رقصِ بسمل
حکومت گرانی کی موجودہ صورت حال کا سارا ملبہ حسب عادت اور روایتی انداز اختیار کرتے ہوئے ماضی کی حکومتوں پر ڈال رہی ہے۔
موجودہ حکومت اس وقت اپنے دور اقتدار کے مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے۔ داخلی اور خارجی ہر دو محاذ پر اسے سنگین اور حساس نوعیت سے گمبھیر اور پیچیدہ چیلنجز کا سامنا ہے۔ بیرون سرحد سب سے بڑا مسئلہ افغانستان کا امکانی بحران اور امن کے نتیجے میں جنم لینے والی مشکلات اور پاکستان پر پڑنے والے اس کے متوقع اثرات کا ہے۔
بجا کہ طالبان نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کی رخصتی کے بعد پورے افغانستان پر اپنا اقتدار مضبوط بنا لیا ہے تاہم عالمی برادری کی جانب سے طالبان کو خوش دلی کے ساتھ قبول نہ کیے جانے، افغان مسئلے پر غیر سنجیدہ رویے ، بالخصوص امریکا کی جانب سے طالبان حکومت کو نظر انداز کرنا ان کے فنڈز کو ریلیز نہ کرنا ، ایسا طرز عمل ہے جس سے طالبان حکومت کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کے مضر اثرات سے وطن عزیزکا متاثر ہونا لازمی امر ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے بار بار اس بات کو دہرایا جا رہا ہے کہ امریکا اور دیگر ممالک افغان مسئلے کی نزاکتوں کو سمجھیں اور طالبان حکومت کی مدد کریں وگرنہ وہاں معاشی و سیاسی بحران ، امن و امان کے مسائل اور انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے، کسی بھی غیر معمولی اور سنگین صورت حال سے بچنے کے لیے امریکا کو اپنا کردار ادا کرنا ازبس ضروری ہے کہ اسی کے بیس سال قبل اٹھائے گئے غیر دانش مندانہ جنگی اقدام سے آج افغانستان اس حال کو پہنچا ہے۔
اب اس کی خبرگیری بھی امریکا پر قرض ہے، بدقسمتی سے افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی قربانیوں کو امریکا اور اس کے ہمنوا حلقے شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھتے رہے ہیں۔ نتیجتاً پاکستان ہی پر اس ضمن میں دباؤ میں اضافہ ہوتا ہے اور امریکا و اتحادی اپنا دامن بچانے کی کوشش کرتے ہیں جو غیر سنجیدہ رویہ ہے۔
ادھر فرانس میں منعقدہ عالمی سطح پر منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی روک تھام کرنے والے ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹف) کے اجلاس میں امکان ظاہرکیا جا رہا ہے کہ اس سال بھی پاکستان کے گرے لسٹ سے نکالے جانے کے امکانات بہت معدوم ہیں۔
باوجود اس امرکے کہ پاکستان فیٹف کی تمام اہم شرائط مان چکا ہے، ماسوائے چند ایک کے، لیکن مبصرین و تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ چونکہ ادارے پر بھارتی لابی کے گہرے اثرات ہیں ، اسی باعث پاکستان کو وہاں مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان سفارتی سطح پر بجا طور پر آواز بھی اٹھاتا چلا آ رہا ہے لیکن پرنالہ آج بھی وہیں کا وہیں بہہ رہا ہے۔ یہ صورت حال پاکستان کے لیے یقینا حوصلہ افزا نہیں ہے۔
اس حوالے سے عالمی ذرایع ابلاغ میں جو خبریں شایع ہو رہی ہیں وہ بھی محل نظر ہیں جن میں یہ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان میں معاشی عدم استحکام نظر آ رہا ہے۔ وہاں اظہار رائے کی آزادی پر قدغنیں لگائی جا رہی ہیں، میڈیا جیسے جدید ذرایع ابلاغ کو قانون سازی کی پابندیوں کا سامنا ہے اور اس صورتحال پر بین الاقوامی تنظیمیں اپنے شدید تحفظات کا اظہار بھی کر رہی ہیں۔ ارباب اقتدار کے لیے ضروری ہو گیا ہے کہ عالمی سطح پر پاکستان کا امیج بہتر بنانے کے لیے اپنے اقدامات اور فیصلوں پر متعلقہ حلقے جس حوالے سے تحفظات رکھتے ہیں، نظرثانی کرے ، تاکہ پاکستان فیٹف کے چنگل سے آزادی حاصل کرسکے۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث عوام کے شدید غم و غصے و منفی ردعمل اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تنازعات کا شکار، جماعتی اختلافات میں گھری اور قیادت کے داخلی انتشار والی پی ڈی ایم بھی مہنگائی کے خلاف اپنی طنابیں کس کر ایک مرتبہ پھر اپنے گھوڑے کو ایڑ لگانے کے لیے حکومت کے خلاف احتجاجی ریلیوں کا چابک تھامے ''میدان عمل'' میں آچکی ہے۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں مہنگائی کے خلاف احتجاجی ریلیاں نکالی جائیں گی، ہڑتالیں ہوں گی اور ''سفر آخر'' لانگ مارچ ہوگا۔
اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے مہنگائی کے حوالے سے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کہاں ہے مدینہ کی ریاست جس میں ناانصافی نہیں تھی، تباہی کا ذمے دار عمران نیازی ہے، حکومت جتنا عرصہ اقتدار میں رہے گی معیشت تباہ ہوگی۔ اس حکومت جیسی غریب ماری کسی اور نے نہیں کی لوگ ایک وقت کی روٹی کے لیے ترس گئے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔
اس امر میں کوئی کلام نہیں کہ اس وقت ملک میں عوام کا سب سے بڑا اور بنیادی مسئلہ کمر توڑ مہنگائی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں۔ ڈالر کی اڑان بھی بلند ترین ہے، سونا کبھی اتنا مہنگا نہ ہوا تھا اور روپے کی قدر میں ایسی گراوٹ ماضی میں شاید ہی کبھی دیکھی گئی ہو۔
حکومت گرانی کی موجودہ صورت حال کا سارا ملبہ حسب عادت اور روایتی انداز اختیار کرتے ہوئے ماضی کی حکومتوں پر ڈال رہی ہے۔ انھیں ذمے دار قرار دے رہی ہے کہ ماضی کی دونوں حکومتوں نے ملکی خزانے کو لوٹا اور قرضوں کے بوجھ تلے معیشت کو اتنا دبا دیا ہے کہ مزید قرضوں کے حصول کے بغیر معیشت کو سنبھالا نہیں دیا جاسکتا۔ اسی باعث چار و ناچار آئی ایم ایف کی طرف جانا پڑتا ہے۔ اس وقت امریکا میں آئی ایم ایف سے مذاکرات کے ذریعے 6 ارب ڈالر قرض کے حصول کی کوشش کی جا رہی ہے۔
آئی ایم ایف اپنا روایتی شکنجہ استعمال کرتے ہوئے پاکستان پر مسلسل دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ پٹرولیم مصنوعات، گیس و بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافہ کرے اور جن اشیا پر ٹیکس کی چھوٹ دی گئی ہے وہ ختم کرکے اپنے ریونیو میں اضافہ کرے۔ مبصرین و تجزیہ نگاروں کے مطابق حکومت کے پاس قرض کے حصول کے لیے آئی ایم ایف کی سخت شرائط مانے بغیر چارہ نہیں جس کے منفی اثرات نہ صرف معیشت پر پڑیں گے بلکہ بجلی، گیس کی قیمتوں میں اضافے اور پیداواری و نقل و حمل کے اخراجات میں بڑھوتری کے باعث عام آدمی کے استعمال کی اشیا ضروریہ کی قیمتوں میں لازمی اضافہ ہوگا۔
اس وقت عام آدمی جس کی ماہانہ آمدنی بیس ہزار روپے ہے وہ 10 ہزار بجلی، گیس کا بل اور 10 ہزار مکان کا کرایہ دے دے گا تو باقی اس کے پاس کیا بچے گا، وہ کیسے زندہ رہے گا، گھر کے ماہانہ اخراجات، بچوں کی تعلیم اور علاج معالجے کے اخراجات کہاں سے پورے کرے گا، دال، چاول، آٹا، گھی، سبزیاں، گوشت، انڈے، دودھ اور چینی جیسی روزمرہ استعمال کی اشیا کی قیمتیں عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوچکی ہیں۔
وزیر اعظم کی زیر صدارت اجلاس میں مہنگائی کم کرنے کے لیے اشیائے خور و نوش پر ٹیکس گھٹانے اور مہنگائی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس طرح کے جزوقتی حکومتی اقدامات سے مہنگائی کا طوفان نہیں رک سکتا۔ یہ عوام کو طفل تسلیاں دینے کے مترادف ہے، لیکن اب عوام بقول وزیر اعظم کے گھبرائیں گے نہیں بلکہ ''رقص بسمل'' شروع ہوگا جو حکومت کی بنیادیں ہلا دے گا۔
بجا کہ طالبان نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کی رخصتی کے بعد پورے افغانستان پر اپنا اقتدار مضبوط بنا لیا ہے تاہم عالمی برادری کی جانب سے طالبان کو خوش دلی کے ساتھ قبول نہ کیے جانے، افغان مسئلے پر غیر سنجیدہ رویے ، بالخصوص امریکا کی جانب سے طالبان حکومت کو نظر انداز کرنا ان کے فنڈز کو ریلیز نہ کرنا ، ایسا طرز عمل ہے جس سے طالبان حکومت کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کے مضر اثرات سے وطن عزیزکا متاثر ہونا لازمی امر ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے بار بار اس بات کو دہرایا جا رہا ہے کہ امریکا اور دیگر ممالک افغان مسئلے کی نزاکتوں کو سمجھیں اور طالبان حکومت کی مدد کریں وگرنہ وہاں معاشی و سیاسی بحران ، امن و امان کے مسائل اور انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے، کسی بھی غیر معمولی اور سنگین صورت حال سے بچنے کے لیے امریکا کو اپنا کردار ادا کرنا ازبس ضروری ہے کہ اسی کے بیس سال قبل اٹھائے گئے غیر دانش مندانہ جنگی اقدام سے آج افغانستان اس حال کو پہنچا ہے۔
اب اس کی خبرگیری بھی امریکا پر قرض ہے، بدقسمتی سے افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی قربانیوں کو امریکا اور اس کے ہمنوا حلقے شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھتے رہے ہیں۔ نتیجتاً پاکستان ہی پر اس ضمن میں دباؤ میں اضافہ ہوتا ہے اور امریکا و اتحادی اپنا دامن بچانے کی کوشش کرتے ہیں جو غیر سنجیدہ رویہ ہے۔
ادھر فرانس میں منعقدہ عالمی سطح پر منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی روک تھام کرنے والے ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹف) کے اجلاس میں امکان ظاہرکیا جا رہا ہے کہ اس سال بھی پاکستان کے گرے لسٹ سے نکالے جانے کے امکانات بہت معدوم ہیں۔
باوجود اس امرکے کہ پاکستان فیٹف کی تمام اہم شرائط مان چکا ہے، ماسوائے چند ایک کے، لیکن مبصرین و تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ چونکہ ادارے پر بھارتی لابی کے گہرے اثرات ہیں ، اسی باعث پاکستان کو وہاں مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان سفارتی سطح پر بجا طور پر آواز بھی اٹھاتا چلا آ رہا ہے لیکن پرنالہ آج بھی وہیں کا وہیں بہہ رہا ہے۔ یہ صورت حال پاکستان کے لیے یقینا حوصلہ افزا نہیں ہے۔
اس حوالے سے عالمی ذرایع ابلاغ میں جو خبریں شایع ہو رہی ہیں وہ بھی محل نظر ہیں جن میں یہ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان میں معاشی عدم استحکام نظر آ رہا ہے۔ وہاں اظہار رائے کی آزادی پر قدغنیں لگائی جا رہی ہیں، میڈیا جیسے جدید ذرایع ابلاغ کو قانون سازی کی پابندیوں کا سامنا ہے اور اس صورتحال پر بین الاقوامی تنظیمیں اپنے شدید تحفظات کا اظہار بھی کر رہی ہیں۔ ارباب اقتدار کے لیے ضروری ہو گیا ہے کہ عالمی سطح پر پاکستان کا امیج بہتر بنانے کے لیے اپنے اقدامات اور فیصلوں پر متعلقہ حلقے جس حوالے سے تحفظات رکھتے ہیں، نظرثانی کرے ، تاکہ پاکستان فیٹف کے چنگل سے آزادی حاصل کرسکے۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث عوام کے شدید غم و غصے و منفی ردعمل اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تنازعات کا شکار، جماعتی اختلافات میں گھری اور قیادت کے داخلی انتشار والی پی ڈی ایم بھی مہنگائی کے خلاف اپنی طنابیں کس کر ایک مرتبہ پھر اپنے گھوڑے کو ایڑ لگانے کے لیے حکومت کے خلاف احتجاجی ریلیوں کا چابک تھامے ''میدان عمل'' میں آچکی ہے۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں مہنگائی کے خلاف احتجاجی ریلیاں نکالی جائیں گی، ہڑتالیں ہوں گی اور ''سفر آخر'' لانگ مارچ ہوگا۔
اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے مہنگائی کے حوالے سے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کہاں ہے مدینہ کی ریاست جس میں ناانصافی نہیں تھی، تباہی کا ذمے دار عمران نیازی ہے، حکومت جتنا عرصہ اقتدار میں رہے گی معیشت تباہ ہوگی۔ اس حکومت جیسی غریب ماری کسی اور نے نہیں کی لوگ ایک وقت کی روٹی کے لیے ترس گئے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔
اس امر میں کوئی کلام نہیں کہ اس وقت ملک میں عوام کا سب سے بڑا اور بنیادی مسئلہ کمر توڑ مہنگائی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں۔ ڈالر کی اڑان بھی بلند ترین ہے، سونا کبھی اتنا مہنگا نہ ہوا تھا اور روپے کی قدر میں ایسی گراوٹ ماضی میں شاید ہی کبھی دیکھی گئی ہو۔
حکومت گرانی کی موجودہ صورت حال کا سارا ملبہ حسب عادت اور روایتی انداز اختیار کرتے ہوئے ماضی کی حکومتوں پر ڈال رہی ہے۔ انھیں ذمے دار قرار دے رہی ہے کہ ماضی کی دونوں حکومتوں نے ملکی خزانے کو لوٹا اور قرضوں کے بوجھ تلے معیشت کو اتنا دبا دیا ہے کہ مزید قرضوں کے حصول کے بغیر معیشت کو سنبھالا نہیں دیا جاسکتا۔ اسی باعث چار و ناچار آئی ایم ایف کی طرف جانا پڑتا ہے۔ اس وقت امریکا میں آئی ایم ایف سے مذاکرات کے ذریعے 6 ارب ڈالر قرض کے حصول کی کوشش کی جا رہی ہے۔
آئی ایم ایف اپنا روایتی شکنجہ استعمال کرتے ہوئے پاکستان پر مسلسل دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ پٹرولیم مصنوعات، گیس و بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافہ کرے اور جن اشیا پر ٹیکس کی چھوٹ دی گئی ہے وہ ختم کرکے اپنے ریونیو میں اضافہ کرے۔ مبصرین و تجزیہ نگاروں کے مطابق حکومت کے پاس قرض کے حصول کے لیے آئی ایم ایف کی سخت شرائط مانے بغیر چارہ نہیں جس کے منفی اثرات نہ صرف معیشت پر پڑیں گے بلکہ بجلی، گیس کی قیمتوں میں اضافے اور پیداواری و نقل و حمل کے اخراجات میں بڑھوتری کے باعث عام آدمی کے استعمال کی اشیا ضروریہ کی قیمتوں میں لازمی اضافہ ہوگا۔
اس وقت عام آدمی جس کی ماہانہ آمدنی بیس ہزار روپے ہے وہ 10 ہزار بجلی، گیس کا بل اور 10 ہزار مکان کا کرایہ دے دے گا تو باقی اس کے پاس کیا بچے گا، وہ کیسے زندہ رہے گا، گھر کے ماہانہ اخراجات، بچوں کی تعلیم اور علاج معالجے کے اخراجات کہاں سے پورے کرے گا، دال، چاول، آٹا، گھی، سبزیاں، گوشت، انڈے، دودھ اور چینی جیسی روزمرہ استعمال کی اشیا کی قیمتیں عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوچکی ہیں۔
وزیر اعظم کی زیر صدارت اجلاس میں مہنگائی کم کرنے کے لیے اشیائے خور و نوش پر ٹیکس گھٹانے اور مہنگائی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس طرح کے جزوقتی حکومتی اقدامات سے مہنگائی کا طوفان نہیں رک سکتا۔ یہ عوام کو طفل تسلیاں دینے کے مترادف ہے، لیکن اب عوام بقول وزیر اعظم کے گھبرائیں گے نہیں بلکہ ''رقص بسمل'' شروع ہوگا جو حکومت کی بنیادیں ہلا دے گا۔