خواجہ سراؤں کو بھی وہ تمام بنیادی حقوق حاصل ہیں جو عام شہری کومیسر ہیں شرعی عدالت
وفاقی شرعی عدالت نے خواجہ سراؤں کے تحفظ سے متعلق کیس میں اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کردیا
وفاقی شرعی عدالت نے کہا ہے کہ خواجہ سراؤں کو بھی وہ تمام بنیادی حقوق حاصل ہیں جو عام شہری کو میسر ہیں۔
وفاقی شرعی عدالت میں خواجہ سراؤں کے تحفظ سے متعلق قانون کو اسلامی اصولوں کے تحت جانچنے سے متعلق چیف جسٹس شرعی عدالت کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی، عدالت نے درخواست گزار اوریا مقبول جان کی کیس میں فریق بننے کی درخواست منظور کر لی، عدالت کا کہنا تھا کہ فریقین چاہیں تو تحریری جوابات جمع کرا سکتے ہیں۔
شرعی عدالت کے جج نے ریمارکس دیئے کہ ایک فریق کا کہنا ہے کہ اس قانون سے ہم جنس پرستی کو فروغ ملے گا، ایک فریق کا کہنا ہے کہ اس قانون سے خواجہ سراؤں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ قانون ہی ختم کر دیں، خواجہ سرا پاکستان کے شہری ہیں، خواجہ سراؤں کو بھی وہ تمام بنیادی حقوق حاصل ہیں جو عام شہری کو میسر ہیں، ہم سب کا مؤقف سنیں گے۔
چیف جسٹس شرعی عدالت نے ریمارکس دیئے کہ خواجہ سراؤں کی حقیقت اپنی جگہ پر موجود ہے، معاشرے میں خواجہ سراؤں کا احترام سب پر لازم ہے، خواجہ سرا اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے حقدار ہیں۔
اوریا مقبول جان نے عدالت میں مؤقف پیش کیا کہ میں اس کیس میں فریق بننے آیا ہوں، ہم خواجہ سراؤں کے حقوق کو سلب کرنے نہیں آئے، میں 98 ممالک کے قوانین کے حوالے دوں گا، اس کیس میں اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کیا جائے۔
خواجہ سرا عائشہ مغل نے بیان دیا کہ میں لیکچرار ہوں، میری تعلیم ایم فل ہے، ہمیں وقت دیا جائے تاکہ ہم اپنی بات عدالت کے سامنے رکھ سکیں۔ چیف جسٹس شریعت کورٹ نے خواجہ سرا عائشہ مغل سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم آپ کو سنے بغیر فیصلہ دے دیں، ہم تمام فریقین کو سن کر فیصلہ کریں گے۔
چیف جسٹس شریعت کورٹ نے کہا کہ اوریا مقبول جان لاہور سے اس کیس کیلئے آئے ہیں۔ جس پر اوریا مقبول جان نے کہا کہ میں تو روز آنے کیلئے تیار ہوں، یہ بنیادی انسانی حقوق اور مفاد عامہ کا کیس ہے۔ فیڈرل شریعت کورٹ نے اوریا مقبول جان کی استدعا منظور کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کر دیا، جب کہ کیس کی سماعت 20 نومبر کے بعد آنے والے ہفتے تک ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ سابقہ حکومت نے خواجہ سراؤں کے تحفظ کیلئے قانون سازی کی تھی، خواجہ سراؤں کے تحفظ سے متعلق قانون کو اسلامی اصولوں کے تحت جانچنے کیلئے شریعت کورٹ میں مختلف درخواستیں دائر کی گئیں ہیں۔
وفاقی شرعی عدالت میں خواجہ سراؤں کے تحفظ سے متعلق قانون کو اسلامی اصولوں کے تحت جانچنے سے متعلق چیف جسٹس شرعی عدالت کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی، عدالت نے درخواست گزار اوریا مقبول جان کی کیس میں فریق بننے کی درخواست منظور کر لی، عدالت کا کہنا تھا کہ فریقین چاہیں تو تحریری جوابات جمع کرا سکتے ہیں۔
شرعی عدالت کے جج نے ریمارکس دیئے کہ ایک فریق کا کہنا ہے کہ اس قانون سے ہم جنس پرستی کو فروغ ملے گا، ایک فریق کا کہنا ہے کہ اس قانون سے خواجہ سراؤں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ قانون ہی ختم کر دیں، خواجہ سرا پاکستان کے شہری ہیں، خواجہ سراؤں کو بھی وہ تمام بنیادی حقوق حاصل ہیں جو عام شہری کو میسر ہیں، ہم سب کا مؤقف سنیں گے۔
چیف جسٹس شرعی عدالت نے ریمارکس دیئے کہ خواجہ سراؤں کی حقیقت اپنی جگہ پر موجود ہے، معاشرے میں خواجہ سراؤں کا احترام سب پر لازم ہے، خواجہ سرا اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے حقدار ہیں۔
اوریا مقبول جان نے عدالت میں مؤقف پیش کیا کہ میں اس کیس میں فریق بننے آیا ہوں، ہم خواجہ سراؤں کے حقوق کو سلب کرنے نہیں آئے، میں 98 ممالک کے قوانین کے حوالے دوں گا، اس کیس میں اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کیا جائے۔
خواجہ سرا عائشہ مغل نے بیان دیا کہ میں لیکچرار ہوں، میری تعلیم ایم فل ہے، ہمیں وقت دیا جائے تاکہ ہم اپنی بات عدالت کے سامنے رکھ سکیں۔ چیف جسٹس شریعت کورٹ نے خواجہ سرا عائشہ مغل سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم آپ کو سنے بغیر فیصلہ دے دیں، ہم تمام فریقین کو سن کر فیصلہ کریں گے۔
چیف جسٹس شریعت کورٹ نے کہا کہ اوریا مقبول جان لاہور سے اس کیس کیلئے آئے ہیں۔ جس پر اوریا مقبول جان نے کہا کہ میں تو روز آنے کیلئے تیار ہوں، یہ بنیادی انسانی حقوق اور مفاد عامہ کا کیس ہے۔ فیڈرل شریعت کورٹ نے اوریا مقبول جان کی استدعا منظور کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کر دیا، جب کہ کیس کی سماعت 20 نومبر کے بعد آنے والے ہفتے تک ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ سابقہ حکومت نے خواجہ سراؤں کے تحفظ کیلئے قانون سازی کی تھی، خواجہ سراؤں کے تحفظ سے متعلق قانون کو اسلامی اصولوں کے تحت جانچنے کیلئے شریعت کورٹ میں مختلف درخواستیں دائر کی گئیں ہیں۔