کرکٹ اور خالصتان

پاکستان کی اس فتح پر اس دفعہ بھارتی سکھوں نے بھی شاندار جشن منایا ہے۔

usmandamohi@yahoo.com

کرکٹ کا کھیل دراصل ہم پاکستانیوں کے خون میں سرائیت کر گیا ہے۔ ہمارے لوگوں کو اس کھیل سے ایسا والہانہ لگاؤ ہوگیا ہے کہ ہم بہت ضروری کام کو بھی کرکٹ میچ دیکھنے کے لیے روک دیتے ہیں خواہ اس سے نقصان ہی کیوں نہ ہو جائے یہ تو عام لوگوں کی دیوانگی کا عالم ہے۔

ہماری تو پولیس بھی اس کھیل کی ایسی دیوانی ہے کہ وہ قیدیوں کی بھی پرواہ نہیں کرتی۔ لاہور کے ایک علاقے کے تھانے میں حوالات میں بند ڈکیتی کے سنگین مقدمات میں ملوث دو ملزمان حوالات توڑ کر فرار ہوگئے۔ اس لیے کہ تھانے کا تمام عملہ پاک بھارت میچ دیکھنے میں محو تھا۔ جب میچ ختم ہوا تو پتا چلا کہ حوالات میں بند مجرم غائب ہیں۔

ڈاکو دراصل حوالات کی دیوار توڑ کر فرار ہوگئے تھے اور پولیس والوں نے میچ دیکھنے کی جنونیت میں دیوار کے ٹوٹنے کی آواز کو بھی سنا ان سنا کردیا تھا۔ ہم جیت پر ناچتے گاتے اور نعرے لگاتے ہیں ساتھ ہی اندھا دھند فائرنگ بھی شروع کردیتے ہیں اور یہ بھی نہیں دیکھتے کہ اس سے کیا نقصان ہوگا۔

ایک یہ بھی خبر ہے کہ ایک شخص اس میچ پر ایک بڑی رقم جوئے میں لگا کر ہار گیا اور جب اسے اپنے لٹنے کا احساس ہوا تو وہ خودکشی کرنے پر مجبور ہوگیا مگر پیشتر اس کے کہ وہ موت کو گلے لگاتا پولیس نے اسے آ دبوچا۔

بھارت میں بھی عوام کا یہی حال ہے ہمارے امن پرست طبقہ کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ فوراً کرکٹ کے کھیل پر پابندی لگا دیں ، اس لیے کہ اس کی جیت اور ہار سے دونوں ممالک میں دشمنی بڑھتی جا رہی ہے۔ جب تک یہ کھیل جاری رہے گا دونوں ممالک میں دشمنی ختم نہیں ہوگی اور دونوں ممالک اپنے عوام کی خوشحالی پر توجہ دینے کے بجائے جنگی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے اپنے وسائل ضایع کرتے رہیں گے۔

گزشتہ اتوار کرکٹ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان کی بھارت کے خلاف شاندار کامیابی نے پاکستانیوں کے دلوں کو تو ضرور ٹھنڈک بخشی ہے مگر بھارت میں تب سے ہی صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔ بھارتی ٹیم کی شکست نے دراصل بھارتیوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے وہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ اس دفعہ بھی بھارتی ٹیم ماضی کی طرح پاکستان کو شکست دے کر پاکستان پر اپنا دبدبہ قائم رکھے گی۔

بھارتی تجزیہ کار بھی واضح طور پر بھارت کی یقینی کامیابی کے دعوے کر رہے تھے۔ خود بھارتی کرکٹ ٹیم کے کپتان ویرات کوہلی اس میچ کو محض ایک پریکٹس میچ ہی کا درجہ دے رہے تھے ، وہ پوری طرح مطمئن تھے کہ ان کی ٹیم آسانی سے پاکستان کو ہرا کر بھارتیوں کی دیوالی کی خوشی کو دوبالا کر دے گی۔ کاش کہ وہ اس بات کو بھی ذہن میں رکھتے کہ کرکٹ دراصل گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والا کھیل ہے۔ اس کھیل کے بارے میں کوئی ماہر بھی پیش گوئی نہیں کرسکتا۔

بہرحال اب چونکہ بھارت پاکستان سے ہار گیا ہے اس لیے وہاں کے مسلمانوں سے اس کا بدلہ لیا جا رہا ہے۔ اس ہار کا بدلہ کشمیری مسلمانوں سے بھی لیا جا رہا ہے۔ بھارتی پنجاب کے ایک شہر کے کالج میں تعلیم حاصل کرنے والے کشمیری نوجوانوں کو بی جے پی کے غنڈوں نے مارا پیٹا ہے اس لیے کہ وہ پاکستان کی جیت کی خوشی منا رہے تھے۔ ادھر کشمیر میں سری نگر اور دوسرے شہروں میں پاکستانی جیت کا جشن منانے والے کشمیریوں کو بھارتی فوج نے تشدد کا نشانہ بنایا ہے مگر وہ بدستور پاکستانی پرچم لہراتے رہے اور پاکستان زندہ باد کے نعرے بلند کرتے رہے۔


پاکستان کی اس فتح پر اس دفعہ بھارتی سکھوں نے بھی شاندار جشن منایا ہے۔ سکھ اب کھلے عام پاکستان کی تعریفیں کرتے نظر آتے ہیں ، وہ دراصل بھارتی حکومت کی سکھ کش پالیسیوں سے بیزار ہیں۔ سکھ کسان اپنے جائز مطالبات منوانے کے لیے ایک سال سے مسلسل دلی کے اردگرد مظاہرے کر رہے ہیں مگر مودی حکومت ان کے مطالبات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے ، مظاہرہ کرنے والے کئی سکھوں کو قتل کردیا گیا ہے۔

بی جے پی کے ایک رہنما کے بیٹے نے جان بوجھ کر کئی مظاہرین کو اپنی گاڑی سے کچل دیا ہے اس واقعے کو اب ایک ماہ ہو رہا ہے مگر اب تک قاتل کے خلاف کوئی مقدمہ دائر نہیں کیا گیا ہے۔ سکھ دراصل آزادی کے بعد سے ہی بھارت کے خلاف چلے آ رہے ہیں جس کی وجہ ان کے ساتھ نا انصافی اور حق تلفی کا ہونا ہے۔

آزادی سے قبل گاندھی اور نہرو نے واضح طور پر ان کے لیے خالصتان کے نام سے ایک آزاد اور خود مختار ملک قائم کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر بعد میں وہ اس سے مکرگئے اور اب خالصتان کا نام لینا بھی جرم قرار دے دیا گیا ہے۔ تاہم سکھ اپنے آزاد وطن کے لیے ماضی میں بھی کوشش کرتے رہے ہیں اور آج بھی وہ اس سلسلے میں سرگرم ہیں۔

آزاد خالصتان کا نعرہ بلند کرنے پر ہی بھنڈرا والا اور اس کے ساتھیوں کو امرت سر کے گولڈن ٹیمپل میں ٹینکوں سے حملہ کرکے ہلاک کردیا گیا تھا اور گولڈن ٹیمپل کے تقدس کو نقصان پہنچایا تھا۔ اس کی پاداش میں اندرا گاندھی کو قتل کردیا گیا مگر اس کے ردعمل میں پورے بھارت میں سکھوں کا قتل عام کیا گیا۔ سکھ اس قتل عام کو نہیں بھولے ہیں اور اب انھوں نے خالصتان کے قیام کے لیے ریفرنڈم کا آغاز کردیا ہے۔ اس ریفرنڈم کو 31 اکتوبر سے لندن سے شروع کیا جائے گا۔

31 اکتوبر دراصل اس خونی تاریخ کو یاد دلاتا ہے جس دن سے پورے بھارت میں سکھوں کا قتل عام شروع کیا گیا تھا۔ اس قتل عام میں کئی ہزار سکھوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ اب سکھوں نے بھارتی پنجاب ، ہماچل پردیش اور ہریانہ پر مشتمل اپنے آزاد وطن خالصتان کو قائم کرنے کے لیے پھر سے جدوجہد شروع کردی ہے۔

خالصتان کے سلسلے میں ریفرنڈم کا آغاز گزشتہ سال سے شروع ہونا تھا مگر کورونا کی وجہ سے اسے روک دیا گیا تھا اب خالصتان ریفرنڈم کا افتتاح برطانوی پارلیمنٹ کے سامنے کوئن ایلزبتھ سینٹر میں ہوگا۔

سکھ رہنما پرم جیت سنگھ کا کہنا ہے کہ ریفرنڈم سکھوں کا جمہوری حق ہے۔ سکھ قوم اپنی آزادی کا پہلا ووٹ 31 اکتوبر کو کاسٹ کرے گی۔ سکھ فار جسٹس کے رہنما سردار اوتار سنگھ کا کہنا ہے کہ بھارت نے پنجاب پر قبضہ کر رکھا ہے اب سکھ اب اپنا آزاد وطن خالصتان بنا کر دم لیں گے۔

سکھوں کی آزادی کے سلسلے میں کینیڈا کی حکومت نرم رویہ رکھتی ہے۔ کینیڈا میں حالیہ منعقد ہونے والے عام انتخابات میں جہاں ٹروڈو کو کامیابی نصیب ہوئی وہاں اس دفعہ سکھوں کی کافی تعداد کینیڈا کی قومی اسمبلی کی ممبر منتخب ہوئی ہے۔ ٹروڈو کو اپنی حکومت بنانے کے لیے سکھوں سے مدد لینا ہوگی۔

ٹروڈو تو پہلے ہی سکھوں کے حق میں ہیں جس سے بھارتی حکومت ان سے سخت ناراض ہے مگر وہ بھارت کی پرواہ نہیں کرتے ، اگر خالصتان واقعی وجود میں آگیا تو کشمیر کا مسئلہ خود بخود حل ہو جائے گا۔
Load Next Story