کیا امریکا بکھر رہا ہے دوسرا حصہ
نسلی عدم توازن کی شکل یہ ہوگئی ہے کہ امریکی جیلوں میں آدھے قیدی سیاہ فام ہیں اور وہ امریکی آبادی کامحض تیرہ فیصدہیں۔
چھ جون انیس سو چوالیس کو امریکا سمیت پانچ اتحادی ممالک کی مشترکہ افواج فرانس کے نارمنڈی ساحل پر اتریں اور پہلے ہی دن چار ہزار چار سو چودہ سپاہی قربان ہوئے۔ جتنے اتحادی فوجی نارمنڈی پر حملے کے بعد کے ایک ماہ میں ہلاک ہوئے ا س سے زیادہ امریکی شہری اپریل تا جون دو ہزار انیس میں گن کلچر کی نذر ہو گئے۔
اگر عمرانی نقطہِ نظر سے دیکھا جائے تو سماجی انفرادیت کے فوائد اکثر خاندانی اجتماعیت کے فضائل کی قیمت پر حاصل ہوتے ہیں۔یوں احساسِ بیگانگی سماج میں اپنی جڑیں گہری کرتا جاتا ہے اور طرح طرح سے چھلکتا ہے۔حالانکہ امریکی آئین دنیا میں واحد مثال ہے جس میں خوشی کا حصول بھی بنیادی انسانی حق شمار ہوتا ہے۔
یہ الگ بات کہ اس وقت پچاس فیصد امریکی ہی سماجی میل جول کے لیے وقت نکال پاتے ہیں۔دنیا بھر میں مایوسی و اداسی کی کیفیات ( ڈیپریشن ) رفع کرنے کے لیے جو ادویات فروخت ہوتی ہیں ان کا انسٹھ فیصد امریکا میں استعمال ہوتا ہے۔پچاس برس سے کم عمر کے امریکیوں میں غیر طبعی موت کا سب سے بڑا سبب سڑک کے حادثات ہیں۔سرکاری و نجی قرضوں کا حجم ٹائم بم کی شکل اختیار کر گیا ہے۔
امیر اور غریب کی آمدنی میں فرق دیگر سماجی، اقتصادی و سیاسی مسائل کی دلدل بن رہا ہے۔ٹرمپ ازم اس مایوسی کا بین ثبوت ہے۔جب خوشحال زندگی کا خواب بکھرنے لگے۔کارخانے بند ہونے کے باوجود امیر اس لیے امیر تر ہوتے چلے جائیں کہ عالمگیریت کے بہانے افراد اور اقوام کو قریب لانے کے بجائے وسائل اور روزگار سستی مزدوری کے لالچ میں سرمایہ سمندر پار منتقل ہونے لگے اور خود پر فخر کرنے والی اقتصادی، سماجی و سیاسی علامات بھی دھندلانے لگیں تو خود پر سے یقین اٹھنے لگتا ہے اور ریاست سے شہری کا عمرانی معاہدہ ڈگمگانے لگتا ہے۔
پچاس کی دہائی کے وہ دن ہوا ہوئے جب امریکی سرمایہ دار اشرافیہ کو آج کے ڈنمارک کی طرح نوے فیصد ٹیکس دینا پڑتا تھا اور اعلیٰ ترین کارپوریٹ عہدیدار اور ایک عام منیجر کی تنخواہ میں زیادہ سے زیادہ تفاوت بیس گنا تھا۔آج یہ فرق چار سو گنا تک بڑھ گیا ہے اور بالائی مینجمنٹ کو حصص اور مراعات کی شکل میں جو سہولتیں میسر ہیں وہ اس کے علاوہ ہیں۔ایک فیصد اشرافیہ تیس ٹریلین مالیت کے اثاثے کنٹرول کرتی ہے۔ جب کہ پچاس فیصد آبادی کا قرضہ ان کے زیرِ استعمال اثاثوں سے بھی زیادہ ہے۔
اس وقت تین امریکی شہریوں کے پاس جتنے اثاثے ہیں وہ سولہ کروڑ امریکیوں کے مجموعی اثاثوں کی قدر کے برابر ہیں۔بیس فیصد امریکی کنبوں کے پاس زیرو اثاثہ ہے اور سینتیس فیصد سیاہ فام خاندان اسی صورتِ حال سے دوچارہیں۔متوسط طبقے میں شمار ہونے والے سیاہ فام کنبوں کی اوسط آمدنی سفید فام متوسط کنبوں سے دس گنا کم ہے۔ نسلی عدم توازن کی شکل یہ ہو گئی ہے کہ امریکی جیلوں میں آدھے قیدی سیاہ فام ہیں جب کہ وہ امریکی آبادی کا محض تیرہ فیصد ہیں۔ اکثریت کا رنگ کوئی بھی ہو اگر اسے لگاتار دو تنخواہیں نہ ملیں تو دیوالیہ پن اس کے دروازے پر کھڑا ہو جاتا ہے۔
اگرچہ تمام امریکی شہری بظاہر دنیا کی سب سے امیر قوم کا حصہ ہیں مگر ان میں سے اکثر جھولتی خوشحالی کی ایسی بے یقین تار پر بیٹھے ہیں جس سے گرنے کی صورت میں نیچے کوئی حفاظتی جال نہیں ۔
اس حالت کا ذمے دار کوئی نائن الیون نہیں بلکہ ''خود کردہ را علاج نیست'' والا معاملہ ہے۔امریکی ریاست کی اخلاقی قوت پر آخری سوالیہ نشان دو ہزار تین میں کھڑا ہو گیا جب عراق کو وسیع تر تباہی پھیلانے والے ان ہتھیاروں کی پاداش میں تاخت و تاراج کر دیا گیا کہ جن کا وجود آج تک ثابت نہیں ہو سکا۔اندرونی اقتصادی کس بل کتنے پانی میں ہے۔اس کا اندازہ دو ہزار آٹھ میں ہو گیا جب دیوالیہ پن کی دلدل میں بڑے بڑے امریکی کاروباری ادارے بتاشوں کی طرح بیٹھتے چلے گئے۔
دو ہزار دس کی دہائی میں روس اور چین کے اقتصادی و علاقائی اثر و رسوخ میں حیرت انگیز اضافہ ہونے لگا اور دوسری جانب امریکا میں سماجی و اقتصادی بحران نے ووٹروں کو ٹرمپ ازم کی جانب دھکیل دیا۔نسلی عدم مساوات نے ''بلیک لائیوز میٹرز'' تحریک کو جنم دیا اور کوویڈ نے صحت کے نظام کو بٹھا دیا۔
کوویڈ جیسا مسئلہ انسانی تاریخ میں اس لحاظ سے اچھوتا ہے کہ دنیا کے ہر کونے میں موجود باشندہ تشویش اور امید کے جذبے سے ایک ساتھ گذر رہا ہے۔نمک کے ذرے سے بھی دس ہزار گنا چھوٹے وائرس نے نہ صرف انسانی جسم کو نشانہ بنایا بلکہ اس کی اقتصادی و سماجی بنیادوں میں بھی بیٹھ گیا۔اگرچہ ویکیسن بھی برق رفتاری سے تیار ہو گئی مگر کوئی نہیں جانتا کہ یہ ویکسین کب تک کارگر رہے گی۔وائرس عیار ہے سو بھیس بدل لیتا ہے۔
وباؤں نے تاریخ کے دھارے، انسانی سوچ اور عمل پر ہمیشہ گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔جب چودھویں صدی میں یورپ میں طاعون نے ایک تہائی سے زائد آبادی چاٹ لی تو افرادی قوت کی قلت کے سبب کارکنوں کے معاوضے بھی بڑھانے پڑ گئے۔تیرہ سو اکیاسی میں یورپی کسانوں نے صدیوں میں گڑے جاگیرداری نظام کے خلاف بھرپور بغاوت کی کوشش کی۔اس سے جاگیرداری نظام کی چولیں ہل گئیں اور پھر مرکنٹائل ازم اور اس کے بل بوتے پر پہلے صنعتی انقلاب اور پھر انقلابِ فرانس کی راہ ہموار ہوئی۔
کوویڈ ہماری زندگیوں میں کون کون سی فیصلہ کن تبدیلیاں لایا ہے یا لائے گا۔اس کا اندازہ فوراً نہیں ہوگا بلکہ عشرہ وار کھلتا چلا جائے گا۔جیسے انیس سو چودہ میں آرچ ڈیوک فرڈیننڈ کے قتل سے شروع ہونے والی پہلی عالمی جنگ نے پرانی دنیا کو بدل کے رکھ دیا۔یا انیس سو انتیس میں شروع ہونے والی عظیم کساد بازاری نے پرانی سرمایہ داری کا حلیہ بگاڑ کے رکھ دیا اور اس کے ملبے سے کارپوریٹ کلچر کی تعمیر ہوئی۔
یا پھر انیس سو تینتیس میں ہٹلر کے عروج نے اگلے بارہ برس میں دنیا کو جس طرح تہہ و بالا کیا۔اسی کے اثرات کے سبب انیس سو پینتالیس کے بعد تشکیل پانے والے نئے عالمی نظام میں ہم دو ہزار بیس تک جی رہے تھے۔کوویڈ نے پچھتر برس سے رواں اس مالیاتی و اقتصادی بریٹن وڈ نظام کی تبدیلی کی نیو رکھ دی ہے۔کوئی نہیں جانتا کہ اس نیو پر کیسی دیوار اٹھ رہی ہے۔مگر ڈھانچہ اندر باہر سے ہل چکا ہے۔ (جاری ہے)
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)
اگر عمرانی نقطہِ نظر سے دیکھا جائے تو سماجی انفرادیت کے فوائد اکثر خاندانی اجتماعیت کے فضائل کی قیمت پر حاصل ہوتے ہیں۔یوں احساسِ بیگانگی سماج میں اپنی جڑیں گہری کرتا جاتا ہے اور طرح طرح سے چھلکتا ہے۔حالانکہ امریکی آئین دنیا میں واحد مثال ہے جس میں خوشی کا حصول بھی بنیادی انسانی حق شمار ہوتا ہے۔
یہ الگ بات کہ اس وقت پچاس فیصد امریکی ہی سماجی میل جول کے لیے وقت نکال پاتے ہیں۔دنیا بھر میں مایوسی و اداسی کی کیفیات ( ڈیپریشن ) رفع کرنے کے لیے جو ادویات فروخت ہوتی ہیں ان کا انسٹھ فیصد امریکا میں استعمال ہوتا ہے۔پچاس برس سے کم عمر کے امریکیوں میں غیر طبعی موت کا سب سے بڑا سبب سڑک کے حادثات ہیں۔سرکاری و نجی قرضوں کا حجم ٹائم بم کی شکل اختیار کر گیا ہے۔
امیر اور غریب کی آمدنی میں فرق دیگر سماجی، اقتصادی و سیاسی مسائل کی دلدل بن رہا ہے۔ٹرمپ ازم اس مایوسی کا بین ثبوت ہے۔جب خوشحال زندگی کا خواب بکھرنے لگے۔کارخانے بند ہونے کے باوجود امیر اس لیے امیر تر ہوتے چلے جائیں کہ عالمگیریت کے بہانے افراد اور اقوام کو قریب لانے کے بجائے وسائل اور روزگار سستی مزدوری کے لالچ میں سرمایہ سمندر پار منتقل ہونے لگے اور خود پر فخر کرنے والی اقتصادی، سماجی و سیاسی علامات بھی دھندلانے لگیں تو خود پر سے یقین اٹھنے لگتا ہے اور ریاست سے شہری کا عمرانی معاہدہ ڈگمگانے لگتا ہے۔
پچاس کی دہائی کے وہ دن ہوا ہوئے جب امریکی سرمایہ دار اشرافیہ کو آج کے ڈنمارک کی طرح نوے فیصد ٹیکس دینا پڑتا تھا اور اعلیٰ ترین کارپوریٹ عہدیدار اور ایک عام منیجر کی تنخواہ میں زیادہ سے زیادہ تفاوت بیس گنا تھا۔آج یہ فرق چار سو گنا تک بڑھ گیا ہے اور بالائی مینجمنٹ کو حصص اور مراعات کی شکل میں جو سہولتیں میسر ہیں وہ اس کے علاوہ ہیں۔ایک فیصد اشرافیہ تیس ٹریلین مالیت کے اثاثے کنٹرول کرتی ہے۔ جب کہ پچاس فیصد آبادی کا قرضہ ان کے زیرِ استعمال اثاثوں سے بھی زیادہ ہے۔
اس وقت تین امریکی شہریوں کے پاس جتنے اثاثے ہیں وہ سولہ کروڑ امریکیوں کے مجموعی اثاثوں کی قدر کے برابر ہیں۔بیس فیصد امریکی کنبوں کے پاس زیرو اثاثہ ہے اور سینتیس فیصد سیاہ فام خاندان اسی صورتِ حال سے دوچارہیں۔متوسط طبقے میں شمار ہونے والے سیاہ فام کنبوں کی اوسط آمدنی سفید فام متوسط کنبوں سے دس گنا کم ہے۔ نسلی عدم توازن کی شکل یہ ہو گئی ہے کہ امریکی جیلوں میں آدھے قیدی سیاہ فام ہیں جب کہ وہ امریکی آبادی کا محض تیرہ فیصد ہیں۔ اکثریت کا رنگ کوئی بھی ہو اگر اسے لگاتار دو تنخواہیں نہ ملیں تو دیوالیہ پن اس کے دروازے پر کھڑا ہو جاتا ہے۔
اگرچہ تمام امریکی شہری بظاہر دنیا کی سب سے امیر قوم کا حصہ ہیں مگر ان میں سے اکثر جھولتی خوشحالی کی ایسی بے یقین تار پر بیٹھے ہیں جس سے گرنے کی صورت میں نیچے کوئی حفاظتی جال نہیں ۔
اس حالت کا ذمے دار کوئی نائن الیون نہیں بلکہ ''خود کردہ را علاج نیست'' والا معاملہ ہے۔امریکی ریاست کی اخلاقی قوت پر آخری سوالیہ نشان دو ہزار تین میں کھڑا ہو گیا جب عراق کو وسیع تر تباہی پھیلانے والے ان ہتھیاروں کی پاداش میں تاخت و تاراج کر دیا گیا کہ جن کا وجود آج تک ثابت نہیں ہو سکا۔اندرونی اقتصادی کس بل کتنے پانی میں ہے۔اس کا اندازہ دو ہزار آٹھ میں ہو گیا جب دیوالیہ پن کی دلدل میں بڑے بڑے امریکی کاروباری ادارے بتاشوں کی طرح بیٹھتے چلے گئے۔
دو ہزار دس کی دہائی میں روس اور چین کے اقتصادی و علاقائی اثر و رسوخ میں حیرت انگیز اضافہ ہونے لگا اور دوسری جانب امریکا میں سماجی و اقتصادی بحران نے ووٹروں کو ٹرمپ ازم کی جانب دھکیل دیا۔نسلی عدم مساوات نے ''بلیک لائیوز میٹرز'' تحریک کو جنم دیا اور کوویڈ نے صحت کے نظام کو بٹھا دیا۔
کوویڈ جیسا مسئلہ انسانی تاریخ میں اس لحاظ سے اچھوتا ہے کہ دنیا کے ہر کونے میں موجود باشندہ تشویش اور امید کے جذبے سے ایک ساتھ گذر رہا ہے۔نمک کے ذرے سے بھی دس ہزار گنا چھوٹے وائرس نے نہ صرف انسانی جسم کو نشانہ بنایا بلکہ اس کی اقتصادی و سماجی بنیادوں میں بھی بیٹھ گیا۔اگرچہ ویکیسن بھی برق رفتاری سے تیار ہو گئی مگر کوئی نہیں جانتا کہ یہ ویکسین کب تک کارگر رہے گی۔وائرس عیار ہے سو بھیس بدل لیتا ہے۔
وباؤں نے تاریخ کے دھارے، انسانی سوچ اور عمل پر ہمیشہ گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔جب چودھویں صدی میں یورپ میں طاعون نے ایک تہائی سے زائد آبادی چاٹ لی تو افرادی قوت کی قلت کے سبب کارکنوں کے معاوضے بھی بڑھانے پڑ گئے۔تیرہ سو اکیاسی میں یورپی کسانوں نے صدیوں میں گڑے جاگیرداری نظام کے خلاف بھرپور بغاوت کی کوشش کی۔اس سے جاگیرداری نظام کی چولیں ہل گئیں اور پھر مرکنٹائل ازم اور اس کے بل بوتے پر پہلے صنعتی انقلاب اور پھر انقلابِ فرانس کی راہ ہموار ہوئی۔
کوویڈ ہماری زندگیوں میں کون کون سی فیصلہ کن تبدیلیاں لایا ہے یا لائے گا۔اس کا اندازہ فوراً نہیں ہوگا بلکہ عشرہ وار کھلتا چلا جائے گا۔جیسے انیس سو چودہ میں آرچ ڈیوک فرڈیننڈ کے قتل سے شروع ہونے والی پہلی عالمی جنگ نے پرانی دنیا کو بدل کے رکھ دیا۔یا انیس سو انتیس میں شروع ہونے والی عظیم کساد بازاری نے پرانی سرمایہ داری کا حلیہ بگاڑ کے رکھ دیا اور اس کے ملبے سے کارپوریٹ کلچر کی تعمیر ہوئی۔
یا پھر انیس سو تینتیس میں ہٹلر کے عروج نے اگلے بارہ برس میں دنیا کو جس طرح تہہ و بالا کیا۔اسی کے اثرات کے سبب انیس سو پینتالیس کے بعد تشکیل پانے والے نئے عالمی نظام میں ہم دو ہزار بیس تک جی رہے تھے۔کوویڈ نے پچھتر برس سے رواں اس مالیاتی و اقتصادی بریٹن وڈ نظام کی تبدیلی کی نیو رکھ دی ہے۔کوئی نہیں جانتا کہ اس نیو پر کیسی دیوار اٹھ رہی ہے۔مگر ڈھانچہ اندر باہر سے ہل چکا ہے۔ (جاری ہے)
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)