بھارت میں بڑھتی ہوئی ہندو انتہا پسندی
پاکستانیوں کی بڑی تعداد لاعلمی یا بےخبری کی وجہ سےیہ سمجھتی ہے کہ بھارت کی پوری آبادی آر ایس ایس اورمودی کی ہم خیال ہے
بھارت میں ہندو توا کی گود میں پروان چڑھتے ہوئے ہندو فاشزم کے خلاف ایک عالمی آن لائن کانفرنس گزشتہ ستمبر میں منعقد ہوئی۔ اس سے آپ اس عالمی کانفرنس کی اہمیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہندوتوا کے اثرات صرف برصغیر تک محدود نہیں بلکہ یہ پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے رہے ہیں۔ یورپ اور امریکا میں اس سے ملتے جلتے نظریات بڑی تیزی سے پروان چڑھ کر وہاں موجود نسلی اور مذہبی اقلیتوں کی زندگیوں کو اجیرن کر رہے ہیں۔
اس عالمی کانفرنس کے انعقاد میں ہارورڈ، برکلے، شکاگو، اسٹین، فورڈ، پرنسٹن، نارتھ ویسٹرن وغیرہ جیسی یونیورسٹیز کی حمایت حاصل رہی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان بیس بہترین یونیورسٹیوں سے تعلق رکھنے والے تمام مقررین اپنی اہم ترین پوزیشنوں اور اپنی مہارت کے شعبے میں مشہور و معروف ہیں۔ کانفرنس میں کہا گیا کہ بھارتی وزیر اعظم مودی کے ماتحت آرایس ایس دنیا کا سب سے بڑا منظم انتہا پسند نفرت انگیز گروپ ہے۔
یہ نازی نظریے اور اطالوی فاشزم سے اپنی تحریک لیتا ہے۔ اس کے رہنما اصول میں ہندوستان کو ایک سیکولر جہوری ریاست سے مذہبی ریاست میں تبدیل کرنا ہے۔ اور مسلمانوں، عیسائیوں دیگر مذہبی اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس عالمی کانفرنس کو53عالمی یونیورسٹیوں کے علاوہ دنیا بھر کے900سے زائد ماہرین تعلیم کی حمایت حاصل تھی۔ قابل ذکر انتہائی اہم بات یہ ہے کہ زیادہ تر پینلسٹ بھارتی ماہرین تعلیم تھے جو مغربی دنیا کی ایلیٹ یونیورسٹیوں اور تھنک ٹینکوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد اپنی لاعلمی یا بے خبری کی وجہ سے یہ سمجھتی ہے کہ بھارت کی پوری آبادی آر ایس ایس اور مودی کی ہم خیال ہے۔ ایسا ہرگز نہیں کیونکہ بھارت کی آبادی کا ایک بڑا حصہ روشن خیال لبرل ترقی پسند سوچ اور سیکولر نظریات کا حامل ہے، لیکن آر ایس ایس کو کیونکہ بھارتی وزیراعظم مودی کی وجہ سے سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔ اس لیے وہ بھی اس نفرت انگیز گروہ کے سامنے اپنے تمام تر احتجاج کے باوجود کافی حد تک بے بس ہے نہ صرف یہ کہ اس تعصب کے طوفان کے آگے بھارتی اعلیٰ عدلیہ سپریم کورٹ بھی بے بس ہے۔
بھارتی چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں میڈیا کا ایک حصہ ہر چیز کو فرقہ وارانہ نقطہ نظر سے دیکھتا ہے۔ نتیجے میں بھارت کی بدنامی ہو رہی ہے، اس تبصرے کا پس منظر یہ ہے کہ جب میڈیا کے ایک حصے نے بھارت میں کورونا وائرس پھیلانے کا ذمے دار غلط طور پر مسلمان تبلیغی جماعت کو قرار دیا۔ بعد میں عدالتی تحقیقات کے نتیجے میں یہ بات غلط ثابت ہوئی۔ یہ میڈیا ہائوسز ایسے پروگرام پیش کرتے ہیں جن کا مقصد معاشرے کو مذہبی اور فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کرنا ہوتا ہے اور یہ تقسیم بی جے پی کے لیے بہت موزوں ہوتی ہے۔
اس کانفرنس میں بھارت کے اندر اور باہر مسلمانوں کے خلاف انتہا پسند پالیسیاں اور کشمیریوں کے حقوق کی خلاف ورزی جیسے موضوعات زیربحث آئے۔ اس کانفرنس کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی جس میں آر ایس ایس کی جانب سے مقررین کو ہراساں کرنے، دھمکانے سمیت منتظمین اور ان کے اہل خانہ کو جان سے مارنے کی دھمکیاں تک شامل ہیں۔
اس وقت راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی سر توڑ کوشش ہے کہ بھارت کو ہندو بنیاد پرست ریاست میں بدل دیا جائے۔ اگر بدقسمتی سے ایسا ہوتا تو بھارتی مسلمانوںکی اکثریت کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں رہے گا کہ وہ دوبارہ سے ہندو بن جائے۔ طرفہ تماشا یہ کہ بھارت میں دینی مدرسے ہوں یا بھارتی مسلمان مذہبی رہنما وہ مسلمانوں کا تحفظ اور بقا سیکولر ازم میں پاتے ہیں۔ چنانچہ یہ سب اپنی پوری قوت سے دن رات بھارتی سیکولر ازم کی بقا کے لیے لڑ رہے ہیں جب کہ پاکستان میں سیکولر ازم کو کفر کے ہم پلہ قرار دیا جا چکا ہے۔
ہندوتوا کی اصطلاح 19ویں صدی میں سامنے آئی جب مغلیہ سلطنت اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی۔ یہ برہمن ازم میں گہری جڑیں رکھتی ہے اور ہند وازم میں پروان چڑھی ہے۔ اس کی حکمت عملی تشدد نفرت اور دہشت گردی پر مبنی ہے۔ وزیراعظم مودی سمیت تین وزراء آر ایس ایس کے رکن ہیں۔ یہ کانفرنس دنیا بھر کے اسکالرز، صحافیوں اور سیاسی کارکنوں پر مشتمل تھی جس نے آر ایس ایس کا اصل بھیانک چہرہ دنیا پر بے نقاب کیا۔ اس کانفرنس کا انعقاد ہی بتاتا ہے کہ آر ایس ایس کے خلاف ردعمل بہت بڑا اور عالمی ہے۔
بہر حال یہ سب ایک طرف کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ مستقبل کی سائنس اور ٹیکنالوجی پر مبنی ایک ڈیڑھ صدی عقیدوں، ثقافتوں اور تہذیبوں کے لیے فیصلہ کن ہوگی۔ لیکن میرے مطابق سائنس اور ٹیکنالوجی چالیس پچاس سال بعد بلکہ اس سے بھی پہلے انسانی سوچ کو غیر محسوس طور پر یکسر تبدیل کرتے ہوئے دنیا کا نقشہ ہی تبدیل کر دے گی۔ یعنی اس طرح سے ہزاروں سال سے قائم ظلم و استحصال کے نظام کا آخر کار خاتمہ ہوجائے گا۔
اس عالمی کانفرنس کے انعقاد میں ہارورڈ، برکلے، شکاگو، اسٹین، فورڈ، پرنسٹن، نارتھ ویسٹرن وغیرہ جیسی یونیورسٹیز کی حمایت حاصل رہی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان بیس بہترین یونیورسٹیوں سے تعلق رکھنے والے تمام مقررین اپنی اہم ترین پوزیشنوں اور اپنی مہارت کے شعبے میں مشہور و معروف ہیں۔ کانفرنس میں کہا گیا کہ بھارتی وزیر اعظم مودی کے ماتحت آرایس ایس دنیا کا سب سے بڑا منظم انتہا پسند نفرت انگیز گروپ ہے۔
یہ نازی نظریے اور اطالوی فاشزم سے اپنی تحریک لیتا ہے۔ اس کے رہنما اصول میں ہندوستان کو ایک سیکولر جہوری ریاست سے مذہبی ریاست میں تبدیل کرنا ہے۔ اور مسلمانوں، عیسائیوں دیگر مذہبی اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس عالمی کانفرنس کو53عالمی یونیورسٹیوں کے علاوہ دنیا بھر کے900سے زائد ماہرین تعلیم کی حمایت حاصل تھی۔ قابل ذکر انتہائی اہم بات یہ ہے کہ زیادہ تر پینلسٹ بھارتی ماہرین تعلیم تھے جو مغربی دنیا کی ایلیٹ یونیورسٹیوں اور تھنک ٹینکوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد اپنی لاعلمی یا بے خبری کی وجہ سے یہ سمجھتی ہے کہ بھارت کی پوری آبادی آر ایس ایس اور مودی کی ہم خیال ہے۔ ایسا ہرگز نہیں کیونکہ بھارت کی آبادی کا ایک بڑا حصہ روشن خیال لبرل ترقی پسند سوچ اور سیکولر نظریات کا حامل ہے، لیکن آر ایس ایس کو کیونکہ بھارتی وزیراعظم مودی کی وجہ سے سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔ اس لیے وہ بھی اس نفرت انگیز گروہ کے سامنے اپنے تمام تر احتجاج کے باوجود کافی حد تک بے بس ہے نہ صرف یہ کہ اس تعصب کے طوفان کے آگے بھارتی اعلیٰ عدلیہ سپریم کورٹ بھی بے بس ہے۔
بھارتی چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں میڈیا کا ایک حصہ ہر چیز کو فرقہ وارانہ نقطہ نظر سے دیکھتا ہے۔ نتیجے میں بھارت کی بدنامی ہو رہی ہے، اس تبصرے کا پس منظر یہ ہے کہ جب میڈیا کے ایک حصے نے بھارت میں کورونا وائرس پھیلانے کا ذمے دار غلط طور پر مسلمان تبلیغی جماعت کو قرار دیا۔ بعد میں عدالتی تحقیقات کے نتیجے میں یہ بات غلط ثابت ہوئی۔ یہ میڈیا ہائوسز ایسے پروگرام پیش کرتے ہیں جن کا مقصد معاشرے کو مذہبی اور فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کرنا ہوتا ہے اور یہ تقسیم بی جے پی کے لیے بہت موزوں ہوتی ہے۔
اس کانفرنس میں بھارت کے اندر اور باہر مسلمانوں کے خلاف انتہا پسند پالیسیاں اور کشمیریوں کے حقوق کی خلاف ورزی جیسے موضوعات زیربحث آئے۔ اس کانفرنس کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی جس میں آر ایس ایس کی جانب سے مقررین کو ہراساں کرنے، دھمکانے سمیت منتظمین اور ان کے اہل خانہ کو جان سے مارنے کی دھمکیاں تک شامل ہیں۔
اس وقت راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی سر توڑ کوشش ہے کہ بھارت کو ہندو بنیاد پرست ریاست میں بدل دیا جائے۔ اگر بدقسمتی سے ایسا ہوتا تو بھارتی مسلمانوںکی اکثریت کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں رہے گا کہ وہ دوبارہ سے ہندو بن جائے۔ طرفہ تماشا یہ کہ بھارت میں دینی مدرسے ہوں یا بھارتی مسلمان مذہبی رہنما وہ مسلمانوں کا تحفظ اور بقا سیکولر ازم میں پاتے ہیں۔ چنانچہ یہ سب اپنی پوری قوت سے دن رات بھارتی سیکولر ازم کی بقا کے لیے لڑ رہے ہیں جب کہ پاکستان میں سیکولر ازم کو کفر کے ہم پلہ قرار دیا جا چکا ہے۔
ہندوتوا کی اصطلاح 19ویں صدی میں سامنے آئی جب مغلیہ سلطنت اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی۔ یہ برہمن ازم میں گہری جڑیں رکھتی ہے اور ہند وازم میں پروان چڑھی ہے۔ اس کی حکمت عملی تشدد نفرت اور دہشت گردی پر مبنی ہے۔ وزیراعظم مودی سمیت تین وزراء آر ایس ایس کے رکن ہیں۔ یہ کانفرنس دنیا بھر کے اسکالرز، صحافیوں اور سیاسی کارکنوں پر مشتمل تھی جس نے آر ایس ایس کا اصل بھیانک چہرہ دنیا پر بے نقاب کیا۔ اس کانفرنس کا انعقاد ہی بتاتا ہے کہ آر ایس ایس کے خلاف ردعمل بہت بڑا اور عالمی ہے۔
بہر حال یہ سب ایک طرف کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ مستقبل کی سائنس اور ٹیکنالوجی پر مبنی ایک ڈیڑھ صدی عقیدوں، ثقافتوں اور تہذیبوں کے لیے فیصلہ کن ہوگی۔ لیکن میرے مطابق سائنس اور ٹیکنالوجی چالیس پچاس سال بعد بلکہ اس سے بھی پہلے انسانی سوچ کو غیر محسوس طور پر یکسر تبدیل کرتے ہوئے دنیا کا نقشہ ہی تبدیل کر دے گی۔ یعنی اس طرح سے ہزاروں سال سے قائم ظلم و استحصال کے نظام کا آخر کار خاتمہ ہوجائے گا۔