ناراض بلوچ رہنماؤں سے مفاہمت کے لئے کمیٹی بنانے کی تجویز
امن و امان کا مسئلہ صرف بلوچستان کا نہیں پورے ملک کا ہے اس پر جلد قابو پانا ہوگا۔ وزیراعظم
وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف نے اپنے مختصر دورہ کوئٹہ کے دوران ایک مرتبہ پھر ناراض بلوچوں سے مفاہمت کیلئے کمیٹی بنانے کی تجویز دی ہے۔
وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کا کہنا ہے کہ بلوچستان سمیت پورے ملک کو سنگین مسائل کا سامنا ہے حکومت دہشت گردی کو ہر صورت ختم کرنے کیلئے پرعزم ہے، ملک کی سالمیت سب سے زیادہ عزیز ہے ، بلوچستان میں پائیدار امن کے قیام کیلئے سیاسی قیادت کی مشاورت سے صوبائی سطح پر بااختیار کمیٹی بنائی جائے جو ناراض بلوچوں سے مصالحت کا عمل شروع کرے۔ انہوں نے کہا کہ امن و امان کا مسئلہ صرف بلوچستان کا نہیں پورے ملک کا ہے اس پر جلد قابو پانا ہوگا۔ وزیراعظم نے کہا کہ بے روزگاری ختم کرنے کیلئے حکومت نے نوجوانوں کیلئے یوتھ بزنس لون پروگرام کا اجراء کیا ہے اور بلوچستان کے نوجوان اس قرضہ اسکیم پروگرام سے بھرپور فائدہ اُٹھائیں گے کسی کے ساتھ نا انصافی نہیں ہوگی۔
جس صوبے کا جتنا کوٹہ ہے وہ وہاں کے عوام کو ملے گا۔ اس سے قبل وزیراعظم نے کوئٹہ آمد پر سدرن کمانڈ کا بھی دورہ کیا، وزیراعظم کے ہمراہ بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف، وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی، بلوچستان کے گورنر محمد خان اچکزئی، وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی، نیشنل پارٹی کے قائم مقام صدر سینیٹر میر حاصل خان بزنجو اور آئی جی ایف سی میجر جنرل اعجاز شاہد بھی موجود تھے۔وزیراعظم کو مختصر دورہ کوئٹہ کے دوران امن و امان کے حوالے سے بھی بریفنگ دی گئی۔ وزیراعظم نے امن و امان کے قیام اور دہشت گردی کے خلاف جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں کو خراج عقیدت پیش کیا۔ انہوں نے شہداء کی یادگار پر پھول بھی چڑھائے اور فاتحہ پڑھی۔
وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کے دورہ کوئٹہ کے دوران امن و امان کے حوالے سے دی گئی بریفنگ میں صوبائی وزیر داخلہ سرفرازبگٹی کو مدعو نہ کرنے پر بلوچستان اسمبلی کے اجلاس کے دوران صوبائی وزیر داخلہ میر سرفرازبگٹی نے احتجاج کیا اور ایوان سے واک آؤٹ کیا۔ مسلم لیگ (ن) اور(ق) کے اراکین نے بھی اس واک آؤٹ میں ان کا ساتھ دیا۔ اراکین اسمبلی جب واک آؤٹ کر رہے تھے تو مولانا عبدالواسع کی قیادت میں اپوزیشن جماعت جے یو آئی نے بھی اجلاس سے واک آؤٹ کیا، اجلاس کی کارروائی کے دوران وزیراعظم کے دورہ کوئٹہ کے موقع پر اراکین اسمبلی کے ساتھ پولیس رویئے پر بھی اراکین نے تشویش کا اظہار کیا۔ مسلم لیگی اراکین کا کہنا تھا کہ اگر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تو وہ آزاد بنچوں پر بیٹھ جائیں گے۔ صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ وہ پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ بے اختیار ہیں، وزیراعلیٰ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلیں۔ اس موقع پر اسپیکر نے وزیراعظم نوازشریف کے دورہ کوئٹہ کے دوران اراکین اسمبلی خصوصاً خواتین ارکان اسمبلی کے ساتھ پولیس کے ناروا سلوک پر استحقاق مجروح ہونے کے حوالے سے رکن اسمبلی یاسمین لہڑی کی سربراہی میں کمیٹی قائم کردی جو پندرہ روز میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔ سیاسی حلقوں کے مطابق وزیراعلیٰ سے شکایات اور گلے شکوں کے حوالے سے صورتحال دن بدن گھمبیر ہوتی چلی جا رہی ہے۔
اراکین اسمبلی کو وزیراعلیٰ سے فنڈز کے حوالے سے بھی کافی گلے اور شکایات ہیں اور اب تو مسلم لیگ (ن) نے اسمبلی فلور پر یہ دھمکی دے دی ہے کہ اگر ان کے ساتھ ایسی نا انصافی اور زیادتی جاری رہی تو وہ آزاد بنچوں پر بیٹھنے پر مجبور ہوںگے۔ سیاسی حلقوں کے مطابق جوں جوں وقت گزر رہا ہے بلوچستان کی مخلوط حکومت خصوصاً وزیراعلیٰ کو اس حوالے سے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اس وقت وہ اس حوالے سے شدید تنقید کی زد میں ہیں۔ سیاسی حلقوں کے مطابق وزیراعظم کی جانب سے بلوچستان میں ناراض بلوچوں کے ساتھ مذاکرات کیلئے مصالحتی کمیٹی کے قیام کی تجویز ایک خوش آئند اقدام ہے۔ صوبائی حکومت اور دیگر سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ جلد سے جلداس سلسلے میں عملی اقدامات کو یقینی بنائیں تاکہ بلوچستان میں قیام امن کیلئے شروع ہونے والی ان کوششوں میں کوئی پیش رفت ہوسکے، اس حوالے سے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی جانب سے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کی جو باتیں کی جا رہی ہیں اس پر بھی جلد سے جلد عمل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
بلوچستان ہائی کورٹ نے نوابزادہ شاہزین بگٹی کو بگٹی مہاجرین کے ہمراہ مرحلہ وار ڈیرہ بگٹی جانے کی اجازت دے دی ہے۔ عدالت نے یہ فیصلہ بگٹی مہاجرین کو ڈیرہ بگٹی جانے کی اجازت نہ دیئے جانے کے خلاف نوابزادہ شاہزین بگٹی کی ایک آئینی درخواست پر دیا جس کی سماعت بلوچستان ہائی کورٹ کے سینئر جج جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل بنچ نے کی۔
بلوچستان اسمبلی کا اجلاس گرما گرم بحث اور مختلف قرار دادوں کی منظوری کے بعد غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردیا گیا ہے ۔ اجلاس میں خضدار کے علاقے توتک سے اجتماعی قبر اور لاشوں کے ملنے پر گرما گرم بحث ہوئی اور لاشوں کی برآمدگی پر حکومتی اور اپوزیشن ارکان نے شدید احتجاج کیا اراکین نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے سے متعلق اصل حقائق کو منظر عام پر لایا جائے جبکہ وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا ہے کہ توتک سے مسخ شدہ لاشوں کی رپورٹ آنے کے بعد ہی حکومت بلوچستان اس حوالے سے موقف دینے کی پوزیشن میں ہوگی، اُنہوں نے بھی توتک سے لاشوں کے ملنے پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ حکومت نے انتظامیہ سے اس حوالے سے رپورٹ طلب کی ہے۔دوسری جانب مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی اس افسوسناک واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی اور صوبے بھر میں مظاہرے کئے گئے اور کہا گیا کہ ایسے اقدامات بلوچ دُشمن پالیسیوں کا تسلسل ہے اور بلوچ قوم کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی سازش ہے۔
دریں اثناء سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی خضدار کے علاقے توتک سے برآمد ہونے والی لاشوں کا از خود نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پولیس اور ڈپٹی کمشنر خضدار سے رپورٹ طلب کر لی ہے جبکہ حکومت بلوچستان نے اس معاملے کی تحقیقات کیلئے عدالتی کمیشن تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے۔ بلوچستان ہائی کورٹ کے جج جسٹس نور محمد مسکانزئی کو اس کمیشن کے سربراہ مقرر کیا گیا ہے جبکہ بلوچستان کے محکمہ داخلہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ کمیشن معاملے کی تحقیقات کر کے ایک ماہ میں رپورٹ پیش کرے گا۔ بلوچستان اسمبلی میں وزیراعلیٰ، صوبائی وزراء، اسپیکرو ڈپٹی اسپیکر اور اراکین اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے سے متعلق مسودہ قانون بھی منظور کر لیا گیا ہے۔
وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کا کہنا ہے کہ بلوچستان سمیت پورے ملک کو سنگین مسائل کا سامنا ہے حکومت دہشت گردی کو ہر صورت ختم کرنے کیلئے پرعزم ہے، ملک کی سالمیت سب سے زیادہ عزیز ہے ، بلوچستان میں پائیدار امن کے قیام کیلئے سیاسی قیادت کی مشاورت سے صوبائی سطح پر بااختیار کمیٹی بنائی جائے جو ناراض بلوچوں سے مصالحت کا عمل شروع کرے۔ انہوں نے کہا کہ امن و امان کا مسئلہ صرف بلوچستان کا نہیں پورے ملک کا ہے اس پر جلد قابو پانا ہوگا۔ وزیراعظم نے کہا کہ بے روزگاری ختم کرنے کیلئے حکومت نے نوجوانوں کیلئے یوتھ بزنس لون پروگرام کا اجراء کیا ہے اور بلوچستان کے نوجوان اس قرضہ اسکیم پروگرام سے بھرپور فائدہ اُٹھائیں گے کسی کے ساتھ نا انصافی نہیں ہوگی۔
جس صوبے کا جتنا کوٹہ ہے وہ وہاں کے عوام کو ملے گا۔ اس سے قبل وزیراعظم نے کوئٹہ آمد پر سدرن کمانڈ کا بھی دورہ کیا، وزیراعظم کے ہمراہ بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف، وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی، بلوچستان کے گورنر محمد خان اچکزئی، وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی، نیشنل پارٹی کے قائم مقام صدر سینیٹر میر حاصل خان بزنجو اور آئی جی ایف سی میجر جنرل اعجاز شاہد بھی موجود تھے۔وزیراعظم کو مختصر دورہ کوئٹہ کے دوران امن و امان کے حوالے سے بھی بریفنگ دی گئی۔ وزیراعظم نے امن و امان کے قیام اور دہشت گردی کے خلاف جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں کو خراج عقیدت پیش کیا۔ انہوں نے شہداء کی یادگار پر پھول بھی چڑھائے اور فاتحہ پڑھی۔
وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کے دورہ کوئٹہ کے دوران امن و امان کے حوالے سے دی گئی بریفنگ میں صوبائی وزیر داخلہ سرفرازبگٹی کو مدعو نہ کرنے پر بلوچستان اسمبلی کے اجلاس کے دوران صوبائی وزیر داخلہ میر سرفرازبگٹی نے احتجاج کیا اور ایوان سے واک آؤٹ کیا۔ مسلم لیگ (ن) اور(ق) کے اراکین نے بھی اس واک آؤٹ میں ان کا ساتھ دیا۔ اراکین اسمبلی جب واک آؤٹ کر رہے تھے تو مولانا عبدالواسع کی قیادت میں اپوزیشن جماعت جے یو آئی نے بھی اجلاس سے واک آؤٹ کیا، اجلاس کی کارروائی کے دوران وزیراعظم کے دورہ کوئٹہ کے موقع پر اراکین اسمبلی کے ساتھ پولیس رویئے پر بھی اراکین نے تشویش کا اظہار کیا۔ مسلم لیگی اراکین کا کہنا تھا کہ اگر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تو وہ آزاد بنچوں پر بیٹھ جائیں گے۔ صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ وہ پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ بے اختیار ہیں، وزیراعلیٰ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلیں۔ اس موقع پر اسپیکر نے وزیراعظم نوازشریف کے دورہ کوئٹہ کے دوران اراکین اسمبلی خصوصاً خواتین ارکان اسمبلی کے ساتھ پولیس کے ناروا سلوک پر استحقاق مجروح ہونے کے حوالے سے رکن اسمبلی یاسمین لہڑی کی سربراہی میں کمیٹی قائم کردی جو پندرہ روز میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔ سیاسی حلقوں کے مطابق وزیراعلیٰ سے شکایات اور گلے شکوں کے حوالے سے صورتحال دن بدن گھمبیر ہوتی چلی جا رہی ہے۔
اراکین اسمبلی کو وزیراعلیٰ سے فنڈز کے حوالے سے بھی کافی گلے اور شکایات ہیں اور اب تو مسلم لیگ (ن) نے اسمبلی فلور پر یہ دھمکی دے دی ہے کہ اگر ان کے ساتھ ایسی نا انصافی اور زیادتی جاری رہی تو وہ آزاد بنچوں پر بیٹھنے پر مجبور ہوںگے۔ سیاسی حلقوں کے مطابق جوں جوں وقت گزر رہا ہے بلوچستان کی مخلوط حکومت خصوصاً وزیراعلیٰ کو اس حوالے سے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اس وقت وہ اس حوالے سے شدید تنقید کی زد میں ہیں۔ سیاسی حلقوں کے مطابق وزیراعظم کی جانب سے بلوچستان میں ناراض بلوچوں کے ساتھ مذاکرات کیلئے مصالحتی کمیٹی کے قیام کی تجویز ایک خوش آئند اقدام ہے۔ صوبائی حکومت اور دیگر سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ جلد سے جلداس سلسلے میں عملی اقدامات کو یقینی بنائیں تاکہ بلوچستان میں قیام امن کیلئے شروع ہونے والی ان کوششوں میں کوئی پیش رفت ہوسکے، اس حوالے سے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی جانب سے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کی جو باتیں کی جا رہی ہیں اس پر بھی جلد سے جلد عمل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
بلوچستان ہائی کورٹ نے نوابزادہ شاہزین بگٹی کو بگٹی مہاجرین کے ہمراہ مرحلہ وار ڈیرہ بگٹی جانے کی اجازت دے دی ہے۔ عدالت نے یہ فیصلہ بگٹی مہاجرین کو ڈیرہ بگٹی جانے کی اجازت نہ دیئے جانے کے خلاف نوابزادہ شاہزین بگٹی کی ایک آئینی درخواست پر دیا جس کی سماعت بلوچستان ہائی کورٹ کے سینئر جج جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل بنچ نے کی۔
بلوچستان اسمبلی کا اجلاس گرما گرم بحث اور مختلف قرار دادوں کی منظوری کے بعد غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردیا گیا ہے ۔ اجلاس میں خضدار کے علاقے توتک سے اجتماعی قبر اور لاشوں کے ملنے پر گرما گرم بحث ہوئی اور لاشوں کی برآمدگی پر حکومتی اور اپوزیشن ارکان نے شدید احتجاج کیا اراکین نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے سے متعلق اصل حقائق کو منظر عام پر لایا جائے جبکہ وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا ہے کہ توتک سے مسخ شدہ لاشوں کی رپورٹ آنے کے بعد ہی حکومت بلوچستان اس حوالے سے موقف دینے کی پوزیشن میں ہوگی، اُنہوں نے بھی توتک سے لاشوں کے ملنے پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ حکومت نے انتظامیہ سے اس حوالے سے رپورٹ طلب کی ہے۔دوسری جانب مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی اس افسوسناک واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی اور صوبے بھر میں مظاہرے کئے گئے اور کہا گیا کہ ایسے اقدامات بلوچ دُشمن پالیسیوں کا تسلسل ہے اور بلوچ قوم کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی سازش ہے۔
دریں اثناء سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی خضدار کے علاقے توتک سے برآمد ہونے والی لاشوں کا از خود نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پولیس اور ڈپٹی کمشنر خضدار سے رپورٹ طلب کر لی ہے جبکہ حکومت بلوچستان نے اس معاملے کی تحقیقات کیلئے عدالتی کمیشن تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے۔ بلوچستان ہائی کورٹ کے جج جسٹس نور محمد مسکانزئی کو اس کمیشن کے سربراہ مقرر کیا گیا ہے جبکہ بلوچستان کے محکمہ داخلہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ کمیشن معاملے کی تحقیقات کر کے ایک ماہ میں رپورٹ پیش کرے گا۔ بلوچستان اسمبلی میں وزیراعلیٰ، صوبائی وزراء، اسپیکرو ڈپٹی اسپیکر اور اراکین اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے سے متعلق مسودہ قانون بھی منظور کر لیا گیا ہے۔