خطے میں امن کے لئے بھارت کے ساتھ ہر تجویز پر غور کے لئے تیار ہیں وزیر اعظم
مسئلہ کشمیر کے حل تک خطے میں کشمکش اور بے یقینی کی فضا قائم رہے گی، وزیر اعظم
وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان خطے میں امن کے لئے بھارت کے ساتھ ہر تجویز پر غور کے لئے تیار ہے کیونکہ مسئلہ کشمیر کے حل تک خطے میں کشمکش اور بے یقینی کی فضا قائم رہے گی۔
آزاد جموں کشمیرقانون سازاسمبلی سے خطاب کے دوران وزیراعظم نوازشریف کا کہنا تھا کہ انہیں اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرکے بہت خوشی محسوس ہورہی ہے، کشمیری اور پاکستانی عوام کے درمیان اخوت اور بھائی چارے کا اٹوٹ رشتہ ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید گہرا ہوتا جارہا ہے، پاکستان اور کشمیر کا مستقبل ایک دوسرے سے وابستہ ہے، انہیں آزاد کشمیر کی ترقی پاکستان کی ترقی کی طرح ہی عزیز ہے اس سلسلے میں انہوں نے اپنے گزشتہ ادوارمیں بھی کشمیریوں کے لئے جدوجہد کی تھی لیکن اس کے لئے نجی شعبوں کا بھی تعاون درکار ہے کیونکہ ہر منصوبے کے لئے حکومت فنڈز فراہم نہیں کرسکتی۔
وزیر اعظم نے کہا کہ آج کا دن ان ہزاروں کشمیریوں کے لئے باعث افتخار ہے جنہوں نے کشمیر کی آزادی کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، ہم اس عہد کی تجدید کرتے ہیں کہ ہم آزادی کی جنگ لڑنے والے شہدا کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں ہونے دیں گے، مسئلہ کشمیر بنیادی انسانی حقوق اور حق خود ارادیت کے اصولوں پر عملدرآمد کا متقاضی ہے، ہم مظلوم کشمیریوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی ذمہ داری سے صرف نظر نہیں کرسکتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کے لئے کشمیریوں کی جدو جہد ان پر ڈھائے جانے والے ظلم کا قدرتی ردعمل ہے، مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کا ایک نامکمل ایجنڈا ہے جس کا حل کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق ہونا چاہئے، پاکستان خطے میں امن چاہتا ہے لیکن ہم کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کو کس صورت نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان اس وقت تک کشمیری عوام کے حقوق کی بحالی کے لئے اپنی کوششیں جاری رکھے گا جب تک کشمیریوں کو ان کا جائز حق نہیں مل جاتا۔
وزیراعظم نے مزید کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ بامعنی مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر سمیت تمام تنازعات کا حل چاہتا ہے، اس سلسلے میں پاکستان نے بھارت کے ساتھ باہمی اعتماد کو تقویت دینے کے لئے لائن آف کنٹرول کھولنے سمیت کئی اقدامات کا آغاز کیا ہے تاکہ دونوں جانب آباد خاندانوں کو یکجا ہونے کے مواقع میسر آسکیں، انہوں نے کہا کہ پاکستان اس خطے میں امن چاہتا ہے، بھارت کے ساتھ امن کے لئے ہر تجویز کو زیر غور لانے کے لئے تیار ہیں۔ برصغیر کی تقسیم اسی لئے ہوئی کہ باہمی جھگروں کو ختم اور اچھے پڑوسیوں کی طرح خیر سگالی کے جذبات کے ساتھ رہا جائے، قائد اعظم پاکستان اور بھارت کے درمیان ایسے ہی تعلقات چاہتے تھے جو امریکا اور کینیدا کے درمیان ہیں، آنجہانی گاندھی کو بھی معلوم تھا کہ ظلم کے ساتھ باہمی تعلقات خوشگوار نہیں رہ سکتے۔ اگر بھارتی قیادت اسی جذبے کے ساتھ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرلے تو کوئی وجہ نہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان اچھے تعلقات قائم نہ ہوں، جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا اس وقت تک خطے میں کشمکش اور بے یقینی کی فضا قائم رہے گی، جس سے خطے میں ترقی و استحکام پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم خطر میں امن کے خواہاں ہے اسی خواہش طالبان کے ساتھ ہمارے مذاکرات سے بھی عیاں ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان میں ہوان کے عوام ہی اپنے ملک کو درپیش مسائل کا خود حل نکالیں۔
آزاد جموں کشمیرقانون سازاسمبلی سے خطاب کے دوران وزیراعظم نوازشریف کا کہنا تھا کہ انہیں اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرکے بہت خوشی محسوس ہورہی ہے، کشمیری اور پاکستانی عوام کے درمیان اخوت اور بھائی چارے کا اٹوٹ رشتہ ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید گہرا ہوتا جارہا ہے، پاکستان اور کشمیر کا مستقبل ایک دوسرے سے وابستہ ہے، انہیں آزاد کشمیر کی ترقی پاکستان کی ترقی کی طرح ہی عزیز ہے اس سلسلے میں انہوں نے اپنے گزشتہ ادوارمیں بھی کشمیریوں کے لئے جدوجہد کی تھی لیکن اس کے لئے نجی شعبوں کا بھی تعاون درکار ہے کیونکہ ہر منصوبے کے لئے حکومت فنڈز فراہم نہیں کرسکتی۔
وزیر اعظم نے کہا کہ آج کا دن ان ہزاروں کشمیریوں کے لئے باعث افتخار ہے جنہوں نے کشمیر کی آزادی کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، ہم اس عہد کی تجدید کرتے ہیں کہ ہم آزادی کی جنگ لڑنے والے شہدا کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں ہونے دیں گے، مسئلہ کشمیر بنیادی انسانی حقوق اور حق خود ارادیت کے اصولوں پر عملدرآمد کا متقاضی ہے، ہم مظلوم کشمیریوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی ذمہ داری سے صرف نظر نہیں کرسکتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کے لئے کشمیریوں کی جدو جہد ان پر ڈھائے جانے والے ظلم کا قدرتی ردعمل ہے، مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کا ایک نامکمل ایجنڈا ہے جس کا حل کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق ہونا چاہئے، پاکستان خطے میں امن چاہتا ہے لیکن ہم کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کو کس صورت نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان اس وقت تک کشمیری عوام کے حقوق کی بحالی کے لئے اپنی کوششیں جاری رکھے گا جب تک کشمیریوں کو ان کا جائز حق نہیں مل جاتا۔
وزیراعظم نے مزید کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ بامعنی مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر سمیت تمام تنازعات کا حل چاہتا ہے، اس سلسلے میں پاکستان نے بھارت کے ساتھ باہمی اعتماد کو تقویت دینے کے لئے لائن آف کنٹرول کھولنے سمیت کئی اقدامات کا آغاز کیا ہے تاکہ دونوں جانب آباد خاندانوں کو یکجا ہونے کے مواقع میسر آسکیں، انہوں نے کہا کہ پاکستان اس خطے میں امن چاہتا ہے، بھارت کے ساتھ امن کے لئے ہر تجویز کو زیر غور لانے کے لئے تیار ہیں۔ برصغیر کی تقسیم اسی لئے ہوئی کہ باہمی جھگروں کو ختم اور اچھے پڑوسیوں کی طرح خیر سگالی کے جذبات کے ساتھ رہا جائے، قائد اعظم پاکستان اور بھارت کے درمیان ایسے ہی تعلقات چاہتے تھے جو امریکا اور کینیدا کے درمیان ہیں، آنجہانی گاندھی کو بھی معلوم تھا کہ ظلم کے ساتھ باہمی تعلقات خوشگوار نہیں رہ سکتے۔ اگر بھارتی قیادت اسی جذبے کے ساتھ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرلے تو کوئی وجہ نہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان اچھے تعلقات قائم نہ ہوں، جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا اس وقت تک خطے میں کشمکش اور بے یقینی کی فضا قائم رہے گی، جس سے خطے میں ترقی و استحکام پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم خطر میں امن کے خواہاں ہے اسی خواہش طالبان کے ساتھ ہمارے مذاکرات سے بھی عیاں ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان میں ہوان کے عوام ہی اپنے ملک کو درپیش مسائل کا خود حل نکالیں۔