خواجہ سراؤں کے بھیک مانگنے پرپابندی بڑی تعداد جسم فروشی پر مجبور ہونے لگی
لوکل گورنمنٹ میں خواجہ سراؤں کے لیے 2 فیصد ملازمت کوٹہ مختص کرنے کی سفارش کی گئی ہے، سیکرٹری بلدیات پنجاب
پنجاب میں خواجہ سراؤں کے بھیک مانگنے پرپابندی کے بعد ان کی بڑی تعداد جسم فروشی کے قبیح دھندے میں شامل ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
خواجہ سراؤں کے بھیک مانگنے پرپابندی کے بعد ان کی بڑی تعداد جسم فروشی کے دھندے میں شامل ہورہی ہے۔ خواجہ سرا کمیونٹی کے مطابق اگرحکومت نے خواجہ سراؤں کی فلاح وبہبودکے لئے عملی اقدامات نہ اٹھائے توخواجہ سراؤں کے معاشی مسائل میں اضافہ ہوگا،خواجہ سراؤں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پولیس قانونی تقاضے پورے کئے بغیر ان کے ڈیروں پر چھاپے مارتی ہے جبکہ سڑکوں سے پکڑے جانے والے خواجہ سراؤں کے ساتھ غیر اخلاقی سلوک کیا جاتا ہے۔
خواجہ سرا نرگس (فرضی نام) کا تعلق لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن سے ہے، انہیں چند روز قبل کریم بلاک کے قریب بھیک مانگتے ہوئے پکڑا گیا اور پولیس اہلکار انہیں اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھا کر تھانے لے گئے، ان کے علاوہ 2 مزید خواجہ سراؤں کو پکڑا گیا تھا۔ تھانے میں پولیس اہل کار ان پرمنشیات اورجسم فروشی کاالزام لگاتے رہے جبکہ انتہائی غیراخلاقی حرکات اورسوال وجواب کئے گئے۔ کئی گھنٹےتھانے میں رکھنے اورآئندہ بھیک نہ مانگنے کاتحریری بیان جمع کرانے پر انہیں اور ان کی ساتھیوں کو رہائی مل سکی۔
پنجاب میں اس وقت سیکڑوں خواجہ سراؤں کونرگس کی طرح کے ہی مسائل کا سامنا ہے۔ خواجہ سرا سوسائٹی کی نمائندہ زعنائیہ چوہدری نے ٹربیون کو بتایا کہ کورونا کی وجہ سے شادی بیاہ کی تقریبات محدود ہونے سے ایسے خواجہ سرا جو ناچ گانے سے گھر کا نظام چلاتے تھے وہ اب بھیک مانگنے پر مجبور ہیں لیکن حکومت نے یہ دروازہ بھی بند کردیا ہے ۔ وہ خود خواجہ سراؤں کے بھیک مانگنے اور جسم فروشی کے خلاف ہیں لیکن حکومت کو انہیں متبادل روزگار دینا چاہیے۔ ایسی خواجہ سرا جو مارکیٹ اور بازار میں کسی ذاتی کام سے نکلتی ہیں انہیں بھی پولیس پکڑ لیتی ہے ، بزرگ خواجہ سراؤں کے ڈیروں پر قانونی اجازت کے بغیر چھاپے مارے جارہے ہیں۔
زعنائیہ چوہدری کے مطابق خواجہ سراؤں کوگرفتارکرنے ،ان کے گھرمیں چھاپہ اورتلاشی کے لئے کسی خاتون پولیس اہل کارکی مدد نہیں لی جاتی ہے۔ جب کہ گرفتاری کے بعد مرد پولیس اہل کارانہیں اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھاتے اور پھر مردوں کے ساتھ ہی حوالات میں بند رکھتے ہیں۔ اگر کوئی خواجہ سرا خوبصورت ہو تو پولیس اہل کاراس سے دوستی اور تعلق بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض اوقات وہ خواجہ سراؤں کے گھروں میں آکر ان کے ساتھ وقت گزارتے اور نشہ بھی کرتے ہیں۔ خواجہ سرا اس وجہ سے پولیس والوں سے دوستی کرلیتی ہیں کہ اس طرح انہیں تحفظ ملا رہے گا۔ بھیک مانگنے پر پابندی کے بعد خواجہ سرا جسم فروشی کی طرف جارہے ہیں،وہ خود ایسی کئی خواجہ سراؤں کو جانتی ہیں جنہوں نے بھوک مٹانے کے لئے اب جسم فروشی شروع کردی ہے اس سے ایڈز سمیت دیگرجنسی بیماریوں میں بھی اضافہ ہوگا۔
پنجاب حکومت کے محکمہ سماجی بہبود اور محکمہ انسانی حقوق نے خواجہ سراؤں کی فلاح وبہبود کے لئے متعدد منصوبوں کااعلان کررکھا ہے جس میں خواجہ سراؤں کے لئے لاہورمیں کمیونٹی سینٹر کا قیام، قومی شناختی کارڈ کی فراہمی اوراحساس پروگرام کے تحت مالی معاونت کے پروگرام شامل ہیں تاہم اکثریت کے پاس خواجہ سراکی حیثیت سے شناختی کارڈنہ ہونے کے باعث وہ ان پروگراموں سے مستفیدنہیں ہورہے ہیں۔
لاہور سے تعلق رکھنے والی خواجہ سراؤں کی مقامی گورو نیلی رانا کہتی ہیں خواجہ سراؤں کے لئے شناختی کارڈ کاحصول آسان بنانا ہوگا، میڈیکل سرٹیفکیٹ کی شرط ختم ہونی چاہیے یہ بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے۔ اسی طرح خواجہ سراؤں کے لئے تعلیم، صحت، کمیونٹی سینٹر اور ووکیشنل ٹریننگ کا اہتمام کیا جائے، تربیت لینے والے خواجہ سراؤں کو ماہانہ بنیادوں پر وظیفہ دیا جائے۔ ایسے اقدامات سے ہی انہیں بھیک مانگنے اور جسم فروشی جیسے غلط کاموں سے روکا جاسکتا ہے۔
خواجہ سراؤں کے حقوق کے لئے سرگرم خواجہ سراسوسائٹی کے مطابق خواجہ سراؤں کو ذاتی کاروبار کے لئے قرض حسنہ دیا جائے، نوکریوں کے مواقع فراہم کیے جائیں، چھوٹے کاروبار کے لئے بلاسود قرض دیا جائے، مفت ٹریننگ کی سہولت دی جائے تو خواجہ سرا کمیونٹی اپنے پاؤں پر کھڑی ہوسکتی ہے، اس کے علاوہ خواجہ سراؤں کے گورو کو پابند کیا جائے کہ ان کے پاس جتنے بھی کم عمر خواجہ سرا آئیں گے وہ ان کے لئے لازمی تعلیم کا بندوبست کریں گے۔
دوسری طرف سیکرٹری بلدیات نورالامین مینگل نے بتایا کہ لوکل گورنمنٹ میں خواجہ سراؤں کے لیے 2 فیصد ملازمت کوٹہ مختص کرنے کی سفارش کی گئی ہے، بورڈ کے متفقہ فیصلے کے بعد خواجہ سراؤں کی بھرتیوں کے لیے جامع پالیسی تیار کی جائے گی۔ لوکل گورنمنٹ کے ماتحت اداروں میں ٹرانسجیڈرز کو 2 فیصد کوٹہ کی بنیاد پر نوکریاں دی جائیں گی۔ خواجہ سراؤں کی قابلیت اور کوٹہ کے مطابق بڑے عہدوں پر بھی ملازمتیں دی جائیں گی۔ انہوں نے کہا سرکاری اداروں میں خواتین کے لیے 15، اقلیتوں کے لیے 5 اور خواجہ سراؤں کے لیے 2 فیصد مختص کرنا خوش آئند اقدام ہے۔اس اقدام سے خواجہ سراء ملک و قوم کی ترقی میں بھر پور کردار ادا کر سکیں گے۔
خواجہ سراؤں کے بھیک مانگنے پرپابندی کے بعد ان کی بڑی تعداد جسم فروشی کے دھندے میں شامل ہورہی ہے۔ خواجہ سرا کمیونٹی کے مطابق اگرحکومت نے خواجہ سراؤں کی فلاح وبہبودکے لئے عملی اقدامات نہ اٹھائے توخواجہ سراؤں کے معاشی مسائل میں اضافہ ہوگا،خواجہ سراؤں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پولیس قانونی تقاضے پورے کئے بغیر ان کے ڈیروں پر چھاپے مارتی ہے جبکہ سڑکوں سے پکڑے جانے والے خواجہ سراؤں کے ساتھ غیر اخلاقی سلوک کیا جاتا ہے۔
خواجہ سرا نرگس (فرضی نام) کا تعلق لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن سے ہے، انہیں چند روز قبل کریم بلاک کے قریب بھیک مانگتے ہوئے پکڑا گیا اور پولیس اہلکار انہیں اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھا کر تھانے لے گئے، ان کے علاوہ 2 مزید خواجہ سراؤں کو پکڑا گیا تھا۔ تھانے میں پولیس اہل کار ان پرمنشیات اورجسم فروشی کاالزام لگاتے رہے جبکہ انتہائی غیراخلاقی حرکات اورسوال وجواب کئے گئے۔ کئی گھنٹےتھانے میں رکھنے اورآئندہ بھیک نہ مانگنے کاتحریری بیان جمع کرانے پر انہیں اور ان کی ساتھیوں کو رہائی مل سکی۔
پنجاب میں اس وقت سیکڑوں خواجہ سراؤں کونرگس کی طرح کے ہی مسائل کا سامنا ہے۔ خواجہ سرا سوسائٹی کی نمائندہ زعنائیہ چوہدری نے ٹربیون کو بتایا کہ کورونا کی وجہ سے شادی بیاہ کی تقریبات محدود ہونے سے ایسے خواجہ سرا جو ناچ گانے سے گھر کا نظام چلاتے تھے وہ اب بھیک مانگنے پر مجبور ہیں لیکن حکومت نے یہ دروازہ بھی بند کردیا ہے ۔ وہ خود خواجہ سراؤں کے بھیک مانگنے اور جسم فروشی کے خلاف ہیں لیکن حکومت کو انہیں متبادل روزگار دینا چاہیے۔ ایسی خواجہ سرا جو مارکیٹ اور بازار میں کسی ذاتی کام سے نکلتی ہیں انہیں بھی پولیس پکڑ لیتی ہے ، بزرگ خواجہ سراؤں کے ڈیروں پر قانونی اجازت کے بغیر چھاپے مارے جارہے ہیں۔
زعنائیہ چوہدری کے مطابق خواجہ سراؤں کوگرفتارکرنے ،ان کے گھرمیں چھاپہ اورتلاشی کے لئے کسی خاتون پولیس اہل کارکی مدد نہیں لی جاتی ہے۔ جب کہ گرفتاری کے بعد مرد پولیس اہل کارانہیں اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھاتے اور پھر مردوں کے ساتھ ہی حوالات میں بند رکھتے ہیں۔ اگر کوئی خواجہ سرا خوبصورت ہو تو پولیس اہل کاراس سے دوستی اور تعلق بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض اوقات وہ خواجہ سراؤں کے گھروں میں آکر ان کے ساتھ وقت گزارتے اور نشہ بھی کرتے ہیں۔ خواجہ سرا اس وجہ سے پولیس والوں سے دوستی کرلیتی ہیں کہ اس طرح انہیں تحفظ ملا رہے گا۔ بھیک مانگنے پر پابندی کے بعد خواجہ سرا جسم فروشی کی طرف جارہے ہیں،وہ خود ایسی کئی خواجہ سراؤں کو جانتی ہیں جنہوں نے بھوک مٹانے کے لئے اب جسم فروشی شروع کردی ہے اس سے ایڈز سمیت دیگرجنسی بیماریوں میں بھی اضافہ ہوگا۔
پنجاب حکومت کے محکمہ سماجی بہبود اور محکمہ انسانی حقوق نے خواجہ سراؤں کی فلاح وبہبود کے لئے متعدد منصوبوں کااعلان کررکھا ہے جس میں خواجہ سراؤں کے لئے لاہورمیں کمیونٹی سینٹر کا قیام، قومی شناختی کارڈ کی فراہمی اوراحساس پروگرام کے تحت مالی معاونت کے پروگرام شامل ہیں تاہم اکثریت کے پاس خواجہ سراکی حیثیت سے شناختی کارڈنہ ہونے کے باعث وہ ان پروگراموں سے مستفیدنہیں ہورہے ہیں۔
لاہور سے تعلق رکھنے والی خواجہ سراؤں کی مقامی گورو نیلی رانا کہتی ہیں خواجہ سراؤں کے لئے شناختی کارڈ کاحصول آسان بنانا ہوگا، میڈیکل سرٹیفکیٹ کی شرط ختم ہونی چاہیے یہ بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے۔ اسی طرح خواجہ سراؤں کے لئے تعلیم، صحت، کمیونٹی سینٹر اور ووکیشنل ٹریننگ کا اہتمام کیا جائے، تربیت لینے والے خواجہ سراؤں کو ماہانہ بنیادوں پر وظیفہ دیا جائے۔ ایسے اقدامات سے ہی انہیں بھیک مانگنے اور جسم فروشی جیسے غلط کاموں سے روکا جاسکتا ہے۔
خواجہ سراؤں کے حقوق کے لئے سرگرم خواجہ سراسوسائٹی کے مطابق خواجہ سراؤں کو ذاتی کاروبار کے لئے قرض حسنہ دیا جائے، نوکریوں کے مواقع فراہم کیے جائیں، چھوٹے کاروبار کے لئے بلاسود قرض دیا جائے، مفت ٹریننگ کی سہولت دی جائے تو خواجہ سرا کمیونٹی اپنے پاؤں پر کھڑی ہوسکتی ہے، اس کے علاوہ خواجہ سراؤں کے گورو کو پابند کیا جائے کہ ان کے پاس جتنے بھی کم عمر خواجہ سرا آئیں گے وہ ان کے لئے لازمی تعلیم کا بندوبست کریں گے۔
دوسری طرف سیکرٹری بلدیات نورالامین مینگل نے بتایا کہ لوکل گورنمنٹ میں خواجہ سراؤں کے لیے 2 فیصد ملازمت کوٹہ مختص کرنے کی سفارش کی گئی ہے، بورڈ کے متفقہ فیصلے کے بعد خواجہ سراؤں کی بھرتیوں کے لیے جامع پالیسی تیار کی جائے گی۔ لوکل گورنمنٹ کے ماتحت اداروں میں ٹرانسجیڈرز کو 2 فیصد کوٹہ کی بنیاد پر نوکریاں دی جائیں گی۔ خواجہ سراؤں کی قابلیت اور کوٹہ کے مطابق بڑے عہدوں پر بھی ملازمتیں دی جائیں گی۔ انہوں نے کہا سرکاری اداروں میں خواتین کے لیے 15، اقلیتوں کے لیے 5 اور خواجہ سراؤں کے لیے 2 فیصد مختص کرنا خوش آئند اقدام ہے۔اس اقدام سے خواجہ سراء ملک و قوم کی ترقی میں بھر پور کردار ادا کر سکیں گے۔