مسائل حل کرنے کا جمہوری آپشن

کیا عمران خان آسانی سے ایسا ہونے دیں گے؟ ان کے پاس بھی بہت آپشنز ہیں۔

msuherwardy@gmail.com

سابق وفاقی وزیر اطلاعات محمد علی درانی سے بہت عرصہ بعد ملاقات ہوئی۔ میں نے پوچھا ''حالات کہاں پہنچ گئے۔''بولے ''حالات ٹھیک نہیں ہیں۔''

میں نے کہا یہ تو سب کو معلوم ہے، اس میں خبر والی کیا بات ہے، خبر یا سوال تو یہ ہے کہ اب کیا ہوگا، اپوزیشن سڑکوں پر ہے، اداروں سے ٹکراؤ کی صورتحال پھر بن گئی ہے۔ بلوچستان میں تبدیلی آگئی ہے۔ لگتا ہے آپ کی مفاہمت والی بات بھی نہیں آگے بڑھی۔ سیاسی کشیدگی عروج پر ہے، مفاہمت تو دور دور تک نظر نہیں آرہی۔

محمد علی درانی سیاست کے رمزسناش ہیں،کہنے لگے، ''اگر جمہوریت نے چلنا ہے تو اپوزیشن کو سڑکوں کے بجائے پارلیمنٹ میں آنا ہوگا۔ اگر مسائل سڑکوں پر طے ہونا ہیں تو جمہوریت کے چلنے کے کوئی آثار نہیں کیونکہ اگر سیاسی مسائل پارلیمنٹ میں حل کرنے کی کوشش کی جائے گی تو زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا۔

عمران کی جگہ نیا وزیر اعظم آجائے گا لیکن نظام چلتا رہے گا،اگر مسائل سڑکوں پر حل کرنے کی کوشش کی جائے گی تو پھر بوٹ آنے کے امکانات پیدا ہوجائیں گے۔ جتنے حالات خراب ہوںگے اتنا ہی جمہوری نظام کو خطرہ ہو گا اور تیسرے فریق کو آنے کا موقع ملے گا۔ اسی لیے میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ معاملات کو پارلیمنٹ میں حل کیا جائے۔ اگر پارلیمنٹ کو تالہ لگایا جائے گا تو جمہوریت کو تالا لگ جائے گا۔''

ان کی رائے میں حکومت اور اداروں کے درمیان تناؤ پیدا ہی نہیں ہونا چاہیے تھا، اگر وزیر اعظم کوئی غلط فیصلہ یا اقدام کر بھی رہے تھے تو کابینہ کو انھیں روکنا چاہیے۔ کابینہ کو چاہیے کہ اداروں کے ساتھ تناؤکم کرنے کے لیے سامنے آئے۔ اب وزیر اعظم کا ذاتی کوئی فیصلہ نہیں ہے۔ سب فیصلے کابینہ کرتی ہے۔ اس لیے حالیہ اہم تقرری کے معاملہ پر کابینہ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تھا۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ کابینہ ارکان نجی محفلوں میں تو بات کرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن کابینہ کے اجلاس میں بات نہیں کرتے۔ اس طرز سیاست کو تو جمہوریت اور حکومت نہیں کہا جا سکتا۔

اگر کابینہ اپنا کردار ادا کرتی تو معاملات خراب ہی نہیں ہوتے۔ میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ پاکستان میں کابینہ تو وزیر اعظم کی ہاں میں ہاں ہی ملاتی۔ اگر کوئی رکن وزیر اعظم سے اختلاف کرے تو اسے فارغ کر دیا جاتا ہے۔ اگر کابینہ کو مضبوط کرنا ہے تو وزیر اعظم کا اختیار ختم کرنا ہوگا۔ جب تک یہ اختیار وزیر اعظم کے پاس ہوگا، کابینہ کا کوئی رکن وزیر اعظم کے سامنے کھڑا نہیں ہو سکتا۔

کابینہ کے ارکان کی صورتحال بھی ''جابر سلطان'' کے سامنے جابر سلطان سے پوچھ کر کلمہ حق کہنے والی ہی ہے۔ اس لیے آپ کابینہ سے کچھ زیادہ ہی امید لگائے ہوئے ہیں۔ جواب یہ تھا کہ اگر کابینہ اپنا کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے تو اس میں دوسرے فریق کا کیا قصور ہے۔ اگر ایک لمحہ کے لیے یہ مان بھی لیا جائے کہ کابینہ اپنا کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، وزراڈرتے ہیں تو حکمران پارلیمانی جماعت کوکردار ادا کرنا چاہیے ۔ حکومتی ارکان کو از خود اپنی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بلانا چاہیے ۔


وزیر اعظم کو اس اجلاس میں طلب کرنا چاہیے۔ انھیں پابند کرنا چاہیے کہ وہ اداروں سے ٹکراؤ کی پالیسی ختم کریں۔ پارلیمانی پارٹی کی آواز کو وزیر اعظم کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں۔ یہی جمہوری طریقہ ہے۔ لیکن اگر جمہوری پلیٹ فارم اپنا کردار ادا نہیں کریں گے تو پھر جمہوریت کیسے چل سکتی ہے۔

حکومتی اتحادیوں کو بھی واضع موقف کے ساتھ سامنے آنا چاہیے۔ وہ بھی خاموش بیٹھے ہیں۔ اگر اتحادی ملکر کہیں کہ ٹکراؤ کی یہ صورتحال نہیں قبول تو وزیر اعظم کیا کر سکتے ہیں، انھیں گھٹنے ٹیکنے ہوں گے، لیکن اگر وہ بھی خاموش رہیں اور بند کمروں میں بولیں کہ یہ ٹھیک نہیں ہو رہا تو پھر بھی جمہریت کا چلنا مشکل ہے۔ ماضی میں بھی جب جمہوریت کی بساط لپیٹی گئی ہے تب تب جمہوریت کے تمام پلیٹ فارمز نے اپنا کردار ادا نہیں کیا۔ ہم صرف دوسرے فریق کو الزام نہیں دے سکتے۔ میں دلیل دی کہ درانی صاحب! مان لیتے ہیں کہ کابینہ نے اپنا کردار ادا نہیں کیا۔ حکومتی اتحادیوں نے کردار ادا نہیں۔ حکومتی پارلیمانی پارٹی نے اپنا کردار ادا نہیں کیا۔ ایسے میں اپوزیشن سڑکوں پر نہ آئے تو کیا کرے؟ لوگ مہنگائی سے تنگ ہیں۔ ایسے میں اپوزیشن کے پاس سڑکوں پر آنے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے۔

محمد علی درانی مسکرائے اور کہنے لگے نہیں اپوزیشن کو پھر بھی پارلیمنٹ میں ہی کردار ادا کرنا چاہیے۔ جمہوری اصول کے مطابق وہاں عدم اعتماد لائے، یہ اپوزیشن کی کامیابی کا بہترین وقت ہے۔ اگر وزیر اعظم ٹکراؤ کی سیاست کر رہا ہے تو اسے عدم اعتماد سے ہٹایا جا سکتا ہے۔ نیا وزیر اعظم آجائے گا تو جمہوریت بچ جائے گی۔ لیکن اگر نیا وزیر اعظم نہیں آئے گا تو جمہوریت کے بچنے کا امکانات کم ہیں۔ اپوزیشن کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اگر کوئی انہونی ہوئی تواس کی وہ بھی ذمے دار ہوگی لہٰذا میں واضح الفاظ میں کہ رہا ہوں کہ جمہوریت کو بچانا ہے تو نیا وزیر اعظم لے آئیں، یہی واحد آپشن ہے۔

میں نے درانی صاحب سے پوچھا کہ سنا ہے قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کی بھی بہت ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ اس پر وہ کچھ دیر خاموش رہے اور پھر کہنے لگے کہ شہباز شریف جب بھی ملے ہیں، ن لیگ کو فائدہ ہوا۔ ان کے ملنے کا ن لیگ کو کبھی نقصان نہیں ہوا ہے۔ اس لیے اگر وہ اب بھی ملے ہیں تو ن لیگ کو فائدہ ہی ہوگا۔آپ دیکھیں انھوں نے اداروں سے نہ لڑنے کے حوالے سے کس قدر واضع اور بروقت اسٹینڈ لیا ہے اور ن لیگ کو نقصان سے بچایا ہے۔ یہ وقت واضع موقف کے ساتھ سامنے آنے کا ہے۔ اب خاموش اور درمیان کی سیاست کا وقت نہیں ہے۔

میں نے پھر سوال داغ دیا کہ درانی صاحب آپ بھی مفاہمت کا پرچم لے کر نکلے تھے۔ لیکن پھر بھی اداروں سے ٹکراؤ ہو ہی گیا۔ انھوں نے کہا، نہیں! میں اداروں سے نہیں جمہوریت سے مفاہمت کی بات کرتا ہوں۔ جب جمہوریت سے مفاہمت ہو جائے گی، اداروں سے خود بخود مفاہمت ہو جائے گی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ جمہوریت مضبوط ہو اور اداروں سے کوئی ٹکراؤ ہوجائے۔ لیکن جب سیاستدان ہی جمہوری پلیٹ فارمز چھوڑ کر سڑکوں پر آجائیں تو کیا ہوگا۔

یقینا جمہوریت ختم ہی ہو سکتی۔ آپ آمریت کے خلاف سڑکوں پر جمہوریت کی بحالی کے لیے آتے ہیں۔ آج تو جمہوریت بحال ہے۔ محمد علی درانی سیاست کے اسرار و رموز کو بھی سجھتے ہیں اور حکومت کے معاملات کو جانتے ہیں، وہ واضع کر رہے ہیں کہ پارلیمنٹ کو کردار ادا کرنا ہوگا۔ ان کی رائے میں اس وقت نیا وزیر اعظم ہی اس بحرانی کیفیت کو ٹال سکتا ہے۔

یہی واحد آپشن ہے لیکن ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ کیا ایسا ممکن ہے؟ کیا عمران خان آسانی سے ایسا ہونے دیں گے؟ ان کے پاس بھی بہت آپشنز ہیں۔ محمد علی درانی کا جواب تھا، کیا آپشنز ہیں، وہ صرف اور صرف انتخابات کی طرف جا سکتے ہیں۔ کیااپوزیشن یہی نہیں چاہتی۔ اگر کھیل الیکشن کی طرف چلا بھی جائے تو کوئی خطرے والی بات نہیں۔ یہی سب کی خواہش بھی ہے، الیکشن بھی عدم اعتماد ہوگا اور پارلیمنٹ میں بھی واحد راستہ عدم اعتماد ہی آپشن ہے۔
Load Next Story