جمہوری نظام میں اخلاقی اقدار

سابق صدر آصف زرداری نے تو اپنی اہلیہ کے مبینہ قرار دیے گئے قاتل کو ڈپٹی وزیر اعظم بنا دیا تھا۔

m_saeedarain@hotmail.com

سپریم کورٹ میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی حادثے پر تحقیقات شروع ہونے پر اب تک کتنے وزیر مستعفی ہوئے؟ اخلاقی اقدار جمہوری نظام میں مختلف ہوتی ہیں۔ یہ بات سپریم کورٹ کے چند ماہ بعد چیف جسٹس بننے والے سینئر ترین جج نے ایک کیس میں کہی۔ سپریم کورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ فارن فنڈنگ پرکیا وزیر اعظم مستعفی ہوجائیں؟

فارن فنڈنگ کیس کی انکوائری الیکشن کمیشن میں چھ سال سے اس وقت سے چل رہی ہے، جب وہ وزیر اعظم نہیں تھے۔ پی ٹی آئی مختلف بہانوں سے اس معاملے میں تاخیر کراتی رہی تھی اسی لیے اخلاقی اقدار کا تقاضا یہ تھا کہ عمران خان اس اہم کیس کا پہلے فیصلہ لیتے اور وزیر اعظم منتخب ہو کر الیکشن کمیشن سے درخواست کرتے کہ یہ فیصلہ جلد سنائے تاکہ وہ حلف اٹھا سکیں۔

عمران خان کو پہلے فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ لینا چاہیے تھا کیونکہ عمران خان نے وزیر اعظم نواز شریف سے پانامہ معاملے کی تحقیقات کے وقت مطالبہ کیا تھا کہ پانامہ کیس کے فیصلے تک وہ مستعفی ہوجائیں۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف بھی ماضی میں اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی سے ایسا مطالبہ کرتے رہے ہیں مگر خود پانامہ کے فیصلے تک مستعفی نہیں ہوئے تھے اور سپریم کورٹ بھی پانامہ میں ثبوت نہ ملنے پر نواز شریف کو سزا نہیں دے سکی تھی اور انھیں حیرت انگیز طور پر اقامہ پر نااہل کیا گیا تھا۔

عمران خان سیاست میں آنے کے بعد حکومتوں کے ہر ذمے دار سے کسی حادثے یا انکوائری پر مستعفی ہوجانے کا مطالبہ کرتے تھے مگر انھوں نے اپنی حکومت میں کسی حادثے یا انکوائری پر کسی وزیر سے استعفیٰ طلب نہیں کیا تھا ۔

ماضی کی طرح اب بھی یہ ہوتا آ رہا ہے کہ جب بھی الیکشن کمیشن نے کسی رکن اسمبلی کو عہدے سے برطرف کیا اس نے فوراً عدلیہ سے حکم امتناعی حاصل کرلیا اور اپنی مدت پوری کرلی مگر عدالتی فیصلہ نہ آیا۔ ایسی ایک مثال ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کی ہے جنھیں الیکشن کمیشن نے برطرف کیا تھا۔ شاید آئین میں ایسی پابندی نہیں ہے اور عدلیہ بھی کسی کیس کا جلد فیصلہ دینے کی پابند نہیں۔


عدلیہ کی طرح شاید الیکشن کمیشن بھی پابند نہیں ہے کہ وہ کسی کیس کا جلد فیصلہ دے اور اسی وجہ سے پی ٹی آئی کے خلاف چھ سال سے فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ نہیں آ رہا اور الیکشن کمیشن اپنی توہین کرنے والے وزیروں سے رعایت کرتا آ رہا ہے۔ ماضی میں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ہی مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کو توہین عدالت پر فوری سزا سنائی تھی جب کہ الیکشن کمیشن تو 3 سالوں میں فیصل واوڈا کیس کا فیصلہ نہیں کرسکا ہے۔

مارشل لا دور میں تو فوجی سربراہ مملکت اپنے کٹر مخالف سیاستدانوں کی عیادت کرنے اسپتال چلے جاتے تھے جب کہ جنرل مشرف نے تو اپنے مخالف دو قومی رہنماؤں نوابزادہ نصراللہ خان اور مولانا شاہ احمد نورانی کی وفات پر اظہار تعزیت تک نہیں کیا تھا۔ جمہوریت کے دعویدار وزیر اعظم عمران خان نے بھی اپنے سابقہ حلیف سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان اختر مینگل سے ان کے والد عطا اللہ مینگل کی وفات پر اظہار تعزیت تک گوارا نہیں کیا۔

جمہوری دور میں سیاستدانوں میں سیاسی اقدار زیادہ ہوتی ہیں ۔ سندھ کے ایک سابق وزیر اعلیٰ تو اپنے حامیوں کے پاس سال دو سال گزرنے کے بعد بھی اظہار تعزیت کے لیے پہنچ جانے میں مشہور ہیں جو ایک اچھی بات بھی ہے کیونکہ کہا جاتا ہے کہ سیاست میں دوستی اور دشمنی مستقل نہیں ہوتی اور بدلتی رہتی ہے۔

سیاست میں باہمی اختلاف ضرور ہوتا ہے مگر سیاسی مخالف کبھی مستقل انتقام اور دشمنی میں تبدیل نہیں ہوتی۔ ایسا بھی نہیں ہوتا کہ سیاسی مفاد کی خاطر اپنے اتحادی کے جرائم پر تو آنکھیں بند رکھی جائیں اور سیاسی مخالف کے ایک جرم کی بھی اپنی حکومت میں اپنے زیر اثر حکومتی اداروں کے ذریعے بار بار انکوائری اور گرفتاری کرائی جاتی رہی۔

سپریم کورٹ نے کہہ دیا ہے کہ اخلاقی اقدار جمہوری نظام میں مختلف ہوتی ہیں مگر سابق صدر آصف زرداری نے تو اپنی اہلیہ کے مبینہ قرار دیے گئے قاتل کو ڈپٹی وزیر اعظم بنا دیا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھی بقول ان کے ''چپڑاسی'' کی اہلیت رکھنے والے کو اپنا اہم وزیر اور جنھیں وہ کبھی پنجاب کے ''بڑے ڈاکو'' خطاب دیا کرتے تھے ، انھیں اسپیکر بنا رکھا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آج ہمارے جمہوری نظام میں اخلاقی اقدار موجود ہی نہیں بلکہ سیاسی مفاد سب سے زیادہ اہم ہوتا ہے، اس لیے سیاسی بہتری کے لیے اگر سپریم کورٹ کوئی مدت مقرر کردے تو سیاستدان اخلاقی اقدار پر مجبور ہوجائیں گے۔
Load Next Story