عام انتخابات اور سیاسی پنچھیوں کی سوچ
موسمی سیاستدان ہوا کا رخ دیکھتے ہوئے اپنا ٹھکانہ بدلنے کے بارے میں سوچ و بچار میں مصروف ہیں
NEW DELHI:
2023 عام انتخابات کا سال ہے اور اگلے سال یعنی 2022 میں الیکشن کمیشن کی جانب سے عام انتخابات کی تیاریاں شروع کردی جائیں گی۔ اپوزیشن کی جانب سے بھی عام انتخابات کی تیاریوں کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے اور سیاسی پنچھیوں کا بھی گھونسلے بدلنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔
ہوا کا رخ دیکھتے ہی موسمی پنچھی اپنا ٹھکانہ بدلتے رہتے ہیں اور سیاسی جماعتیں بھی اپنے ناراض کارکنوں کو منانے اور دوسری جماعتوں کے کارکنوں کو اپنی پارٹی میں شامل کرنے کا سلسلہ شروع کیے ہوئے ہیں۔
2018 کے انتخابات میں ہوا کا رخ یہ تعین کررہا تھا کہ انتخابات میں کون سی جماعت برسر اقتدار آئے گی۔ اسی لیے اقتدار کی ہواؤں میں رہنے والے پنچھیوں نے تحریک انصاف کو اپنا ٹھکانہ بنایا۔ اگرچہ عام انتخابات میں ابھی تقریباً دو سال کا عرصہ ہے اسی لیے حکومتی جماعت سے موسمی سیاستدان ابھی ٹھکانہ بدلنے کے بارے میں سوچ و بچار میں مصروف ہیں۔ وہ بھی اسلام آباد کی جانب سے تبدیلی کی چلنے والی ہواؤں کا رخ دیکھ کر اس بار اپنے ٹھکانے بدلنے کے بارے میں ہی سوچیں گے۔
حکومتی پارٹی میں کچھ سیاسی پنچھی ایسے ضرور ہیں جنہیں ہواؤں کا رخ بدلنے کا انداز ہوجاتا ہے اور وقت سے قبل ہی اپنی اڑان بھر لیتے ہیں۔
نجی محفل میں مستقبل کے سیاسی حالات کے حوالے سے بحث ہورہی تھی۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ حکومت وقت سے قبل گھر چلی جائے گی اور بعض لوگوں کی رائے تھی کہ اب کم و بیش دو سال کے عرصے میں حکومت کو سیاسی شہید نہیں کیا جائے گا۔ ملک میں بڑھتی مہنگائی، ڈالر کی اونچی اڑان، بے روزگاری، بجلی کی بڑھتی قیمتوں کے باعث یہ حکومت اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مار چکی ہے۔ لیکن سب کی ایک رائے متفق تھی کہ جس روز بدلتے سیاسی موسم کا اندازہ لگانے والے ان چند سیاسی پنچھیوں نے حکومتی جماعت سے اڑان بھری، اسی روز سے حکومتی جماعت کی الٹی گنتی شروع ہوجائے گی۔
اسی لیے سیاسی منظرنامے پر ںظر رکھنے والے ان سیاسی پنچھیوں پر نظریں جمائے ہوئے ہیں کہ وہ کب اڑان بھرنے کی تیاری کرتے ہیں۔ مستقبل کا سیاسی منظرنامہ اگرچہ مختلف منظرکشی کررہا ہے لیکن ابھی طے نہیں ہوپایا کہ اونٹ کیا کروٹ بدلتا ہے۔
عام انتخابات سے قبل خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کا میدان سجنے جارہا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے خیبرپختونخوا حکومت کے نہ چاہتے ہوئے بھی بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری کردیا ہے۔ حکومت کی کوشش تھی کہ وہ حیلے بہانوں سے وقت کسی نہ کسی طرح گزار لے، لیکن ابھی خیبرپختونخوا میں دسمبر بلدیاتی انتخابات کا مہینہ ہے۔
پہلے مرحلے میں 17 اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کرائے جارہے ہیں جبکہ جنوری میں دوسرے مرحلے کے انتخابات ہوں گے۔ بلدیاتی انتخابات سے قبل قبائلی اضلاع کے انتخابات اور نوشہرہ میں ہونے والے ضمنی انتخاب کا جائزہ لیں تو حکومتی جماعت خاطر خواہ نتائج نہیں دے سکی۔
نوشہرہ کی نشست تو حکومتی جماعت اندرونی اختلاف کے باعث گنوا بیٹھی جبکہ قبائلی اضلاع کی 16 نشستوں پر پی ٹی آئی پانچ سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوئی۔ جے یو آئی نے تین، آزاد ارکان نے چھ، جماعت اسلامی اور اے این پی نے ایک ایک سیٹ جیتی۔
کنٹونمنٹ بورڈ کے حالیہ انتخابات میں بھی پی ٹی آئی نے حکومت میں ہونے کے باجود مایوس کن نتائج دیے۔ پشاور کی پانچ کنٹونمںٹ نشستوں میں سے پی ٹی آئی صرف ایک نشست جیت سکی۔
اب تک خیبرپختونخوا کے انتخابی دنگل میں مجموعی طور پر پی ٹی آئی کے مدمقابل اے این پی اور پیپلزپارٹی رہی ہیں۔ اس صورتحال میں اگر مستقبل کے ممکنہ سیاسی منظرنامے کی منظر کشی کریں تو جے یو آئی اور اے این پی، پی ٹی آئی کےلیے خطرہ بن سکتی ہیں۔
تحریک انصاف کے اقتدار کا سورج خیبرپختونخوا سے طلوع ہوا۔ اس وقت سیاسی میدان میں جوڑ توڑ کے ماہر پرویزخٹک نے پارٹی کو عروج دیا، بیوروکریسی کو حاوی ہونے نہیں دیا۔ اگرچہ اس وقت بھی پارٹی اندرونی اختلاف کا شکار تھی لیکن پرویز خٹک نے اختلافات ظاہر ہونے نہیں دیے۔
تاہم موجودہ دور میں کئی بار وزرا کو تبدیل کیا گیا اور جن وزرا کو کابینہ سے باہر کیا گیا، انہیں دوبارہ کابینہ کا حصہ بنادیا گیا جس سے عوام کو بھی حکومتی سنجیدگی کا اندازہ ہونے لگا ہے۔
گزشتہ دور حکومت کے مقابلے میں پی ٹی آئی کا موجودہ دور حکومت نہ پارٹی ورکرز کےلیے بہتر قرار دیا جارہا ہے اور نہ ہی صوبے کے لیے۔ اسی لیے آنے والے عام انتخابات میں بھی بہت سے نئے چہرے لانے کے بارے میں قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں بھی حکومتی جماعت کے پنچھی اڑان بھرنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔
حکومتی جماعت کی کوشش ہوگی کہ وہ بلدیاتی انتخابات میں بہتر نتائج دے۔ اپوزیشن جماعتیں بھی حکومت کے خلاف صف آرا ہورہی ہیں۔
جے یو آئی نے ولیج کونسلز، نیبرہُڈ کونسلز سطح کی تنظیموں کو اختیار دیا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے سوا تمام جماعتوں سے سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرسکتے ہیں۔
دوسری جانب پیپلز پارٹی بھی صوبے میں متحرک ہوگئی ہے۔ نجم الدین خان کے صدر بننے کے بعد روٹھے ہوئے جیالوں کو منانے کی کوششیں تیز کردی گئی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری آنے والے دنوں میں صوبے کے مختلف علاقوں میں جلسوں کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔
خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج مستقبل کا سیاسی منظرنامہ واضح کریں گے۔ صوبے میں پی ٹی آئی کے مستقبل کا تعین بلدیاتی انتخابات کے نتائج سے ہوگا اور سیاسی پنچھی اپنے ٹھکانے بدلنے کا فیصلہ بلدیاتی انتخابات کے تناظر میں کریں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
2023 عام انتخابات کا سال ہے اور اگلے سال یعنی 2022 میں الیکشن کمیشن کی جانب سے عام انتخابات کی تیاریاں شروع کردی جائیں گی۔ اپوزیشن کی جانب سے بھی عام انتخابات کی تیاریوں کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے اور سیاسی پنچھیوں کا بھی گھونسلے بدلنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔
ہوا کا رخ دیکھتے ہی موسمی پنچھی اپنا ٹھکانہ بدلتے رہتے ہیں اور سیاسی جماعتیں بھی اپنے ناراض کارکنوں کو منانے اور دوسری جماعتوں کے کارکنوں کو اپنی پارٹی میں شامل کرنے کا سلسلہ شروع کیے ہوئے ہیں۔
2018 کے انتخابات میں ہوا کا رخ یہ تعین کررہا تھا کہ انتخابات میں کون سی جماعت برسر اقتدار آئے گی۔ اسی لیے اقتدار کی ہواؤں میں رہنے والے پنچھیوں نے تحریک انصاف کو اپنا ٹھکانہ بنایا۔ اگرچہ عام انتخابات میں ابھی تقریباً دو سال کا عرصہ ہے اسی لیے حکومتی جماعت سے موسمی سیاستدان ابھی ٹھکانہ بدلنے کے بارے میں سوچ و بچار میں مصروف ہیں۔ وہ بھی اسلام آباد کی جانب سے تبدیلی کی چلنے والی ہواؤں کا رخ دیکھ کر اس بار اپنے ٹھکانے بدلنے کے بارے میں ہی سوچیں گے۔
حکومتی پارٹی میں کچھ سیاسی پنچھی ایسے ضرور ہیں جنہیں ہواؤں کا رخ بدلنے کا انداز ہوجاتا ہے اور وقت سے قبل ہی اپنی اڑان بھر لیتے ہیں۔
نجی محفل میں مستقبل کے سیاسی حالات کے حوالے سے بحث ہورہی تھی۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ حکومت وقت سے قبل گھر چلی جائے گی اور بعض لوگوں کی رائے تھی کہ اب کم و بیش دو سال کے عرصے میں حکومت کو سیاسی شہید نہیں کیا جائے گا۔ ملک میں بڑھتی مہنگائی، ڈالر کی اونچی اڑان، بے روزگاری، بجلی کی بڑھتی قیمتوں کے باعث یہ حکومت اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مار چکی ہے۔ لیکن سب کی ایک رائے متفق تھی کہ جس روز بدلتے سیاسی موسم کا اندازہ لگانے والے ان چند سیاسی پنچھیوں نے حکومتی جماعت سے اڑان بھری، اسی روز سے حکومتی جماعت کی الٹی گنتی شروع ہوجائے گی۔
اسی لیے سیاسی منظرنامے پر ںظر رکھنے والے ان سیاسی پنچھیوں پر نظریں جمائے ہوئے ہیں کہ وہ کب اڑان بھرنے کی تیاری کرتے ہیں۔ مستقبل کا سیاسی منظرنامہ اگرچہ مختلف منظرکشی کررہا ہے لیکن ابھی طے نہیں ہوپایا کہ اونٹ کیا کروٹ بدلتا ہے۔
عام انتخابات سے قبل خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کا میدان سجنے جارہا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے خیبرپختونخوا حکومت کے نہ چاہتے ہوئے بھی بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری کردیا ہے۔ حکومت کی کوشش تھی کہ وہ حیلے بہانوں سے وقت کسی نہ کسی طرح گزار لے، لیکن ابھی خیبرپختونخوا میں دسمبر بلدیاتی انتخابات کا مہینہ ہے۔
پہلے مرحلے میں 17 اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کرائے جارہے ہیں جبکہ جنوری میں دوسرے مرحلے کے انتخابات ہوں گے۔ بلدیاتی انتخابات سے قبل قبائلی اضلاع کے انتخابات اور نوشہرہ میں ہونے والے ضمنی انتخاب کا جائزہ لیں تو حکومتی جماعت خاطر خواہ نتائج نہیں دے سکی۔
نوشہرہ کی نشست تو حکومتی جماعت اندرونی اختلاف کے باعث گنوا بیٹھی جبکہ قبائلی اضلاع کی 16 نشستوں پر پی ٹی آئی پانچ سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوئی۔ جے یو آئی نے تین، آزاد ارکان نے چھ، جماعت اسلامی اور اے این پی نے ایک ایک سیٹ جیتی۔
کنٹونمنٹ بورڈ کے حالیہ انتخابات میں بھی پی ٹی آئی نے حکومت میں ہونے کے باجود مایوس کن نتائج دیے۔ پشاور کی پانچ کنٹونمںٹ نشستوں میں سے پی ٹی آئی صرف ایک نشست جیت سکی۔
اب تک خیبرپختونخوا کے انتخابی دنگل میں مجموعی طور پر پی ٹی آئی کے مدمقابل اے این پی اور پیپلزپارٹی رہی ہیں۔ اس صورتحال میں اگر مستقبل کے ممکنہ سیاسی منظرنامے کی منظر کشی کریں تو جے یو آئی اور اے این پی، پی ٹی آئی کےلیے خطرہ بن سکتی ہیں۔
تحریک انصاف کے اقتدار کا سورج خیبرپختونخوا سے طلوع ہوا۔ اس وقت سیاسی میدان میں جوڑ توڑ کے ماہر پرویزخٹک نے پارٹی کو عروج دیا، بیوروکریسی کو حاوی ہونے نہیں دیا۔ اگرچہ اس وقت بھی پارٹی اندرونی اختلاف کا شکار تھی لیکن پرویز خٹک نے اختلافات ظاہر ہونے نہیں دیے۔
تاہم موجودہ دور میں کئی بار وزرا کو تبدیل کیا گیا اور جن وزرا کو کابینہ سے باہر کیا گیا، انہیں دوبارہ کابینہ کا حصہ بنادیا گیا جس سے عوام کو بھی حکومتی سنجیدگی کا اندازہ ہونے لگا ہے۔
گزشتہ دور حکومت کے مقابلے میں پی ٹی آئی کا موجودہ دور حکومت نہ پارٹی ورکرز کےلیے بہتر قرار دیا جارہا ہے اور نہ ہی صوبے کے لیے۔ اسی لیے آنے والے عام انتخابات میں بھی بہت سے نئے چہرے لانے کے بارے میں قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں بھی حکومتی جماعت کے پنچھی اڑان بھرنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔
حکومتی جماعت کی کوشش ہوگی کہ وہ بلدیاتی انتخابات میں بہتر نتائج دے۔ اپوزیشن جماعتیں بھی حکومت کے خلاف صف آرا ہورہی ہیں۔
جے یو آئی نے ولیج کونسلز، نیبرہُڈ کونسلز سطح کی تنظیموں کو اختیار دیا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے سوا تمام جماعتوں سے سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرسکتے ہیں۔
دوسری جانب پیپلز پارٹی بھی صوبے میں متحرک ہوگئی ہے۔ نجم الدین خان کے صدر بننے کے بعد روٹھے ہوئے جیالوں کو منانے کی کوششیں تیز کردی گئی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری آنے والے دنوں میں صوبے کے مختلف علاقوں میں جلسوں کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔
خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج مستقبل کا سیاسی منظرنامہ واضح کریں گے۔ صوبے میں پی ٹی آئی کے مستقبل کا تعین بلدیاتی انتخابات کے نتائج سے ہوگا اور سیاسی پنچھی اپنے ٹھکانے بدلنے کا فیصلہ بلدیاتی انتخابات کے تناظر میں کریں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔