مہنگائی اور ڈالر
ڈالر کے ہلکے سے اتار چڑھاؤ کا اثر ہماری پوری قومی زندگی پر ہوتا ہے
ISLAMABAD:
پاکستان میں مہنگائی اس سطح پر پہنچ چکی ہے جہاں عمران خان کے کٹر حمایتی بھی اب ان کا دفاع نہیں کرپا رہے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ یہ مہنگائی پچھلی حکومتوں کی عاقبت نااندیش پالیسیوں کا ہی تسلسل ہے۔ اسحاق ڈار نے جس طرح اس ملک کو قرضوں کی دلدل میں پھنسایا، اس صورت میں اگر نون لیگ کی حکومت دوبارہ بھی آجائے تو وہ اس دلدل سے نہیں نکل سکتی۔ ویسے بھی ہمارے دونوں بڑے سیاسی خاندان بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے ایجنٹ ہی ہیں۔ ان کی تمام پالیسیاں اسی اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی کے حصول کےلیے ہی ہوتی ہیں۔
بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ سے ان کی مفاہمت اسی بات پر ہوئی تھی کہ اس ملک کو جلد از جلد اتنا کمزور کردیا جائے کہ ایک ہلکے سے بھارتی فوجی دباؤ پر ہر صوبہ الگ ملک ہونے کا اعلان کرکے پاکستانی فوج کو ہندو فوج کے سامنے شکار بناکر ڈال دے۔ اسی اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی اور ان کی رہنمائی میں ان دونوں خاندانوں کی ملی بھگت سے جس طرح آئین میں اٹھارویں ترمیم کی گئی، اس نے ویسے ہی اس ملک کو پانچ ٹکڑوں میں تقسیم کردیا ہے۔ اب اگر گندم کی قلت پیدا کرنی ہو تو ایک صوبہ اپنی گندم روک لیتا ہے اور عوام کو مہنگا آٹا خریدنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ اس طرح ایک تیر سے دو شکار ہوتے ہیں۔ ایک تو مہنگائی کا الزام حکومت پر لگتا ہے، دوسرے سیاست دانوں کی جیبیں بھی بھر جاتی ہیں۔ پاکستان میں کون ایسا لاعلم ہے جو نہیں جانتا کہ اکثر فلور ملز سیاسی خاندانوں کی ہی ہیں۔ یہی حال شوگر ملز کا ہے۔ حکومت نے ذرا شوگر ملوں سے حساب کتاب کرنا شروع کیا وہیں شکر کی قیمت آسمان پر پہنچ گئی۔ یہاں بھی ایک تیر سے دو شکار ہوگئے۔ یہ بتانے کی شاید ضرورت نہ ہو کہ شوگر ملز کن لوگوں کی ہیں۔
ہمارے ملک کی کرنسی ڈالر نہیں ہے، اس کے باوجود ڈالر کے ہلکے سے اتار چڑھاؤ کا اثر ہماری پوری قومی زندگی پر ہوتا ہے۔ کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اس کی وجہ ہماری غلامانہ ذہنیت کے مارے سیاست دان ہیں، جو نہ صرف مغرب کے غلام ہیں بلکہ ان کے ایک اشارے پر اپنے ملک کا بڑے سے بڑا مفاد بھی داؤ پر لگا دیتے ہیں۔
عام آدمی نہ ڈالر استعمال کرتا ہے، نہ ہی اسے اس کرنسی کو جمع کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ لیکن پھر بھی ڈالر اسے مارے ڈال رہا ہے۔ آج ہمارے ملک میں ڈالر کی ترسیل پچھلے تمام ادوار سے زیادہ ہے۔ اس کے باوجود ڈالر آج پچھلے تمام ادوار سے زیادہ مہنگا ہے۔
اب ایک طریقہ تو عوام کو ڈالر کی نحوست سے بچانے کا یہ ہوسکتا ہے کہ عوام کو تنخواہ ہی ڈالر میں دینی شروع کردی جائے. ڈالر جتنا مہنگا ہوگا اتنی ہی ان کی قوت خرید بڑھ جائے گی۔ اس طرح شاید عوام خود ڈالر مہنگے سے مہنگا ہونے کی دعا کرنا شروع کردیں گے۔ لیکن ہمیں معلوم ہے کہ اس تجویز کو تو سنتے ہی وزارت خزانہ رونا شروع کردے گی۔ اس لیے کہ ہماری ہر حکومت کی ہر وزارت عوام کی بھلائی کو اپنے اوپر حرام رکھتی ہے۔
ڈالر صرف عام آدمی کو ہی نہیں بلکہ اب تو بڑے لوگوں کے کاروبار کو بھی متاثر کررہا ہے۔ متوسط کاروباری افراد جو اس ملک کی ایکسپورٹ بڑھانے کےلیے دن رات محنت کرکے اپنی پروڈکٹ کا خریدار تلاش کرکے اس سے ڈیل کرتے ہیں، تو انھیں معلوم ہوتا ہے کہ جب ڈیل کی تھی تو ڈالر ایک سو اکسٹھ کا تھا لیکن ڈیل کرتے ہی پاکستان پہنچنے تک ڈالر ایک سو بہتر کا ہوگیا ہے۔ تمام پرائس کی ورکنگ ایک سو اکسٹھ پر تھی، اب کیا کریں؟ برآمد کرنے والا سر پکڑے بیٹھا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اس وقت جس کنٹینر کا کرایہ نو ہزار ڈالر تھا وہ اب چھتیس ہزار ڈالر ہوگیا ہے۔ اگر مال نہ بھیجیں تو ڈیفالٹر کہلاتے ہیں اور اگر مال بھیجتے ہیں تو پیسے اپنی جیب سے خریدار کی جیب میں ڈالنے والی بات ہے۔ ایسے برآمد کنندگان پر وہی مثال صادق آرہی ہے کہ 'کھایا پیا کچھ نہیں اور گلاس توڑا بارہ آنے'۔
یہاں کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ ٹیکسٹائل والے تو آج اتنا خوش ہیں، ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹ ریکارڈ بنا رہی ہے۔ تو ان کی خدمت میں عرض یہ ہے کہ ٹیکسٹائل میں استعمال ہونے والا خام مال یعنی کپاس پاکستان میں ہی پیدا ہوتی ہے، جس پر ڈالر کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ کپاس کے سودے پہلے ہی کرلیے جاتے ہیں جن میں بعد میں کوئی ردو بدل نہیں ہوتی۔ شنید تو یہ بھی ہے کہ ہمارے ٹیکسٹائل برآمد کنندگان ایک ٹکٹ میں دو مزے لے رہے ہیں۔ ایک طرف تو ایکسپورٹ کے طفیل ڈالر کما رہے ہیں، دوسری طرف اوور انوائسنگ کرکے اپنا باہر پڑا ہوا کالا دھن بھی سفید کر رہے ہیں۔
آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے تمام کاروبار بھی ڈالر کی اڑان سے متاثر ہوتے ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے کبھی کسی بھی بنیادی صنعتی خام مال کو ملک میں تیار کرنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی۔ بلکہ یوں کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا کہ ہم نے کبھی اسے یہاں بننے ہی نہیں دیا، تاکہ ہر چیز کی قیمت ڈالر سے منسلک رہے اور عوام کو یونہی روزگار کے چکر میں پھنسایا رکھا جائے۔
اگر ہم دواؤں میں استعمال ہونے والا خام مال ہی اپنے ملک میں بنانے لگتے تو آج ہمارے یہاں دواؤں کی قیمتیں آسمان پر نہ ہوتیں۔ صرف اس خام مال سے بے شمار کاسمیٹک بنانے والی صنعتیں بھی ڈالر کے قہر سے آزاد ہوجاتیں۔ ابھی بھی وقت ہے کہ ہم اس طرف توجہ دیں۔ ہمارے ملک میں ہر صنعت کی ایسوسی ایشننز بنی ہوئی ہیں۔ ہم ہر صنعت کو یہ تجویز دے سکتے ہیں کہ وہ اپنی صنعت میں استعمال ہونے والا خام مال خود اپنے ملک میں تیار کرنا شروع کردیں۔ جس کےلیے سرمایہ اسٹاک مارکیٹ میں شیئر فروخت کرکے بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس خام مال کی صنعت کو ہر قسم کے ٹیکسز سے مستثنیٰ قرار دے دیا جائے۔ صرف فنش گڈز پر ہی ٹیکس لاگو ہو۔ اس طرح بے شمار کاروبار ڈالر کی نحوست سے آزاد ہوسکتے ہیں۔
چین اور روس بے شمار بار یہ تجویز دے چکے ہیں کہ ڈالر کی نحوست سے نکلنے کےلیے خطے کے ممالک لین دین اپنی اپنی کرنسیوں میں کریں۔ یہ تجویز بھی پاکستان کے کسی کام نہیں آسکتی۔ کیونکہ پاکستان کو اپنا قرضہ ڈالر میں واپس کرنا ہے۔ اگر وہ ڈالر کمائے گا نہیں تو ڈالر واپس کیسے کرے گا؟ ہماری سب سے بڑی عقلمندی یہ ہے کہ ہم چین سے بھی قرضہ لیتے ہیں تو ڈالر میں۔ وہاں بھی ہم ان کی کرنسی میں قرضہ نہیں لیتے۔ شاید ہم ڈالر کی محبت میں ایسے گرفتار ہیں کہ ہم اس سے نکلنا ہی نہیں چاہتے۔
پاکستان اس وقت ایک ایسے سنہری موقع کو گنوا رہا ہے جو شاید اسے دوبارہ کبھی نہ مل سکے۔ اس وقت چین کو جتنی ضرورت پاکستان کی سپورٹ کی ہے اتنی شاید اسے پھر کبھی نہ رہے۔ آج اس کے تعلقات آسٹریلیا سے جتنے خراب ہیں ہم اس کا فائدہ بالکل نہیں اٹھا رہے۔ آسٹریلیا چین کو گوشت برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک تھا۔ اب چین نے آسٹریلیا کی تمام مصنوعات پر بھاری ٹیکس لگادیے ہیں۔ ہمارے لیے یہ سنہری موقع ہے کہ ہم چین کی گوشت کی مارکیٹ پر قبضہ کرلیں۔ لیکن یہاں سوال کیا جاسکتا ہے کہ ہم اتنا گوشت کہاں سے پیدا کریں گے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم کیٹل فارمنگ کو بھی ٹیکس فری کردیں۔ نہ صرف یہ بلکہ کیٹل فارمنگ میں کی جانے والی تمام سرمایہ کاری کو کسی بھی سوال و جواب سے مستثنیٰ قرار دے دیا جائے۔ اگر ایک بار ہمارے کالے دھن کا رخ کیٹل فارمنگ کی طرف ہوجائے تو چند مہینوں میں اس کا نتیجہ دنیا کے سامنے ہوگا۔ کیونکہ اس کےلیے نہ کسی ٹیکنالوجی کی منتقلی کی ضرورت ہے، نہ ہی یہ کوئی بیس سالہ منصوبہ ہے۔ کیٹل فارمنگ میں جانور چھ سے بارہ مہینوں میں تیار ہوجاتے ہیں۔
پاکستان چین کو صرف گوشت برآمد کرکے اپنا قرضہ اتار سکتا ہے۔ لیکن اس کےلیے سیاسی بصیرت کی ضرورت ہے، جس کا ہمارے ملک میں فقدان ہے۔ ہم اپنا کالا دھن سفید کرنے کےلیے اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کو ہر قسم کے سوال و جواب سے تو مستثنیٰ قرار دے سکتے ہیں، لیکن ملک کی بھلائی کےلیے ایسا کوئی قدم اٹھانا گناہ سمجھتے ہیں۔
پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بھی چین ہی ہے۔ تیل و گیس اور خوردنی تیل کے علاوہ ہماری نوے فیصد درآمدات اب صرف چین سے کی جاتی ہیں۔ پاکستان میں تیل و گیس کے بھاری مقدار میں ذخائر موجود ہیں۔ ماضی میں ہم اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے بلوچستان سے تیل و گیس نہیں نکال سکے۔ اب جبکہ اس طرف پوری توجہ دی جارہی ہے تو امید ہے کہ مستقبل قریب میں پاکستان تیل و گیس کی پیداوار میں خود کفیل ہوسکتا ہے۔ اگر ہم مقامی کرنسیوں میں تجارت شروع کردیتے ہیں تو ڈالر کی ضرورت ویسے ہی ختم ہوجائے گی۔ لیکن چونکہ ہمیں مغرب اور امریکا کی غلامی کی عادت ہے اس لیے ہم ان کی ناراضی مول نہیں لیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
پاکستان میں مہنگائی اس سطح پر پہنچ چکی ہے جہاں عمران خان کے کٹر حمایتی بھی اب ان کا دفاع نہیں کرپا رہے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ یہ مہنگائی پچھلی حکومتوں کی عاقبت نااندیش پالیسیوں کا ہی تسلسل ہے۔ اسحاق ڈار نے جس طرح اس ملک کو قرضوں کی دلدل میں پھنسایا، اس صورت میں اگر نون لیگ کی حکومت دوبارہ بھی آجائے تو وہ اس دلدل سے نہیں نکل سکتی۔ ویسے بھی ہمارے دونوں بڑے سیاسی خاندان بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے ایجنٹ ہی ہیں۔ ان کی تمام پالیسیاں اسی اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی کے حصول کےلیے ہی ہوتی ہیں۔
بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ سے ان کی مفاہمت اسی بات پر ہوئی تھی کہ اس ملک کو جلد از جلد اتنا کمزور کردیا جائے کہ ایک ہلکے سے بھارتی فوجی دباؤ پر ہر صوبہ الگ ملک ہونے کا اعلان کرکے پاکستانی فوج کو ہندو فوج کے سامنے شکار بناکر ڈال دے۔ اسی اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی اور ان کی رہنمائی میں ان دونوں خاندانوں کی ملی بھگت سے جس طرح آئین میں اٹھارویں ترمیم کی گئی، اس نے ویسے ہی اس ملک کو پانچ ٹکڑوں میں تقسیم کردیا ہے۔ اب اگر گندم کی قلت پیدا کرنی ہو تو ایک صوبہ اپنی گندم روک لیتا ہے اور عوام کو مہنگا آٹا خریدنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ اس طرح ایک تیر سے دو شکار ہوتے ہیں۔ ایک تو مہنگائی کا الزام حکومت پر لگتا ہے، دوسرے سیاست دانوں کی جیبیں بھی بھر جاتی ہیں۔ پاکستان میں کون ایسا لاعلم ہے جو نہیں جانتا کہ اکثر فلور ملز سیاسی خاندانوں کی ہی ہیں۔ یہی حال شوگر ملز کا ہے۔ حکومت نے ذرا شوگر ملوں سے حساب کتاب کرنا شروع کیا وہیں شکر کی قیمت آسمان پر پہنچ گئی۔ یہاں بھی ایک تیر سے دو شکار ہوگئے۔ یہ بتانے کی شاید ضرورت نہ ہو کہ شوگر ملز کن لوگوں کی ہیں۔
ہمارے ملک کی کرنسی ڈالر نہیں ہے، اس کے باوجود ڈالر کے ہلکے سے اتار چڑھاؤ کا اثر ہماری پوری قومی زندگی پر ہوتا ہے۔ کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اس کی وجہ ہماری غلامانہ ذہنیت کے مارے سیاست دان ہیں، جو نہ صرف مغرب کے غلام ہیں بلکہ ان کے ایک اشارے پر اپنے ملک کا بڑے سے بڑا مفاد بھی داؤ پر لگا دیتے ہیں۔
عام آدمی نہ ڈالر استعمال کرتا ہے، نہ ہی اسے اس کرنسی کو جمع کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ لیکن پھر بھی ڈالر اسے مارے ڈال رہا ہے۔ آج ہمارے ملک میں ڈالر کی ترسیل پچھلے تمام ادوار سے زیادہ ہے۔ اس کے باوجود ڈالر آج پچھلے تمام ادوار سے زیادہ مہنگا ہے۔
اب ایک طریقہ تو عوام کو ڈالر کی نحوست سے بچانے کا یہ ہوسکتا ہے کہ عوام کو تنخواہ ہی ڈالر میں دینی شروع کردی جائے. ڈالر جتنا مہنگا ہوگا اتنی ہی ان کی قوت خرید بڑھ جائے گی۔ اس طرح شاید عوام خود ڈالر مہنگے سے مہنگا ہونے کی دعا کرنا شروع کردیں گے۔ لیکن ہمیں معلوم ہے کہ اس تجویز کو تو سنتے ہی وزارت خزانہ رونا شروع کردے گی۔ اس لیے کہ ہماری ہر حکومت کی ہر وزارت عوام کی بھلائی کو اپنے اوپر حرام رکھتی ہے۔
ڈالر صرف عام آدمی کو ہی نہیں بلکہ اب تو بڑے لوگوں کے کاروبار کو بھی متاثر کررہا ہے۔ متوسط کاروباری افراد جو اس ملک کی ایکسپورٹ بڑھانے کےلیے دن رات محنت کرکے اپنی پروڈکٹ کا خریدار تلاش کرکے اس سے ڈیل کرتے ہیں، تو انھیں معلوم ہوتا ہے کہ جب ڈیل کی تھی تو ڈالر ایک سو اکسٹھ کا تھا لیکن ڈیل کرتے ہی پاکستان پہنچنے تک ڈالر ایک سو بہتر کا ہوگیا ہے۔ تمام پرائس کی ورکنگ ایک سو اکسٹھ پر تھی، اب کیا کریں؟ برآمد کرنے والا سر پکڑے بیٹھا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اس وقت جس کنٹینر کا کرایہ نو ہزار ڈالر تھا وہ اب چھتیس ہزار ڈالر ہوگیا ہے۔ اگر مال نہ بھیجیں تو ڈیفالٹر کہلاتے ہیں اور اگر مال بھیجتے ہیں تو پیسے اپنی جیب سے خریدار کی جیب میں ڈالنے والی بات ہے۔ ایسے برآمد کنندگان پر وہی مثال صادق آرہی ہے کہ 'کھایا پیا کچھ نہیں اور گلاس توڑا بارہ آنے'۔
یہاں کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ ٹیکسٹائل والے تو آج اتنا خوش ہیں، ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹ ریکارڈ بنا رہی ہے۔ تو ان کی خدمت میں عرض یہ ہے کہ ٹیکسٹائل میں استعمال ہونے والا خام مال یعنی کپاس پاکستان میں ہی پیدا ہوتی ہے، جس پر ڈالر کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ کپاس کے سودے پہلے ہی کرلیے جاتے ہیں جن میں بعد میں کوئی ردو بدل نہیں ہوتی۔ شنید تو یہ بھی ہے کہ ہمارے ٹیکسٹائل برآمد کنندگان ایک ٹکٹ میں دو مزے لے رہے ہیں۔ ایک طرف تو ایکسپورٹ کے طفیل ڈالر کما رہے ہیں، دوسری طرف اوور انوائسنگ کرکے اپنا باہر پڑا ہوا کالا دھن بھی سفید کر رہے ہیں۔
آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے تمام کاروبار بھی ڈالر کی اڑان سے متاثر ہوتے ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے کبھی کسی بھی بنیادی صنعتی خام مال کو ملک میں تیار کرنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی۔ بلکہ یوں کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا کہ ہم نے کبھی اسے یہاں بننے ہی نہیں دیا، تاکہ ہر چیز کی قیمت ڈالر سے منسلک رہے اور عوام کو یونہی روزگار کے چکر میں پھنسایا رکھا جائے۔
اگر ہم دواؤں میں استعمال ہونے والا خام مال ہی اپنے ملک میں بنانے لگتے تو آج ہمارے یہاں دواؤں کی قیمتیں آسمان پر نہ ہوتیں۔ صرف اس خام مال سے بے شمار کاسمیٹک بنانے والی صنعتیں بھی ڈالر کے قہر سے آزاد ہوجاتیں۔ ابھی بھی وقت ہے کہ ہم اس طرف توجہ دیں۔ ہمارے ملک میں ہر صنعت کی ایسوسی ایشننز بنی ہوئی ہیں۔ ہم ہر صنعت کو یہ تجویز دے سکتے ہیں کہ وہ اپنی صنعت میں استعمال ہونے والا خام مال خود اپنے ملک میں تیار کرنا شروع کردیں۔ جس کےلیے سرمایہ اسٹاک مارکیٹ میں شیئر فروخت کرکے بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس خام مال کی صنعت کو ہر قسم کے ٹیکسز سے مستثنیٰ قرار دے دیا جائے۔ صرف فنش گڈز پر ہی ٹیکس لاگو ہو۔ اس طرح بے شمار کاروبار ڈالر کی نحوست سے آزاد ہوسکتے ہیں۔
چین اور روس بے شمار بار یہ تجویز دے چکے ہیں کہ ڈالر کی نحوست سے نکلنے کےلیے خطے کے ممالک لین دین اپنی اپنی کرنسیوں میں کریں۔ یہ تجویز بھی پاکستان کے کسی کام نہیں آسکتی۔ کیونکہ پاکستان کو اپنا قرضہ ڈالر میں واپس کرنا ہے۔ اگر وہ ڈالر کمائے گا نہیں تو ڈالر واپس کیسے کرے گا؟ ہماری سب سے بڑی عقلمندی یہ ہے کہ ہم چین سے بھی قرضہ لیتے ہیں تو ڈالر میں۔ وہاں بھی ہم ان کی کرنسی میں قرضہ نہیں لیتے۔ شاید ہم ڈالر کی محبت میں ایسے گرفتار ہیں کہ ہم اس سے نکلنا ہی نہیں چاہتے۔
پاکستان اس وقت ایک ایسے سنہری موقع کو گنوا رہا ہے جو شاید اسے دوبارہ کبھی نہ مل سکے۔ اس وقت چین کو جتنی ضرورت پاکستان کی سپورٹ کی ہے اتنی شاید اسے پھر کبھی نہ رہے۔ آج اس کے تعلقات آسٹریلیا سے جتنے خراب ہیں ہم اس کا فائدہ بالکل نہیں اٹھا رہے۔ آسٹریلیا چین کو گوشت برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک تھا۔ اب چین نے آسٹریلیا کی تمام مصنوعات پر بھاری ٹیکس لگادیے ہیں۔ ہمارے لیے یہ سنہری موقع ہے کہ ہم چین کی گوشت کی مارکیٹ پر قبضہ کرلیں۔ لیکن یہاں سوال کیا جاسکتا ہے کہ ہم اتنا گوشت کہاں سے پیدا کریں گے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم کیٹل فارمنگ کو بھی ٹیکس فری کردیں۔ نہ صرف یہ بلکہ کیٹل فارمنگ میں کی جانے والی تمام سرمایہ کاری کو کسی بھی سوال و جواب سے مستثنیٰ قرار دے دیا جائے۔ اگر ایک بار ہمارے کالے دھن کا رخ کیٹل فارمنگ کی طرف ہوجائے تو چند مہینوں میں اس کا نتیجہ دنیا کے سامنے ہوگا۔ کیونکہ اس کےلیے نہ کسی ٹیکنالوجی کی منتقلی کی ضرورت ہے، نہ ہی یہ کوئی بیس سالہ منصوبہ ہے۔ کیٹل فارمنگ میں جانور چھ سے بارہ مہینوں میں تیار ہوجاتے ہیں۔
پاکستان چین کو صرف گوشت برآمد کرکے اپنا قرضہ اتار سکتا ہے۔ لیکن اس کےلیے سیاسی بصیرت کی ضرورت ہے، جس کا ہمارے ملک میں فقدان ہے۔ ہم اپنا کالا دھن سفید کرنے کےلیے اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کو ہر قسم کے سوال و جواب سے تو مستثنیٰ قرار دے سکتے ہیں، لیکن ملک کی بھلائی کےلیے ایسا کوئی قدم اٹھانا گناہ سمجھتے ہیں۔
پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بھی چین ہی ہے۔ تیل و گیس اور خوردنی تیل کے علاوہ ہماری نوے فیصد درآمدات اب صرف چین سے کی جاتی ہیں۔ پاکستان میں تیل و گیس کے بھاری مقدار میں ذخائر موجود ہیں۔ ماضی میں ہم اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے بلوچستان سے تیل و گیس نہیں نکال سکے۔ اب جبکہ اس طرف پوری توجہ دی جارہی ہے تو امید ہے کہ مستقبل قریب میں پاکستان تیل و گیس کی پیداوار میں خود کفیل ہوسکتا ہے۔ اگر ہم مقامی کرنسیوں میں تجارت شروع کردیتے ہیں تو ڈالر کی ضرورت ویسے ہی ختم ہوجائے گی۔ لیکن چونکہ ہمیں مغرب اور امریکا کی غلامی کی عادت ہے اس لیے ہم ان کی ناراضی مول نہیں لیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔