ڈاکٹر عافیہ صدیقی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا شکار

حکومت پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ قانونی راستے سے عافیہ کی رہائی کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کرے

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی تحریکِ انصاف کے انتخابی منشور میں شامل تھی۔ (فوٹو: فائل)

لاہور:
''امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ نے تشدد، وحشیانہ سفاکیت اور ریاست کے وحشیانہ جرائم کا شرمناک ریکارڈ چھوڑا ہے، جو اب بھی جاری ہے۔ عافیہ صدیقی کی آزمائش اس ہولناک آزمائش کے سب سے ذلت آمیز ابواب میں سے ایک ہے۔ اسے آزاد کیا جانا چاہیے اور (اس کی مظلومانہ قید کا) ممکنہ حد تک معاوضہ دیا جانا چاہیے۔ اور ہم سب کو اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے کہ کیا ہم یہ چاہتے ہیں؟''

ڈاکٹر عافیہ کیس سے متعلق اس کے پروفیسر نوم چومسکی (ایم آئی ٹی جامعہ) کا یہ تبصرہ انسانیت خصوصاً امت کےلیے آئینہ ہے۔ عافیہ کیس کے ضمن میں غفلت برتنے والا ہر کردار اس آئینے کا بھیانک عکس ہے۔ انسانی حقوق پر یقین رکھنے والا ہر مسلمان اس سوال کا مخاطٙب ہے۔

یہ بلاگ بھی پڑھیے: ڈاکٹر عافیہ صدیقی، ناقابلِ تسخیرعورت



واضح رہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو 2003 میں مبینہ طور پر اس وقت کے حکمران پرویز مشرف کے حکم پر کراچی سے تین چھوٹے بچوں سمیت اغوا کرکے بگرام ایئربیس افغانستان لے جایا گیا تھا۔ جہاں ان پر پانچ سال تک امریکی عقوبت خانے میں انسانیت سوز مظالم توڑے گئے۔ برطانوی نو مسلم صحافی یون ریڈلے نے یہاں موجود قیدی نمبر 650 کے ڈاکٹر عافیہ ہونے کا انکشاف عالمی میڈیا کے سامنے کیا۔ اس کے بعد عافیہ کے خلاف ایک عجیب و غریب مقدمہ تیار کیا گیا۔ جس کے مطابق یہ کمزور اور زخموں سے چُور خاتون، بھاری بھرکم ''ایم فور گن'' اٹھا کر امریکی فوجیوں پر حملے کی مرتکب ہوئی تھی۔ ایک فوجی قریب سے گولی مار کر عافیہ کو زخمی کر دیتا ہے مگر وہ زندہ بچ جاتی ہے اور زخمی حالت میں 2009 میں امریکا منتقل کردی جاتی ہے۔ امریکی عدالت میں اقدامِ قتل کا الزام ثابت نہ ہونے کے باوجود اسے 86 سال کی قید سنا دی گئی۔ ڈاکٹر عافیہ کو ٹیکساس کے فورٹ ورتھ میں واقع فیڈرل میڈیکل سینٹر کارسویل میں قید بدترین ظلم اور زیادتی کے 18 سال بیت چکے۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی قومی منظرنامے کے ہر اہم موڑ پر سامنے آنے والا سگنل ہے۔ گزشتہ امریکا طالبان امن معاہدہ ہو یا حالیہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا خاتمہ... عافیہ ایک بار پھر موضوعِ بحث ہے۔ بلکہ اب ایک مسلسل عالمگیر تحریک کی صورت میں امت کو جھنجھوڑ رہی ہے۔ اس سلسلے میں خصوصاً پاکستان اور امریکا میں عافیہ کی رہائی اور باعزت وطن واپسی کےلیے مسلسل احتجاجی مظاہروں کے ذریعے پاکستان اور امریکی حکومتوں کو احساس دلایا جارہا ہے۔

مگر کیا صرف احتجاج اور مظاہروں کے ذریعے عافیہ کیس کا حل ممکن ہے؟ اس حوالے سے عافیہ کی رہائی کےلیے ہونے والی پیش رفت کو دیکھتے ہیں۔

یہ بلاگ بھی پڑھیے: حکومت ڈاکٹر عافیہ کیلئے ایک خط بھی نہ لکھ سکی

عافیہ رہائی کےلیے موجودہ اور سابقہ حکومتیں ایک ہی مقام پر نظر آتی ہیں۔ کسی حکمران نے بھی کوئی باضابطہ تحریری کام قوم کے سامنے پیش نہیں کیا ہے۔ موجودہ وزیراعظم عمران خان نے اپنے تین سالہ دور میں ایک مرتبہ بھی عافیہ کا نام نہیں لیا، باوجود اس کے کہ عافیہ کیس ان کے انتخابی منشور کا حصہ تھا۔ حکومتی وزیر اگرچہ میڈیا کے سامنے عافیہ کا نام لے لیتے ہیں مگر عافیہ کیس کے بارے میں قانونی معلومات نہ رکھنے کے باعث ان کے بیانات بے فائدہ ہیں۔

یہ بلاگ بھی پڑھئے: خان صاحب، عافیہ کی آس ٹوٹنے نہ دیجیے!

عافیہ رہائی کے معاملے میں دیگر بڑی سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کا رویہ بھی منافقت سے خالی نہیں۔ پی ڈی ایم ملک بھر اور کراچی میں بڑے بڑے جلسے کر رہی ہے مگر ایک مرتبہ بھی کسی پارٹی نے عافیہ کا نام ان جلسوں میں نہیں لیا۔ دینی و سماجی اور سیاسی قائدین اپنے کارکنوں کے دباؤ میں آکر عافیہ کے بارے میں جذباتی بیانات اور تقریریں تو کر دیتے ہیں، کارکن بھی عافیہ کاز کے ساتھ مخلص ہیں مگر افسو س عافیہ رہائی کےلیے کوئی عملی اقدام ان جماعتوں کے پارٹی/ جماعتی مفادات کے دائرے سے باہر ہے۔

حکومتی اور دیگر دینی و سیاسی جماعتوں کے رویوں سے مایوس ہو کر عافیہ کا خاندان عافیہ موومنٹ کے پلیٹ فارم سے ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی قیادت میں عافیہ کی رہائی کےلیے سرگرم ہے۔ عافیہ موومنٹ نے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کےلیے اقتدار، انتظامیہ اور عدلیہ کا ہر دروازہ کھٹکھٹایا۔ ہزاروں کی تعداد میں یاد دہانی خطوط ارسال کیے گئے۔ پیپلز پارٹی دور حکومت، مسلم لیگ دور حکومت اور اب پاکستان تحریکِ انصاف کا دور حکومت، سب ہی بے حسی کی بدترین مثال ہیں۔

عافیہ موومنٹ کی جانب سے عدالتوں میں کئی پٹیشنز دائر کی جاچکی ہیں۔ یہ عدالتی کوششیں عافیہ کے ساتھ پیش آنے والے اندوہناک واقعات اور اس کی رہائی کےلیے حکومتی تعاون کےلیے موقع بہ موقع کی گئیں۔ افسوس کہ تاحال ان کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں مل سکا۔

حکومتی سطح پر اس حد درجہ مایوسی کے باوجود نام نہاد دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کے خاتمے نے عافیہ رہائی مہم میں نئی زندگی پیدا کردی ہے۔ ایک جانب ملک کے اندر عوامی سطح کی مہماتی کوششیں نئے عزم کے ساتھ جاری ہیں۔ دوسری جانب عافیہ ایشو امریکا میں بھی مظاہروں و مباحث کا موضوع بن رہا ہے۔ جن میں عافیہ کی امریکی وکیل مروہ البیالی اور ہیومن رائٹس ایڈووکیٹ موری سلاخاں کی سرکردگی میں معروف اسلامی مبلغین اور انسانی حقوق کی حامی تنظیمیں اور اتحاد عافیہ کاز کو مہماتی طور پر آگے بڑھا رہے ہیں۔

عافیہ فاؤنڈیشن کی زیرِ قیادت ''انسانی حقوق کی تحریکوں'' کے عنوان سے ان کوششوں کا مقصد مہم چلانا، اتحاد بنانا اور ڈاکٹر عافیہ کے بارے میں دنیا کو آگاہ کرنا ہے۔ اس ضمن میں امریکی کانگریسی ارکان سے ملاقات اور انہیں عافیہ کیس سے متعلق آگاہی فراہم کرنا بھی اس مہم کا حصہ ہے، تاکہ یہ ارکان عوامی سطح پر ڈاکٹر عافیہ کی حمایت کریں اور لوگوں کو عافیہ کی حالتِ زار کا احساس دلائیں۔ ان کے خیال میں ڈاکٹر عافیہ کو جیل سے رہا کرانے کا بہترین طریقہ امریکا اور پاکستان کے درمیان حکومت سے حکومت کا معاہدہ ہوگا۔ ڈاکٹر عافیہ امریکی شہری نہیں ہیں۔ وہ ایک پاکستانی شہری ہے جسے غیر قانونی طور پر امریکا کے حوالے کیا گیا ہے۔ امریکا کو اسے ناکردہ جرم کی پاداش میں امریکی سرزمین پر قید کرنے کا کوئی قانونی حق نہیں ہے۔




عافیہ رہائی کی مذکورہ تمام بظاہر حوصلہ افزا کوششوں کا جائزہ لینے پر جو حقیقت سامنے آتی ہے وہ یہ کہ اس سارے منظرنامے میں حکمران، سیاستدان، علما، مفتیان اور عوام کی خاطرخواہ تعداد فورفرنٹ پر نہیں ہے۔ اس کا جواب ماہرِ قانون داؤد غزنوی نے (مصنف Aafia Unheard) قانونی انداز میں دینے کی کوشش کی ہے۔ ان کے مطابق: عافیہ کے ساتھ لوگوں کی ہمدردیاں بلاشبہ ہیں۔ حکمران، دینی و سیاسی جماعتیں بھی ظاہری حد تک اس کی ہمدرد ہیں، لیکن اس کی واپسی کے قانونی اقدامات کےلیے کوئی آگے نہیں۔ اس کی وجہ لوگوں کو عافیہ کے مقدمے کی بابت حقائق کا صحیح علم نہیں۔ ''لیڈی القاعدہ'' کے طور پر بدنام کی گئی ڈاکٹر عافیہ کے مقدمے اور سزا کو دہشت گردی سے جوڑا ہی نہیں گیا۔ مزید یہ کہ قانونی راستوں سے لاعلمی کے باعث عافیہ حکمرانوں کی ترجیحات کا بھی حصہ نہیں۔ اہم بات یہ عافیہ کو ٹول کے طول پر استعمال کیا جارہا ہے۔ مثلاً نواز شریف اور عمران خان نے عافیہ کو انتخابی منشور میں رکھ کر عوامی پذیرائی حاصل کی۔

عراق کی انتہاپسند تنظیم آئی ایس (داعش) نے (2014 میں) امریکی صحافی جیمز فولی کی رہائی کے بدلے عافیہ کا مطالبہ کرکے اس کے ذریعے پاکستان اور افغانستان میں اپنی (انتہاپسندی کےلیے) حمایت کو بڑھانے کی کوشش کی۔

افغانستان امن معاہدے میں دو طرفہ قیدیوں کے تبادلے کے ضمن میں طالبان نے عافیہ کا نام بھی شامل کیا۔ مگر کام پورا ہوگیا تو عافیہ ان کی بھی ترجیح نہ رہی۔

عافیہ کی واپسی کے ذریعے اس کا نام غلط مفادات کےلیے، ٹول کے طور پر استعمال ہونے سے رک جائے گا، نیز خطے میں انتہاپسندی کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ بیرسٹر داؤد کے نزدیک عافیہ کی واپسی کا سب سے زیادہ موثر اور قابلِ عمل طریقہ، اس کی صحت کے مسائل کی بنیاد پر انسانی حقوق پٹیشن کا ہے۔ یہ پٹیشن تمام تقاضوں کے ساتھ امریکی اٹارنی جنرل کو کی جاسکتی ہے۔ اس کے بعد قانونی عمل کے ذریعے عافیہ کی واپسی کی باقاعدہ کوشش ممکن ہے۔ واضح رہے، بیرسٹر داؤد غزنوی سپریم کورٹ میں عافیہ صدیقی کے مقدمے کی پیروی بھی کرچکے ہیں، نیز عافیہ رہائی کےلیے حکومت کو اپنی قانونی مشاورت و تعاون کےلیے خطوط بھی بھیج چکے ہیں۔ امید افزا بات یہ ہے کہ حکومتی عدم تعاون کے باوجود بیرسٹر داؤد عافیہ کی رہائی اور نام نہاد دہشت گردی سے منسلک اس دردناک کہانی کے پرامن انجام کےلیے ذاتی طور پر پاکستان و امریکا میں قانونی کوششوں میں مصروف ہیں۔



امریکا کے سابق اٹارنی جنرل رمزے کلارک کے مطابق ''ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو بین الاقوامی سیاست کی بھینٹ چڑھایا گیا۔ وہ رہائی کی حقدار ہے، اس نے نہ تو کسی کو قتل کیا اور نہ ہی اقدام قتل۔ اپنے کیریئر میں، میں نے جتنی ناانصافی اور ظلم عافیہ کے ساتھ دیکھا ہے کسی اور کے ساتھ نہیں دیکھا۔ امریکی حکومت عافیہ صدیقی کے مسئلے کو پیدا کرنے میں برابر کی شریک ہے۔''

دوسری جانب عافیہ کے ''اپنے'' بھی نائن الیون، افغان جنگ سے جوڑے گئے اس کیس کے حل کےلیے بدترین غفلت کا شکار ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے ہر ہر مرحلے پر یس مین کا کردار ادا کیا۔ پرائی جنگ میں بیس سال میں اپنے ستر ہزار کے قریب فوجی گنوائے۔ اپنی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچایا۔ امن و امان کے مسائل جھیلے۔ امن معاہدہ اور اس کے نتیجے میں افغان جنگ بندی اور امریکا اور اس کے اتحادیوں کی اپنی زمین سے بحفاظت وطن واپسی، پاکستان ہر ہر موقع پر پیش پیش رہا۔ گزشتہ امریکا افغان امن معاہدے میں طالبان کے پانچ ہزار قیدی رہا کیے گئے۔ ان میں ایک ہزار وہ تھے، جن کو نہ چھوڑنے پر بڑی تکرار ہوئی، مگر وہ بھی بالآخر رہا کردیے گئے۔ اتنی زیادہ سہولت کاری کا مظاہرہ کرکے بھی ریاستِ مدینہ کے حکمران اپنی ایک بے ضرر کمزور عورت کو امریکا سے نہ مانگ سکے۔ نہ ہی شریعت کے علمبردار طالبان اپنی سرزمین سے ظالموں کے حوالے کی گئی مجبور عورت کی رہائی کا سوچ سکے۔

یہ بلاگ بھی پڑھیے: مجرم شکیل آفریدی کے بدلے مظلوم عافیہ کی رہائی... اب نہیں تو کبھی نہیں!

 

آخر میں عافیہ موومنٹ کی ساٹٹ پر موجود مفتیانِ پاکستان کا یہ رجسٹرڈ فتویٰ بھی یاد رہے:

''اگر کوئی مسلمان خاتون غیرمسلموں کی ظالمانہ قید میں ہو تو ایسی صورت میں تمام مسلمانوں پر انفرادی و اجتماعی طور پر لازم ہے کہ جس جس کو اس کی قید کا علم ہو وہ اپنی حیثیت اور استطاعت کے مطابق اس قیدی کو رہائی دلانے اور غیرمسلموں کی قید سے چھڑانے کی ہر ممکن جائز طریقے سے کوشش کرے۔ اس سلسلے میں حکومتِ وقت کی ذمے داری چونکہ تمام لوگوں کی بہ نسبت زیادہ ہے اور وہ اپنے ہم وطنوں کو واپس اپنے ملک میں لانے میں موثر کردار ادا کرسکتی ہے، لہٰذا شرعاً اس کی ذمے داری سب سے زیادہ ہے۔''

ہمارے ملک کی آبادی کا بڑا حصہ اسلام پسند ہے، مذہبی تنظیموں، رہنماؤں کی بھی کمی نہیں۔ قوم کا بڑا حصہ عافیہ کے ساتھ گہری ہمدردی رکھتا ہے۔ 2018 میں پاکستانی سینیٹ نے متفقہ طور پر ''قوم کی بیٹی'' کا نام دیا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ رہائی کا فتویٰ صادر کرنے والے دینی رہنما ہوں یا بیٹی کو قوم کی اجتماعی سرپرستی میں دینے والے حکمراں، کوئی بھی رہائی کے قانونی عمل کےلیے آگے بڑھنے کو تیار نہیں؟ اس کا جواب جزوی طور پر یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ نے قیدیوں یا مطلوب افراد کے ساتھ وابستہ ہونے کے نتائج کے خدشات کو بڑھا دیا کہ قیدی پر لگے دہشت گردی کے الزام کے باعث اس کے حمایتی خود مشکل میں نہ پڑجائیں۔

اس کےلیے ضروری ہے کہ رائے عامہ کو عافیہ کے حق میں اعتماد میں لیا جائے۔ اس کی کہانی، انسانیت کی بہتری کےلیے اس کے عزائم کی عام فہم طریقے سے مناسب تشہیر ہو۔ اس کے اوپر لگے دہشت گردی کے لیبل کو مٹا کر اس کی ہمدرد، علم دوست، تعلیم پرور شخصیت متعارف کروائی جائے۔ عوام کی اکثریت کو ہمنوا بناکر حکومت پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ قانونی راستے سے عافیہ کی رہائی کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کرے۔ عافیہ کیس کی دستاویزات اور عافیہ کی شہادتوں کے ذریعے، اتنی آگاہی عام کردی جائے کہ ''لیڈی القاعدہ'' کے مصنوعی پردے کے پیچھے سے، اسلام اور انسانیت کا درد رکھنے والی ''قوم کی بیٹی'' سامنے آجائے۔ دنیا کو معلوم ہوجائے کہ عافیہ کسی کے مذموم مقاصد کےلیے استعمال کیا جانے والا ٹول نہیں بلکہ خطے میں انتہاپسندی کو کم کرنے اور پاکستان اور امریکا کے دو طرفہ وقار و استحکام کےلیے اہم ذریعہ ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story