سونامی
عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر جب اقتدار کے ایوانوں میں جاتے ہیں تو پھر پانچ سال تک پلٹ کر عوام کی خبر نہیں لیتے۔
اچھے حاکم اور اچھی حکمرانی کا پہلا ثبوت یہ ہوتا ہے کہ وہ جن لوگوں کے ووٹوں سے منتخب ہو کر ایوان اقتدار میں آئے ہیں۔ ان کے مسائل حل کرنے کے لیے ایسی ٹھوس، جامع، نتیجہ خیز اور دوررس عمل کی دیرپا پالیسیاں بنائیں کہ جن کے طفیل عام آدمی کو احساس ہو کہ حکمران ان کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، انھیں ہماری تکالیف اور دکھ درد کا ادراک ہے اور انھوں نے دوران انتخابی مہم ہم سے جو وعدے کیے تھے ان کو عملی شکل دینے کے لیے حکمران طبقہ سنجیدہ کاوشیں کر رہا ہے۔
لہٰذا اس حکومت کے ساتھ تعاون کیا جانا چاہیے اور اس کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہئیں۔ آپ دنیا کی مہذب قوموں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں وہاں برسر اقتدار حکمرانوں کی پہلی ترجیح اپنے ووٹروں ، سپورٹروں اور عام آدمی کے مسائل حل کرنا ہوتی ہے۔
منتخب ہونے والے عوامی نمایندے اپنے اپنے حلقوں میں تواتر کے ساتھ جاتے رہتے ہیں اور اپنے ووٹروں کے ساتھ رابطہ رکھتے ہیں، ان سے گھل مل جاتے ہیں۔ ان کے مسائل توجہ سے سنتے اور حل کرتے ہیں، حکومت لوگوں کی فلاح و بہبود کے قلیل المدت اور طویل المدت ہر دو طرح کی منصوبہ بندی کرتی ہے۔ تعلیم ، صحت ، علاج معالجے اور روزگار و رہائش کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائے جاتے ہیں۔
بے روزگار لوگوں کو سرکار کی طرف سے وظیفے دیے جاتے ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں مفت علاج کی جدید اور بہترین سہولتیں دی جاتی ہیں، بچوں کی تعلیم کا خرچہ بھی حکومت اٹھاتی ہے، غریب اور کمزور طبقات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔
اسلام میں ایک حقیقی فلاحی ریاست کا جو تصور ہے وہ دنیا کے مہذب و باوقار اور اصول پسند معاشروں میں عملی طور پر نظر آتا ہے۔ اسی باعث وہاں کے لوگ مطمئن اور پرسکون زندگی گزارتے ہیں۔ حکومت کے ساتھ تعاون کرتے، ہر قسم کے ٹیکس جو حکومت نافذ کرتی ہے اسے ادا کرتے ہیں اور حکومتی سہولیات سے مستفید ہوتے ہیں۔
آپ اس پس منظر میں پاکستان کے نظام حکمرانی کا جائزہ لیں تو یہ تکلیف دہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ وطن کے قیام کی سات دہائیاں گزر گئیں، سیاسی و غیر سیاسی ہر دو طرح کے لوگ برسر اقتدار آتے رہے، بعض سیاسی جماعتوں کو دو دو تین تین مرتبہ حکمرانی کے مواقع ملے، عوام نے ان پر بار بار اعتبار کیا، نئی امیدوں اور توقعات پر ایک سے زائد مرتبہ اعتماد کیا۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ گزشتہ ستر سالوں میں برسر اقتدار حاکموں نے اپنے دعوؤں اور عوام سے کیے گئے وعدوں کا کبھی بھرم نہیں رکھا۔
عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر جب اقتدار کے ایوانوں میں جاتے ہیں تو پھر پانچ سال تک پلٹ کر عوام کی خبر نہیں لیتے، اپنے حلقے کے لوگوں سے کوئی رابطہ نہیں رکھتے، اپنے ووٹروں کے مسائل حل کرنا تو دور کی بات ہے ان کی روداد سننے کے بھی روادار نہیں ہوتے۔ عوام سے کیے گئے وعدے اور دعوے سب نقش برآب ثابت ہوتے ہیں، پرنالہ وہیں کا وہیں رہتا ہے۔
وہ عوام جو سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کے بلند و بانگ دعوؤں اور وعدوں سے تنگ آچکے ہیں انھوں نے 2018 کے انتخابات میں روایتی سیاست دانوں کو مسترد کرتے ہوئے پاکستان کرکٹ کے ہیرو عمران خان کو جو دو دہائیوں سے سیاسی جدوجہد کر رہے تھے اور روایتی سیاستدانوں کے '' کارنامے'' اور ان کے نقصانات سے عوام کو آگاہ کرتے ہوئے ان کے دیرینہ مطالبات یعنی روزگار و انصاف کی فراہمی، غربت کے خاتمے، قرضوں کے بار سے نجا ت، گرانی اور مہنگائی کا قلع قمع، کمزور طبقات کو او پر اٹھانا اور عام آدمی کی زندگی میں نظر آنے والی حقیقی ''تبدیلی'' کے بلند و بانگ دعوے کر رہے تھے، ووٹ دے کر پہلی مرتبہ اقتدار کے ایوانوں میں بھیجا، عام آدمی نے عمران خان اور تحریک انصاف پر بھروسہ کیا اور عمران خان کے دعوؤں اور وعدوں کے تناظر میں ان پر اعتماد کیا۔
پی ٹی آئی کی حکومت کو تین سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ عمران خان نے ایک کروڑ نوکریوں سے لے کر 50 لاکھ مکانات دینے اور کرپشن کے خاتمے سے لے کر آئی ایم ایف سے نجات تک اور ملک پر چڑھے قرضوں سے لے کر معیشت کی بحالی تک اور عام آدمی کی زندگی میں تبدیلی لانے سے لے کر حکومتی سطح تک سادگی و کفایت شعاری تک اور ذخیرہ اندوزوں کی بیخ کنی سے لے کر مافیاز کے خلاف کارروائی تک، کرپشن کے مگرمچھوں کو گرفت میں لانے سے لے کر عام آدمی کو انصاف کی فراہمی تک اور ریاست مدینہ کی طرز پر حکمرانی اور نظام حکومت چلانے کے بلند و بانگ دعوے کیے تھے۔
آج ان کی حکمرانی کے تین سالوں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ملک پر قرضوں کے بوجھ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ حکمران کاسہ گدائی لیے آئی ایم ایف سے قرضوں کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ کرپشن ختم کرنے کے دعوے کرنے والوں کی اپنی کرپشن کے قصے زبان زد عام ہیں، معیشت کی زبوں حالی پر ماہرین معیشت سوال اٹھا رہے ہیں۔
ذخیرہ اندوزوں اور مافیاز کے خلاف کارروائیاں سرد خانے میں پڑی ہیں۔ نوکریاں دینے کے بجائے نوکریوں سے لوگوں کو نکالا جا رہا ہے اور سب سے بڑھ کر مہنگائی اور گرانی کا یہ عالم ہے کہ 70 سال کا ریکارڈ چکنا چور ہو گیا۔ ڈالر سے لے کر سونا تک تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ روپے کی قدر گرتی جا رہی ہے۔
آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے باعث مہنگائی کے بم وقفے وقفے سے عوام پر گرائے جا رہے ہیں۔ بجلی ، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بار بار اضافہ کرکے عوام کو مہنگائی کے بوجھ تلے دبا دیا گیا ہے۔
روزمرہ استعمال کی اشیا آٹا، چاول، چینی، گھی، تیل، انڈے، دودھ، گوشت اور سبزی غرض ہر شے کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا جا رہا ہے۔ مفلوک الحال لوگ بچوں سمیت خودکشیاں کر رہے ہیں اور حکمران اپنے حال میں مست ہیں۔ ''ٹارگٹڈ سبسڈی '' کی طفل تسلیاں دے کر جان چھڑائی جا رہی ہے۔
حکومت نے ہوش کے ناخن نہ لیے اور عوام پر مزید مہنگائی اور گرانی کا بوجھ ڈالا تو وہ سمجھ لیں کہ عوامی غم و غصے کا سونامی ان کے اقتدار کو بہا کر لے جائے گا۔
لہٰذا اس حکومت کے ساتھ تعاون کیا جانا چاہیے اور اس کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہئیں۔ آپ دنیا کی مہذب قوموں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں وہاں برسر اقتدار حکمرانوں کی پہلی ترجیح اپنے ووٹروں ، سپورٹروں اور عام آدمی کے مسائل حل کرنا ہوتی ہے۔
منتخب ہونے والے عوامی نمایندے اپنے اپنے حلقوں میں تواتر کے ساتھ جاتے رہتے ہیں اور اپنے ووٹروں کے ساتھ رابطہ رکھتے ہیں، ان سے گھل مل جاتے ہیں۔ ان کے مسائل توجہ سے سنتے اور حل کرتے ہیں، حکومت لوگوں کی فلاح و بہبود کے قلیل المدت اور طویل المدت ہر دو طرح کی منصوبہ بندی کرتی ہے۔ تعلیم ، صحت ، علاج معالجے اور روزگار و رہائش کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائے جاتے ہیں۔
بے روزگار لوگوں کو سرکار کی طرف سے وظیفے دیے جاتے ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں مفت علاج کی جدید اور بہترین سہولتیں دی جاتی ہیں، بچوں کی تعلیم کا خرچہ بھی حکومت اٹھاتی ہے، غریب اور کمزور طبقات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔
اسلام میں ایک حقیقی فلاحی ریاست کا جو تصور ہے وہ دنیا کے مہذب و باوقار اور اصول پسند معاشروں میں عملی طور پر نظر آتا ہے۔ اسی باعث وہاں کے لوگ مطمئن اور پرسکون زندگی گزارتے ہیں۔ حکومت کے ساتھ تعاون کرتے، ہر قسم کے ٹیکس جو حکومت نافذ کرتی ہے اسے ادا کرتے ہیں اور حکومتی سہولیات سے مستفید ہوتے ہیں۔
آپ اس پس منظر میں پاکستان کے نظام حکمرانی کا جائزہ لیں تو یہ تکلیف دہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ وطن کے قیام کی سات دہائیاں گزر گئیں، سیاسی و غیر سیاسی ہر دو طرح کے لوگ برسر اقتدار آتے رہے، بعض سیاسی جماعتوں کو دو دو تین تین مرتبہ حکمرانی کے مواقع ملے، عوام نے ان پر بار بار اعتبار کیا، نئی امیدوں اور توقعات پر ایک سے زائد مرتبہ اعتماد کیا۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ گزشتہ ستر سالوں میں برسر اقتدار حاکموں نے اپنے دعوؤں اور عوام سے کیے گئے وعدوں کا کبھی بھرم نہیں رکھا۔
عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر جب اقتدار کے ایوانوں میں جاتے ہیں تو پھر پانچ سال تک پلٹ کر عوام کی خبر نہیں لیتے، اپنے حلقے کے لوگوں سے کوئی رابطہ نہیں رکھتے، اپنے ووٹروں کے مسائل حل کرنا تو دور کی بات ہے ان کی روداد سننے کے بھی روادار نہیں ہوتے۔ عوام سے کیے گئے وعدے اور دعوے سب نقش برآب ثابت ہوتے ہیں، پرنالہ وہیں کا وہیں رہتا ہے۔
وہ عوام جو سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کے بلند و بانگ دعوؤں اور وعدوں سے تنگ آچکے ہیں انھوں نے 2018 کے انتخابات میں روایتی سیاست دانوں کو مسترد کرتے ہوئے پاکستان کرکٹ کے ہیرو عمران خان کو جو دو دہائیوں سے سیاسی جدوجہد کر رہے تھے اور روایتی سیاستدانوں کے '' کارنامے'' اور ان کے نقصانات سے عوام کو آگاہ کرتے ہوئے ان کے دیرینہ مطالبات یعنی روزگار و انصاف کی فراہمی، غربت کے خاتمے، قرضوں کے بار سے نجا ت، گرانی اور مہنگائی کا قلع قمع، کمزور طبقات کو او پر اٹھانا اور عام آدمی کی زندگی میں نظر آنے والی حقیقی ''تبدیلی'' کے بلند و بانگ دعوے کر رہے تھے، ووٹ دے کر پہلی مرتبہ اقتدار کے ایوانوں میں بھیجا، عام آدمی نے عمران خان اور تحریک انصاف پر بھروسہ کیا اور عمران خان کے دعوؤں اور وعدوں کے تناظر میں ان پر اعتماد کیا۔
پی ٹی آئی کی حکومت کو تین سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ عمران خان نے ایک کروڑ نوکریوں سے لے کر 50 لاکھ مکانات دینے اور کرپشن کے خاتمے سے لے کر آئی ایم ایف سے نجات تک اور ملک پر چڑھے قرضوں سے لے کر معیشت کی بحالی تک اور عام آدمی کی زندگی میں تبدیلی لانے سے لے کر حکومتی سطح تک سادگی و کفایت شعاری تک اور ذخیرہ اندوزوں کی بیخ کنی سے لے کر مافیاز کے خلاف کارروائی تک، کرپشن کے مگرمچھوں کو گرفت میں لانے سے لے کر عام آدمی کو انصاف کی فراہمی تک اور ریاست مدینہ کی طرز پر حکمرانی اور نظام حکومت چلانے کے بلند و بانگ دعوے کیے تھے۔
آج ان کی حکمرانی کے تین سالوں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ملک پر قرضوں کے بوجھ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ حکمران کاسہ گدائی لیے آئی ایم ایف سے قرضوں کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ کرپشن ختم کرنے کے دعوے کرنے والوں کی اپنی کرپشن کے قصے زبان زد عام ہیں، معیشت کی زبوں حالی پر ماہرین معیشت سوال اٹھا رہے ہیں۔
ذخیرہ اندوزوں اور مافیاز کے خلاف کارروائیاں سرد خانے میں پڑی ہیں۔ نوکریاں دینے کے بجائے نوکریوں سے لوگوں کو نکالا جا رہا ہے اور سب سے بڑھ کر مہنگائی اور گرانی کا یہ عالم ہے کہ 70 سال کا ریکارڈ چکنا چور ہو گیا۔ ڈالر سے لے کر سونا تک تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ روپے کی قدر گرتی جا رہی ہے۔
آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے باعث مہنگائی کے بم وقفے وقفے سے عوام پر گرائے جا رہے ہیں۔ بجلی ، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بار بار اضافہ کرکے عوام کو مہنگائی کے بوجھ تلے دبا دیا گیا ہے۔
روزمرہ استعمال کی اشیا آٹا، چاول، چینی، گھی، تیل، انڈے، دودھ، گوشت اور سبزی غرض ہر شے کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا جا رہا ہے۔ مفلوک الحال لوگ بچوں سمیت خودکشیاں کر رہے ہیں اور حکمران اپنے حال میں مست ہیں۔ ''ٹارگٹڈ سبسڈی '' کی طفل تسلیاں دے کر جان چھڑائی جا رہی ہے۔
حکومت نے ہوش کے ناخن نہ لیے اور عوام پر مزید مہنگائی اور گرانی کا بوجھ ڈالا تو وہ سمجھ لیں کہ عوامی غم و غصے کا سونامی ان کے اقتدار کو بہا کر لے جائے گا۔