قومی اسمبلی میں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کی قرارداد متفقہ طور پر منظور
اجلاس کے دوران پاکستانی دریاؤں پر بھارتی ڈیموں کی تعمیر کے خلاف بھی ایک قرارداد منظور کی گئی۔
قومی اسمبلی میں کشمیریوں سے اظہار یک جہتی کے لئے پیش کی جانے والی قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔
قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کشمیریوں سے اظہار یک جہتی کے لئے ایک قرار داد پیش کی، قرارداد میں کہا گیا کہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کا موقف اصولی ہے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حل کیا جانا چاہیئے، بھارت مسئلہ کشمیر پر بامعنی مذاکرات شروع کرے، کشمیری عوام ہی مسئلہ کشمیر کے اصل فریق ہیں انہیں مذاکراتی عمل میں شامل کیا جائے، شہری علاقوں سے فوجی واپس بلائے جائے اور فوج کے خصوصی اختیارات جیسے کالے قوانین ختم کیے جائیں۔
کشمیر یوں سے اظہار یک جہتی کے حوالے سے پیش کی گئی قرارداد پر بحث کے دوران پشتون خوا عوامی ملی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ کشمیری پاکستان، بھارت یا الگ رہنا چاہتے ہیں تو ان کی رائے کا احترام کیا جانا چاہیے جس پر کشمیر کمیٹی کے چیرمین مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ تقسیم ہند کے فارمولے اور اقوام متحدہ کی قرارداد کی رو سے کشمیریوں کے پاس 2 ہی آپشنز ہیں یا تو وہ پاکستان کے ساتھ رہ سکتے ہیں یا پھر بھارت کے ساتھ، تیسرا آپشن دونوں حکومتوں کے رویے کی وجہ سے سامنے آیا۔ قرارداد کو متقفہ طور پر منظور کر لیا گیا۔
اجلاس کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی بیلم حسنین نے بھی پاکستانی دریاؤں پربھارتی ڈیموں کی تعمیر کے خلاف قرارداد پیش کی، قرارداد میں کہا گیا کہ حکومت پاکستانی دریاؤں پر بھارتی ڈیموں کی تعمیر رکوانے لے لئے عملی اقدامات کرے، قرارداد پر بحث کے دوران پیپلز پارٹی کی رکن نفیسہ شاہ کا کہنا تھا کہ بھارت کے ساتھ سندھ طاس معاہدے پر نظرثانی کے لیے کمیشن بنایا جائے جب کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے رکن عبدالقادر بلوچ کا کہنا تھا کہ بھارت کو پاکستان کے پانی پرڈیم تعمیر کرنے کا کوئی حق نہیں، پانی کا مسئلہ ہمارے لیے زندگی موت کا مسئلہ ہے، حکومت ہر سطح پر معاملہ اٹھائے گی۔ اس قرار داد کو بھی متفقہ طور پر منظورکرلیا گیا۔
قومی اسمبلی کا اجلاس جمعرات شام 4 بجے تک کے لئے ملتوی کر دیا گیا ہے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کشمیریوں سے اظہار یک جہتی کے لئے ایک قرار داد پیش کی، قرارداد میں کہا گیا کہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کا موقف اصولی ہے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حل کیا جانا چاہیئے، بھارت مسئلہ کشمیر پر بامعنی مذاکرات شروع کرے، کشمیری عوام ہی مسئلہ کشمیر کے اصل فریق ہیں انہیں مذاکراتی عمل میں شامل کیا جائے، شہری علاقوں سے فوجی واپس بلائے جائے اور فوج کے خصوصی اختیارات جیسے کالے قوانین ختم کیے جائیں۔
کشمیر یوں سے اظہار یک جہتی کے حوالے سے پیش کی گئی قرارداد پر بحث کے دوران پشتون خوا عوامی ملی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ کشمیری پاکستان، بھارت یا الگ رہنا چاہتے ہیں تو ان کی رائے کا احترام کیا جانا چاہیے جس پر کشمیر کمیٹی کے چیرمین مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ تقسیم ہند کے فارمولے اور اقوام متحدہ کی قرارداد کی رو سے کشمیریوں کے پاس 2 ہی آپشنز ہیں یا تو وہ پاکستان کے ساتھ رہ سکتے ہیں یا پھر بھارت کے ساتھ، تیسرا آپشن دونوں حکومتوں کے رویے کی وجہ سے سامنے آیا۔ قرارداد کو متقفہ طور پر منظور کر لیا گیا۔
اجلاس کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی بیلم حسنین نے بھی پاکستانی دریاؤں پربھارتی ڈیموں کی تعمیر کے خلاف قرارداد پیش کی، قرارداد میں کہا گیا کہ حکومت پاکستانی دریاؤں پر بھارتی ڈیموں کی تعمیر رکوانے لے لئے عملی اقدامات کرے، قرارداد پر بحث کے دوران پیپلز پارٹی کی رکن نفیسہ شاہ کا کہنا تھا کہ بھارت کے ساتھ سندھ طاس معاہدے پر نظرثانی کے لیے کمیشن بنایا جائے جب کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے رکن عبدالقادر بلوچ کا کہنا تھا کہ بھارت کو پاکستان کے پانی پرڈیم تعمیر کرنے کا کوئی حق نہیں، پانی کا مسئلہ ہمارے لیے زندگی موت کا مسئلہ ہے، حکومت ہر سطح پر معاملہ اٹھائے گی۔ اس قرار داد کو بھی متفقہ طور پر منظورکرلیا گیا۔
قومی اسمبلی کا اجلاس جمعرات شام 4 بجے تک کے لئے ملتوی کر دیا گیا ہے۔