مزدوروں کا پہلا انقلاب ’’پیرس کمیون‘‘

کمیون کا وجود ہی یقینی طور پر اس کا دشمن تھا کہ عام رائے دہندہ کی جگہ پکے سرکاری نوکر شاہی کو مل جائے۔

zb0322-2284142@gmail.com

18 مارچ 1871 کی صبح سویرے '' کمیون زندہ باد '' کے فلک شگاف نعروں سے پیرس والوں کی آنکھ کھلی، کمیون ایسا کون سا ابوالہول ہے جس نے بورژوازی کی عقلیں گم کر رکھی ہیں؟

مرکزی کمیٹی نے اپنے 18 مارچ کے مینی فیسٹو میں لکھا '' پیرس کے پرولتاریوں نے حاکم طبقوں کی کمزوری اور بدعہدی دیکھ کر یہ سمجھ لیا کہ وہ وقت آن پہنچا جب مصیبت سے نکلنے کے لیے انھیں سماجی معاملات کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لینی چاہیے۔ انھوں نے دیکھ لیا کہ فرض کا تقاضا اور ان کا یہ قطعی حق ہے کہ سرکاری طاقت سنبھال کر اپنی قسمتوں کے مالک آپ بن جائیں۔''

اس انقلاب میں بلانکسٹ، پردھونسٹ، انقلابی سوشلسٹ اور انٹرنیشنل سوشلسٹ شریک تھے ، کارل مارکس اور ان کے رفقا شریک نہیں تھے۔ اس کے باوجود انٹرنیشنل ورکنگ مینز ایسوسی ایشن کی جانب سے یورپ اور امریکا میں ایسوسی ایشن کے تمام ممبروں کے نام کارل مارکس نے خط لکھا جس کا دیباچہ فیڈرک انگلیرز نے لکھا۔ انٹرنیشنل ورکنگ مینز ایسوسی ایشن میں کامریڈ باکونن، ایماگولڈمان، اینگلز، پیترکروپوتکن اور کارل مارکس بھی شامل تھے ، مگر یہ خط مارکس نے لکھا تھا۔

کمیون میونسپلٹی کے ان ممبروں سے مل کر بنا جو شہر کے مختلف حلقوں سے عام رائے دہندگی کے ذریعے چنے گئے تھے۔ یہ لوگ معاملات کے جواب دہ ٹھہرے اور کسی وقت بھی انھیں ہٹایا جاسکتا ہے۔ ان ممبروں کی اکثریت ظاہر ہے کہ مزدور طبقے سے یا اس کے مانے ہوئے نمایندوں میں سے آئی تھی۔ کمیون کو پارلیمنٹری نہیں بلکہ خود کام کرنے والی کارپوریشن نے بتایا تھا کہ بیک وقت قانون بھی بنائے اور قانون کی تکمیل بھی کرائے پولیس جو تب تک مرکزی حکومت کا کل پرزہ ہوا کرتی تھی، فوراً اپنی تمام سیاسی کارگزاریوں سے محروم کردی گئی۔

اسے کمیون کا ایک ذمے دار محکمہ قرار دے کر یہ شرط رکھ دی کہ کسی بھی وقت عہدے سے برطرف کی جاسکتی ہے، انتظامیہ کے تمام عہدیداروں پر یہی شرط عائد ہوتی تھی۔ کمیون کے ممبروں سے لے کر اوپر سے نیچے تک سب کو سماجی خدمات کا معاوضہ اتنا ہی ملتا تھا جتنا مزدوری میں ملتا ہے۔ اعلیٰ سرکاری عہدوں کو جو خاص حقوق اور الاؤنس وغیرہ ملا کرتے تھے وہ سب ان عہدوں کے ساتھ ہی رخصت ہوگئے۔

سماجی خدمات اب مرکزی حکومت کے مقررکیے ہوئے کارندوں کی نجی ذمے داری نہیں رہ گئی۔ صرف میونسپل انتظام نہیں بلکہ اور تمام کاموں میں پہل کرنا بھی ، جو سرکار کے دائرہ اختیار میں تھا ، کمیون کے سپرد ہوا۔ پرانی حکومت کے مادہ کل پرزوں کو ہٹانے کے ساتھ کمیون فوراً ادھر متوجہ ہوا کہ روحانی دباؤ کے کل پرزوں ''پادریوں کے اقتدار'' کو بھی توڑ پھوڑ کر برابر کیا جائے، اس تدبیر سے کہ کلیسا یا چرچ کو ریاست سے کوئی سروکار نہ ہو اورگرجاؤں کو جو دولت و جائیداد کے اوقاف کے مالک تھے، ان سے بے دخل کردیا جائے۔

پادریوں کو حکم ہوا کہ وہ عام شہری کی طرح زندگی کی طرف واپس جائیں ، تاکہ اپنے قدیم علما و مشائخ کی طرح وہ بھی اہل ایمان کی دی ہوئی روکھی سوکھی پر بسر اوقات کریں، تمام تعلیم گاہوں کے دروازے مفت تعلیم عامہ کے لیے کھول دیے گئے اور انھیں کلیسا اور سرکار دونوں کے دائرہ اختیار سے باہر رکھا گیا اس طرح نہ صرف اسکول کی تعلیم سب لوگوں کے لیے کھل گئی بلکہ علم کے پاؤں کی زنجیریں بھی اتار لی گئیں جس میں طبقاتی تعصبات اور سرکاری اختیارات نے اسے جکڑ رکھا تھا۔

گاؤں میں کمیون کی سیاسی شکل قائم ہوئی۔ دیہات کے حلقوں کے ہر ایک صدر مقام پر نمایندوں کی حلقہ کمیٹی بیٹھے اور ہر ایک حلقے کے زرعی کمیون کے عام مسائل کا انتظام ہاتھ میں لے لے۔ پھر یہ حلقہ وار کمیٹیاں اپنے نمایندے چن کر قومی نمایندے بھیجیں، جو پیرس میں منعقد ہوگا۔


یہ نمایندے سختی سے ان ہدایات کے پابند ہوں گے جو ان کے حلقے کی طرف سے انھیں دی گئی ہیں اور ہر وقت انھیں برطرف کیا جاسکتا ہے لیکن نہایت اہم فرائض پھر بھی بچ رہے جو مرکزی حکومت کے ہاتھ میں رہنے والے تھے اور انھیں واپس نہیں لیا جاسکتا تھا۔ جیساکہ ان کے بارے میں غلط بیانی سے کام لیا جا رہا ہے بلکہ وہ پوری جماعتی کمیٹی (کمیون) کے سر پر تھے یعنی انتہائی ذمے دار عہدیداروں کو سونپے گئے تھے۔

قوم کے اتحاد کو توڑ پھوڑ کر برابر نہیں کرنا تھا بلکہ اس کے برعکس کمیون کے سانچے میں ڈھال کر اسے ازسر نو مرتب ہونا تھا۔ نظریہ تھا کہ پرانی حکومت کے اختیارات میں جتنے جابرانہ محکمے ہیں ان کی جڑ بنیاد سے صاف کردی جائے اور ان کے جائز کارگزاری اس طاقت کے ہاتھ سے چھین کر جسے سماج سے بلند مرتبے پر فائز ہونے کا بے جا دعویٰ ہے۔

سماج کے ذمے دار خادموں کے سپرد کردی جائے۔ بجائے اس کے کہ کہیں تین یا چھ سال میں ایک بار یہ فیصلہ ہو کہ حکمران طبقے کا کون سا آدمی پارلیمنٹ میں لوگوں کی نمایندگی یا دھاندلی کرے گا۔ عام رائے دہندگی کا حق ان لوگوں کے جو کمیون میں منظم ہوئے ہیں اس طرح کام آئے جس طرح انفرادی چناؤ کا حق الگ الگ اس شخص کے کام آتا ہے، جو روزگار دینے میں اپنے کاروبار کے لیے مزدور نگران اور منشی چھانٹتا ہے۔

سب جانتے ہیں کہ فرد واحد کی طرح کاروبار یا ادارے بھی کام ڈھنگ سے چلانے میں صحیح جگہ کے لیے مناسب آدمی کا انتخاب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اگر ان سے غلطی ہو جائے تو ہاتھوں ہاتھ غلطی کو درست بھی کرسکتے ہیں۔

دوسری طرف یہ بھی ہے کہ خود کمیون کا وجود ہی یقینی طور پر اس کا دشمن تھا کہ عام رائے دہندہ کی جگہ پکے سرکاری نوکر شاہی کو مل جائے پیرس کمیون کے اعلان نامے میں ہر گلی، محلہ اور گاؤں میں ہوٹل کا قیام تھا جہاں لوگ مفت کھانا کھاتے تھے۔ اجتماعی دھوبی گھاٹ میں عوام کے کپڑے دھلتے تھے۔ رہائشی مکانوں کے سب کرائے معاف کردیے۔

تاریخ میں پہلی بار مزدور طبقے نے انارکزم نظریے سے لیس ہو کر جس جرأت مندانہ اور بہادری سے انقلاب برپا کیا اورجرمنی، فرانس کی فوج نے جب ان پر حملہ کیا تو انارکسٹوں نے کتنی بے جگری سے لڑے کے لاشیں اٹھانے والے فوجی حیران ہو گئے کہ انھیں ٹھکانے کہاں لگایا جائے۔ بہت سے کامریڈوں کو ادھ موا حالت میں ہی دفن کردیا گیا ، جب کہ سوویت یونین اور مشرقی یورپ میں سرمایہ دار رد انقلاب کے وقت کوئی مزاحمت نہیں ہوئی۔

پریس کمیون حملے پر کمیون ارکان (انارکسٹ) مرد، عورت، بچے، بوڑھے لڑتے ہوئے مزدور طبقے کی سچائی اور شان پر اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ وہ شہید ہوتے وقت بھی ''دنیا کے مزدورو! ایک ہو جاؤ، انارکزم زندہ باد، پیرس کمیون زندہ باد'' کے نعرے بلند کرتے رہے۔ آج پیلی جیکٹ تحریک اس کا تسلسل ہے۔

خط کے آخری حصے میں مارکس کہتا ہے کہ بورژوا ذہن جسے پولیس نے بھر رکھا ہے انٹرنیشنل ورکنگ مینز ایسوسی ایشن کو اس کے سوا اور کیا سمجھے گا یہ کوئی خفیہ سازشوں کی جماعت ہے جس کی مرکزی لیڈر شپ وقتاً فوقتاً مختلف ملکوں میں بغاوت کے شعلے بھڑکایا کرتی ہے اصلیت یہ ہے کہ ہماری انجمن ایک انٹرنیشنل انجمن ہے جو متمدن دنیا کے مختلف ملکوں کے سب سے ترقی یافتہ مزدوروں کا رشتہ جوڑتی ہے کہ ہماری یہ انجمن ایک انٹرنیشنل انجمن ہونے کے ناتے چاہے کہیں اور کیسے ہی حالات میں طبقاتی جدوجہد کیوں نہ اٹھے، اور وہ چاہے کوئی بھی شکل اختیار کرے، قدرتی بات ہے کہ ہماری انجمن کے لوگ اس میں سب سے آگے کھڑے ہوتے ہیں۔

وہ زمین جس پر ہماری یہ انجمن جڑ پکڑتی اور اگتی ہے وہ خود آج کا سماج ہے۔ چاہے کتنا ہی لہو بہا دیا جائے، اس انجمن کو جڑ بنیاد سے نکال پھینکنا ممکن نہیں۔ اس کو جڑ سے نکال پھینکنا ہے تو حکومتوں کو چاہیے کہ محنت پر سرمائے کے جابرانہ اقتدار کا جڑ بنیاد سے کا خاتمہ کردیں۔
Load Next Story