اردو غزل کا توانا شجر ولی ؔ  گجراتی دکنی

خوگر نہیں کچھ یوں ہی ہم ریختہ گوئی کے<br /> معشوق جو تھا اپنا باشند ہد کنکا تھا۔

خوگر نہیں کچھ یوں ہی ہم ریختہ گوئی کے، معشوق جو تھا اپنا باشند ہد کنکا تھا۔ فوٹو: فائل

زباں فہمی 121

خوگر نہیں کچھ یوں ہی ہم ریختہ گوئی کے

معشوق جو تھا اپنا باشندہ دکن کا تھا

میرؔ نے اس شعر میں ولیؔ گجراتی (المعروف) دکنی کو منفرد انداز میں خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ یہ وہی ولیؔ ہے جسے ''آبِ حیات'' کے مصنف محمد حسین آزادؔ نے اردو کا باوا آدم اور فارسی کے اولین غزل گو ، رودکی (وفات: ۹۴۰ء)ؔ اور انگریزی کے چاسر[Geoffrey Chaucer :1340s -25 October 1400]کا ہم پَلّہ قراردیا۔ قاضی احمد میاں اخترؔ جوناگڑھی نے اُنھیں ریختہ (بمعنی زبان) گوئی کا مُوجد ٹھہرایا۔

ہندوی یعنی اردوئے قدیم میں شاعری کے سَرخَیل، مسعودسعدسلمان لاہوری اور ریختہ (یعنی مِلواں یا مخلوط زبان میں) کے اولین سخنور (اور صنف مُوسِیقی ریختہ کے مُوجد)امیرخسرو سے کہیں زیادہ شہرت ، غزل گوئی کے باب میں ان دونوں کے صدیوں بعد (دکن کے قطب شاہی سلسلے کے آٹھویں حکم راں سلطان عبد اللہ قلی شاہ کے عہد حکومت میں)جنم لینے والے شاہ سیدمحمد ولی اللہ ولیؔ کو حاصل ہوئی جنھیں گجرات کے شہر احمد آباد سے تعلق کی بِناء پر گجراتی کہنا اور قراردینا بالتحقیق درست ہے۔

{۱۹۲۲ء میں بابائے اردو مولوی ڈاکٹر عبدالحق کے انکشاف کہ ''اولین صاحب ِدیوان اردوشاعر قلی قطب شاہ تھا''(مقالہ مشمولہ سہ ماہی اردو، انجمن ترقی اردو، ہند) سے قبل، ولی ؔ ہی کو اردو کا پہلا صاحبِ دیوان شاعر اور بقول آزادؔ ''نظم ِاردو کی نسل کا آدم'' سمجھا جاتا تھا}۔ انھیں اخترؔ جوناگڑھی کی تقلید میں احمدآبادی بھی لکھا جاسکتا ہے، مگر یہ معروف نہیں، جبکہ حیدرآبادی برادری نے انھیں اورنگ آباد اور حیدرآباد میں قیام کے سبب، اورنگ آبادی اور دکنی یا دکھنی قرار دیا۔ وہ بضد ہیں کہ ولیؔ ہمارے ہیں۔

یہ بات اتنی مشہور ہوئی کہ میرؔ نے بھی نِکات ُالشعراء میں ولیؔ کو اورنگ آبادی قرار دیتے ہوئے لکھ دیا: ''شاعرِ ریختہ اَز خاکِ اورنگ آباداست''۔ کلیات ِ ولیؔ (مرتبہ : ۱۹۲۷ء ، مطبوعہ انجمن ترقی اردو، ہند) کے مرتب، ممتاز شاعر اور داغؔ دہلوی کے مشہور شاگرد، احسن مارہروی نے اپنی معلومات کی بنیاد پر ولیؔ کو دکنی اور اورنگ آبادی قرار دیا۔ انھوں نے اس عظیم سخنور کے حالات کی نقل میں بھی احتیاط سے کام نہیں لیا۔ میرحسن ؔ دہلوی نے انھیں گجراتی اور دکنی قرار دیا، اس لیے کہ گجرات بھی دکن (جنوب) ہی ہے اور آزادؔ نے اپنے اسی پیش رَو کی تقلید میں انھیں احمدآبادی گجراتی لکھتے ہوئے دکنی کہا ہے۔

یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ گجرات کے اردو شعراء بشمول ولیؔ اپنی زبان کو دکنی بھی کہتے تھے۔ ''ولیؔ نے اس زبان کی اصلاح کرکے اس کو اِس قابل بنایا کہ وہ شعرائے اردو کی مستقل زبان بن گئی اور اُن کے جدیدرنگِ تغزل نے تمام ملک کے شعراء کو ایسا گرویدہ کردیا کہ اُنھی کے نہج اور اسلوب پر اُردو شاعری کی بنیاد رکھی گئی'' (قاضی احمد میاں اخترؔ جوناگڑھی: مضامین ِ اخترؔ جوناگڑھی)۔

یہاں ایک لسانی لطیفہ یہ بھی ہے کہ بِیجا پور (دکن) کے بعض مصنفین نے اپنی زبان کو گجراتی کہا ہے۔ ''بہرحال یہ مُسَلّمہ اَمر ہے کہ ولیؔ کے کلام میں جو بعض الفاظ و محاورات آئے ہیں، وہ گجرات کی قدیم اردو میں اور دکنی میں مشترک ہیں'' (مضامین ِ اخترؔ جوناگڑھی)۔ {مضامینِ اخترؔ جوناگڑھی کو پروفیسر محی الدین بمبئی والا نے مرتب کرکے ''ولی ؔگجراتی'' کے عنوان سے گجرات ساہتیہ اکیڈمی، گاندھی نگر کے زیراہتمام شایع کیا، جبکہ اخترؔ کے عزیز، ڈاکٹر سید ظہیرالدین مدنی، (اسسٹنٹ ڈائریکٹر، انجمن اسلام اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، بمبئی) کی کتاب 'ولیؔگجراتی'، اسی انجمن کے زیراہتمام ۱۹۵۰ء میں شایع ہوئی۔ انھی مدنی صاحب نے پی ایچ ڈی کے لیے مقالہ بعنوان ''اردو شعرائے گجرات'' لکھا تھا}۔

آگے بڑھنے سے پہلے خاکسار کے کالم زباں فہمی نمبر ۱۱۹،''حیدرآبادی بولی'' (مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس، مؤرخہ ۱۷ اکتوبر ۲۰۲۱ء) سے اقتباس ملاحظہ فرمائیں: جب حیدرآبادی /دکنی کی بات ہوگی تو ناواقفین کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس سے مراد، ہندوستان کے دکن / دکھن/دَکھشنڑ یعنی جَنوب میں بولی جانے والی بولی ہے جو مقامی زبانوں مَراٹھی، تیلَگُو اور کَنّڑ کے اثرات سے مَملُو ہے اور جس کا قدیم رشتہ وانسلاک، ہندی، سنسکرت اور اردو کی قدیم بولیوں سے ہے۔

اب یہاں ایک وضاحت اور بھی ضروری ہے کہ دکن یا جنوب سے کون سے علاقے مراد ہیں۔ {یہ نکتہ اُس پرانی بحث سے بھی جُڑا ہوا ہے کہ اردو کے پہلے توانا شاعر وَلی گجراتی دکنی کو دکنی (اور اورنگ آبادی ، دکنی) کیوں کہا جاتا ہے۔ ماقبل کسی تحریر میں، غالباً زباں فہمی ہی میں ڈاکٹر غلام مصطفی خان مرحوم کا یہ قول نقل کرچکا ہوں کہ ''انھیں گجراتی کہیے یا دکنی کہیے، ایک ہی بات ہے، کیونکہ دکن کا اطلاق جنوبی ہند کے علاقے پر ہوتا تھا جو دریائے نربدا سے لے کر گجرات تک اور جنوب میں مدراس اور راس کُماری تک تھا'' (رسالہ تحقیق مضمون قاضی احمد میاں اختر ؔجوناگڑھی مرحوم، شمارہ نمبر آٹھ نو، ۹۵۔۱۹۹۴ء، ص ۱۲)۔ قاضی احمدمیاں اخترؔ جوناگڑھی نے بالتحقیق ثابت کیا ہے کہ ولیؔ کا تعلق احمد آباد، گجرات سے تھا، وہ اورنگ آباد، حیدرآباد اور دہلی سمیت متعدد شہروں میں مقیم رہے، مگر اُنھیں حیدرآبادی یا اورنگ آبادی دکنی سمجھنا خلاف ِ حقیقت ہے۔

اس بحث کا خلاصہ پھر کبھی پیش کرو ں گا، فی الحال دکن کی تعریف مزید واضح کردوں}۔ اس خطیکی آبادی میں مَرٹھواڑا، خاندیش، کرناٹک، حیدرآباد۔کرناٹک، تلنگانہ، جنوبی اور وسطی آندھراپردیش، شِمالی تَمِل ناڈ (ناڈو نہیں) اور گوا اور کیرالہ (کیرلا) کے اقلیتی دکنی باشندے شامل ہیں۔ یہاں یہ لطیف نکتہ بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ دکن یعنی جنوب میں فقط یہی ایک بولی یا زبان نہیں تھی، بلکہ وہاں زمانہ قدیم سے متعدد زبانیں بشمول گجراتی، تیلگو، تامل یا تَمِل، کنڑ، ملیالم بھی رائج تھیں اور ہیں، یہ سب کی سب دکنی ہیں۔


https://www.express.pk/story/2235446/1/

ولی ؔ کے سوا، اردو کے کسی اور شاعر کا یہ امتیاز نہیں کہ اُن کے سنین ولادت وانتقال، جائے پیدائش اور وطن کی نسبت، محققین میں اس قدر اختلاف ہو۔ اُن کا تعلق شاہ وجیہ الدین رحمۃ اللہ علیہ کے خاندان سے تھا، انھی کے مدرسے میں ولیؔ نے ابتدائی تعلیم پائی۔ وہ عہد ِعالمگیر میں پہلی بار اور پھر عہدِمحمد شاہ میں دوبارہ، دہلی گئے تو سید ابوالمعانی اُن کے ہمراہ تھے اور مشہور روایات کے مطابق، انھوں نے وہاں سعد اللہ شاہ گلشنؔ سے ملاقات کی جنھوں نے ولیؔ کو فارسی گوئی کے رواجِ عام کو تَرک کرکے، ریختہ گوئی شروع کرنے کا مشورہ دیا تھا۔

بقولِ قائم چاند پوری:''ولی نے سعد کے مشورے پر عمل کیا اور دوسری مرتبہ دہلی گئے تو ان کے کلام کی خوب قدر ہوئی اور یہاں تک شہرت ہوئی کہ امراء کی محفلوں میں اور جلسوں اور کوچہ و بازار میں ولیؔ کے اشعار لوگوں کی زبان پر تھے'' ( تذکرہ نکاتِ سخن )۔ نامور نقاد شمس الرحمٰن فاروقی (مرحوم) نے اپنی کتاب'' اردو کا ابتدائی زمانہ'' میں یہ روایت یہ کہہ کر رَد کردی کہ یہ بیان محض دہلی والوں کی Imperialism کا نتیجہ ہے کیوں کہ اردو کے اولین تذکرہ نگار میر تقی میر اور قائم چاندپوری یہ بات تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں تھے کہ کوئی خارجی آکے دہلی میں اردو غزل کا آغاز کرے۔

اس لیے سعد اللہ گلشن والا واقعہ ایجاد کیا گیا تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ اصل میں الٹا دہلی والوں نے (یعنی سعداللہ گلشن نے) ولی کو شاعری سکھائی تھی۔ دوسرا مشورہ یہ دیا کہ دکنی الفاظ کا استعمال کم کرو اور ان کی جگہ فارسی کے شیریں الفاظ کا انتخاب کرو''۔

عبدالستار صدیقی نے اپنے مضمون 'ولیؔ کی زبان ' میں ولیؔ کو دکنی شاعر ثابت کرنے کے لیے لکھا ہے:''اب ولی کی زبان کو دیکھنا چاہیے۔ پہلے ان اجزاء سے بحث کرلی جائے، جو ولی کی زبان اور دلّی کے شاعروں میر، سودا، درد اور اُن کے ہم عصروں کی زبان میں مشترک ہیں۔''

1۔لفظ: - بوجھنا (پہچاننا سمجھنا)، بولنا (کہنا کی جگہ)، پَوَن (ہوا)، پی، پیو، سجن، موہن (محبوب کے لیے)، پیونا (پینا) تجھ، مجھ، (تیرا، میرا) جیو، (جی)، لگ (تلک) نین، نَین(آنکھ)، ستی، سیتی (سے) کنے (پاس) نپٹ، نپٹھ (بالکل، سراسر) یہ اور اس طرح کے بہت سے لفظ شاعروں کے کلام کے علاوہ دلّی، پنجاب، صوبہ متحدہ اور بہار میں اب تک بولے جاتے ہیں۔ کسی لفظ میں حرف علّت کا گھٹ کر ایک حرکت ہی رہ جانا یا حرکت کا کھنچ کر حرف ہوجانا، جیسے اُپر (اوپر) دکھو (دیکھو) لاگا (لگا)، لوہو (لہو)، اودھر، ایدھر، جیدھر۔ تشدید، کا جاتا رہنا یا اکہرے حروف پر تشدید کا آجانا، جیسے ''اتنا'' سے ''اتّا'' اور ''پات'' سے ''پتّا'' ہوجانا۔ یہ سب صورتیں دلّی کے شاعروں کے کلام میں بھی موجود ہیں۔ نون غنّہ پُرانے زمانے میں بہت تھا، یہاں تک بعضے لوگ فارسی لفظوں ''کوچہ''، ''پیچ''، ''پائچہ'' کو ''کونچہ''، ''پینچ''، ''پائنچہ'' لکھا کرتے تھے۔ توں (تو) کوں (کو) سیں (سے) نیں (نے) سداں (سدا)، دیکھناں (دیکھنا) وغیرہ بہت عام تھے۔

ملفوظہؔ خاص کر دلّی اور پچھاں کے اور مقامات میں اکثر جاتی رہتی ہے اور اس کی جگہ اکثر ایک مخلوط یؔ یا ہمزہ لے لیتا ہے، جیسے ''بہت'' کی جگہ ''بوت''، ''کہتا'' کے لیے ''کے تا''، ''کہوں''، (کؤں) اسی طرح ''کئیں'' یا ''کئں'' اور ''وئن'' اور ''نِئں'' عام طور پر سنا جاتا ہے۔ لکھاوٹ میں آکر ایک صورت کی ترجمانی نہیں ہوتی یا نہیں ہوسکتی، تو وہ صورت زبان سے مٹ نہیں جاتی۔ ملفوظ ہؔکہیں حذف ہوجاتی ہے، جیسے ''گھبراہٹ'' سے ''گھبراٹ'' کہیں مخلوط ہوجاتی ہے، جیسے ''وہاں'' سے ''وھاں''، ''یہاں'' سے ''یھاں'' کہیں مخلوط ھ اپنی جگہ بدل لیتی ہے، جیسے ''گڑھنا'' (گھڑنا) بعضے لفظوں میں ان دونوں کا قلب اور ابدال ایک ساتھ ہوا ہے، جیسے ''پہچان'' اور پیچھان''، ''پہونچا'' اور ''پونچھا''۔ لفظ کے بیچ یا آخر میں سے مخلوط ھ اکثر جاتی رہتی ہے اور بھوک (بھوکھ) تڑپ (تڑپھ)، دھوکا (دھوکھا) سامنا (سامنھا) مانجنا (مانجھنا) بھکاری (بھکھاری) اب سے تھوڑے دن پہلے تک دونوں طرح سے لکھے جاتے رہے ہیں''۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ ولیؔ کو جس زبان (یعنی اردو)میں شعرگوئی کے سبب شہرت ِدوام ملی ، اس کے وطن یا جنم بھومی کے متعلق بھی اختلافِ رائے موجود ہے۔ اردو کے فروغ میں گجرات اور گجراتی زبان و اہل قلم کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ ہم برملا گجراتی کو اردو کی بڑی بہن قراردیتے ہیں۔

موضوع کو سمیٹتے ہوئے اس عظیم سخنور کے کلام میں شامل، گجراتی یا گجرات کی قدیم اردو کے ذخیرہ الفاظ و محاورات کی فہرست پیش کرتا ہوں:

کَپَٹ (حسد،رنج، بغض وکِینہ)، نال (آنول نال) بِستار (پہنائی، وسعت، تفصیل و تشریح)، طُومار (مِسل)، سِینے کا سال (سینے کا کانٹا یا پھانس)، دَھَرم کا کام (کارِ ثواب)، بھار (وزن، بوجھ)، اڑکا (اٹکا)، اڑکنا (اٹکنا)، اڑکانا (اٹکانا)، وِسواس (اعتبارواعتماد)، آدھار کرنا (دارومداررَکھنا)، چِتَرنا (تصویربنانا)، جَھلجھلاٹ (جگمگاہٹ، استعارتاً رُعب و جلال)، میا (رحم)، چُوتا ہے (ٹپکتا ہے)، چِیرا(پگڑی)، پَٹکا (کمر سے بندھا ہوا لمبا چوڑا رُومال)، بَتہ یا بَتّا (سِل کا بَٹّا)، آل (گزند، آنچ)، کان دھرنا (توجہ سے سننا)، سُرمے کی سَلی (سرمے کی سلائی)، سنجاب (سنجاف، کُرتے یا پشواز کا استر)، بھوئیں (زمین)، جوکھا (تولا)، حیاتی (زندگی: نیز پنجابی وسرائیکی میں مستعمل)، چَپَل (پھُرتِیلا، چالاک)، پُور (سیلاب)، ہُلاس (خوشی)، فتنے کی جَڑ (دلّی، میرٹھ اور گجرات میں مشترک)،

ڈاڑم (انار)، ہٹ چھُٹا(ہت چھٹ، پھکیت)، اَجانا (انجان)، ناٹھ گئے (بھاگ گئے)،کسبل (کسبن یعنی قحبہ، کسبی)، کُنّواں (کنواں)، ہاٹ (دُکان)، ہٹڑی (دُکنیا، چھوٹی دکان)، اوجھل (پردہ)، کاڑنا (نکالنا)، چھند (مکروفریب، چالاکی)، گھانے کا بیل (کولھو کا بیل)، اَدھر (معلّق)، لڑاہنایا لَڈانا (اُچھالنا، جُھلانا، زیادہ ہاتھ ہلانا)، دیوی (چھوٹا چراغ: یہ وہی قدیم اردو، ہندی اور پنجابی کا دِیوا ہے)، رُوسنا (روٹھنا)، اُپرا پینچ (پگڑی کا آخری بالائی پیچ)، جھَرنا (گرنا،ٹپکنا: بقول ڈاکٹر غلام مصطفی خان یہی لفظ جبل پور میں مستعمل رِسنا ہے)، گھرگھالے (کئی گھر لُوٹے یا ویران کیے)، بقّال پُرفن (عیّار بنیے کا لونڈا)، کُلاہ ِ بارانی (چھجّے دار برساتی ٹوپی، فیلٹ ہیٹ)، رام رامی (علیک سلیک کی جگہ رام رام کہنا)، گو ل دستار (چکری پگڑی)، مناہی (ممانعت: عربی الاصل لفظ جویوپی اور سی پی بھی رائج) ]مضامین ِ اخترؔ جوناگڑھی[۔

ڈاکٹر فہیم اعظمی، مدیر ماہنامہ صریر نے اس خاکسار سے جو فرمائشیں مختلف اوقات میں علمی وادبی کاموں کے حوالے سے کیں، اُن میں ایک یہ تھی کہ میں قاضی اخترؔ جوناگڑھی کی تحقیق ، سہل زبان میں تلخیص کرکے، نوجوان نسل کے لیے پیش کروں، سو اُس کی کسی حد تک تعمیل کا آغاز ہوگیا ہے۔
Load Next Story