ماضی کے اشبیلیہ اور آج کے سیویا کے القصر محل کی سیر
اشبیلیہ کا محل اقوام متحدہ کی عالمی ورثے کی فہرست میں شامل ہے
اسپین میں اپنے سفر کے اگلے مرحلہ میں ہم غرناطہ سے اندلس کے دارالحکومت سیویا کےلیے روانہ ہوئے۔ یہ شہر ماضی میں اشبیلیہ کہلاتا تھا اور جب اندلس مسلمانوں کے زیر نگین آیا تو یہ شہر اندلس کا دارالخلافہ کہلایا۔ اب اس شہر کی آبادی تقریباً سات لاکھ ہے۔
اس سفرنامے کا پہلا حصہ یہاں سے پڑھئے: یورپ کی آخری مسلم ریاست کا دارالخلافہ غرناطہ
یہ شہر رومنوں نے قبل از مسیح آباد کیا تھا۔ یہ وادی الکبیر میں واقع ہے جہاں دریائےالکبیر بہتا ہے۔ یہ اسپین کا دوسرا طویل ترین دریا ہے اور کشادہ ہونے کی وجہ سے اس میں جہاز رانی ممکن ہے۔ یہی دریا مسجد قرطبہ کے قریب سے گزرتا ہے جس کے بارے میں علامہ اقبال نے لکھا۔
آبِ روانِ کبیر! تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
عالمِ نَو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں
میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب
اس سفرنامے کا دوسرا حصہ یہاں سے پڑھیے: یورپ کی آخری مسلم ریاست اور جامع مسجد غرناطہ
اقبال نے اندلس پر بہت سی نظمیں کہیں ہیں۔ سچ پوچھیے تو پاک وہند کے لوگوں کی مسجد قرطبہ، الحمرا اور اندلس کے دیگر مقامات سے عقیدت اور محبت کا باعث کلام اقبال ہے۔ علامہ نے بال جبریل میں دعا، مسجد قرطبہ، قید خانے میں معتمد کی فریاد، عبدالرحمن اول کا بویا ہوا کھجور کا درخت، ہسپانیہ اور طارق کی دعا، وہ لافانی نظمیں ہیں جن سے ہمارا سرزمین اندلس سے رشتہ استوار ہے۔ علامہ اقبال اس خطے کو خونِ مسلمان کا وارث قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں۔
ہسپانیہ تو خونِ مسلماں کا امین ہے
مانندِ حرم پاک ہے تو میری نظر میں
پوشیدہ تری خاک میں سجدوں کے نشاں ہیں
خاموش اذانیں ہیں تری بادِ سحر میں
اور اندلس کے دارالخلافہ جسے آج کل Sevilla کہتے ہیں، اس کے بارے میں لکھتے ہیں۔
نصیب ان کا اشبیلیہ میں ہے سوتا
شب و روز ہے قرطبہ ان کو روتا
اس شہر میں کھجور کے درختوں کی بہتات ہے۔ کھجور درحقیقت اسپین کا درخت نہیں لیکن یہ اسپین میں اموی خلیفہ عبدالرحمان اول کے توسط سے پہنچا۔ علامہ اقبال نے اس بارے میں نظم لکھی ہے جس کا عنوان ہے عبدالرحمان اول کا پہلا کھجور کا درخت۔ یہ نظم بھی بال جبریل میں موجود ہے۔
بغداد میں خلافت کے خاتمے کے بعد عبدالرحمن اول نے قرطبہ کی خلافت کی بنیاد رکھی۔ یہ شہر علم و حکمت کا مرکز رہا۔ سارہ قوطیہ، ابن العربی، ابن رشد، شاعر المعتمد اور ابن خلدون کا تعلق اسی شہر سے رہا ہے۔ کولمبس بھی اسی شہر سے ہندوستان دریافت کرنے نکلا تھا لیکن امریکا پہنچ گیا۔ شاہی محل القصر میں اس بارے میں تاریخ کو محفوظ کیا گیا ہے۔
اس شہر کی سب اہم اور تاریخی عمارت القصر محل ہے، جسے دیکھنے ہم بھی یہاں پہنچے۔ یہاں الحمرا کی نسبت زیادہ رش نہیں اس لیے یہاں داخلہ آسانی سے ہوجاتا ہے۔ ٹکٹ لے کر ہم محل میں داخل ہوئے۔ محل کے مختلف حصوں کے بارے تفصیلات اور ماضی کی تاریخ سے آگاہی کےلیے ہم نے آڈیو ڈیوائیٹ لے لی تاکہ ساتھ ساتھ تفصیل بھی جانتے رہیں۔
محل القصر میں داخل ہوں تو مسلمانوں کے فن تعمیر کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ دیدہ زیب اشکال، خوبصورت محرابیں، دیواروں اور چھتوں پہ بنے خوبصورت نقش و نگار، کونے اور فوارے سب قابل دید ہیں۔ یہ محل القصر بنو عباد کے شاہی خاندان نے بنایا تھا۔ یہ خاندان بنو امیہ کی اندلس میں حکمرانی کے خاتمے کے بعد آیا۔ اس خاندان نے اشبیلیہ پر 1023 سے 1091 تک حکمرانی کی۔ مسلمانوں کی شکست کے بعد عیسائی حکمرانوں نے یہ محل مختلف تبدیلیوں کے ساتھ اپنی رہائش کےلیے استعمال کیا لیکن وہ اس معیار اور بلند فن تعمیر کی سطح تک نہ پہنچ سکے جو مسلم حکمرانوں کا خاصا تھا۔ اسپین کا موجودہ حکمران شاہی خاندان جب دورے پر یہاں آتا ہے تو یہیں قیام کرتا ہے۔
اشبیلیہ کا یہ محل اقوام متحدہ کی عالمی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ خوبصورت نقش و نگار اور در و دیوار کی اس عالیشان عمارت نے کئی صدیوں کا سفر طے کیا ہے۔ یہ عمارت اور اس کے باغات اپنے ہنرمندوں، معماروں اور اس زمانے کے فن کا آئینہ دار ہیں۔
محل کے باہر قریب ہی سیویا کا گرجا گھر رومن کیتھولک عیسائیوں سے تعلق رکھتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا گوتھک گرجا گھر اور تمام قسم کے گرجا گھروں میں دنیا میں چوتھا بڑا گرجا ہے۔ مسلمانوں کے دور میں یہاں مسجد تھی جسے گرجا گھر میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ گرجا گھر کی خاص بات اس کا گھنٹہ مینار ہے جو اصل میں مسجد کا مینار ہوتا تھا جو اپنے دور میں دنیا کا سب سے بڑا مینار ہوتا تھا، جسے الموحد خلیفہ یعقوب یوسف المنصور نے 1184 میں بنوایا تھا۔ اس مینار کی بلندی 97,5 میٹر ہے۔ اس میں سیڑھیوں کی جگہ چونتیس رکاوٹیں بنائی گئی ہیں۔ گرجا گھر تعمیر کرتے وقت باقی مسجد تو گرا دی گئی لیکن یہ مینار برقرار رکھا گیا۔
گرجا گھر کی ایک اور خاص بات وہاں کولمبس کی قبر ہے، اگرچہ اس پر اتفاق رائے نہیں ہے۔ اس کے ساتھ انڈین آرکائیو ہے جہاں عہد ماضی کی تاریخ محفوظ ہے۔
اگست میں بھی اسپین میں خوب گرمی ہوتی ہے خصوصاً ہمارے لیے، جو سویڈن جیسے سرد ملک سے یہاں آئے ہوں۔ القصر محل کی تفصیلی سیر کے بعد ہم نے قریبی شاپنگ مال کا رخ کیا جہاں فوڈ کورٹ سے مزے کے کھانے کھائے اور کچھ شاپنگ کے بعد غرناطہ واپسی کا رخ کیا جہاں ہوٹل میں ہمارا قیام تھا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اس سفرنامے کا پہلا حصہ یہاں سے پڑھئے: یورپ کی آخری مسلم ریاست کا دارالخلافہ غرناطہ
یہ شہر رومنوں نے قبل از مسیح آباد کیا تھا۔ یہ وادی الکبیر میں واقع ہے جہاں دریائےالکبیر بہتا ہے۔ یہ اسپین کا دوسرا طویل ترین دریا ہے اور کشادہ ہونے کی وجہ سے اس میں جہاز رانی ممکن ہے۔ یہی دریا مسجد قرطبہ کے قریب سے گزرتا ہے جس کے بارے میں علامہ اقبال نے لکھا۔
آبِ روانِ کبیر! تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
عالمِ نَو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں
میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب
اس سفرنامے کا دوسرا حصہ یہاں سے پڑھیے: یورپ کی آخری مسلم ریاست اور جامع مسجد غرناطہ
اقبال نے اندلس پر بہت سی نظمیں کہیں ہیں۔ سچ پوچھیے تو پاک وہند کے لوگوں کی مسجد قرطبہ، الحمرا اور اندلس کے دیگر مقامات سے عقیدت اور محبت کا باعث کلام اقبال ہے۔ علامہ نے بال جبریل میں دعا، مسجد قرطبہ، قید خانے میں معتمد کی فریاد، عبدالرحمن اول کا بویا ہوا کھجور کا درخت، ہسپانیہ اور طارق کی دعا، وہ لافانی نظمیں ہیں جن سے ہمارا سرزمین اندلس سے رشتہ استوار ہے۔ علامہ اقبال اس خطے کو خونِ مسلمان کا وارث قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں۔
ہسپانیہ تو خونِ مسلماں کا امین ہے
مانندِ حرم پاک ہے تو میری نظر میں
پوشیدہ تری خاک میں سجدوں کے نشاں ہیں
خاموش اذانیں ہیں تری بادِ سحر میں
اور اندلس کے دارالخلافہ جسے آج کل Sevilla کہتے ہیں، اس کے بارے میں لکھتے ہیں۔
نصیب ان کا اشبیلیہ میں ہے سوتا
شب و روز ہے قرطبہ ان کو روتا
اس شہر میں کھجور کے درختوں کی بہتات ہے۔ کھجور درحقیقت اسپین کا درخت نہیں لیکن یہ اسپین میں اموی خلیفہ عبدالرحمان اول کے توسط سے پہنچا۔ علامہ اقبال نے اس بارے میں نظم لکھی ہے جس کا عنوان ہے عبدالرحمان اول کا پہلا کھجور کا درخت۔ یہ نظم بھی بال جبریل میں موجود ہے۔
بغداد میں خلافت کے خاتمے کے بعد عبدالرحمن اول نے قرطبہ کی خلافت کی بنیاد رکھی۔ یہ شہر علم و حکمت کا مرکز رہا۔ سارہ قوطیہ، ابن العربی، ابن رشد، شاعر المعتمد اور ابن خلدون کا تعلق اسی شہر سے رہا ہے۔ کولمبس بھی اسی شہر سے ہندوستان دریافت کرنے نکلا تھا لیکن امریکا پہنچ گیا۔ شاہی محل القصر میں اس بارے میں تاریخ کو محفوظ کیا گیا ہے۔
اس شہر کی سب اہم اور تاریخی عمارت القصر محل ہے، جسے دیکھنے ہم بھی یہاں پہنچے۔ یہاں الحمرا کی نسبت زیادہ رش نہیں اس لیے یہاں داخلہ آسانی سے ہوجاتا ہے۔ ٹکٹ لے کر ہم محل میں داخل ہوئے۔ محل کے مختلف حصوں کے بارے تفصیلات اور ماضی کی تاریخ سے آگاہی کےلیے ہم نے آڈیو ڈیوائیٹ لے لی تاکہ ساتھ ساتھ تفصیل بھی جانتے رہیں۔
محل القصر میں داخل ہوں تو مسلمانوں کے فن تعمیر کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ دیدہ زیب اشکال، خوبصورت محرابیں، دیواروں اور چھتوں پہ بنے خوبصورت نقش و نگار، کونے اور فوارے سب قابل دید ہیں۔ یہ محل القصر بنو عباد کے شاہی خاندان نے بنایا تھا۔ یہ خاندان بنو امیہ کی اندلس میں حکمرانی کے خاتمے کے بعد آیا۔ اس خاندان نے اشبیلیہ پر 1023 سے 1091 تک حکمرانی کی۔ مسلمانوں کی شکست کے بعد عیسائی حکمرانوں نے یہ محل مختلف تبدیلیوں کے ساتھ اپنی رہائش کےلیے استعمال کیا لیکن وہ اس معیار اور بلند فن تعمیر کی سطح تک نہ پہنچ سکے جو مسلم حکمرانوں کا خاصا تھا۔ اسپین کا موجودہ حکمران شاہی خاندان جب دورے پر یہاں آتا ہے تو یہیں قیام کرتا ہے۔
اشبیلیہ کا یہ محل اقوام متحدہ کی عالمی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ خوبصورت نقش و نگار اور در و دیوار کی اس عالیشان عمارت نے کئی صدیوں کا سفر طے کیا ہے۔ یہ عمارت اور اس کے باغات اپنے ہنرمندوں، معماروں اور اس زمانے کے فن کا آئینہ دار ہیں۔
محل کے باہر قریب ہی سیویا کا گرجا گھر رومن کیتھولک عیسائیوں سے تعلق رکھتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا گوتھک گرجا گھر اور تمام قسم کے گرجا گھروں میں دنیا میں چوتھا بڑا گرجا ہے۔ مسلمانوں کے دور میں یہاں مسجد تھی جسے گرجا گھر میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ گرجا گھر کی خاص بات اس کا گھنٹہ مینار ہے جو اصل میں مسجد کا مینار ہوتا تھا جو اپنے دور میں دنیا کا سب سے بڑا مینار ہوتا تھا، جسے الموحد خلیفہ یعقوب یوسف المنصور نے 1184 میں بنوایا تھا۔ اس مینار کی بلندی 97,5 میٹر ہے۔ اس میں سیڑھیوں کی جگہ چونتیس رکاوٹیں بنائی گئی ہیں۔ گرجا گھر تعمیر کرتے وقت باقی مسجد تو گرا دی گئی لیکن یہ مینار برقرار رکھا گیا۔
گرجا گھر کی ایک اور خاص بات وہاں کولمبس کی قبر ہے، اگرچہ اس پر اتفاق رائے نہیں ہے۔ اس کے ساتھ انڈین آرکائیو ہے جہاں عہد ماضی کی تاریخ محفوظ ہے۔
اگست میں بھی اسپین میں خوب گرمی ہوتی ہے خصوصاً ہمارے لیے، جو سویڈن جیسے سرد ملک سے یہاں آئے ہوں۔ القصر محل کی تفصیلی سیر کے بعد ہم نے قریبی شاپنگ مال کا رخ کیا جہاں فوڈ کورٹ سے مزے کے کھانے کھائے اور کچھ شاپنگ کے بعد غرناطہ واپسی کا رخ کیا جہاں ہوٹل میں ہمارا قیام تھا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔