جامعہ کراچی کے مستقل وائس چانسلر کی تقرری کا معاملہ کھٹائی میں پڑگیا
سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز نے معاملہ نئی سرچ کمیٹی کے حوالے کرنے کی کوششیں شروع کردیں
سیکریٹری محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز منصور عباس نے جامعہ کراچی کے مستقل وائس چانسلر کی تقرر کا معاملہ نان پی ایچ ڈی افراد پر مشتمل ممکنہ نئی اور متازعہ سرچ کمیٹی کے حوالے کرنے کی کوششیں شروع کردی ہیں اور اس سلسلے میں 11 جنوری کو شیڈول کیے جانے والے امیدواروں کے انٹرویوز رکوا دیے ہیں جس سے ڈھائی سال بعد ملک کی سب سے بڑی یونیورسٹی جامعہ کراچی میں مستقل وائس چانسلر کے تقرر کے روشن ہوتے امکانات ایک بار پھر معدوم ہوگئے ہیں۔
سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کی جانب سے موجودہ تلاش کمیٹی کے اراکین سے کہا گیا ہے کہ نئی تلاش کمیٹی بننے دیں اگر نئی تلاش کمیٹی بن گئی تو جامعہ کراچی کے وائس چانسلر کے لیے امیدواروں کے انٹرویو وہی کمیٹی کرے گی۔
سرچ کمیٹی کے ایک رکن نے ایکسپریس نیوز کو بتایا کہ جب چیئرمین تعلیمی بورڈز کے سلسلے میں امیدواروں کے انٹرویو لیے جا رہے تھے تو اسی دوران موجودہ سرچ کمیٹی کے کنوینر ڈاکٹر عبدالقدیر راجپوت نے جامعہ کراچی کا معاملہ بھی پیش کیا اور کمیٹی کو بتایا کہ اب اعلیٰ تعلیمی کمیشن کی جانب سے تمام امیدواروں کے ریسرچ پیپرز کی تصدیق کا عمل مکمل ہوچکا ہے لہٰذا 11 نومبر کو سرچ کمیٹی امیدواروں کے انٹرویوز کرسکتی ہے جس پر باقی امیدواروں نے تو اتفاق کیا تاہم وہاں موجود سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز منصور عباس نے یہ کہہ کر اس تجویز کو رد کردیا کہ جمعرات کو نئی تلاش کمیٹی کا معاملہ سندھ کابینہ میں پیش ہورہا ہے لہٰذا اگر نئی تلاش کمیٹی بنتی ہے تو پھر ہمیں انٹرویو شیڈول ہی نہیں کرنے چاہیے تاکہ نئی کمیٹی ہی جامعہ کراچی کے وائس چانسلر کے لیے امیدواروں کے انٹرویو کرے۔
ادھر نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر حکومت سندھ کے ایک افسر کا کہنا تھا کہ آخر نئی سرچ کمیٹی پہلے سے جاری کسی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے تقرر کے معاملے کو کس طرح take up کرسکتی ہے جبکہ اس کمیٹی کی تشکیل کے حوالے سے کئی قانونی پیچیدگیاں موجود ہیں، اگر کسی یونیورسٹی جس کا اشتہار سابق سرچ کمیٹی نے تیار کیا ہو اس اشتہار پر موصولہ درخواستوں کی اسکروٹنی بھی پہلے سے موجود سرچ کمیٹی نے ہی کی ہو جب عدالت میں معاملہ گیا تو وہی سرچ کمیٹی عدالت میں بھی پیش ہوئی پھر اسی کمیٹی نے ایچ ای سی سے عدالتی احکامات پر ایک امیدوار اور ازاں بعد اسکروٹنی شدہ تمام امیدواروں کے پرچوں کی جانچ کرائی ہو اور گزشتہ ڈھائی برس سے ایک یونیورسٹی کا معاملہ متعلقہ سرچ کمیٹی ہی دیکھ رہی ہو ایسے میں اچانک دوسری سرچ کمیٹی پہلے سے جاری کسی معاملے پر امیدواروں کا انتخاب کس طرح کرے گی، متعلقہ بیوروکریٹ نے سوال کیا کہ کیا سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز اس سارے معاملے سے آگاہ نہیں یا پھر جان بوجھ کر جامعہ کراچی کے معاملے کو مزید التواء میں ڈال رہے ہیں۔
ایکسپریس نیوز نے اس سلسلے میں سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کی رائے جاننے کی بھی کوشش کی تاہم وہ رابطے سے گریز کرتے رہے۔ واضح رہے کہ جس نئی تلاش کمیٹی کے قیام کی سمری جمعرات کو سندھ کابینہ کے اجلاس میں بحث کے لیے پیش کی جارہی ہے وہ اپنے مستقل اراکین کے نان پی ایچ ڈی ہونے کے سبب پہلے ہی متنازعہ ہوچکی ہے اس کمیٹی کی سربراہی سندھ ایچ ای سی کے چیئرمین اور محض ایم بی بی ایس ڈاکٹر عاصم حسین کے سپرد کرنے جبکہ دیگر دو مستقل اراکین میں سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز اور سیکریٹری سندھ ایچ ای سی کو شامل کرنے کی سفارش کی گئی ہے یہ تینوں مستقل اراکین نان پی ایچ ڈی ہیں جو پی ایچ ڈی وائس چانسلر کے انتخاب کے لیے کمیٹی کی تشکیل کی صورت میں امیدواروں کے انٹرویوز کریں گے۔
سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کی جانب سے موجودہ تلاش کمیٹی کے اراکین سے کہا گیا ہے کہ نئی تلاش کمیٹی بننے دیں اگر نئی تلاش کمیٹی بن گئی تو جامعہ کراچی کے وائس چانسلر کے لیے امیدواروں کے انٹرویو وہی کمیٹی کرے گی۔
سرچ کمیٹی کے ایک رکن نے ایکسپریس نیوز کو بتایا کہ جب چیئرمین تعلیمی بورڈز کے سلسلے میں امیدواروں کے انٹرویو لیے جا رہے تھے تو اسی دوران موجودہ سرچ کمیٹی کے کنوینر ڈاکٹر عبدالقدیر راجپوت نے جامعہ کراچی کا معاملہ بھی پیش کیا اور کمیٹی کو بتایا کہ اب اعلیٰ تعلیمی کمیشن کی جانب سے تمام امیدواروں کے ریسرچ پیپرز کی تصدیق کا عمل مکمل ہوچکا ہے لہٰذا 11 نومبر کو سرچ کمیٹی امیدواروں کے انٹرویوز کرسکتی ہے جس پر باقی امیدواروں نے تو اتفاق کیا تاہم وہاں موجود سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز منصور عباس نے یہ کہہ کر اس تجویز کو رد کردیا کہ جمعرات کو نئی تلاش کمیٹی کا معاملہ سندھ کابینہ میں پیش ہورہا ہے لہٰذا اگر نئی تلاش کمیٹی بنتی ہے تو پھر ہمیں انٹرویو شیڈول ہی نہیں کرنے چاہیے تاکہ نئی کمیٹی ہی جامعہ کراچی کے وائس چانسلر کے لیے امیدواروں کے انٹرویو کرے۔
ادھر نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر حکومت سندھ کے ایک افسر کا کہنا تھا کہ آخر نئی سرچ کمیٹی پہلے سے جاری کسی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے تقرر کے معاملے کو کس طرح take up کرسکتی ہے جبکہ اس کمیٹی کی تشکیل کے حوالے سے کئی قانونی پیچیدگیاں موجود ہیں، اگر کسی یونیورسٹی جس کا اشتہار سابق سرچ کمیٹی نے تیار کیا ہو اس اشتہار پر موصولہ درخواستوں کی اسکروٹنی بھی پہلے سے موجود سرچ کمیٹی نے ہی کی ہو جب عدالت میں معاملہ گیا تو وہی سرچ کمیٹی عدالت میں بھی پیش ہوئی پھر اسی کمیٹی نے ایچ ای سی سے عدالتی احکامات پر ایک امیدوار اور ازاں بعد اسکروٹنی شدہ تمام امیدواروں کے پرچوں کی جانچ کرائی ہو اور گزشتہ ڈھائی برس سے ایک یونیورسٹی کا معاملہ متعلقہ سرچ کمیٹی ہی دیکھ رہی ہو ایسے میں اچانک دوسری سرچ کمیٹی پہلے سے جاری کسی معاملے پر امیدواروں کا انتخاب کس طرح کرے گی، متعلقہ بیوروکریٹ نے سوال کیا کہ کیا سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز اس سارے معاملے سے آگاہ نہیں یا پھر جان بوجھ کر جامعہ کراچی کے معاملے کو مزید التواء میں ڈال رہے ہیں۔
ایکسپریس نیوز نے اس سلسلے میں سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کی رائے جاننے کی بھی کوشش کی تاہم وہ رابطے سے گریز کرتے رہے۔ واضح رہے کہ جس نئی تلاش کمیٹی کے قیام کی سمری جمعرات کو سندھ کابینہ کے اجلاس میں بحث کے لیے پیش کی جارہی ہے وہ اپنے مستقل اراکین کے نان پی ایچ ڈی ہونے کے سبب پہلے ہی متنازعہ ہوچکی ہے اس کمیٹی کی سربراہی سندھ ایچ ای سی کے چیئرمین اور محض ایم بی بی ایس ڈاکٹر عاصم حسین کے سپرد کرنے جبکہ دیگر دو مستقل اراکین میں سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز اور سیکریٹری سندھ ایچ ای سی کو شامل کرنے کی سفارش کی گئی ہے یہ تینوں مستقل اراکین نان پی ایچ ڈی ہیں جو پی ایچ ڈی وائس چانسلر کے انتخاب کے لیے کمیٹی کی تشکیل کی صورت میں امیدواروں کے انٹرویوز کریں گے۔