پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی سرکاری اورنجی اداروں کے ڈیٹا میں واضح فرق
پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی میں کمی کے لئے 10 بلین ٹری منصوبے سمیت کئی اقدامات اٹھائے جارہے ہیں
پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی میں کمی کے لئے 10 بلین ٹری منصوبے سمیت کئی اقدامات اٹھائے جارہے ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستان کے کئی شہر خاص طور پر لاہور اور کراچی دنیا کے 10 آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں شامل ہوتے ہیں۔
ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے ہمارے یہاں آلودگی کی جانچ کرنے والے آلات کی تنصیب درست طور پر نہیں کی گئی ہے جب کہ بعض اوقات کسی مخصوص علاقے میں مخصوص اوقات کا ڈیٹا جاری کردیا جاتا ہے جبکہ سرکاری اورنجی اداروں کی طرف سے جاری ہونے والے ڈیٹا میں بھی واضح فرق ہوتا ہے۔
لاہور میں 17 اکتوبر کو آئی کیو ایئر کی طرف سے فراہم کئے گئے ڈیٹا کے مطابق ایئر کوالٹی انڈکس 194 تھا جبکہ پنجاب انوائرمنٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ کے ڈیٹا کے مطابق زیادہ سے زیادہ انڈکس 181 ریکارڈ کیا گیا۔ اسی طرح 21 اکتوبر کو آئی کیو کے مطابق لاہور میں ایئر کوالٹی انڈکس 193 اور ای پی اے کے مطابق 299 تھا جب کہ 26 اکتوبر کو آئی کیو نے ایئر کوالٹی انڈیکس 209 اورای پی اے نے 134 بتایا ہے۔ دونوں اداروں کی طرف سے فراہم کیا جانے والا ڈیٹا لاہور کے مختلف علاقوں کا ہے۔
محکمہ موسمیات کے چیف میٹرالوجسٹ صاحبزادہ خان نے ٹربیون سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سب سے پہلے تو ہمیں فوگ اور اسموگ میں فرق کرنے کی ضرورت ہے۔ ابھی تک لاہور سمیت پنجاب میں کہیں بھی فوگ اور اسموگ شروع نہیں ہوئی ہے۔ ہمیں کسی نجی ادارے کے اعدادوشمار دیکھنے کی بجائے سرکاری ادارے کی طرف سے فراہم کئے جانے والے ڈیٹا پراعتماد کرنا چاہیے۔ ایک غیرملکی قونصل خانے کی طرف سے لاہور کی شملہ پہاڑی کے قریب ائیرکوالٹی کی مانیٹرنگ کے لئے سینسر لگائے ہیں یہ وہ علاقہ ہے جہاں ہروقت ٹریفک کا رش رہتا ہے۔ اس وجہ سے دھواں اورآلودگی زیادہ ہوتی ہے اور ایئرکوالٹی انڈکس بڑھ جاتا ہے۔ ان کے خیال میں کسی ایک جگہ کے ڈیٹا کو پورے لاہور سے منسوب کرنا بددیانتی ہے۔ ان کے پاس جدید ترین آلات ہیں جو درست ڈیٹافراہم کرتے ہیں۔
لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی کے شعبہ ماحولیات کی سربراہ پروفیسرڈاکٹر عارفہ طاہر کہتی ہیں ان کے نزدیک محکمہ ماحولیات کی بجائے غی رملکی این جی او کی طرف سے فراہم کیا جانے والا ڈیٹا زیادہ قابل اعتماد ہوتا ہے لیکن انہوں نے جوآلات نصب کئے ہیں ان کی تنصیب ٹھیک نہیں، وہ آلات ایک بلند جگہ پر لگائے گئے ہیں جہاں زیادہ دھواں اور آلودگی ہوتی ہے اس وجہ سے وہاں ایئر کوالٹی انڈیکس زیادہ ظاہر ہوتا ہے، ایئر کوالٹی انڈکس کی شرح کے لئے مختلف علاقوں سے مختلف اوقات میں ڈیٹا لے کراس کی اوسط نکالنی چاہیے۔ ہمیں حکومتی ادارے کے ڈیٹا پر انحصار کرنا چاہیے لیکن بدقسمتی سے محکمہ تحفظ ماحولیات کے پاس جدید آلات ہی نہیں ہیں۔
ڈاکٹر عارفہ طاہرنے بتایا ماحولیاتی تبدیلی اس وقت پاکستان کی سلامتی سے جڑی ہے، پاکستان جنوبی ایشیا میں ایسے خطے پر ہے جہاں اسے ہمسایہ ممالک کی آلودگی کا بھی سامنا کرنا پڑرہا ہے، پاکستان خودآلودگی کم پیدا کرتا ہے جب کہ اطراف سے زیادہ ریسیو کررہا ہے۔ انہوں نے مثال دی کہ جب پاکستان کی مشرقی سرحد سے جڑے بھارتی علاقوں میں فصلوں کو جلایا جاتا ہے تو اکثر وہاں سے دھواں اور کثیف ذرات پاکستان میں آتے ہیں۔
وزیر ماحولیات پنجاب محمد رضوان نے ٹربیون سے بات کرتے ہوئے دعوی کیا کہ گزشتہ 2 سال میں پنجاب میں اسموگ آئی ہی نہیں ، بعض علاقوں میں ہیز ہوتی ہے جب درجہ حرارت کم اورہوا میں نمی بڑھ جاتی ہے تو فضامیں موجود گرد اور مٹی کے اجزا اس میں شامل ہوکر ہیز کی شکل اختیار کرلیتے ہیں اور دھندلا نظر آنے لگتا ہے۔
صوبائی وزیرکے مطابق آلودگی کی جانچ کے لئے مانیٹرزکومخصوص انداز،جگہ اوراونچائی پرنصب کرناہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے جن دوستوں نے یہ آلات نصب کئے ہیں ان کی تنصیب درست نہیں کی گئی ہے ،جس کی وجہ سے حقیقی ڈیٹاسامنے نہیں آتا ہے۔انہوں نے کہا وہ اپنے ان دوستوں سے کہتے ہیں کہ وہ ڈیٹاجاری کریں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن درست ڈیٹاجاری کریں،وہ چاہیں توہم اپنی ٹیکنیکل ٹیم بھیجنے کوتیارہیں جوان کی رہنمائی کرسکتی ہے۔ محمدرضوان نے کہا درست ڈیٹاملنے پراپنی بھی اصلاع کریں گے اوراقدامات بھی اٹھائیں گے لیکن جان بوجھ کرپاکستان کوبدنام کرنے کاعمل اب بند ہوجانا چاہیے۔
ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے ہمارے یہاں آلودگی کی جانچ کرنے والے آلات کی تنصیب درست طور پر نہیں کی گئی ہے جب کہ بعض اوقات کسی مخصوص علاقے میں مخصوص اوقات کا ڈیٹا جاری کردیا جاتا ہے جبکہ سرکاری اورنجی اداروں کی طرف سے جاری ہونے والے ڈیٹا میں بھی واضح فرق ہوتا ہے۔
لاہور میں 17 اکتوبر کو آئی کیو ایئر کی طرف سے فراہم کئے گئے ڈیٹا کے مطابق ایئر کوالٹی انڈکس 194 تھا جبکہ پنجاب انوائرمنٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ کے ڈیٹا کے مطابق زیادہ سے زیادہ انڈکس 181 ریکارڈ کیا گیا۔ اسی طرح 21 اکتوبر کو آئی کیو کے مطابق لاہور میں ایئر کوالٹی انڈکس 193 اور ای پی اے کے مطابق 299 تھا جب کہ 26 اکتوبر کو آئی کیو نے ایئر کوالٹی انڈیکس 209 اورای پی اے نے 134 بتایا ہے۔ دونوں اداروں کی طرف سے فراہم کیا جانے والا ڈیٹا لاہور کے مختلف علاقوں کا ہے۔
محکمہ موسمیات کے چیف میٹرالوجسٹ صاحبزادہ خان نے ٹربیون سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سب سے پہلے تو ہمیں فوگ اور اسموگ میں فرق کرنے کی ضرورت ہے۔ ابھی تک لاہور سمیت پنجاب میں کہیں بھی فوگ اور اسموگ شروع نہیں ہوئی ہے۔ ہمیں کسی نجی ادارے کے اعدادوشمار دیکھنے کی بجائے سرکاری ادارے کی طرف سے فراہم کئے جانے والے ڈیٹا پراعتماد کرنا چاہیے۔ ایک غیرملکی قونصل خانے کی طرف سے لاہور کی شملہ پہاڑی کے قریب ائیرکوالٹی کی مانیٹرنگ کے لئے سینسر لگائے ہیں یہ وہ علاقہ ہے جہاں ہروقت ٹریفک کا رش رہتا ہے۔ اس وجہ سے دھواں اورآلودگی زیادہ ہوتی ہے اور ایئرکوالٹی انڈکس بڑھ جاتا ہے۔ ان کے خیال میں کسی ایک جگہ کے ڈیٹا کو پورے لاہور سے منسوب کرنا بددیانتی ہے۔ ان کے پاس جدید ترین آلات ہیں جو درست ڈیٹافراہم کرتے ہیں۔
لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی کے شعبہ ماحولیات کی سربراہ پروفیسرڈاکٹر عارفہ طاہر کہتی ہیں ان کے نزدیک محکمہ ماحولیات کی بجائے غی رملکی این جی او کی طرف سے فراہم کیا جانے والا ڈیٹا زیادہ قابل اعتماد ہوتا ہے لیکن انہوں نے جوآلات نصب کئے ہیں ان کی تنصیب ٹھیک نہیں، وہ آلات ایک بلند جگہ پر لگائے گئے ہیں جہاں زیادہ دھواں اور آلودگی ہوتی ہے اس وجہ سے وہاں ایئر کوالٹی انڈیکس زیادہ ظاہر ہوتا ہے، ایئر کوالٹی انڈکس کی شرح کے لئے مختلف علاقوں سے مختلف اوقات میں ڈیٹا لے کراس کی اوسط نکالنی چاہیے۔ ہمیں حکومتی ادارے کے ڈیٹا پر انحصار کرنا چاہیے لیکن بدقسمتی سے محکمہ تحفظ ماحولیات کے پاس جدید آلات ہی نہیں ہیں۔
ڈاکٹر عارفہ طاہرنے بتایا ماحولیاتی تبدیلی اس وقت پاکستان کی سلامتی سے جڑی ہے، پاکستان جنوبی ایشیا میں ایسے خطے پر ہے جہاں اسے ہمسایہ ممالک کی آلودگی کا بھی سامنا کرنا پڑرہا ہے، پاکستان خودآلودگی کم پیدا کرتا ہے جب کہ اطراف سے زیادہ ریسیو کررہا ہے۔ انہوں نے مثال دی کہ جب پاکستان کی مشرقی سرحد سے جڑے بھارتی علاقوں میں فصلوں کو جلایا جاتا ہے تو اکثر وہاں سے دھواں اور کثیف ذرات پاکستان میں آتے ہیں۔
وزیر ماحولیات پنجاب محمد رضوان نے ٹربیون سے بات کرتے ہوئے دعوی کیا کہ گزشتہ 2 سال میں پنجاب میں اسموگ آئی ہی نہیں ، بعض علاقوں میں ہیز ہوتی ہے جب درجہ حرارت کم اورہوا میں نمی بڑھ جاتی ہے تو فضامیں موجود گرد اور مٹی کے اجزا اس میں شامل ہوکر ہیز کی شکل اختیار کرلیتے ہیں اور دھندلا نظر آنے لگتا ہے۔
صوبائی وزیرکے مطابق آلودگی کی جانچ کے لئے مانیٹرزکومخصوص انداز،جگہ اوراونچائی پرنصب کرناہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے جن دوستوں نے یہ آلات نصب کئے ہیں ان کی تنصیب درست نہیں کی گئی ہے ،جس کی وجہ سے حقیقی ڈیٹاسامنے نہیں آتا ہے۔انہوں نے کہا وہ اپنے ان دوستوں سے کہتے ہیں کہ وہ ڈیٹاجاری کریں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن درست ڈیٹاجاری کریں،وہ چاہیں توہم اپنی ٹیکنیکل ٹیم بھیجنے کوتیارہیں جوان کی رہنمائی کرسکتی ہے۔ محمدرضوان نے کہا درست ڈیٹاملنے پراپنی بھی اصلاع کریں گے اوراقدامات بھی اٹھائیں گے لیکن جان بوجھ کرپاکستان کوبدنام کرنے کاعمل اب بند ہوجانا چاہیے۔