معاشی استحکام کی ضامن ’’دیہی خواتین‘‘ خود معاشی استحصال کا شکار

دیہی خواتین کی سیاسی، سماجی اور معاشی حالت کو بہتر بنانا ہوگا: حکومت و سول سوسائٹی کی نمائندہ خواتین کا اظہار خیال

دیہی خواتین کی سیاسی، سماجی اور معاشی حالت کو بہتر بنانا ہوگا: حکومت و سول سوسائٹی کی نمائندہ خواتین کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال ۔ فوٹو : فائل

15 اکتوبر کو ہر سال دیہی خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد انہیں درپیش مسائل و حل پر بات کرنا اور معاشرے میں ان کے کردار کو اجاگر کرنا ہے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 18 دسمبر 2007ء کو دیہی خواتین کے حقوق کے متعلق قرارداد منظور کی تھی جس کے ایک سال بعد 15 اکتوبر 2008ء کو نیو یارک میں پہلی مرتبہ دیہی خواتین کا عالمی دن منایا گیا۔اس وقت سے آج تک یہ دن ہر سال باقاعدگی سے منایا جاتا ہے۔ اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے رواں برس ''دیہی خواتین کے عالمی دن'' کے موقع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت اور سول سوسائٹی کی نمائندہ خواتین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

سعدیہ سہیل رانا

(رہنما پاکستان تحریک انصاف وچیئرپرسن سٹینڈنگ کمیٹی برائے ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن پنجاب )

ملک کی 70 فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے جس کی بڑی تعداد خواتین پر مشتمل ہے۔ لائیوسٹاک کی بات کریں تو اس شعبہ کی 80 فیصد منیجرز خواتین ہیں جبکہ کھیتوں میں بھی خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد کام کرتی ہے اورملکی معیشت میں اپنا اہم کردار ادا کررہی ہے مگر بدقسمتی سے ان خواتین کو سیاسی، سماجی، معاشی ،معاشرتی و دیگر حوالے سے مسائل درپیش ہیں۔ وزیراعظم کا ویژن ہے کہ ہم نے انسانی ترقی پر زیادہ خرچ کرنا ہے۔ اسی ویژن کے تحت موجودہ حکومت خواتین کی ترقی کیلئے ہرممکن اقدامات کر رہی ہے۔

اس حوالے سے موثر قانون سازی کی گئی۔ موجودہ حکومت نے بھی خواتین کے حوالے سے اچھی قانون سازی کی، اس وقت تمام خواتین اراکین اسمبلی نے ان کا ساتھ دیا۔اس وقت بھی خواتین کے مسائل کے حل اور قانون سازی کیلئے متمام خواتین اراکین اسمبلی اپنی جماعت سے بالاتر ہوکر کام کر رہی ہیں،میں اسمبلی کے فلور پر دیہی خواتین کے حقوق و تحفظ کیلئے ہر ممکن آواز اٹھاؤں گی۔

ہماری حکومت نہ صرف ان قوانین کو مزید بہتر بنا رہی ہے بلکہ نئی قانون سازی بھی کی جارہی ہے جس کے موثرکیلئے موثر قانون سازی بھی کی گئی اور بڑے اقدامات بھی۔ دیہی خواتین کی ایک بڑی تعداد گھر میں سلائی کڑھائی کرکے روزگار کماتی ہے مگر انہیں معاوضہ انتہائی کم ملتا ہے، انہیں بطور ورکر تسلیم کرنے کیلئے اقدامات کیے گئے تاکہ سوشل سکیورٹی کی سہولت بھی دی جاسکے۔

دیہی خواتین کو بااختیار بنانے کیلئے تربیتی پروگرامز شروع کیے جا رہے ہیں جن میں لائیوسٹاک کی دیکھ بھال و دیگر کورس شامل ہیں۔ دیہی خواتین کو 50 لاکھ روپے تک کے قرضے دیے جارہے ہیں،اس کا طریقہ کار مزید آسان بنانے کیلئے وزیر اعظم کے معاون خصوصی عثمان ڈار نے یقین دہانی کروائی ہے، جلد خواتین کی رہنمائی اور رجسٹریشن کیلئے ٹیلیفون نمبرز کی تشہیر کر دی جائے گی۔ ہیلتھ کارڈ کی صورت میں دیہی خواتین کو صحت کی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔

مقامی ہسپتالوں کو بھی اپ گریڈ کیا جا رہا ہے تاکہ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں خاتون کو علاج فراہم کیا جاسکے، اس سے دوران زچگی شرح اموات میں بھی کمی آئے گی۔ دیہاتوں میں بچے، بچیوں کے الگ الگ اور فاصلے پر سکول یقینی بنائے جا رہے ہیں، سکول میں داخلے اور تعلیم حاصل کرنے کی صورت میں بچیوں کا وظیفہ بڑھا دیا گیا ہے، جلد اس کا آغاز کر دیا جائے گا۔ دیہی خواتین کو ہنر کی تعلیم دینے کیلئے ٹیوٹا کے ساتھ مختلف پروگرامز شروع کیے گئے ہیں، کورس مکمل کرنے کے بعد کاروبار کیلئے مالی معاونت بھی کی جائے گی۔

وویمن پروٹیکشن اتھارٹی کے ذریعے خواتین کو تحفظ فراہم کیا جارہا ہے، تمام اضلاع میں وائلنس اگینسٹ وویمن سینٹرز قائم کیے جا رہے ہیں جہاں ایک ہی چھت کے تلے تمام سہولیات میسر ہونگی، اس کے لیے پہلے سے موجود دارالامان کو اپ گریڈ کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔ مقامی حکومتوں کے نظام میں خواتین کی نمائندگی مزید موثر بنانے کیلئے اقدامات کیے جا رہے ہیں، کسان کی نشست پر بھی خاتون کو نمائندگی دی جائے گی۔

بشریٰ خالق

(نمائندہ سول سوسائٹی )


بدقسمتی سے دیہی اور شہری آبادی میں خلیج بڑھ رہی ہے۔ ہماری 70 فیصد سے زائد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے اور وہاں کی 80 فیصد خواتین ملکی معیشت میں اپنا کردار کرتی ہیں مگر بدقسمتی سے انہیں بنیادی انسانی حقوق بھی حاصل نہیں، ان کی سماجی حیثیت کمزور ہے، جاگیردارانہ نظام کے ساتھ جڑی سوچ کی وجہ سے دیہی خواتین تعلیم، صحت، کام کا جائز معاوضہ، فیصلہ سازی کے اختیارات سمیت مختلف حوالے سے استحصال کا شکار ہیں، وراثت کے حوالے سے بھی ان کی سماجی حیثیت کمزور ہے۔

زمین کے مالک مرد طاقتور ہیں جبکہ بہت کم خواتین زمین کی مالک ہیں جس کی وجہ سے انہیں مسائل درپیش ہیں۔ بیج کی بوائی سے لے کر فصل کی صفائی اور سنبھالنے تک خواتین مکمل کردار ادا کرتی ہیں مگر مارکیٹ سے خاتون کے بجائے مرد کا تعلق ہے اور وہ سارے پیسے کما لیتا ہے جس سے خواتین کا معاشی استحصال ہورہا ہے لہٰذا ہمیں دیہی عورت کی معاشی و معاشرتی حیثیت کو بہتر بنانا ہوگا۔ کپاس واحد فصل ہے جس کا 100فیصد کام خواتین کرتی ہیں، پودے کا قد کم ہونے کی وجہ سے خواتین کو جھک کر کپاس چننا پڑتی ہے جس سے انہیں کمر کی تکلیف کی شکایت ہوتی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ فصلوں پر سپرے کی و جہ سے خواتین کو 'ٹی بی' اور سانس کی بیماریاںبھی لاحق ہوتی ہیں مگر انہیں صحت کی سہولیات میسر نہیں اور نہ ہی جائز معاوضہ ملتا ہے۔ مطالبہ ہے کہ دیہی اور زرعی شعبے سے تعلق رکھنے والی خواتین کی بااختیار بنایا جائے، انہیں فیصلہ سازی میں شامل کیا جائے، تعلیم، صحت، کام کے اوقات، کھیتوں میں کام کرنے کیلئے مخصوص لباس، آسان شرائط پر قرض سمیت دیگر سہولیات دی جائیں۔ مقامی حکومتوں کا قانون جلد آنے والا ہے، ہمارا مطالبہ ہے کہ اس میں خواتین کو 33فیصد نمائندگی دی جائے اور کسان کی مخصوص نشست پر صرف مرد ہی نہیں بلکہ خواتین کو بھی لازمی نمائندگی دی جائے۔

بدر االنساء

(اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والی دیہی خاتون)

کھیتوں میں لگنے والے آلودہ پانی سے تیار فصلیں کھانے اور گندا پانی پینے کی وجہ سے مرد و خواتین بیمار ہورہے ہیں۔ ہیپاٹائٹس، جلد ی امراض و دیگر بیماریوں کی وجہ سے خواتین کی صحت شدید متاثر ہورہی ہے،یہ صورتحال بچوں کی صحت کیلئے بھی ٹھیک نہیں ہے لہٰذا فوری طور پر صاف پانی کی فراہمی یقینی بنا کر دیہی خواتین کی صحت کا حق ادا کیا جائے۔ میری بیٹی واحد ہے جو گاؤں سے 4کلومیٹر دور سکول میں پڑھتی رہی،میں پیدل اسے سکول لے کر جاتی تھی، الحمداللہ! آج وہ وکیل بن چکی ہے۔

میں نے اپنے علاقے میں مردوں سے جنگ لڑی ہے، میری خواہش ہے کہ اب میری بیٹی قلم سے جدوجہد کرے۔ مجھے اپنے علاقے کی بیٹیوں کے مستقبل کی فکر ہے، میں نے جو کام اپنی بیٹی کیلئے کیا وہی قوم کی دیگر بیٹیوں کیلئے کرنا چاہتی ہوں۔دیہی خواتین بدترین استحصال کا شکار ہیں لہٰذا ان کے حقوق و تحفظ کیلئے حکومت کا کام کرنا ہوگا۔ حکومت کی جانب سے اعلان کردہ قرضہ سکیم سے غریب آدمی کو فائدہ نہیں، 40 سے45 ہزار ماہانہ تنخواہ والا شخص یا 5 ایکڑ سے زائد زمین کا مالک قرض لے سکتا ہے۔ اتنی آمدن یا زمین رکھنے والا شخص غریب نہیں ہوتا، میرا مطالبہ ہے کہ قرض کے حصول کو آسان بنانے کے ساتھ ساتھ کم رقبے کے مالک افراد کو بھی قرض فراہم کیا جائے۔

کائنات ملک

(راجن پور سے تعلق رکھنے والی دیہی خاتون )

ناخواندگی دیہی خواتین کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، انہیں معلوم ہی نہیں کہ ان کے حقوق کیا ہیں اور کس طرح حاصل کرنے ہیں۔ وہ خاموشی سے ظلم برداشت کرتی رہتی ہیں اور وسائل پر قابض مرد ان کا ہر ممکن استحصال کرتا ہے۔ دیہی خواتین معاشی طور پر کمزور ہیں، ان سے کام زیادہ لیا جاتا ہے جبکہ معاوضہ نہ ہونے کے برابر دیا جاتا ہے۔

افسوس ہے کہ کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کو بیماری یا سانپ، بچھو وغیرہ کے کاٹنے کی صورت میں طبی امداد مہیا نہیں ہوتی، ان کے پاس ڈاکٹر کی فیس ادا کرنے کے پیسے نہیں ہوتے جس کی وجہ سے وہ علاج کیلئے بھی نہیں جاتی، خواتین کو ان کے بنیادی حقوق دینے کیلئے ہمیں سماجی رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی۔کپاس کے 3 ماہ کے سیزن میں 6 سال سے 15 برس کی عمر کی بچیوں کو سکولوں سے ہٹا کر فصلوں میں کام کیلئے لگا دیا جاتا ہے، یہ سکول سے لڑکیوں کے ڈراپ ہونے کی ایک بڑی وجہ ہے جو ان کے مستقبل کے ساتھ ظلم ہے۔

فیصلہ سازی میں دیہی خواتین شامل نہیں، انہیں تنظیم سازی کا حق بھی حاصل نہیں ہے، وہ ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں مگر کہیں رجسٹرڈ نہیں، کسی کو معلوم ہی نہیں کتنی خواتین کھیتوں میں کام کر رہی ہیں، ان کے ساتھ کتنے حادثات پیش آئے؟ اس حوالے سے لیبر ڈیپارٹمنٹ کو ڈیٹا اکٹھا کرنا چاہیے تاکہ اس کی روشنی دیہی خواتین کے حوالے سے اقدامات کیے جاسکیں۔ دیہی علاقوں میں خواتین کیلئے لٹریسی سینٹرز قائم کیے جائیں، تربیت کیلئے انہیں معاوضہ بھی دیا جائے،اس کے ساتھ ساتھ ا نہیں شعور و آگاہی دی جائے تاکہ ظلم و نا انصافی کا خاتمہ ہوسکے۔
Load Next Story