اسمِ مُحمّد ﷺ کی جلوہ گری

یہی وہ نام ہے جس سے کائنات روشن ہے۔

یہی وہ نام ہے جس سے کائنات روشن ہے۔ فوٹو : فائل

NEW DELHI:
شمائل الرسولؐ میں یوسف بن اسمعیل نبہانیؒ سیدنا انسؓ کی روایت نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ کا نام ''محمّد'' تخلیق کائنات سے دو ہزار سال پہلے رکھا گیا۔

امام ابن عساکرؒ نے حضرت کعب احبارؓ کی ایک روایت نقل کی ہے جو مدارج النبوۃ میں بھی موجود ہے کہ حضرت آدمؑ نے حضرت شیثؑ کو جہاں دیگر نصیحتیں فرمائیں وہاں پر یہ بھی فرمایا: میرے بیٹے! ایک بات بہ طور خاص پیش نظر رہے کہ تم اسم محمد ﷺ کو ورد زباں رکھنا۔ کیوں کہ میں نے اس مبارک نام کو عرش الہٰی کے پائے پر لکھا ہوا دیکھا ہے، میں نے یہ نام آسمانوں کی سیر کے دوراں بھی ہر جگہ دیکھا، میں نے جنّت کے ہر محل میں، حوروں کی پیشانیوں پر، طوبیٰ کی چٹکتی کلیوں اور پتوں پر، سدرۃ المنتہی کے ہر پتے پر اور اطراف حجابات اور فرشتوں کی آنکھوں پر یہ مبارک نام لکھا ہوا دیکھا ہے۔

امام حاکم نے مستدرک علی الصحیحین باب استغفار آدم میں روایت نقل کی ہے: جب حضرت آدمؑ سے خطا صادر ہوگئی (یعنی وہ امر صادر ہو گیا جسے اس حدیث میں خطاء سے تعبیر کیا گیا ہے) تو آپؑ نے عرض کی: اے رب! میں تجھ سے حق محمدیؐ کے وسیلے سے اپنی بخشش مانگتا ہوں۔ تب اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم! تم نے محمّد (ﷺ) کو کیسے پہچانا؟ جب کہ میں نے انہیں ابھی پیدا ہی نہیں کیا۔

عرض کیا: اے رب! یہ اس لیے کہ جب تُونے مجھے اپنے دست ِ قدرت سے پیدا فرمایا اور اپنی جانب سے روح مبارک کو مجھ میں ڈالا، میں نے اپنے سر کو اٹھایا تو میں نے عرش کے ستونوں پر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ لکھا ہوا دیکھا، تب میں نے جان لیا کہ تو اپنے پاک نام کے ساتھ کسی کے نام کا اضافہ نہیں فرماتا مگر اس ذاتِ گرامی کے نام نامی کا اضافہ فرماتا ہے جو مخلوقات میں سے تجھے سب سے زیادہ محبوب ہے۔ تب اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم! تم نے سچ کہا، بے شک وہ مخلوقات میں سے مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں، اسی کے وسیلے سے مجھ سے دعا کیجیے۔ میں نے تجھے بخش دیا ہے اور اگر محمّد (ﷺ) نہ ہوتے تو میں تمہیں پیدا ہی نہ کرتا۔

علامہ علی بن برہان الدین حلبی نے سیرت حلبیہ میں سیّدنا کعب احبارؓ کی گفت گُو جو سیدنا فاروق اعظمؓ سے ہوئی وہ یوں نقل فرمائی ہے: اے امیر المومنین! میں نے تورات میں پڑھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایک پتھر ملا جس پر یہ درج تھا: میں ہی اﷲ ہوں، میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، محمد ﷺ میرے رسول ہیں جو ان پر ایمان لے آیا اور ان کی اطاعت کی اس کے لیے خوش خبری ہے۔

ام السیر سیرت حلبیہ میں ہے: علامہ زہری کہتے ہیں کہ میں ایک دن ہشام بن عبدالملک کے پاس جا رہا تھا، جب میں بلقاء شہر کے قریب پہنچا تو مجھے ایک پتھر ملا جس پر عبرانی زبانی میں کچھ درج تھا، میں وہ پتھر لے کر عبرانی دان ایک بزرگ کے پاس پہنچا وہ اسے پڑھ کر مسکرائے اور کہا کہ اس پر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ لکھا ہوا ہے اور نیچے لکھنے والے کا نام موسیٰ بن عمران ہے۔ یہی اﷲ کے جلیل القدر رسول حضرت موسیٰ علیہ السلام کا نام ہے۔

محمد بن عبداﷲ ؒ نے مختصر سیرۃ الرسول میں نقل فرمایا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کے مزامیر میں ان کی یہ بات درج ہے کہ ہمارا معبود بے عیب ہے اور محمد ﷺ نے ساری زمین میں خوشی بھر دی ہے۔


امام طبرانی نے حضرت عبادہ بن صامتؓ کی روایت نقل کی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی کے نگینے پر یہ درج تھا : لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔

محمد بن عبداﷲ نے مختصر سیرۃ الرسول میں نقل فرمایا ہے کہ حضرت اشعیا علیہ السلام نے فرمایا: اے محمد ﷺ! میں نے آپ کا معاملہ قابل تعریف پایا، اے رب کے پاک باز بندے تیرا نام ہمیشہ سے موجود رہا۔ اسی کتاب میں حضرت دانیال علیہ السلام کا آپ ﷺ کے بارے فرمان منقول ہے۔

انجیل برنباس جس کا عربی ترجمہ مشہور عیسائی پادری سیل نے کیا ہے، اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا فرمان موجود ہے کہ ہر شخص یہ سوچنے لگے گا کہ مجھے سولی دے دی گئی، یہ غلط اہانت انگیز بات اس وقت تک رہے گی جب تک محمد رسول اﷲ ﷺ تشریف نہیں لاتے، جب وہ تشریف لائیں گے تو لوگوں کو اس غلطی سے دور کر دیں گے۔

مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ نے سیرۃ المصطفیٰ میں یمن کے بادشاہ تبع حمیری کے اشعار نقل کیے ہیں، ترجمہ: وہ (فلاں شخص) مجھے نصیحت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں اس آبادی (پثرب موجودہ نام مدینہ) سے دور چلا جاؤں جو محمد ﷺ کی وجہ سے محفوظ رکھی گئی ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ احمد (حضرت محمد ﷺ) اس اﷲ کے رسول ہیں جن پر جان لٹائی جاتی ہے۔

علامہ علی بن برہان الدین حلبی سیرت حلبیہ میں لکھتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ کے دادا خواجہ عبدالمطلب کو ایک خواب آیا کہ ان کی کمر سے روشنی نکل رہی ہے اس کا ایک سرا زمین میں جب کہ دوسرا آسمان میں، اسی طرح ایک سرا مشرق اور دوسرا مغرب میں ہے۔ پھر اس روشنی نے ایک درخت کی شکل اختیار کر لی جس کے ہر پتے سے روشنی چمک رہی ہے اور مشرق و مغرب کے لوگ اس درخت سے لگے ہوئے ہیں۔ اس خواب کی تعبیر دینے والوں نے کہا کہ خواجہ عبدالمطلب کی نسل میں ایک بچہ پیدا ہوگا جس کی مشرق و مغرب کے لوگ پیروی کریں گے اور آسمان و زمین والے اس کی تعریف کریں گے، اس وجہ سے خواجہ عبدالمطلب نے آپؐ کا نام ''محمّد'' رکھا۔

امام ابن کثیرؒ نے البدایہ و النہایہ میں رسول اﷲ ﷺ کی والدہ سیّدہ آمنہ رضی اﷲ عنہا کا یہ بیان نقل فرمایا ہے کہ جب میں امید سے تھی تو مجھے ایک فرشتے نے کہا: جب آپ کا بچہ پیدا ہو جائے تو اس کا نام ''محمّد '' رکھنا۔

ان تاریخی حوالہ جات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آپ ﷺ کی پیدائش سے قبل آپ کے نام کا ڈنکا بجا ہوا تھا، مختلف ادوار میں آپؐ کے بارے پیشن گوئیاں بھی ہوتی رہیں جو بالکل سچی نکلیں۔ تاریخ انسانی میں صرف ہمارے پیارے نبی ﷺ ہی وہ عظیم المرتبت شخصیت ہیں جن کا تذکرہ تخلیق کائنات سے پہلے بھی، تخلیق کائنات کے وقت سے لے کر اب تک ہے اور روز قیامت تک رہے گا، بل کہ روز قیامت سے لامتناہی نہ ختم ہونے والے وقت میں بھی ہمیشہ گونجتا رہے گا۔

یہی وہ نام ہے جس کی جلوہ گری سے کائنات روشن ہے۔
Load Next Story