ترک صدر کا امریکا سمیت 10 ممالک کے سفیروں کو ملک بدر کرنے کا حکم

ناکام فوجی بغاوت میں ملوث رہنما کی رہائی کا مطالبہ کرنے پر ان سفیروں کو ناپسندیدہ شخصیات قرار دیا جائے، صدر اردوان

ناکام فوجی بغاوت میں ملوث رہنما کی رہائی کا مطالبہ کرنے پر ان سفیروں کو جلد ناپسندیدہ شخصیات قرار دیا جائے، صدراردوان۔ فوٹو: فائل

KARACHI:
ترک صدر رجب طیب اردوان نے اپنے وزیر خارجہ سے کہا ہے کہ وہ جرمنی اور امریکا سمیت اُن 10 ممالک کے سفیروں کو ملک بدر کرنے کے لیے آئینی اقدامات کا آغاز کردیں جنھوں نے اسیر سماجی رہنما کی رہائی کی اپیل کی تھی۔

ترک صدر رجب طیب اردوان نے سفارت کاری میں استعمال ہونے والی اصطلاح کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنے وزیر خارجہ کو حکم دیا ہے کہ وہ جلد از جلد ان 10 سفیروں کو 'پرسونا نان گراٹا' یعنی ناپسندیدہ شخصیات قرار دیں تاہم انہوں نے اس حکم کی تکمیل کی کوئی حتمی تاریخ مقرر نہیں کی۔ انہوں نے سفیروں پر ناشائستگی کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ انھیں ترکی کو جاننا اور سمجھنا چاہیے۔

خیال رہے کہ ترکی میں سفیروں کو ملک بدر کرنے کے لیے ابتدائی طور پر ناپسندیدہ شخصیت قرار دیا جاتا ہے اور اس کے بعد ملک بدر کرنے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔

ترک میڈیا کے مطابق رپورٹروں سے گفتگو میں صدر طیب اردوان نے کہا تھا کہ انہوں نے وزیر خارجہ سے کہہ دیا ہے کہ ہم ان سفیروں کی میزبانی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔


امریکا، جرمنی، کینیڈا، ڈنمارک، فن لینڈ، فرانس، نیدرلینڈز، نیوزی لینڈ، ناروے اور سویڈن کے سفیروں نے پیر کو ایک انتہائی غیر معمولی مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ انسانی حقوق کے رہنما عثمان کاوالا کی مسلسل حراست ترکی پر برے اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ انھوں نے عثمان کاوالا کی رہائی کی اپیل کی تھی۔ 64 سالہ عثمان کاوالا 2017 سے بغیر کسی سزا کے جیل میں ہیں۔ انھیں 2013 کے حکومت مخالف مظاہروں اور 2016 میں ناکام فوجی بغاوت میں ملوث ہونے کے الزامات کا سامنا ہے۔

گزشتہ ہفتے جیل سے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کاوالا نے کہا کہ میری مسلسل حراست کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہ حکومت اس افسانے کو زندہ رکھنا چاہتی ہے کہ 2013 کا احتجاج ایک غیر ملکی سازش کا نتیجہ تھا۔ میری رہائی اس کہانی کو کمزور کر دے گی جو یہ حکومت نہیں چاہتی۔

واضح رہے کہ کونسل آف یورپ جو براعظم میں انسانی حقوق کا سب سے بڑا نگران ادارہ ہے، ترکی کو حتمی انتباہ جاری کرچکا ہے کہ وہ 2019 کی یورپی عدالت برائے انسانی حقوق کے حکم کی تعمیل کرے تاکہ کاوالا کو زیر التوا مقدمے سے رہائی مل سکے۔ اگر ترکی 30 نومبر سے 2 دسمبر کو ہونے والی اپنی اگلی میٹنگ تک ایسا کرنے میں ناکام رہا تو سٹراسبرگ میں قائم کونسل انقرہ کے خلاف اپنی پہلی انضباطی کارروائی شروع کرنے کے لیے ووٹ دے سکتی ہے جس کے نتیجے میں اس کا حق رائے دہی اور رکنیت بھی معطل ہو سکتی ہے۔

 
Load Next Story