چنبل کو علاج سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے حکومت بڑے شہروں میں کلینکس بنائے ایکسپریس فورم
بروقت علاج نہ کیا گیا تو بیماری پیچیدہ صورتحال اختیار کرسکتی ہے، پروفیسر محمود نور
ایکسپریس میڈیا گروپ کے زیراہتمام منعقدہ فورم سے خطاب میں ماہرین امراض جلد نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ سورائسز (چنبل) کے مریضوں کے علاج کو یقینی بنانے کیلیے ملک کے بڑے شہروں میں سورائٹک کلینکس قائم کیے جائیں۔
سورائسزکے مریضوں کی تعداد جاننے کیلیے ملک گیر سروے کروائے جائیں، سورائسز کو بھی صحت سہولت پیکیج میں شامل کیا جائے، ماہرین کا کہنا تھا کہ سورائسز (چنبل) محض جلدی بیماری ہی نہیں، یہ ایک سسٹیمک بیماری ہے جس میں جوڑوں اور دیگر اعضاء متاثر ہو نے کے ساتھ معذوری اور ذہنی دبائو میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
اس بیماری سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں، باقاعدگی کے ساتھ علاج سے اس بیماری کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے، ایکسپریس میڈیا گروپ کے زیر اہتمام نجی ادویہ ساز کمپنی نووارٹس اور پاکستان ایسوسی ایشن آف ڈرماٹولوجسٹ کے اشتراک سے سورائسزکے عالمی دن کے موقع پر فورم کا انعقاد کیا گیا.
ماہرین صحت نے سورائسز کی علامات، تشخیص و علاج اور اس بیماری کا انسانی لائف سٹائل پر اثرات کے بارے میں شرکاء کو آگاہ کیا۔
پاکستان ایسوسی ایشن آف ڈرماٹولوجسٹ کے جنرل سیکرٹری پروفیسر صاحبزداہ محمود نور کا کہنا تھا کہ سورائسز جلد کی بیماری ہے جو جلد کے نئے خلیوں کے بہت تیزی سے پیدا ہونے سے ہوتی ہے، اس کے نتیجے میں جلد کے اوپر نئے خلیے سرخ، گھنے اور کھردری شکل میں جسم کے کسی بھی حصے پر ظاہر ہوتے ہیں جس کی وجہ سے جلد پر خارش ہونا شروع ہو جاتی ہے، اس بیماری میں مبتلا مریض مستند ماہر امراض جلد سے معائنہ کروائے، کسی حکیم سے رجوع نہ کرے، باقاعدگی کے ساتھ علاج جاری رکھے تو اس کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے، بروقت علاج نہ کیا گیا تو یہ بیماری پیچیدہ صورتحال اختیار کرسکتی ہے۔
پی اے ایف ہسپتال اسلام آباد کی شعبہ امراض جلد کی سربراہ ڈاکٹر منیزہ رضوان کا کہنا تھاکہ سورائسزایک دائمی مرض ہے، اس بیماری پر قابو پانے میں قوت مدافعت کا اہم کردار ہے، سورائسز کو جلد کا شوگر کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کیونکہ اس بیماری کو جڑ سے ختم نہیں کیا جاسکتا، موٹا پے کو کم کرکے بھی سورائسز کی بیماری سے بچا جاسکتا ہے، یہ متعدی بیماری نہیں ہے، سورائسزکے مریضوں کی تعداد جاننے کیلیے ملک گیر سروے کروائے جائیں۔
النفیس ہسپتال، اسرا میڈیکل کالج کے شعبہ امراض جلد کے سربراہ پروفیسر طارق محمود کا کہنا تھا کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں 2 سے 3 فیصد آبادی اس بیماری سے متاثر ہے جو تشویشناک بات ہے، بہت ساری دوائیں ایسی ہیں جو علامات پر قابو پانے میں مدد کر سکتی ہیں۔
سورائسزکے مریضوں کی تعداد جاننے کیلیے ملک گیر سروے کروائے جائیں، سورائسز کو بھی صحت سہولت پیکیج میں شامل کیا جائے، ماہرین کا کہنا تھا کہ سورائسز (چنبل) محض جلدی بیماری ہی نہیں، یہ ایک سسٹیمک بیماری ہے جس میں جوڑوں اور دیگر اعضاء متاثر ہو نے کے ساتھ معذوری اور ذہنی دبائو میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
اس بیماری سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں، باقاعدگی کے ساتھ علاج سے اس بیماری کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے، ایکسپریس میڈیا گروپ کے زیر اہتمام نجی ادویہ ساز کمپنی نووارٹس اور پاکستان ایسوسی ایشن آف ڈرماٹولوجسٹ کے اشتراک سے سورائسزکے عالمی دن کے موقع پر فورم کا انعقاد کیا گیا.
ماہرین صحت نے سورائسز کی علامات، تشخیص و علاج اور اس بیماری کا انسانی لائف سٹائل پر اثرات کے بارے میں شرکاء کو آگاہ کیا۔
پاکستان ایسوسی ایشن آف ڈرماٹولوجسٹ کے جنرل سیکرٹری پروفیسر صاحبزداہ محمود نور کا کہنا تھا کہ سورائسز جلد کی بیماری ہے جو جلد کے نئے خلیوں کے بہت تیزی سے پیدا ہونے سے ہوتی ہے، اس کے نتیجے میں جلد کے اوپر نئے خلیے سرخ، گھنے اور کھردری شکل میں جسم کے کسی بھی حصے پر ظاہر ہوتے ہیں جس کی وجہ سے جلد پر خارش ہونا شروع ہو جاتی ہے، اس بیماری میں مبتلا مریض مستند ماہر امراض جلد سے معائنہ کروائے، کسی حکیم سے رجوع نہ کرے، باقاعدگی کے ساتھ علاج جاری رکھے تو اس کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے، بروقت علاج نہ کیا گیا تو یہ بیماری پیچیدہ صورتحال اختیار کرسکتی ہے۔
پی اے ایف ہسپتال اسلام آباد کی شعبہ امراض جلد کی سربراہ ڈاکٹر منیزہ رضوان کا کہنا تھاکہ سورائسزایک دائمی مرض ہے، اس بیماری پر قابو پانے میں قوت مدافعت کا اہم کردار ہے، سورائسز کو جلد کا شوگر کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کیونکہ اس بیماری کو جڑ سے ختم نہیں کیا جاسکتا، موٹا پے کو کم کرکے بھی سورائسز کی بیماری سے بچا جاسکتا ہے، یہ متعدی بیماری نہیں ہے، سورائسزکے مریضوں کی تعداد جاننے کیلیے ملک گیر سروے کروائے جائیں۔
النفیس ہسپتال، اسرا میڈیکل کالج کے شعبہ امراض جلد کے سربراہ پروفیسر طارق محمود کا کہنا تھا کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں 2 سے 3 فیصد آبادی اس بیماری سے متاثر ہے جو تشویشناک بات ہے، بہت ساری دوائیں ایسی ہیں جو علامات پر قابو پانے میں مدد کر سکتی ہیں۔