بڑھاپے کا سہارا
مستقبل میں سب سے زیادہ عمر رسیدہ افراد ایشیا اور خصوصاً جنوبی ایشیا میں ہیں۔
ضعیف العمری انسانی زندگی کے سائیکل کا آخری مرحلہ شمار کیا جاتا ہے۔یورپ اور امریکا میں اس عمر کے افراد کو سینئر سٹیزن کہا جاتا ہے۔ پاکستان اور ایشیائی ممالک میں انھیں بابا، بوڑھا یا بزرگ کہتے ہیں۔
عمر کے اس حصے میں توانائی اور مدافعت کی کمی مختلف بیماریوں کا باعث بنتی ہے اور کام کرنے کے صلاحیت بتدریج کم ہو جاتی ہے۔ عمر رسیدہ افراد کو مختلف نوعیت کی بیماریوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ ریٹائر لائف، تنہائی اور بڑھاپا سب ہی ان کے لیے سماجی الجھنوں اور مشکلات کا باعث بنتے ہیں۔
امریکا، برطانیہ اور اکثر یورپی ممالک میں ضعیف العمری کی عمر 65سال شمار کی جاتی ہے۔ کچھ ممالک میںیہ عمر60سال ہے۔ جدید دنیا میں سب سے پہلے جرمنی نے 1880میں ضعیف العمری کو پنشن اور سوشل سیکیورٹی کے نظام کو شروع کیا بعدا زاں دوسری یورپی ممالک کے ساتھ ساتھ امریکا، آسٹریلیا، ایشیا اور کئی افریقی ممالک نے بھی ضعیف العمری کی پنشن اور سوشل سیکیورٹی کا آغاز کیا۔ سوشل سیکیورٹی کا ایک اہم مقصد عمر رسیدہ افراد کو با عزت اور کسی کی محتاجی کے بغیر زندگی بسر کرنے کے لیے مدد فراہم کرنا ہے۔
عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق مستقبل میں سب سے زیادہ عمر رسیدہ افراد ایشیا اور خصوصاً جنوبی ایشیا میں ہیں۔ ان ممالک میں مردوں کی اوسط عمر 75سال، خواتین کی اوسط عمر 82سال تک ہونے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان میں عمر رسیدہ افراد کی تعداد ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ جن میں دس فیصد سالانہ اضافہ ہو رہا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک نے اپنے عمر رسیدہ شہریوں کی سہولت کے لیے اولڈ ایج ہوم قائم کیے ہیں۔ پاکستان میں ابھی تک سرکاری سطح پر ایسے انتظامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ نجی شعبے میں ایسے کچھ مراکز قائم ہیں جن میں ایدھی ویلفیئر ہومز بھی شامل ہیں۔ ایک تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ پاکستان اور ایشیائی ممالک میں 95 فیصد سے زائد عمر رسیدہ افراد تمام تر مشکلات کے باوجود اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہی زندگی کی آخری عمر گزارنے کو فوقیت دیتے ہیں۔
حکومت پاکستان نے ایسے شہریوں کی اعانت کے لیے جنھوں نے اپنی متحرک عمر سرکاری یا نجی شعبے میں ملازمت کرتے ہوئے گزاری ہے۔ ان کو ریٹائرمنٹ کے بعد اضافی مالی امداد فراہم کرنے کے لیے ایک قومی ادارہ "ایمپلائز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن" بنایا ہے جو ایسے افراد کو ماہانہ گزارہ پنشن اور دوسری مراعات فراہم کرتا ہے۔ EOBIایک نیم خود مختار ادارہ ہے جو ہیومن ریسورس ڈیویلپمنٹ کی وفاقی وزارت کے زیر نگرانی کام کرتا ہے۔ پاکستان بھر میں اس کے 39دفاتر ہیں۔
پاکستان میں نجی اداروں سے وابستہ افراد کی پنشن کا باقاعدہ قانون ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے دوران بنا۔ اسی قانون کے تحت 1976میں EOBIقائم ہوا۔ اس سے پہلے صنعتی، تجارتی اور کاروباری اداروں کے ملازمین کو بڑھاپے یا معذور ہونے کی صورت میں بے سہارا چھوڑ دیا جاتا تھا اور انھیں کوئی پنشن یا فنڈز نہیں ملتا تھا۔اس ادارے میں قائم پنشن فنڈ کو 1976سے 1990 تک محفوظ رکھا گیا۔ جب وہ اچھی طرح مستحکم ہو گیا تو 1990 میں اس ادارے نے پنشن دینا شروع کی۔ جو اس زمانے میں کم از کم 75روپے تھی پھر یہ رقم بڑھ کر 93روپے ہوئی اور اس کے بعد 106روپے تک پہنچی۔ آج کم از کم پنشن8500 روپے ہے ۔
وقت کا تقاضہ ہے کہ حکومت EOBI کے اکائونٹ کا جائزہ لے کر عمر رسیدہ افراد کی ماہانہ پنشن میں خاطر خواہ اضافہ کر ے اور اس کے رجسٹرڈ افراد کو دوسرے ممالک کی طرح سوشل سیکیورٹی کی مد میں دوسری مراعات بھی فراہم کرے۔ دنیا بھر کی فلاحی ریاستیں اپنے بزرگوں کی دیکھ بھال کے لیے کئی منصوبے بناتی ہے کیونکہ ان بزرگ افراد نے اپنے ایام جوانی میں قومی پیداوار بڑھانے اور ملکی ترقی کے عمل میں اپنی جوانی اور صلاحیتیں صرف کی ہوتی ہیں۔
ضعیف العمری ایسا مرحلہ ہے جب انسان کو دوسرے کی مدد کی شدید ضرورت پیش آتی ہے۔ بہت حد تک انسان دوسروں کا محتاج ہو جاتا ہے۔آپ نے اکثر یہ دعائیں سنی ہوں گی کہ "یا اللہ مجھے کسی کا محتاج نہ کرنا"یا "یہ تو میرے بڑھاپے کا سہارا ہے"۔
عمر رسیدہ یا بزرگ ہونا ایک ایسی علامت ہے جو نوجوان نسل کو اس منزل کا ادراک دلاتی ہے کہ انھیں بھی یہ مرحلہ دیکھنا ہے۔اگر ہم اسلامی تعلیمات کا غور سے مطالعہ کریں تو انتہائی واضح طور پر تکرار سے یہ حکم الٰہی ملے گا کہ اگر تم اپنے والدین کو بڑھاپے میں پائو تو ان کی اس طرح خدمت کرو جس طرح بچپن میںانھوں نے تمھاری دیکھ بھال کی اور انھیں "اف" تک نہ کہو۔ قرآن پاک کی دیگر آیات اور حدیث نبوی ﷺمیں بھی والدین کی حیثیت اور ان کی خدمات کے واضح احکامات موجود ہیں۔ نماز میں "التحیات" کے کلمات میں بھی والدین کے لیے دعائوں کا حکم لازم ہے۔
ایک اسلامی ریاست ہونے کے ناطے ہم پر یہ لازم ہے کہ اسلامی تعلیمات اور انسانی اخلاقیات کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں اپنے بزرگوں کی زندگی آسودہ حال بنانے کے لیے خصوصی اہتمام کرنا چاہیے جس طرح معذور افراد کے لیے خصوصی تعلیم اور سہولتوں کے حوالے سے مختلف اقدامات کیے جاتے ہیں، اسی طرح وفاقی، صوبائی بلکہ بلدیاتی سطح پر بزرگ شہریوں کے لیے خصوصی مراعات کے فراہمی ضروری ہے۔ خاص طورپر بے سہارا بزرگوں کی دیکھ بھال ہمارا قومی اور انفرادی فریضہ ہے۔
یونین کونسل یا ضلعی سطح پر اولڈ ایج ہومز بنانے کی ضرورت ہے۔ ان اولڈ ایج ہومز کے لیے وسائل ای او بی آئی اور حکومتی اداروں کے علاوہ این جی اوز اور مخیر حضرات یقینی طور پر فراہم کریں گے۔ اس حوالے سے ضرورت اس امر کی ہے کہ کوئی آگے بڑھے اور اس تحریک کو منظم کرے اور بقول علمائے کرام "ثواب دورین حاصل کرے"۔
عمر کے اس حصے میں توانائی اور مدافعت کی کمی مختلف بیماریوں کا باعث بنتی ہے اور کام کرنے کے صلاحیت بتدریج کم ہو جاتی ہے۔ عمر رسیدہ افراد کو مختلف نوعیت کی بیماریوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ ریٹائر لائف، تنہائی اور بڑھاپا سب ہی ان کے لیے سماجی الجھنوں اور مشکلات کا باعث بنتے ہیں۔
امریکا، برطانیہ اور اکثر یورپی ممالک میں ضعیف العمری کی عمر 65سال شمار کی جاتی ہے۔ کچھ ممالک میںیہ عمر60سال ہے۔ جدید دنیا میں سب سے پہلے جرمنی نے 1880میں ضعیف العمری کو پنشن اور سوشل سیکیورٹی کے نظام کو شروع کیا بعدا زاں دوسری یورپی ممالک کے ساتھ ساتھ امریکا، آسٹریلیا، ایشیا اور کئی افریقی ممالک نے بھی ضعیف العمری کی پنشن اور سوشل سیکیورٹی کا آغاز کیا۔ سوشل سیکیورٹی کا ایک اہم مقصد عمر رسیدہ افراد کو با عزت اور کسی کی محتاجی کے بغیر زندگی بسر کرنے کے لیے مدد فراہم کرنا ہے۔
عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق مستقبل میں سب سے زیادہ عمر رسیدہ افراد ایشیا اور خصوصاً جنوبی ایشیا میں ہیں۔ ان ممالک میں مردوں کی اوسط عمر 75سال، خواتین کی اوسط عمر 82سال تک ہونے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان میں عمر رسیدہ افراد کی تعداد ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ جن میں دس فیصد سالانہ اضافہ ہو رہا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک نے اپنے عمر رسیدہ شہریوں کی سہولت کے لیے اولڈ ایج ہوم قائم کیے ہیں۔ پاکستان میں ابھی تک سرکاری سطح پر ایسے انتظامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ نجی شعبے میں ایسے کچھ مراکز قائم ہیں جن میں ایدھی ویلفیئر ہومز بھی شامل ہیں۔ ایک تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ پاکستان اور ایشیائی ممالک میں 95 فیصد سے زائد عمر رسیدہ افراد تمام تر مشکلات کے باوجود اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہی زندگی کی آخری عمر گزارنے کو فوقیت دیتے ہیں۔
حکومت پاکستان نے ایسے شہریوں کی اعانت کے لیے جنھوں نے اپنی متحرک عمر سرکاری یا نجی شعبے میں ملازمت کرتے ہوئے گزاری ہے۔ ان کو ریٹائرمنٹ کے بعد اضافی مالی امداد فراہم کرنے کے لیے ایک قومی ادارہ "ایمپلائز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن" بنایا ہے جو ایسے افراد کو ماہانہ گزارہ پنشن اور دوسری مراعات فراہم کرتا ہے۔ EOBIایک نیم خود مختار ادارہ ہے جو ہیومن ریسورس ڈیویلپمنٹ کی وفاقی وزارت کے زیر نگرانی کام کرتا ہے۔ پاکستان بھر میں اس کے 39دفاتر ہیں۔
پاکستان میں نجی اداروں سے وابستہ افراد کی پنشن کا باقاعدہ قانون ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے دوران بنا۔ اسی قانون کے تحت 1976میں EOBIقائم ہوا۔ اس سے پہلے صنعتی، تجارتی اور کاروباری اداروں کے ملازمین کو بڑھاپے یا معذور ہونے کی صورت میں بے سہارا چھوڑ دیا جاتا تھا اور انھیں کوئی پنشن یا فنڈز نہیں ملتا تھا۔اس ادارے میں قائم پنشن فنڈ کو 1976سے 1990 تک محفوظ رکھا گیا۔ جب وہ اچھی طرح مستحکم ہو گیا تو 1990 میں اس ادارے نے پنشن دینا شروع کی۔ جو اس زمانے میں کم از کم 75روپے تھی پھر یہ رقم بڑھ کر 93روپے ہوئی اور اس کے بعد 106روپے تک پہنچی۔ آج کم از کم پنشن8500 روپے ہے ۔
وقت کا تقاضہ ہے کہ حکومت EOBI کے اکائونٹ کا جائزہ لے کر عمر رسیدہ افراد کی ماہانہ پنشن میں خاطر خواہ اضافہ کر ے اور اس کے رجسٹرڈ افراد کو دوسرے ممالک کی طرح سوشل سیکیورٹی کی مد میں دوسری مراعات بھی فراہم کرے۔ دنیا بھر کی فلاحی ریاستیں اپنے بزرگوں کی دیکھ بھال کے لیے کئی منصوبے بناتی ہے کیونکہ ان بزرگ افراد نے اپنے ایام جوانی میں قومی پیداوار بڑھانے اور ملکی ترقی کے عمل میں اپنی جوانی اور صلاحیتیں صرف کی ہوتی ہیں۔
ضعیف العمری ایسا مرحلہ ہے جب انسان کو دوسرے کی مدد کی شدید ضرورت پیش آتی ہے۔ بہت حد تک انسان دوسروں کا محتاج ہو جاتا ہے۔آپ نے اکثر یہ دعائیں سنی ہوں گی کہ "یا اللہ مجھے کسی کا محتاج نہ کرنا"یا "یہ تو میرے بڑھاپے کا سہارا ہے"۔
عمر رسیدہ یا بزرگ ہونا ایک ایسی علامت ہے جو نوجوان نسل کو اس منزل کا ادراک دلاتی ہے کہ انھیں بھی یہ مرحلہ دیکھنا ہے۔اگر ہم اسلامی تعلیمات کا غور سے مطالعہ کریں تو انتہائی واضح طور پر تکرار سے یہ حکم الٰہی ملے گا کہ اگر تم اپنے والدین کو بڑھاپے میں پائو تو ان کی اس طرح خدمت کرو جس طرح بچپن میںانھوں نے تمھاری دیکھ بھال کی اور انھیں "اف" تک نہ کہو۔ قرآن پاک کی دیگر آیات اور حدیث نبوی ﷺمیں بھی والدین کی حیثیت اور ان کی خدمات کے واضح احکامات موجود ہیں۔ نماز میں "التحیات" کے کلمات میں بھی والدین کے لیے دعائوں کا حکم لازم ہے۔
ایک اسلامی ریاست ہونے کے ناطے ہم پر یہ لازم ہے کہ اسلامی تعلیمات اور انسانی اخلاقیات کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں اپنے بزرگوں کی زندگی آسودہ حال بنانے کے لیے خصوصی اہتمام کرنا چاہیے جس طرح معذور افراد کے لیے خصوصی تعلیم اور سہولتوں کے حوالے سے مختلف اقدامات کیے جاتے ہیں، اسی طرح وفاقی، صوبائی بلکہ بلدیاتی سطح پر بزرگ شہریوں کے لیے خصوصی مراعات کے فراہمی ضروری ہے۔ خاص طورپر بے سہارا بزرگوں کی دیکھ بھال ہمارا قومی اور انفرادی فریضہ ہے۔
یونین کونسل یا ضلعی سطح پر اولڈ ایج ہومز بنانے کی ضرورت ہے۔ ان اولڈ ایج ہومز کے لیے وسائل ای او بی آئی اور حکومتی اداروں کے علاوہ این جی اوز اور مخیر حضرات یقینی طور پر فراہم کریں گے۔ اس حوالے سے ضرورت اس امر کی ہے کہ کوئی آگے بڑھے اور اس تحریک کو منظم کرے اور بقول علمائے کرام "ثواب دورین حاصل کرے"۔