ذہنی صحت کو نگلتے ’ویڈیو گیم‘
محققین نے بچوں پر موبائل فون کی شعاعوں کے خطرے سے آگاہ کر دیا۔
زندگی کا ہر وہ عمل جسے کرنے میں انسان تمام حدود وقیود پار کر جائے، وہ لازماً اس کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا۔ زندگی کے ہر پہلو میں اعتدال پسندی کی عادت اپنائی جائے کیوں کہ اس کے بغیر انسان کی زندگی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
عصر حاضر میں جدید ٹیکنالوجی نے جہاں بہت سے مثبت اثرات مرتب کیے ہیں، وہیں منفی اثرات بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ جب سے بچے اس جدید ٹیکنالوجی سے متاثر ہوئے ہیں، تب سے ان کی زندگیوں میں بے انتہا مشکلات پیدا ہوگئی ہیں۔ آن لائن وڈیو گیم یا الیکٹرانک گیموں نے بچوں کی ذہنی تربیت کے ساتھ ساتھ تعلیمی سرگرمیوں کو بھی بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔
بچے بذات خود بہت معصوم اور ناسمجھ ہوتے ہیں۔ گھر کا ماحول اور اردگرد کے افراد بچوں کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ جب بچے روتے ہیں، تو والدین یا بڑے بہن، بھائی انھیں خاموش کرانے کے لیے اپنا موبائل فون تھما دیتے ہیں اور اس طرح بچوں میں موبائل فون کی دل چسپی پیدا ہوتی ہے۔
کچھ عرصے بعد بچے کو موبائل کا استعمال آجاتا ہے، جس کی وجہ سے وہ موبائل فون کی سرگرمیوں سے واقف ہوتا جاتا ہے۔ اس وقت والدین لاپرواہی برتتے ہیں اور بچوں پر نظر نہیں رکھتے، جس کی وجہ سے بچہ ویڈیو گیم کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور اس کی پہلی ترجیح ویڈیو گیم کا بہت زیادہ استعمال ہو جاتا ہے۔
یونیورسٹی آف پٹسبرگ کے ایک ادارے نے گزشتہ سال ایک رپورٹ جاری کی جس میں موبائل سے خارج ہونے والی شعاعوں کے حوالے سے خبردار کیا گیا تھا اورکہا گیا تھا کہ موبائل فون کا زیادہ استعمال کرنے والے بچوں میں کینسر کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ ادارے نے اپنی تحقیق میں بتایا کہ موبائل فون سے خارج ہونے والی شعاعیں بڑوں کے مقابلے میں بچوں کے دماغ پر زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں۔ ماہرینِ صحت بچوں کے ویڈیو گیم کے زیادہ استعمال پر زیادہ تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق ویڈیو گیم کے بے جا استعمال سے بچوں میں کلائی، کہنی اور گردن میں درد، نیند کی کمی، مُٹاپا میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ جب بچہ ویڈیو گیم سے دور ہو جائے، تو اس کی طبیعت میں چڑچڑا پن پیدا ہو جاتا ہے۔
حالیہ سالوں میں دو ایسی بڑے آن لائن گیم کا نام ہم نے لازمی سنا ہوگا، جو دنیا میں غلبہ رکھنے کے ساتھ نہایت متنازع رہی ہیں، ان میں ایک ہے 'پب جی' اور دوسری ہے 'بلیو ویل' ان دونوں گیم کو پاکستان سمیت دیگر کئی ممالک میں پابندی کا بھی سامنا کرنا پڑا، مگر وجہ کیا تھی۔۔۔؟ وجہ یہی تھی کہ یہ گیم انٹرٹینمنٹ سے زیادہ لوگوں بالخصوص بچوں میں نفسیاتی مسائل پیدا کر رہی تھیں، پاکستان سمیت پوری دنیا میں ان گیم کے خاطر کئی بچوں اور نوجوانوں نے اپنی زندگی تک کا خاتمہ کیا۔
بچوں میں 'آن لائن' اور ویڈیو گیم کی بڑھتی ہوئی عادت کو ختم کرنے کا حل یہ نہیں کہ گیمنگ پر پابندی لگا دی جائے، جس کے باعث ٹیکنالوجی میں ہم پیچھے رہ جائیں، اور بچوں کی انٹرٹینمنٹ ختم ہو جائے، بلکہ اس کا حل ٹھوس پلاننگ میں چھپا ہے۔ بچوں کے لیے تربیتی ورک شاپ قائم کی جائیں۔
اساتذہ اور والدین مل کر اس مسئلے کا حل تلاش کریں۔ بچوں کو سمجھائیں کہ ان کا زیادہ استعمال نہ صرف وقت کا ضیاع ہے، بل کہ جسمانی صحت بھی متاثر ہوتی ہے۔ اسکول، کالجوں میں باقاعدہ تربیتی پروگرام منعقد کیے جائیں۔ طلبہ کی ذہنی صلاحیتوں کو دوسری ہم نصابی سرگرمیوں میں صرف کیا جائے، تاکہ ان کا ذہن بٹ سکے اور وہ ویڈیو گیم کے ساتھ کم سے کم وقت گزاریں۔
والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھیں۔ انھیں پیار سے سمجھائیں اور ویڈیو گیم کے نقصانات سے آگاہ کریں۔ وہ بچوں کو ایک دم ویڈیو گیم سے دور نہ کریں، بلکہ ان کے کھیلنے کا وقت مقرر کریں۔ انھیں دوسرے مشاغل جیسے کمپیوٹر پر ڈیزائینگ اور مختلف مفید سوفٹ ویئر سے روشناس کرائیں۔
والدین کو چاہیے کہ وہ زیادہ وقت اپنے بچوں کے ساتھ گزاریں۔ انھیں تفریحی مقامات پر لے جائیں، تاکہ ان کی سرگرمیوں میں تبدیلی آئے، اور وہ ذہنی طور پر پر سکون ہوں۔
عصر حاضر میں جدید ٹیکنالوجی نے جہاں بہت سے مثبت اثرات مرتب کیے ہیں، وہیں منفی اثرات بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ جب سے بچے اس جدید ٹیکنالوجی سے متاثر ہوئے ہیں، تب سے ان کی زندگیوں میں بے انتہا مشکلات پیدا ہوگئی ہیں۔ آن لائن وڈیو گیم یا الیکٹرانک گیموں نے بچوں کی ذہنی تربیت کے ساتھ ساتھ تعلیمی سرگرمیوں کو بھی بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔
بچے بذات خود بہت معصوم اور ناسمجھ ہوتے ہیں۔ گھر کا ماحول اور اردگرد کے افراد بچوں کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ جب بچے روتے ہیں، تو والدین یا بڑے بہن، بھائی انھیں خاموش کرانے کے لیے اپنا موبائل فون تھما دیتے ہیں اور اس طرح بچوں میں موبائل فون کی دل چسپی پیدا ہوتی ہے۔
کچھ عرصے بعد بچے کو موبائل کا استعمال آجاتا ہے، جس کی وجہ سے وہ موبائل فون کی سرگرمیوں سے واقف ہوتا جاتا ہے۔ اس وقت والدین لاپرواہی برتتے ہیں اور بچوں پر نظر نہیں رکھتے، جس کی وجہ سے بچہ ویڈیو گیم کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور اس کی پہلی ترجیح ویڈیو گیم کا بہت زیادہ استعمال ہو جاتا ہے۔
یونیورسٹی آف پٹسبرگ کے ایک ادارے نے گزشتہ سال ایک رپورٹ جاری کی جس میں موبائل سے خارج ہونے والی شعاعوں کے حوالے سے خبردار کیا گیا تھا اورکہا گیا تھا کہ موبائل فون کا زیادہ استعمال کرنے والے بچوں میں کینسر کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ ادارے نے اپنی تحقیق میں بتایا کہ موبائل فون سے خارج ہونے والی شعاعیں بڑوں کے مقابلے میں بچوں کے دماغ پر زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں۔ ماہرینِ صحت بچوں کے ویڈیو گیم کے زیادہ استعمال پر زیادہ تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق ویڈیو گیم کے بے جا استعمال سے بچوں میں کلائی، کہنی اور گردن میں درد، نیند کی کمی، مُٹاپا میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ جب بچہ ویڈیو گیم سے دور ہو جائے، تو اس کی طبیعت میں چڑچڑا پن پیدا ہو جاتا ہے۔
حالیہ سالوں میں دو ایسی بڑے آن لائن گیم کا نام ہم نے لازمی سنا ہوگا، جو دنیا میں غلبہ رکھنے کے ساتھ نہایت متنازع رہی ہیں، ان میں ایک ہے 'پب جی' اور دوسری ہے 'بلیو ویل' ان دونوں گیم کو پاکستان سمیت دیگر کئی ممالک میں پابندی کا بھی سامنا کرنا پڑا، مگر وجہ کیا تھی۔۔۔؟ وجہ یہی تھی کہ یہ گیم انٹرٹینمنٹ سے زیادہ لوگوں بالخصوص بچوں میں نفسیاتی مسائل پیدا کر رہی تھیں، پاکستان سمیت پوری دنیا میں ان گیم کے خاطر کئی بچوں اور نوجوانوں نے اپنی زندگی تک کا خاتمہ کیا۔
بچوں میں 'آن لائن' اور ویڈیو گیم کی بڑھتی ہوئی عادت کو ختم کرنے کا حل یہ نہیں کہ گیمنگ پر پابندی لگا دی جائے، جس کے باعث ٹیکنالوجی میں ہم پیچھے رہ جائیں، اور بچوں کی انٹرٹینمنٹ ختم ہو جائے، بلکہ اس کا حل ٹھوس پلاننگ میں چھپا ہے۔ بچوں کے لیے تربیتی ورک شاپ قائم کی جائیں۔
اساتذہ اور والدین مل کر اس مسئلے کا حل تلاش کریں۔ بچوں کو سمجھائیں کہ ان کا زیادہ استعمال نہ صرف وقت کا ضیاع ہے، بل کہ جسمانی صحت بھی متاثر ہوتی ہے۔ اسکول، کالجوں میں باقاعدہ تربیتی پروگرام منعقد کیے جائیں۔ طلبہ کی ذہنی صلاحیتوں کو دوسری ہم نصابی سرگرمیوں میں صرف کیا جائے، تاکہ ان کا ذہن بٹ سکے اور وہ ویڈیو گیم کے ساتھ کم سے کم وقت گزاریں۔
والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھیں۔ انھیں پیار سے سمجھائیں اور ویڈیو گیم کے نقصانات سے آگاہ کریں۔ وہ بچوں کو ایک دم ویڈیو گیم سے دور نہ کریں، بلکہ ان کے کھیلنے کا وقت مقرر کریں۔ انھیں دوسرے مشاغل جیسے کمپیوٹر پر ڈیزائینگ اور مختلف مفید سوفٹ ویئر سے روشناس کرائیں۔
والدین کو چاہیے کہ وہ زیادہ وقت اپنے بچوں کے ساتھ گزاریں۔ انھیں تفریحی مقامات پر لے جائیں، تاکہ ان کی سرگرمیوں میں تبدیلی آئے، اور وہ ذہنی طور پر پر سکون ہوں۔