہتمام ''مقامی حکومتوں کے نظام'' کے حوالے سے منعقدہ پروگرام میں حکومت، سول سوسائٹی اور تجزیہ نگاروں کا اس بات پر اتفاق تھا کہ ترقی صرف لوکل گورنمنٹ نظام سے ہی ہوگی۔ اس سلسلے میں تمام جماعتیں ایک پیج پر ہیں مگر اقتدار میں آنے کے بعد سیاسی جماعتوں کی ترجیحات بدل جاتی ہیں۔
دنیا بھر میں تین سطحی حکومتیں ہوتی ہیں۔ ملک کے لیے وفاقی، صوبوں میں صوبائی اور اضلاع میں مقامی حکومتیں اپنی اپنی جگہ عوام کے مسائل حل ، ترقی و دیگر معاملات دیکھتی ہیں مگر ہمارے ملک میں مقامی حکومتوں کا عملی طور پر کوئی وجود نہیں بلکہ صرف جھوٹے دعوے اور باتیں ہیں جو وزیر اعظم سے لے کر صوبائی وزرائے بلدیات مقامی حکومتوں کی اہمیت تسلیم تو کرتے ہیں مگر عملی طور پر جان بوجھ کر کچھ نہیں کیا جا رہا کیونکہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اپنے اپنے ارکان کی خوشنودی عزیز ہے انھیں مقامی حکومتوں کی کوئی فکر نہیں کیونکہ بااختیار مقامی حکومتوں کے باعث ارکان اسمبلی کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے اور وہ ترقیاتی کاموں کے لیے مختص کروڑوں روپے کے فنڈز سے محروم ہو جاتے ہیں۔
جنرل پرویز مشرف کے نافذ کردہ بااختیار ضلعی نظام تک ملک میں وفاقی سطح پر بھی وزارت بلدیات موجود تھی اور صوبوں میں بھی صوبائی وزیر بلدیات اتنے اہم ہوتے تھے کہ انھیں وزرائے اعلیٰ کے بعد دیگر وزیروں سے زیادہ اہمیت حاصل تھی، کیونکہ بلدیاتی اداروں کے علاوہ انھیں ہاؤسنگ، فراہمی و نکاسی آب اور منصوبہ بندی و ترقیاتی اداروں کی سربراہی بھی ملتی تھی اور وہ اپنے تمام محکموں پر حاوی اور بااختیار ہوتے تھے۔ جنرل ضیا الحق کے 1979 کے بلدیاتی نظام تک یہ سلسلہ چلتا رہا اور شہروں کے علاوہ دیہی ترقی بھی محکمہ بلدیات میں شامل تھی جس سے یہ محکمہ سب سے زیادہ اہم اور بااختیار محکمہ تھا۔
جنرل پرویز مشرف کے بااختیار ضلعی حکومتوں کے نظام میں بھی وفاقی سیکریٹری بلدیات اور صوبوں میں صوبائی وزرائے بلدیات ہوتے تھے مگر وہ ضلعی حکومتوں کے حاکم یا کنٹرولنگ اتھارٹی نہیں تھے اور صوبائی سیکریٹریوں، کمشنرز و ڈپٹی کمشنروں کو سٹی و ضلعی حکومتوں کے منتخب ناظمین کا ماتحت بنا دیا گیا تھا اور ان کی روایتی بادشاہی ختم ہوگئی تھی جس کی وجہ سے بیورو کریسی بااختیار مقامی حکومتوں کے خلاف تھی مگر عوام خوش اور منتخب ناظمین مالی اور انتظامی طور پر مکمل بااختیار تھے اور صوبائی وزرائے بلدیات اختیارات سے محروم ہوکر رہ گئے تھے۔
وزیر بلدیات ضلعی حکومتوں میں اسمبلیوں کے لیے منتخب ہوتے تھے اور ارکان اسمبلی سے مل کر بااختیار ضلعی حکومتوں کے خلاف منصوبہ بندی کرتے تھے اور بیورو کریسی بھی ان کے ساتھ ملی ہوئی تھی۔ مقامی حکومتیں واقعی بااختیار تھیں وہ وزیروں اور ارکان اسمبلی کا کہا ماننے کی پابند نہیں تھیں اور بیورو کریٹس ان کے احکامات ماننے کے مجبوری میں پابند تھے اس لیے مقامی حکومتوں کے دونوں ادوار میں ملک بھر میں نمایاں ترقی اور عوام کے مسائل فوری حل ہوتے تھے۔ کراچی کو اس ترقی کے باعث دنیا کا 13 واں میگا سٹی تسلیم کیا گیا تھا جو اس نظام میں ملک بھر میں ہونے والی ترقی کا واضح ثبوت تھا۔
ایکسپریس فورم میں کہا گیا کہ تمام سیاسی جماعتیں بلدیاتی حکومتوں کے قیام میں سنجیدہ ہیں البتہ بیورو کریسی کا گھن چکر ہے جو انھیں پھنسا لیتی ہے۔ کوئی سیاسی جماعت لوکل گورنمنٹ کی اہمیت سے انکار نہیں کرتی کیونکہ یہ وہ پرائمری ادارے ہیں جن کے بغیر جمہوریت کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں مقامی حکومتوں کے نظام کی وجہ سے ہی ترقی ہوئی اور وہاں بچے کی پیدائش سے لے کر موت تک کے تمام معاملات یونین کونسلوں سے متعلق ہوتے ہیں اور مقامی حکومتوں کی بااختیار یونین کونسلوں میں بھی ایسا ہی ہوتا تھا اور ہر یوسی ناظم اپنی یوسی کی ترقی کے لیے کام کرتا تھا اور ہر ٹی ایم اے اور ضلعی حکومت کو عوام کے بڑے مسئلے حل اور ترقی کے لیے کام کیا کرتی تھی۔
قومی تعمیر نو کے نام سے ایک وفاقی ادارہ اسلام آباد سے ملک بھر کی مقامی حکومتوں کے معاملات دیکھتا اور ان کی مدد کرتا تھا وہ مقامی حکومتیں آج کی طرح صوبائی حکومتوں اور کمشنری نظام کی محتاج نہیں تھیں جب کہ سیاسی پارٹیوں کی حکومتوں میں مقامی حکومتیں نہیں بے اختیار بلدیاتی ادارے تو موجود ہیں مگر ان کے منتخب عہدیداروں کی بھی کوئی اہمیت نہیں تھی۔
اس لیے چار سال میں کوئی ترقی نہیں ہوئی اور تمام بلدیاتی ادارے مالی بحران کا شکار رہے سیاسی حکومتوں نے ان میں اپنے کارکن ضرورت سے زیادہ بھرتی کرکے انھیں تو نوازا مگر یہ ادارے اپنے ملازمین کو تنخواہیں بھی بمشکل ادا کرتے ہیں اور لاکھوں روپے رشوت دے کر تقرریاں کرانے والے سرکاری افسروں نے کرپشن کی انتہا کر رکھی ہے کارکردگی ختم ہو چکی ، ترقی کیا خاک ہونی تھی کراچی، لاہور اور بڑے شہروں میں بھی لوگوں کو بلدیاتی سہولیات حاصل نہیں۔ عوام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور سیاسی حکومتوں نے ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز کے نام پر رشوت دے کر ان بلدیاتی اداروں کو ہی تباہ کرا دیا ہے اور لوگ بنیادی مسائل کا شکار ہیں۔
دنیا بھر میں تین سطحی حکومتیں ہوتی ہیں۔ ملک کے لیے وفاقی، صوبوں میں صوبائی اور اضلاع میں مقامی حکومتیں اپنی اپنی جگہ عوام کے مسائل حل ، ترقی و دیگر معاملات دیکھتی ہیں مگر ہمارے ملک میں مقامی حکومتوں کا عملی طور پر کوئی وجود نہیں بلکہ صرف جھوٹے دعوے اور باتیں ہیں جو وزیر اعظم سے لے کر صوبائی وزرائے بلدیات مقامی حکومتوں کی اہمیت تسلیم تو کرتے ہیں مگر عملی طور پر جان بوجھ کر کچھ نہیں کیا جا رہا کیونکہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اپنے اپنے ارکان کی خوشنودی عزیز ہے انھیں مقامی حکومتوں کی کوئی فکر نہیں کیونکہ بااختیار مقامی حکومتوں کے باعث ارکان اسمبلی کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے اور وہ ترقیاتی کاموں کے لیے مختص کروڑوں روپے کے فنڈز سے محروم ہو جاتے ہیں۔
جنرل پرویز مشرف کے نافذ کردہ بااختیار ضلعی نظام تک ملک میں وفاقی سطح پر بھی وزارت بلدیات موجود تھی اور صوبوں میں بھی صوبائی وزیر بلدیات اتنے اہم ہوتے تھے کہ انھیں وزرائے اعلیٰ کے بعد دیگر وزیروں سے زیادہ اہمیت حاصل تھی، کیونکہ بلدیاتی اداروں کے علاوہ انھیں ہاؤسنگ، فراہمی و نکاسی آب اور منصوبہ بندی و ترقیاتی اداروں کی سربراہی بھی ملتی تھی اور وہ اپنے تمام محکموں پر حاوی اور بااختیار ہوتے تھے۔ جنرل ضیا الحق کے 1979 کے بلدیاتی نظام تک یہ سلسلہ چلتا رہا اور شہروں کے علاوہ دیہی ترقی بھی محکمہ بلدیات میں شامل تھی جس سے یہ محکمہ سب سے زیادہ اہم اور بااختیار محکمہ تھا۔
جنرل پرویز مشرف کے بااختیار ضلعی حکومتوں کے نظام میں بھی وفاقی سیکریٹری بلدیات اور صوبوں میں صوبائی وزرائے بلدیات ہوتے تھے مگر وہ ضلعی حکومتوں کے حاکم یا کنٹرولنگ اتھارٹی نہیں تھے اور صوبائی سیکریٹریوں، کمشنرز و ڈپٹی کمشنروں کو سٹی و ضلعی حکومتوں کے منتخب ناظمین کا ماتحت بنا دیا گیا تھا اور ان کی روایتی بادشاہی ختم ہوگئی تھی جس کی وجہ سے بیورو کریسی بااختیار مقامی حکومتوں کے خلاف تھی مگر عوام خوش اور منتخب ناظمین مالی اور انتظامی طور پر مکمل بااختیار تھے اور صوبائی وزرائے بلدیات اختیارات سے محروم ہوکر رہ گئے تھے۔
وزیر بلدیات ضلعی حکومتوں میں اسمبلیوں کے لیے منتخب ہوتے تھے اور ارکان اسمبلی سے مل کر بااختیار ضلعی حکومتوں کے خلاف منصوبہ بندی کرتے تھے اور بیورو کریسی بھی ان کے ساتھ ملی ہوئی تھی۔ مقامی حکومتیں واقعی بااختیار تھیں وہ وزیروں اور ارکان اسمبلی کا کہا ماننے کی پابند نہیں تھیں اور بیورو کریٹس ان کے احکامات ماننے کے مجبوری میں پابند تھے اس لیے مقامی حکومتوں کے دونوں ادوار میں ملک بھر میں نمایاں ترقی اور عوام کے مسائل فوری حل ہوتے تھے۔ کراچی کو اس ترقی کے باعث دنیا کا 13 واں میگا سٹی تسلیم کیا گیا تھا جو اس نظام میں ملک بھر میں ہونے والی ترقی کا واضح ثبوت تھا۔
ایکسپریس فورم میں کہا گیا کہ تمام سیاسی جماعتیں بلدیاتی حکومتوں کے قیام میں سنجیدہ ہیں البتہ بیورو کریسی کا گھن چکر ہے جو انھیں پھنسا لیتی ہے۔ کوئی سیاسی جماعت لوکل گورنمنٹ کی اہمیت سے انکار نہیں کرتی کیونکہ یہ وہ پرائمری ادارے ہیں جن کے بغیر جمہوریت کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں مقامی حکومتوں کے نظام کی وجہ سے ہی ترقی ہوئی اور وہاں بچے کی پیدائش سے لے کر موت تک کے تمام معاملات یونین کونسلوں سے متعلق ہوتے ہیں اور مقامی حکومتوں کی بااختیار یونین کونسلوں میں بھی ایسا ہی ہوتا تھا اور ہر یوسی ناظم اپنی یوسی کی ترقی کے لیے کام کرتا تھا اور ہر ٹی ایم اے اور ضلعی حکومت کو عوام کے بڑے مسئلے حل اور ترقی کے لیے کام کیا کرتی تھی۔
قومی تعمیر نو کے نام سے ایک وفاقی ادارہ اسلام آباد سے ملک بھر کی مقامی حکومتوں کے معاملات دیکھتا اور ان کی مدد کرتا تھا وہ مقامی حکومتیں آج کی طرح صوبائی حکومتوں اور کمشنری نظام کی محتاج نہیں تھیں جب کہ سیاسی پارٹیوں کی حکومتوں میں مقامی حکومتیں نہیں بے اختیار بلدیاتی ادارے تو موجود ہیں مگر ان کے منتخب عہدیداروں کی بھی کوئی اہمیت نہیں تھی۔
اس لیے چار سال میں کوئی ترقی نہیں ہوئی اور تمام بلدیاتی ادارے مالی بحران کا شکار رہے سیاسی حکومتوں نے ان میں اپنے کارکن ضرورت سے زیادہ بھرتی کرکے انھیں تو نوازا مگر یہ ادارے اپنے ملازمین کو تنخواہیں بھی بمشکل ادا کرتے ہیں اور لاکھوں روپے رشوت دے کر تقرریاں کرانے والے سرکاری افسروں نے کرپشن کی انتہا کر رکھی ہے کارکردگی ختم ہو چکی ، ترقی کیا خاک ہونی تھی کراچی، لاہور اور بڑے شہروں میں بھی لوگوں کو بلدیاتی سہولیات حاصل نہیں۔ عوام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور سیاسی حکومتوں نے ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز کے نام پر رشوت دے کر ان بلدیاتی اداروں کو ہی تباہ کرا دیا ہے اور لوگ بنیادی مسائل کا شکار ہیں۔