امیدیں ختم اور صبر کا لبریز پیمانہ
تحریک انصاف نے جو دعوے کیے تھے اسی وجہ سے ملک کے عوام نے اس سے بڑی امیدیں وابستہ کرلی تھیں
لاہور:
جب سے مہنگائی کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع ہوا، تب سے ہی حکومتی بیانات عوام سنتے آرہے ہیں کہ وہ عوام کو درپیش مہنگائی کی تکلیف سے آگاہ ہے۔ منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کی جائے گی، ایکشن اور نوٹس لے لیا ہے، عوام گھبرائیں مت، حکومت عوام کو ریلیف دے گی۔
تین سال سے عوام یہی دعوے سن رہے ہیں اور سوا تین سال میں جب پٹرولیم مصنوعات اور ڈالر ملک میں ریکارڈ سطح پر پہنچ گئے اور مہنگائی میں 1.38 فیصد مزید اضافہ اور شرح 14.48 فیصد اضافہ تک پہنچ گئی اور مہنگائی کے خلاف ملک بھر میں احتجاج شروع ہو گیا تب بھی حکومتی قیادت نے اپنا وہی روایتی بیان دہرایا ہے کہ وہ مہنگائی کی تکلیف سے آگاہ ہے۔ کمزور طبقات کو ریلیف کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔
مہنگائی سے اب عوام تکلیف نہیں بلکہ تکالیف میں مبتلا ہوچکے ہیں، حکومتی دعوے کے برعکس آٹا، پیاز، چند دالیں برائے نام سستی ہوئیں مگر ایل جی پی سلنڈر 2167.3 روپے سے بڑھ کر 2321.46 روپے کا ہو گیا۔ بجلی، پٹرولیم مصنوعات قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی مزید شدید ہوگئی تو حکومت کو اب یہ خیال آیا ہے کہ مہنگائی کے خلاف سبسڈی پروگرام لایا جائے اور مہنگائی کا احساس کرتے ہوئے کم آمدنی والوں کو بنیادی اشیا کی خریداری پر رعایت دی جائے۔
موٹرسائیکل رکشہ عوامی سواری کو سبسڈی نرخ پر غور کیا جائے۔ یہ غور ہوگا فیصلہ نہیں جس میں مزید وقت لگے گا کیونکہ تبدیلی حکومت بھی ماضی کی طرح نرخ فوری طور پر بڑھانے کی عادی ہے اور عوام کو ریلیف دینے کا فوری فیصلہ نہیں بلکہ صرف غور کرتی ہے جب تک ہر 15 روز بعد مہنگائی مزید بڑھ جاتی ہے اور غور جاری رہتا ہے۔
ماضی میں پٹرولیم مصنوعات کے عالمی نرخ بڑھنے سے ڈالر مہنگا اور مہنگائی بڑھنے پر ماضی میں تحریک انصاف کی قیادت جو کچھ کہتی تھی وہ میڈیا مسلسل دکھا رہا ہے اور اس کے دعوؤں کا مذاق ہی نہیں اڑایا جا رہا بلکہ مہنگائی سے بیزار لوگ سوشل میڈیا پر جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ اشاعت کے تو قابل نہیں مگر سوشل میڈیا حکومتی قیادت سے متعلق جو عوامی خیالات دکھا رہا ہے اسے سن کر یہ بات اب یقینی ہو گئی ہے کہ عوام کی اس حکومت سے وابستہ تمام امیدیں ختم ہوگئی ہیں اور ان کے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہو چکا ہے۔
اپنی 22 سالہ سیاسی زندگی میں تحریک انصاف نے جو دعوے کیے تھے اسی وجہ سے ملک کے عوام نے اس سے بڑی امیدیں وابستہ کرلی تھیں اور انھیں پتا تھا کہ وہ ایمانداری کا دعویٰ کر رہی ہ اور مسلم لیگ (ن) اور پی پی کی باریاں لینے والی حکومتوں کے برعکس وہ حکومت میں کبھی نہیں رہی اور اسے عوام کی تکالیف کا احساس ہے۔
عمران خان عوام کو بتاتے تھے کہ ملک میں کرپشن، مہنگائی اور بے روزگاری کے ذمے دار اس وقت کے حکمران ہیں جو انصاف اور قانون کی بالادستی کے بجائے کرپشن سے جمع کی گئی دولت ملک سے باہر لے جاتے تھے مگر میں ایسا نہیں کروں گا اور اقتدار میں آکر ملک و قوم کی حالت بدل دوں گا۔ اقتدار کے اپنے تین سالوں میں انھوں نے اپنے دعوے کتنے پورے کیے ان سے اب عوام مکمل واقف ہوچکے ہیں مگر وہ اب بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ پاناما کیس میں جھوٹ بولا گیا تھا میں جب تک زندہ ہوں انصاف اور قانون کی بالادستی کے لیے لڑتا رہوں گا۔
بین الاقوامی جریدے ''دی اکنامسٹ'' کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کا چوتھا مہنگا ترین ملک بن گیا ہے ، جہاں مہنگائی کی شرح نو فیصد ہوچکی ہے مگر حکومت دعوے کرتے نہیں تھک رہی کہ پاکستان میں مہنگائی پڑوسی ممالک سے بہت کم ہے۔
ملک میں لاکھوں افراد بے روزگار ہوچکے مگر حکومتی ترجمان کہہ رہے ہیں کہ حکومت ایک کروڑ سے بھی زائد نوکریاں دے چکی ہے۔ حکومتی وزراء کا کہنا ہے کہ مہنگائی کا جن بوتل میں بند کریں گے شاید حکومت کو اتنی بڑی بوتل کی تلاش ہے جس میں بلند ترین سطح پر پہنچ جانے والی مہنگائی کے جن کو بند کیا جاسکے۔
ہر روز ایسے ہی بے سروپا دعوے ہو رہے ہیں اور ڈالر 172 روپے سے بھی بڑھ گیا ہے سوا تین سالوں سے وزیر اعظم اور ان کی حکومت کے دعوے سن سن کر عوام کے کان پک گئے اور اب ان کیاس سے وابستہ تمام امیدیں دم توڑ چکی ہیں اور ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا اور وزیر اعظم اب بھی صرف مہنگائی کا احساس کرنے پر ہی اکتفا کیے ہوئے ہیں۔
حکومت اس سلسلے میں اقدامات کرنے کی باتیں کر رہی ہے ، عملی طور پر اب بھی کچھ نہیں کیا جا رہا۔ حکومت اپنی کابینہ کی تعداد کم کرکے اخراجات کم کرنے پر توجہ نہیں دے رہی بلکہ مہنگائی کے خلاف اپوزیشن کی تحریک پر پی ٹی آئی کو متحرک کر رہی ہے مگر مہنگائی کم کرنے پر تیار نہیں بلکہ بڑھا رہی ہے تاکہ گھروں تک محدود پی ٹی آئی والے اور سڑکوں پر نکلی اپوزیشن آپس میں لڑ پڑیں جس سے ملک کا مزید نقصان ہو اور صبر کرکے تھک جانے والے عوام بھی اپنے وزیر اعظم سے وہ سلوک کریں جو ماضی میں نہیں ہوا۔
جب سے مہنگائی کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع ہوا، تب سے ہی حکومتی بیانات عوام سنتے آرہے ہیں کہ وہ عوام کو درپیش مہنگائی کی تکلیف سے آگاہ ہے۔ منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کی جائے گی، ایکشن اور نوٹس لے لیا ہے، عوام گھبرائیں مت، حکومت عوام کو ریلیف دے گی۔
تین سال سے عوام یہی دعوے سن رہے ہیں اور سوا تین سال میں جب پٹرولیم مصنوعات اور ڈالر ملک میں ریکارڈ سطح پر پہنچ گئے اور مہنگائی میں 1.38 فیصد مزید اضافہ اور شرح 14.48 فیصد اضافہ تک پہنچ گئی اور مہنگائی کے خلاف ملک بھر میں احتجاج شروع ہو گیا تب بھی حکومتی قیادت نے اپنا وہی روایتی بیان دہرایا ہے کہ وہ مہنگائی کی تکلیف سے آگاہ ہے۔ کمزور طبقات کو ریلیف کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔
مہنگائی سے اب عوام تکلیف نہیں بلکہ تکالیف میں مبتلا ہوچکے ہیں، حکومتی دعوے کے برعکس آٹا، پیاز، چند دالیں برائے نام سستی ہوئیں مگر ایل جی پی سلنڈر 2167.3 روپے سے بڑھ کر 2321.46 روپے کا ہو گیا۔ بجلی، پٹرولیم مصنوعات قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی مزید شدید ہوگئی تو حکومت کو اب یہ خیال آیا ہے کہ مہنگائی کے خلاف سبسڈی پروگرام لایا جائے اور مہنگائی کا احساس کرتے ہوئے کم آمدنی والوں کو بنیادی اشیا کی خریداری پر رعایت دی جائے۔
موٹرسائیکل رکشہ عوامی سواری کو سبسڈی نرخ پر غور کیا جائے۔ یہ غور ہوگا فیصلہ نہیں جس میں مزید وقت لگے گا کیونکہ تبدیلی حکومت بھی ماضی کی طرح نرخ فوری طور پر بڑھانے کی عادی ہے اور عوام کو ریلیف دینے کا فوری فیصلہ نہیں بلکہ صرف غور کرتی ہے جب تک ہر 15 روز بعد مہنگائی مزید بڑھ جاتی ہے اور غور جاری رہتا ہے۔
ماضی میں پٹرولیم مصنوعات کے عالمی نرخ بڑھنے سے ڈالر مہنگا اور مہنگائی بڑھنے پر ماضی میں تحریک انصاف کی قیادت جو کچھ کہتی تھی وہ میڈیا مسلسل دکھا رہا ہے اور اس کے دعوؤں کا مذاق ہی نہیں اڑایا جا رہا بلکہ مہنگائی سے بیزار لوگ سوشل میڈیا پر جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ اشاعت کے تو قابل نہیں مگر سوشل میڈیا حکومتی قیادت سے متعلق جو عوامی خیالات دکھا رہا ہے اسے سن کر یہ بات اب یقینی ہو گئی ہے کہ عوام کی اس حکومت سے وابستہ تمام امیدیں ختم ہوگئی ہیں اور ان کے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہو چکا ہے۔
اپنی 22 سالہ سیاسی زندگی میں تحریک انصاف نے جو دعوے کیے تھے اسی وجہ سے ملک کے عوام نے اس سے بڑی امیدیں وابستہ کرلی تھیں اور انھیں پتا تھا کہ وہ ایمانداری کا دعویٰ کر رہی ہ اور مسلم لیگ (ن) اور پی پی کی باریاں لینے والی حکومتوں کے برعکس وہ حکومت میں کبھی نہیں رہی اور اسے عوام کی تکالیف کا احساس ہے۔
عمران خان عوام کو بتاتے تھے کہ ملک میں کرپشن، مہنگائی اور بے روزگاری کے ذمے دار اس وقت کے حکمران ہیں جو انصاف اور قانون کی بالادستی کے بجائے کرپشن سے جمع کی گئی دولت ملک سے باہر لے جاتے تھے مگر میں ایسا نہیں کروں گا اور اقتدار میں آکر ملک و قوم کی حالت بدل دوں گا۔ اقتدار کے اپنے تین سالوں میں انھوں نے اپنے دعوے کتنے پورے کیے ان سے اب عوام مکمل واقف ہوچکے ہیں مگر وہ اب بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ پاناما کیس میں جھوٹ بولا گیا تھا میں جب تک زندہ ہوں انصاف اور قانون کی بالادستی کے لیے لڑتا رہوں گا۔
بین الاقوامی جریدے ''دی اکنامسٹ'' کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کا چوتھا مہنگا ترین ملک بن گیا ہے ، جہاں مہنگائی کی شرح نو فیصد ہوچکی ہے مگر حکومت دعوے کرتے نہیں تھک رہی کہ پاکستان میں مہنگائی پڑوسی ممالک سے بہت کم ہے۔
ملک میں لاکھوں افراد بے روزگار ہوچکے مگر حکومتی ترجمان کہہ رہے ہیں کہ حکومت ایک کروڑ سے بھی زائد نوکریاں دے چکی ہے۔ حکومتی وزراء کا کہنا ہے کہ مہنگائی کا جن بوتل میں بند کریں گے شاید حکومت کو اتنی بڑی بوتل کی تلاش ہے جس میں بلند ترین سطح پر پہنچ جانے والی مہنگائی کے جن کو بند کیا جاسکے۔
ہر روز ایسے ہی بے سروپا دعوے ہو رہے ہیں اور ڈالر 172 روپے سے بھی بڑھ گیا ہے سوا تین سالوں سے وزیر اعظم اور ان کی حکومت کے دعوے سن سن کر عوام کے کان پک گئے اور اب ان کیاس سے وابستہ تمام امیدیں دم توڑ چکی ہیں اور ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا اور وزیر اعظم اب بھی صرف مہنگائی کا احساس کرنے پر ہی اکتفا کیے ہوئے ہیں۔
حکومت اس سلسلے میں اقدامات کرنے کی باتیں کر رہی ہے ، عملی طور پر اب بھی کچھ نہیں کیا جا رہا۔ حکومت اپنی کابینہ کی تعداد کم کرکے اخراجات کم کرنے پر توجہ نہیں دے رہی بلکہ مہنگائی کے خلاف اپوزیشن کی تحریک پر پی ٹی آئی کو متحرک کر رہی ہے مگر مہنگائی کم کرنے پر تیار نہیں بلکہ بڑھا رہی ہے تاکہ گھروں تک محدود پی ٹی آئی والے اور سڑکوں پر نکلی اپوزیشن آپس میں لڑ پڑیں جس سے ملک کا مزید نقصان ہو اور صبر کرکے تھک جانے والے عوام بھی اپنے وزیر اعظم سے وہ سلوک کریں جو ماضی میں نہیں ہوا۔