کرکٹ ڈپلومیسی اور سیاسی صورتحال کا محاصرہ
ملکی حالات اور معیشت کے باب میں عوام بے یقینی اور بے سمتی کے اندیشے سے دوچار ہیں۔
سعودی عرب، پاکستان کے لیے اپنا مالیاتی تعاون دوبارہ شروع کرنے پر رضامند ہوگیا جس میں محفوظ ذخائر میں 3 ارب ڈالر اور مؤخر ادائیگیوں پر ایک ارب 20 کروڑ سے ایک ارب 50کروڑ ڈالر مالیت کے تیل کی فراہمی شامل ہے۔
اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک سینئر حکومتی عہدیدار نے بتایا کہ اس سلسلے میں ایک سمجھوتہ وزیراعظم کے دورہ سعودی عرب کے دوران طے پایا۔ رات گئے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ایک ٹویٹ میں اس پیش رفت کی تصدیق کی۔ انھوں نے کہا کہ 'سعودی عرب کی جانب سے رواں برس 3 ارب ڈالر کے ذخائر مرکزی بینک میں جمع کروانے اور ایک ارب 20کروڑ ڈالر کی ریفائنڈ پیٹرولیم مصنوعات کی فنانسنگ سے پاکستان کی مدد کا اعلان کیا گیا ہے۔
قبل ازیں ایک عہدیدار نے بتایا تھا کہ سعودی حکومت، پاکستان کے اکاؤنٹ میں ایک سال کے لیے فوری طور پر 3 ارب ڈالر کی رقم جمع کروائے گی اور اکتوبر 2023 میں آئی ایم ایف پروگرام کی تکمیل تک اسے رولنگ میں رکھے گی۔ توقع ہے کہ اس سہولت سے پاکستان کو آئی ایم ایف کو اپنے فنانسنگ پلان کے بارے میں قائل کرنے میں مدد ملے گی۔ اس کے علاوہ سعودی حکومت، اسلام آباد کو ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ کی مؤخر ادائیگیوں پر خام تیل فراہم کرے گی۔
بلاشبہ یہ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین سرد مہری کے خاتمے کے لیے نیک فال ہے، پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ایک بریک تھرو کا امکان پیدا ہوگیا ہے، پاکستان نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ سعودی عرب کا تحفظ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی معاملہ ہے، مبصرین نے سعودی عرب کے معاملات کو ماضی کے مختلف الخیال چیلنج اور خارجہ پالیسی کے ایشوز پر صائب ردعمل میں پیرا ڈائم شفٹ کا کوئی اشارہ تک نہیں دیا، پاک سعودی تعلقات کی غیرمتزلزلیت مسلمہ ہے، تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ سعودی عرب سے پاکستان کے تعلقات دینی، تاریخی اور سیاسی و اقتصادی ہیں، ان پر حالات قطعی اثرانداز نہیں ہوسکتے۔
اس سے قبل سعودی عرب نے 2018 میں زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے میں مدد کے لیے پاکستان کو 3 ارب ڈالر کی نقد رقم فراہم کی تھی اور 3 ارب ڈالر کے تیل کی سہولت فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ رواں برس جون میں ایک نیوز کانفرنس میں بتایا گیا تھا کہ سعودی عرب نے سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر کے تیل کی سہولت فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
تین ماہ بعد اس وقت کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے دعویٰ کیا تھا کہ مؤخر ادائیگیوں پر سعودی تیل کی سہولت کے لیے ایک اور معاہدہ طے پا گیا ہے اور اس کا باضابطہ اعلان دو سے تین روز میں کر دیا جائے گا۔ تاہم اسلام آباد کے امریکی حکام اور آئی ایم ایف سے رابطوں کی وجہ سے اس اعلان میں تاخیر ہوئی۔
گزشتہ ماہ قومی اسمبلی میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے شوکت ترین نے کہا تھا کہ وہ (سعودی عرب) نہ صرف مؤخر ادائیگی پر تیل کی ایک اور سہولت پر غور کر رہا ہے بلکہ ایک سمجھوتہ بھی تقریباً ہوچکا ہے جو 2 سے 3 روز میں عوام کے سامنے آنے کا امکان ہے۔
عہدیدار نے کہا کہ آئی ایم ایف نے اسلام آباد سے مالیاتی بہاؤ کو یقینی بنانے کے لیے کہا تھا جس کا اس نے 39 ماہ کی توسیعی فنڈ سہولت کو حتمی شکل دینے کے وقت وعدہ کیا تھا۔ اس سلسلے میں سعودی عرب اور چین کی جانب سے تعاون 3 سالہ مالیاتی منصوبے کا ایک اہم ستون تھا۔
شوکت ترین نے قومی اسمبلی میں تصدیق کی تھی کہ مالی سال 14-2013 کے دوران وزیراعظم کی منظوری سے سعودی عرب مانیٹری ایجنسی سے ڈیڑھ ارب ڈالر یعنی ایک ارب 57کروڑ 19 لاکھ ڈالر کی مساوی گرانٹ اسٹیٹ بینک میں پاکستان ڈیولپمنٹ فنڈ لمیٹڈ کے اکاؤنٹ میں منتقل ہوئی تھی۔
ادھر دنیا کے بعض ممالک اور خطے میں کرکٹ ڈپلومیسی کا زور رہا۔ نیوزی لینڈ نے سیکیورٹی کے نام پر 20ٹوئنٹی کرکٹ میں کچھ بد مزگی پیدا کی مگر اسی کرکٹ ڈپلومیسی نے نیوزی لینڈ کو دوبارہ ٹریک پر لانے میں مدد دی۔ کرکٹ معاملات میں شگفتگی اور سرد مہری کے خاتمے نے دو طرفہ تعلقات میں بہتری میں پیش قدمی کی، وفاقی وزیر اطلاعات برائے نشریات فواد چوہدری نے پاکستان کی شاندار فتح کے بعد نیوزی لینڈ کے لیے خصوصی پیغام جاری کردیا۔
اگلے روز ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے سنسنی خیز مقابلے میں نیوزی لینڈ کے خلاف پاکستان نے زبردست جیت اپنے نام کی جس کے بعد پوری قوم بے حد خوش ہے۔ ایسے میں سوشل میڈیا پر فواد چوہدری کا ایک ویڈیو پیغام وائرل ہورہا ہے جو کہ انھوں نے اپنے تصدیق شدہ ٹویٹر اکاؤنٹ پر بھی ری ٹوئٹ کیا ہے۔
فواد چوہدری نے ایک سوال کے جواب میں دلچسپ جواب دیا کہ 'ہمیں اصل غصہ نیوزی لینڈ پر ہی تھا، یہ بھارت تو بلاوجہ راستے میں آیا۔' واضح رہے کہ آئی سی سی مینز ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے سپر 12 مرحلے کے دوسرے میچ میں پاکستان نے دلچسپ مقابلے کے بعد نیوزی لینڈ کو 5 وکٹوں سے شکست دے دی۔ شارجہ کرکٹ گراؤنڈ میں کھیلے گئے اس میچ میں پاکستان نے ٹاس جیت کر نیوزی لینڈ کو بیٹنگ کی دعوت دی تھی۔ نیوزی لینڈ نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے مقررہ 20 اوورز میں 8 وکٹوں کے نقصان پر 134 رنز بنائے تھے۔
انگلینڈ کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان مائیکل وان نے کہا ہے کہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم غیر معمولی دکھائی دے رہی ہے۔ اپنے بیان میں انھوں نے کہا کہ پاکستانی ٹیم سیمی فائنل میں پہنچے گی، دوسری تمام ٹیمیں پاکستان سے بچنا چاہیں گی۔ قومی ٹیم کے سابق کپتان انضمام الحق اور ٹیسٹ کرکٹر مشتاق احمد کو پاکستان کے افغانستان سے میچ کی فکر لگ گئی۔ پاکستان کی نیوزی لینڈ کے خلاف 5 وکٹ سے فتح پر ایک ٹی وی پروگرام میں انضمام الحق اور مشتاق احمد نے اظہار خیال کیا۔
انضمام الحق نے کہا کہ افغانستان کو ایونٹ میں کبھی بھی ہلکا نہیں لے سکتے ہیں، پاکستان کو اس کے ساتھ پوری تیاری کے ساتھ کھیلنا ہوگا۔ مشتاق احمد نے کہا کہ مجھے سب سے زیادہ فکر افغانستان کے خلاف میچ کی ہے، جس کے پاس اچھے اسپنر اور تجربہ کار بولرز ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہر میچ میں پچھلے میچز کو بھلا کر کھیلنا پڑے گا، افغانستان کے کھلاڑی دنیا بھر میں کرکٹ کھیلتے ہیں، قومی ٹیم کو ان کے خلاف ہوم ورک کرکے میدان میں اترنا ہوگا۔
انضمام الحق نے کہا کہ ہر میچ آسانی سے نہیں جیتا جاسکتا، نیوزی لینڈ کو کم رنز پر روکنا قومی ٹیم کی زبردست بولنگ کی نشانی ہے۔ انھوں نے کہا کہ آصف علی فنشر نہیں، میچ ختم کرنے کی ذمے داری شعیب ملک اور محمد حفیظ کی ہے۔ عمران خان نے بھی افغانستان کو اپ سیٹ کرنے والی ٹیم سے تشبیہ دی ہے، الغرض یہ ہفتہ کرکٹ کا جشن منانے سے عبارت رہا ہے۔ پاکستانیوں کے مرجھائے ہوئے چہرے خوشی سے کھل اٹھے۔
لیکن ملکی صورتحال کا تناظر سیاسی بے یقینی، مایوسی، معاشی جمود اور اقتصادی نشیب وفراز سے معمور رہا، ملکی عسکری صورتحال میں بھی افواہوں کا خاتمہ ہوا، ڈی جی آئی ایس آئی ندیم انجم کی تقرری سے سیاسی و عسکری تعلقات میں بہتری آئی، میڈیا میں بحث کے دروازے کھلے۔
ماہرین نے تجزیے پیش کیے، پہلی بار ایک پیج پر ہونے کے حوالے سے مبصرین دور کی کوڑیاں لاتے رہے، لیکن بہت اچھا ہوا کہ اسی بہانے سے سنجیدہ تجزیہ نگاروں نے خیر سگالی اور مفاہمانہ جوش و جذبہ کی حمایت کی، اور عسکری و سیاسی تعلقات دوبارہ خوشگوار ہوگئے، سیاسی دور اندیشی نے درست کام کیا اور وزیر اعظم نے اس معاملے کو خوش اسلوبی اور آرمی چیف کی بردباری اور عسکری بصیرت سے حل کر دیا۔
سیاسی حلقوں نے اس تقرری کوایک پیش رفت قرار دیا اور اس یقین کا اظہار کیا کہ سسٹم کو کوئی خطرہ نہیں، ادارے آئین و قانون کے تحت کام کرتے رہیں گے، واضح رہے وزیر داخلہ نے اس ضمن میں خیر خواہی اور ادارہ جاتی دور اندیشی کے حوالہ سے قومی امنگوں کی مثبت انداز میں پیش بینی کی۔ اہل حقیقت بھی ارباب اختیار کو خطے میں چیلنجوں سے خبردار کر رہے تھے کہ:
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا
ملکی حالات اور معیشت کے باب میں عوام بے یقینی اور بے سمتی کے اندیشے سے دوچار ہیں۔ کاروبار کی رونقیں غائب ہیں، صنعتکار، سرمایہ کار، تاجر، صارفین اور عوام ڈپریشن کا شکار ہیں، مہنگائی کا کوئی حل کسی معاشی مسیحا کے پاس نہیں، ملک کے فہمیدہ لوگ بس اس انتظار میں ہیں کہ سیاسی مفاہمت کا کوئی لمحہ آجائے، حکمراں اپنی ضد چھوڑ دیں، اپوزیشن اپنی وضع بدلیں، روابط بڑھائیں، جمہوریت کو راستہ دیں، ارد گرد کے ممالک پاکستان پر نظریں جمائے ہوئے ہیں، افغانستان کے معاملات کا انحصار پاکستان کی مستحکم صورتحال سے جڑا ہے۔
ہم ایک طرف دنیا سے کہہ رہے ہیں کہ وہ امریکا پر زور ڈالے کہ وہ افغانستان کے منجمد اثاثوں کی بحالی کے اقدامات کرے، دوسری جانب ہم خود چیلنجز کے محاصرے میں ہیں، ماہرین سیاست چاہتے ہیں کہ پاکستان کی معیشت دنیا کی مضبوط ترین معیشت بنے، خطے کی معاشی قیادت کرے، اب ارباب اختیار کی ذمے داری ہے کہ فیصلہ ان کے ہاتھ میں ہے، عوام تو مجبوری کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ کریں تو کیا کریں۔
اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک سینئر حکومتی عہدیدار نے بتایا کہ اس سلسلے میں ایک سمجھوتہ وزیراعظم کے دورہ سعودی عرب کے دوران طے پایا۔ رات گئے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ایک ٹویٹ میں اس پیش رفت کی تصدیق کی۔ انھوں نے کہا کہ 'سعودی عرب کی جانب سے رواں برس 3 ارب ڈالر کے ذخائر مرکزی بینک میں جمع کروانے اور ایک ارب 20کروڑ ڈالر کی ریفائنڈ پیٹرولیم مصنوعات کی فنانسنگ سے پاکستان کی مدد کا اعلان کیا گیا ہے۔
قبل ازیں ایک عہدیدار نے بتایا تھا کہ سعودی حکومت، پاکستان کے اکاؤنٹ میں ایک سال کے لیے فوری طور پر 3 ارب ڈالر کی رقم جمع کروائے گی اور اکتوبر 2023 میں آئی ایم ایف پروگرام کی تکمیل تک اسے رولنگ میں رکھے گی۔ توقع ہے کہ اس سہولت سے پاکستان کو آئی ایم ایف کو اپنے فنانسنگ پلان کے بارے میں قائل کرنے میں مدد ملے گی۔ اس کے علاوہ سعودی حکومت، اسلام آباد کو ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ کی مؤخر ادائیگیوں پر خام تیل فراہم کرے گی۔
بلاشبہ یہ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین سرد مہری کے خاتمے کے لیے نیک فال ہے، پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ایک بریک تھرو کا امکان پیدا ہوگیا ہے، پاکستان نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ سعودی عرب کا تحفظ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی معاملہ ہے، مبصرین نے سعودی عرب کے معاملات کو ماضی کے مختلف الخیال چیلنج اور خارجہ پالیسی کے ایشوز پر صائب ردعمل میں پیرا ڈائم شفٹ کا کوئی اشارہ تک نہیں دیا، پاک سعودی تعلقات کی غیرمتزلزلیت مسلمہ ہے، تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ سعودی عرب سے پاکستان کے تعلقات دینی، تاریخی اور سیاسی و اقتصادی ہیں، ان پر حالات قطعی اثرانداز نہیں ہوسکتے۔
اس سے قبل سعودی عرب نے 2018 میں زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے میں مدد کے لیے پاکستان کو 3 ارب ڈالر کی نقد رقم فراہم کی تھی اور 3 ارب ڈالر کے تیل کی سہولت فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ رواں برس جون میں ایک نیوز کانفرنس میں بتایا گیا تھا کہ سعودی عرب نے سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر کے تیل کی سہولت فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
تین ماہ بعد اس وقت کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے دعویٰ کیا تھا کہ مؤخر ادائیگیوں پر سعودی تیل کی سہولت کے لیے ایک اور معاہدہ طے پا گیا ہے اور اس کا باضابطہ اعلان دو سے تین روز میں کر دیا جائے گا۔ تاہم اسلام آباد کے امریکی حکام اور آئی ایم ایف سے رابطوں کی وجہ سے اس اعلان میں تاخیر ہوئی۔
گزشتہ ماہ قومی اسمبلی میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے شوکت ترین نے کہا تھا کہ وہ (سعودی عرب) نہ صرف مؤخر ادائیگی پر تیل کی ایک اور سہولت پر غور کر رہا ہے بلکہ ایک سمجھوتہ بھی تقریباً ہوچکا ہے جو 2 سے 3 روز میں عوام کے سامنے آنے کا امکان ہے۔
عہدیدار نے کہا کہ آئی ایم ایف نے اسلام آباد سے مالیاتی بہاؤ کو یقینی بنانے کے لیے کہا تھا جس کا اس نے 39 ماہ کی توسیعی فنڈ سہولت کو حتمی شکل دینے کے وقت وعدہ کیا تھا۔ اس سلسلے میں سعودی عرب اور چین کی جانب سے تعاون 3 سالہ مالیاتی منصوبے کا ایک اہم ستون تھا۔
شوکت ترین نے قومی اسمبلی میں تصدیق کی تھی کہ مالی سال 14-2013 کے دوران وزیراعظم کی منظوری سے سعودی عرب مانیٹری ایجنسی سے ڈیڑھ ارب ڈالر یعنی ایک ارب 57کروڑ 19 لاکھ ڈالر کی مساوی گرانٹ اسٹیٹ بینک میں پاکستان ڈیولپمنٹ فنڈ لمیٹڈ کے اکاؤنٹ میں منتقل ہوئی تھی۔
ادھر دنیا کے بعض ممالک اور خطے میں کرکٹ ڈپلومیسی کا زور رہا۔ نیوزی لینڈ نے سیکیورٹی کے نام پر 20ٹوئنٹی کرکٹ میں کچھ بد مزگی پیدا کی مگر اسی کرکٹ ڈپلومیسی نے نیوزی لینڈ کو دوبارہ ٹریک پر لانے میں مدد دی۔ کرکٹ معاملات میں شگفتگی اور سرد مہری کے خاتمے نے دو طرفہ تعلقات میں بہتری میں پیش قدمی کی، وفاقی وزیر اطلاعات برائے نشریات فواد چوہدری نے پاکستان کی شاندار فتح کے بعد نیوزی لینڈ کے لیے خصوصی پیغام جاری کردیا۔
اگلے روز ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے سنسنی خیز مقابلے میں نیوزی لینڈ کے خلاف پاکستان نے زبردست جیت اپنے نام کی جس کے بعد پوری قوم بے حد خوش ہے۔ ایسے میں سوشل میڈیا پر فواد چوہدری کا ایک ویڈیو پیغام وائرل ہورہا ہے جو کہ انھوں نے اپنے تصدیق شدہ ٹویٹر اکاؤنٹ پر بھی ری ٹوئٹ کیا ہے۔
فواد چوہدری نے ایک سوال کے جواب میں دلچسپ جواب دیا کہ 'ہمیں اصل غصہ نیوزی لینڈ پر ہی تھا، یہ بھارت تو بلاوجہ راستے میں آیا۔' واضح رہے کہ آئی سی سی مینز ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے سپر 12 مرحلے کے دوسرے میچ میں پاکستان نے دلچسپ مقابلے کے بعد نیوزی لینڈ کو 5 وکٹوں سے شکست دے دی۔ شارجہ کرکٹ گراؤنڈ میں کھیلے گئے اس میچ میں پاکستان نے ٹاس جیت کر نیوزی لینڈ کو بیٹنگ کی دعوت دی تھی۔ نیوزی لینڈ نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے مقررہ 20 اوورز میں 8 وکٹوں کے نقصان پر 134 رنز بنائے تھے۔
انگلینڈ کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان مائیکل وان نے کہا ہے کہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم غیر معمولی دکھائی دے رہی ہے۔ اپنے بیان میں انھوں نے کہا کہ پاکستانی ٹیم سیمی فائنل میں پہنچے گی، دوسری تمام ٹیمیں پاکستان سے بچنا چاہیں گی۔ قومی ٹیم کے سابق کپتان انضمام الحق اور ٹیسٹ کرکٹر مشتاق احمد کو پاکستان کے افغانستان سے میچ کی فکر لگ گئی۔ پاکستان کی نیوزی لینڈ کے خلاف 5 وکٹ سے فتح پر ایک ٹی وی پروگرام میں انضمام الحق اور مشتاق احمد نے اظہار خیال کیا۔
انضمام الحق نے کہا کہ افغانستان کو ایونٹ میں کبھی بھی ہلکا نہیں لے سکتے ہیں، پاکستان کو اس کے ساتھ پوری تیاری کے ساتھ کھیلنا ہوگا۔ مشتاق احمد نے کہا کہ مجھے سب سے زیادہ فکر افغانستان کے خلاف میچ کی ہے، جس کے پاس اچھے اسپنر اور تجربہ کار بولرز ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہر میچ میں پچھلے میچز کو بھلا کر کھیلنا پڑے گا، افغانستان کے کھلاڑی دنیا بھر میں کرکٹ کھیلتے ہیں، قومی ٹیم کو ان کے خلاف ہوم ورک کرکے میدان میں اترنا ہوگا۔
انضمام الحق نے کہا کہ ہر میچ آسانی سے نہیں جیتا جاسکتا، نیوزی لینڈ کو کم رنز پر روکنا قومی ٹیم کی زبردست بولنگ کی نشانی ہے۔ انھوں نے کہا کہ آصف علی فنشر نہیں، میچ ختم کرنے کی ذمے داری شعیب ملک اور محمد حفیظ کی ہے۔ عمران خان نے بھی افغانستان کو اپ سیٹ کرنے والی ٹیم سے تشبیہ دی ہے، الغرض یہ ہفتہ کرکٹ کا جشن منانے سے عبارت رہا ہے۔ پاکستانیوں کے مرجھائے ہوئے چہرے خوشی سے کھل اٹھے۔
لیکن ملکی صورتحال کا تناظر سیاسی بے یقینی، مایوسی، معاشی جمود اور اقتصادی نشیب وفراز سے معمور رہا، ملکی عسکری صورتحال میں بھی افواہوں کا خاتمہ ہوا، ڈی جی آئی ایس آئی ندیم انجم کی تقرری سے سیاسی و عسکری تعلقات میں بہتری آئی، میڈیا میں بحث کے دروازے کھلے۔
ماہرین نے تجزیے پیش کیے، پہلی بار ایک پیج پر ہونے کے حوالے سے مبصرین دور کی کوڑیاں لاتے رہے، لیکن بہت اچھا ہوا کہ اسی بہانے سے سنجیدہ تجزیہ نگاروں نے خیر سگالی اور مفاہمانہ جوش و جذبہ کی حمایت کی، اور عسکری و سیاسی تعلقات دوبارہ خوشگوار ہوگئے، سیاسی دور اندیشی نے درست کام کیا اور وزیر اعظم نے اس معاملے کو خوش اسلوبی اور آرمی چیف کی بردباری اور عسکری بصیرت سے حل کر دیا۔
سیاسی حلقوں نے اس تقرری کوایک پیش رفت قرار دیا اور اس یقین کا اظہار کیا کہ سسٹم کو کوئی خطرہ نہیں، ادارے آئین و قانون کے تحت کام کرتے رہیں گے، واضح رہے وزیر داخلہ نے اس ضمن میں خیر خواہی اور ادارہ جاتی دور اندیشی کے حوالہ سے قومی امنگوں کی مثبت انداز میں پیش بینی کی۔ اہل حقیقت بھی ارباب اختیار کو خطے میں چیلنجوں سے خبردار کر رہے تھے کہ:
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا
ملکی حالات اور معیشت کے باب میں عوام بے یقینی اور بے سمتی کے اندیشے سے دوچار ہیں۔ کاروبار کی رونقیں غائب ہیں، صنعتکار، سرمایہ کار، تاجر، صارفین اور عوام ڈپریشن کا شکار ہیں، مہنگائی کا کوئی حل کسی معاشی مسیحا کے پاس نہیں، ملک کے فہمیدہ لوگ بس اس انتظار میں ہیں کہ سیاسی مفاہمت کا کوئی لمحہ آجائے، حکمراں اپنی ضد چھوڑ دیں، اپوزیشن اپنی وضع بدلیں، روابط بڑھائیں، جمہوریت کو راستہ دیں، ارد گرد کے ممالک پاکستان پر نظریں جمائے ہوئے ہیں، افغانستان کے معاملات کا انحصار پاکستان کی مستحکم صورتحال سے جڑا ہے۔
ہم ایک طرف دنیا سے کہہ رہے ہیں کہ وہ امریکا پر زور ڈالے کہ وہ افغانستان کے منجمد اثاثوں کی بحالی کے اقدامات کرے، دوسری جانب ہم خود چیلنجز کے محاصرے میں ہیں، ماہرین سیاست چاہتے ہیں کہ پاکستان کی معیشت دنیا کی مضبوط ترین معیشت بنے، خطے کی معاشی قیادت کرے، اب ارباب اختیار کی ذمے داری ہے کہ فیصلہ ان کے ہاتھ میں ہے، عوام تو مجبوری کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ کریں تو کیا کریں۔